(نام کتاب: خود نوشت کا فن اور وہاب اشرفی کی خود نوشت(قصہ بے سمت زندگی کا
مصنفہ: رحمت یونس
سال اشاعت:2015
صفحات: 192
قیمت:109 روپے
ملنے کا پتہ: ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی
مبصر: کامران غنی صبا
زیر نظر کتاب رحمت یونس کا تحقیقی مقالہ ہے۔اس کتاب کو انہوں نے پانچ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے باب میں خودنوشت اور اس کے فن پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔دوسرے باب میں اردو میں خود نوشت کی روایت کا اجمالی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ تیسرے باب میں وہاب اشرفی کی خود نوشت ’’قصہ بے سمت زندگی کا‘‘ کے فنی محاسن پر بحث کی گئی ہے۔ چوتھے باب میں مذکورہ خود نوشت کی ادبی و ثقافتی اہمیت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ پانچواں اور آخری باب ’’عطر مطالعہ‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس باب میں سابقہ چاروں ابواب کا لب و لباب پیش کیا گیا ہے۔
یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ رحمت یونس نے وہاب اشرفی کی خود نوشت کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ پوری دیانتداری اور غیر جانبداری کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ایک طرف جہاں انہوں نے وہاب اشرفی کی خودنوشت کی ادبی اور فنی خوبیوں کا اعتراف کیا ہے وہیں دوسری طرف منفی پہلوئوں پر بھی بھر پور انداز میں روشنی ڈالی ہے۔
کتاب کے ابتدائی دو ابواب کا تعلق گرچہ ’’قصہ بے سمت زندگی کا‘‘ سے نہیں ہے لیکن خود نوشت اور اس کے فن کی تفہیم میں یہ حصہ بہت ہی معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ان ابواب کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنفہ نے اپنی تحقیق کو جامع اور معیاری بنانے کے لیے بڑی محنت اور جانفشانی کی ہے۔ان دو ابواب میں خود نوشت کے فن اور اردو میں خود نوشت کی روایت پر نہ صرف مدلل گفتگو کی گئی ہے بلکہ تلاش و تجزیہ کے بعد اردو کی نمائندہ خود نوشت کی فہرست اور ان پر مختصراً روشنی بھی ڈالی گئی ہے۔
مصنفہ نے وہاب اشرفی کی خود نوشت کے عنوان(قصہ بے سمت زندگی کا) پر دوسرے ناقدین سے الگ رائے قائم کی ہے اور اس کے جواز میں دلائل بھی فراہم کیے ہیں۔ ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے ایک جگہ اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ:
’’۔۔۔۔پروفیسر وہاب اشرفی نے اپنی خود نوشت کا نام قصہ بے سمت زندگی کا رکھا ہے۔(بلاشبہ اس میں قصہ کا لطف موجود ہے۔ مگر مجھے کتاب پڑھتے ہوئے کہیں بھی ان کی زندگی بے سمتی کا شکار نظر نہیں آئی۔ اعلیٰ تعلیم کی حصولیابی۔ اعلیٰ تدریسی و غیر تدریسی مناصب پر فائز ہونا۔ خوشگوار ازدواجی زندگی۔ نیک سعادت مند اولاد کا کامیاب و کامران ہونا۔ حج کی سعادت سے فیضیاب ہونا۔۔۔۔۔ ایسی زندگی اور ایسے سفر کو اگر بے سمت کہا جائے تو ہر قاری یہ دعا کرے گا کہ خدا ایسی بے سمت زندگی عطا کرے‘‘۔(صفحہ96)
رحمت یونس نے نہ صرف ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی کی رائے سے اختلاف کیا ہے بلکہ خود نوشت کے عنوان (قصہ بے سمت زندگی کا) کے جواز کی تلاش میں پروفیسر وہاب اشرفی کی داخلی زندگی میں اتر کر ان کے ذہنی کرب و انتشار کی ایسی تصویر کھینچی ہے کہ ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہاب اشرفی جیسی عظیم شخصیت کی زندگی دنیاوی اعتبار سے کامیاب ہونے کے باجود بے سمتی کا شکار رہی۔رحمت یونس لکھتی ہیں:
’’۔۔۔۔وہاب اشرفی کاایک کام بھی ان کی خواہش یا مرضی کے مطابق نہ ہو سکا۔وہ آرٹس پڑھنا چاہتے تھے بھائی نے کامرس میں داخلہ دلوا دیا۔ دوران تعلیم نوکری نہیں کرنا چاہتے تھے بھائی نے ملازمت سے لگوا دیا۔ وہاب اشرفی کلرکی کے پیشے سے نفرت کرتے تھے اور اسے حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے، بھائی نے اسی پیشے کو اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ وہاب اشرفی کلکتے میں رہنا چاہتے تھے بھائی نے انھیں پٹنہ پہنچا دیا۔ شادی کے لیے صاحبہ کو پسند کرتے تھے بھائی نے نسیمہ کو منڈپ میں بٹھا دیا۔ وہ تقابلی لسانیات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے یورپ کی کسی یونیورسٹی میں درس و تدریس کا پیشہ اختیار کرنا چاہتے تھے بھائی کے دبائو نے پیچ راستے ہی میں تعلیم چھڑوا کر ملازمت کے لیے کلکتے سے پٹنہ بھیج دیا۔ بچپن سے لے کر پہلی ملازمت تک کے سفر میں وہاب اشرفی کی اپنی سمت کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ ان کی پوری زندگی بے سمتی کا شکار نظر آتی ہے۔‘‘ (صفحہ98)
رحمت یونس کی یہ کتاب بیک وقت خود نوشت کے فن، اردو میں خود نوشت کی روایت، وہاب اشرفی کی خود نوشت ’قصہ بے سمت زندگی کا‘ اور وہاب اشرفی کی شخصیت کے مختلف گوشوں پر بھر پور انداز میں روشی ڈالتی ہے۔یہ کتاب ’وہاب شناسی‘ کے فن میں ایک پیش بہا اضافہ ہے۔ اردو کے اساتذہ، طلبہ اور ریسرچ اسکالرز کو اس کتاب سے ضرور استفادہ کرنا چاہیے۔کتاب کی قیمت صرف 109 روپے ہے۔( رابطہ مصنفہ:7838609530)
زیر نظر کتاب ،،خود نوشت۔۔۔۔ مصنفہ جناب محترمہ ڈاکٹر رحمت یونس کی ایک عمدہ و بہترین کارکردگی کا اثاثہ ہے
میم جس قدر ہنس مکھ شخصیت کی ملکہ ہیں اسکی مسکان و مسکراہٹ کو اپنی تصنیف میں بڑی سنجیدگی سے جگہ دی ہے
جو قابل ستائش ہے
اسکے لئے نیک خواہشات اور مبارک باد ہے