(نام کتاب :چھاؤں صحرا کی(شعری مجموعہ
شاعر:مہتاب قدر
ناشر :ڈاکٹر سہیل احمد سید
مبصر :امتیاز انجم۔ ریسرچ اسکالر جے این یو، نئی دہلی
اردو کا جنازہ دھوم دھام سے نکالنے والے آج اس دنیا سے جاچکے ہیں۔تاہم اردو زبان آج بھی زندہ و پائندہ ہے۔بلکہ مرور ِایام کے ساتھ اس کادائرہ بڑھتاہی جارہا ہے ۔اردو آج ہندو پاک کی سرحدوں سے ہزاروں میل دور ’اردو کی نئی بستیاں ‘آباد کر چکی ہے۔ان بستیوں میں اردو برادری کا دائرہ وسیع ہورہا ہے۔ مختلف رنگ ونسل اور تہذیب و ثقافت کے لوگ ایک اردو گھرانے میں شامل ہیں۔ یہ وہ تارکین ِوطن ہیں جو تلاش ِمعاش میں دنیا کے مختلف خطوںمیں آباد ہیں ۔وہ اپنے ہمراہ اپنی مادری زبان لے کر گئے اور اسے مسلسل توانائی بھی بخشتے رہے۔ جس کے نتیجہ میں اردو کا وجودمستحکم ہوتا چلا گیا۔ ان نئی بستیوں میںاردو بول چال کی سطح سے کافی اوپر اٹھ چکی ہے اور اس میں بلند پایہ ادب بھی تخلیق کیا جا رہا ہے۔ نظم ونثر دونوں میں قابل قدر ذخیرہ دستیاب ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’چھائوں صحرا کی‘‘سرزمینِ سعودی کی زائیدہ ہے ۔جس کے تخلیق کارمہتاب قدر ریگستان عرب میں چھائوںکے متلاشی ہیں۔
مہتاب قدر انہیں تارکین وطن میں سے ہیں جو گیسوئے اردو سنوارنے میں ہمہ تن مصروف ہیں ۔مہتاب قدر کی شاعری کا آغاز 1971 میں ہفت روزہ نشیمن سے ہوا۔تب سے ان کا شعری سفر جاری ہے۔ان کی شاعری چار دہائی کی لمبی مسافت طے کرکے پانچویں دہائی میں داخل ہوچکی ہے۔اس لحاظ سے وہ ایک تجربہ کار شا عر کہلانے کے حقدار ہو چکے ہیں۔’’چھائوں صحرا کی ‘‘ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے جوان کے چالیس سالہ فکری تگ وتاز کا ثمرہ ہے۔
’’چھائوں صحرا کی ‘‘غزلوں اور قطعات پر مشتمل ایک خوب صورت مجموعہ کلام ہے۔جس کا آغاز حسب روایت حمد ونعت اور مناجات سے ہوا ہے۔مہتاب قدرکی خیر پسند طبیعت نے خدا کی بارگاہ میں یہ التجا پیش کی ہے :
امتیازخیر و شر ہم کو عطا کردے خدا
اک جہان معتبر ہم کو عطا کردے خدا
ظالموں کی لیں خبر ہم ،غم زدوں کا ساتھ دیں
پھر وہ دل،وہ چشم تر ہم کو عطا کردے خدا
مذکورہ اشعار ،مہتاب قدرکے مثبت افکار وخیالات اور نیک جذبات کی بے کم وکاست ترجمانی کرتے ہیں۔اس مجموعہ کی تمام غزلیں اور قطعات ؛احساسات و کیفیات کی شدت سے پرہیں اور اخلاقی اقدار سے لیس بھی ۔
در اصل عرصہ دراز سے مہتاب قدرریگستان عرب کے مکیں ہیں۔اپنے وطن سے دور چھائوں کے متلاشی ہیں۔ تمام آسائشوں کے باوجود انھیں کوئی کل سکوںمیسر نہیں۔ غم روز گار نے انہیںغم ہجر میں مبتلا کردیا ہے ۔وطن کی محبت کوئی ان سے پوچھے ’دیس بھلا پر دور‘۔
صحرا میں کھینچ لایا ہے غم روز گار کا
