Tokyo University of foreign Studies, Japan
رپورٹ ناصر ناکاگاوا۔جاپان
کل دوپہر ٹوکیو یونیورسٹی براۓ خارجی مطالعات کے پروفیسر ہاگیتا ہیروشی، شعبئہ اردو کے ساتھ ایک یادگار ملاقات رہی۔ اس ملاقات میں اردو کے حوالے سے اہم پہلوؤں پر معلومات افزا گفتگو ہوئی ۔ اس ملاقات کےلیے میں نے ایک ہفتہ قبل ہی پروفیسر ہاگیتا سے وقت طے کیا تھا۔ پروفیسر ہاگیتا چونکہ گزشتہ ہفتہ انڈیا کے شہر ممبئی میں تھے اس لیے دنیا میری نظر کی رسم اجرا میں تشریف نہیں لا سکے البتہ انھوں نے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے ۲۹ستمبر دوپہر بعد کا وقت دیتے ہوئے یہ کہا تھا کہ پروفیسر خواجہ اکرام کی کتابیں میں نے پڑھی ہیں اور ان کی ویب سائٹ کو اکثر دیکھتا بھی رہا ہوں ، جب وہ قومی کونسل کے ڈائریکٹر تھے تو ان کے اردو کے فروغ کے کارناموں سے بھی بخوبی واقف ہوں ، یہ میرے لیے اور میرے شعبے کے لیے اعزاز کی بات ہے کہ ان سے ملاقات ہوگی۔ پروفیسر خواجہ اکرام بھی ان سے ملنے کے بڑے مشتاق تھے اس لیے مقررہ پروگرام کو مختصر کرتے ہوئے وقت پہ ہمارے ساتھ روانہ ہوئے ۔ ہمارے ہمراہ جناب نزاکت علی خان کار میں شریک سفر تھے۔ راستے ہی میں جناب طیب علی صاحب کا فون آیا کہ وہ وقت مقررہ پر یونورسٹی گیٹ پر ملیں گے۔ کوشی گایا سے جاتے ہوئے ٹریفک کے سبب ہمیں تاخیر ہورہی تھی لہذا ہم نے پروفیسر ہاگیتا کو فون پر اطلاع دیتے ہوئے معزرت کا اظہار کیا ۔ تاہم انھوں نے پر تپاک لہجے میں انتظار کرتے رہنے کی بات کہ ۔ جیسے ہی ہم یونیورسٹی میں گیٹ پر پہنچے انھیں فون پر اطلا ع دی تو پروفیسر ہاگیتا نے گیٹ پر رکنے کی ہدایت کی اور وہ خود گیٹ تک تشریف لائے اور اپنے ساتھ ساتویں منزل پر اپنے چیمبر لے گئے ۔ انھوں نے پہلے سے پر تکلف چائے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ چائے نوشی کرتے ہوئے انھوں پروفیسر خواجہ اکرام کا ویب سائٹ کھولا جو انھوں نے اپنی پسندیدہ فہرست میں محفوظ کر کھی تھی۔ یہ دیکھ کر خواجہ اکرام کو حیرت ہوئی کہ دیار غیر میں اردو کا ایک جاپانی پروفیسر انھیں اتنے قریب سے جانتے ہیں جبکہ پروفیسر ہاگیتا کا تعارف خواجہ اکرام صاحب کو میں نے کرایا تھا۔ چائے کے بعد میں نے دنیا میری نظر میں پیش کی جسے بہت اشتیاق سے انھوں نے قیمتی تحفہ سمجھ کر اپنی مخصوص میز پر رکھا ۔ بعد ازاں پروفیسر خواجہ اکرام نے اپنی کتابیں انھیں پیش کیں ۔ ان کتابوں سے وہ پہلے ہی سے متعارف تھے ، مخوصوص جاپانی انداز میں نیم خم ہوتے ہوئے پرفیسر خواجہ کی کتابیں قبول کرتے ہوئے اظہار ممنونیت کیا کہ آپ نے اتنی دور سے میرے لیے یہ قیمتی تحفہ لایا ہے۔ اس کے بعد اپنی یونیورسٹی میں تعلیم و تدریس کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے ٹوکیو یونیورسٹی کی سر گرمیوں سے واقف کرایا ، اس کے بعد انھوں نے یونیورسٹی کی نصابی کتابیں اور نصاب پروفیسر خواجہ اکرام کی خدمت میں پیش کیں۔ پروفیسر خواجہ اکرام نے ان کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے ان کو ممکنہ تعاون کی یقین دہانی کرائی اور یہ آفر کیا کہ اگر وہ چاہیں تو آن لائن ان کے طلبہ کی ہفتے میں ایک کلاس لے سکتے ہیں۔ یہ تجویز پروفیسر ہاگیتا نے بہت خوشی سے قبول کی اور اپنے کلاس روم کے انفراسٹکچر کو بھی دیکھایا جہاں آن لائن کلاسیز ممکن ہیں۔ اس کے علاوہ اردو ای بکس اور ٹیکسٹ فائل کی صورت میں خواجہ اکرام نے انھیں کتابیں بھیجنے کا وعدہ کیا ۔ یہ تمام باتیں پرفیسر ہاگیتا کی حیرت میں اضافہ بھی کر رہی تھیں کیونکہ جاپان میں اردو کی کتابیں کہاں دستیاب ہیں۔ اس لیے پروفیسر ہاگیتا خواجہ اکرام سے مل کر بہت خوش ہوئے اور
مستقبل میں باہمی معاونت پر۔ بھی مثبت گفتگو ہوئی۔
اردو نیٹ جاپان کی کوششوں کو بھی انھوں نے بار بار سراہا اور اردو کے فروغ کے سمت میں ایک عمدہ قدم کہا ۔ اور اپنی نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے ناصر ناکاگاوا سے بھی باہمی معاونت اور اردو کے لیے مل جل کر کام کرنے کی باتیں کیں۔اس ملاقات میں طیب صاحب نے کہا کہ یہ ایک تاریخی ملاقات ہے اس ملاقات سے جاپان میں مقیم ہم جیسے اردو شائقین کے لیے کسی خوشخبری سے کم نہیں ہے۔ اس طویل ملاقات کے بعد وہ بہ نفس نفیس نیچے ہمیں رخصت کرنے آئے ۔ کوشی گایا واپس آتے ہوئے پر فیسر خواجہ اکرام نے ذاتی طور پر اردو نیٹ جاپان اور ناصر ناکاگاوا کا خصوصی شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ناصر بھائی آپ کی کوششوں سے اردو کا ایک نیا باب بھی وا ہوا اس میں بھی آپ کی کوششوں کا دخل کیونکہ
اس ملاقات کا سہرا آپ کی سر ہی ہے۔