ہر شخص کو تلاش ہے منزل کی دھوپ میں
آسائشوں کو پاکے ہم لوگ خوش نہیں
چہرے جھلس گئے ہیں مسائل کی دھوپ میں
مہتاب قدر کسی تحریک کے علم بردار ہیں اور نہ ہی کسی ازم سے وابستہ ۔بلکہ ان کی شاعری تخیلات کی دروں بینی کی مظہر ہے۔جو دل ودماغ کو اپیل کرتی ہے اور فکری نارسائیوں کو راہ یابی بخشتی ہے ۔ان کی شاعری روایت سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ ساتھ عصری حسیت کی آئینہ دار ہے اور موجودہ مسائل و میلانات اس میں واضح نظر آتے ہیں۔یہ اشعار دیکھیں:
کس بات نے بیزار کیا زیست سے ان کو
کیوں باندھ کے مرجاتے ہیں بم یہ بھی تو سوچو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فسادیوں کے ظلم سے امیر سب بچے رہے
لٹاپٹا غریب تھا جو ہو گیا سو ہو گیا
مادیت کے اس دور میں رشتوں کے جوڑ توڑ کا کھیل زوروں پر ہے ۔رشتوں کی ڈور تارِ عنکبوت کی طرح کمزور ہو چکی ہے اور اس کا انحصارمحض نفع و نقصان پر ہے۔انسان بہ ظاہر خوش دکھتا ہے مگر اس کے اندر ایک طوفان برپا ہے ۔مہتاب قدر کی حساس طبیعت نے اسے انتہائی گہرائی سے محسوس کیا ہے اور اپنی شاعری کو رومانی فضا سے نکال کر حقیقت حال سے آگاہ کیا ہے۔یہ اشعار ملاحظہ ہوں:
ہمارا عہد تصنع لباس کتنا ہے
نظر بھی آئے کہ انساں اداس کتنا ہے
خوشی میں ساتھ رہے غم میںدو رہو جائے
زمانہ دیکھئے مردم شناس کتناہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہے دکھاوے کا پیار باتوں میں
سب ہے ایک دوسرے کی گھاتوں میں
عید سے رنگ اور پتنگ خفا
گائوں اب بٹ گیا ہے ذاتوں میں
اس مجموعہ کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ایک تجربہ کار اور کہنہ مشق شاعر کا کلام ہے ۔انہیں مختصر اور طویل دونوں بحروں کے استعمال پر قدرت حاصل ہے ۔ انھوں نے ردیف کے انتخاب میں کمال ہنر کا مظاہرہ کیاہے اور تراکیب ِ الفاظ کا استعمال نہایت چابک دستی سے کیا ہے ۔
اک ایک کرن معدوم ہوئی سب آنکھ کے تارے ٹوٹ گئے
حالات بدلنے لگتے ہی سب یار ہمارے چھوٹ گئے
کچھ شیش محل سے منظر جو پلکوں پہ سجائے رکھے تھے
پتھرائو کا موسم کیا آیا وہ سارے نظارے ٹوٹ گئے
یوں تومہتاب قدر کی شاعری کسی خاص فلسفے پر مبنی ہے اور نہ ہی اس میں فکر کی بہت زیادہ گہرائی ہے ۔تاہم انھوں نے عام زندگی میں درپیش مسائل،انسانی رشتوں کی ناقدری اور اخلاقی زوال کو جس طرح سے پیش کیا ہے، اس سے فکر وفلسفہ کی بو ضرور آ جاتی ہے :
ہر شخص نے اپنے سے اوپر ہی نظر رکھی
اس واسطے دنیا میں ناشاد بہت سے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنت سے بچھڑے تو آباد ہوئی دنیا
تخریب کے پردے میں تعمیر ازل سے ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اجالے اور اندھیرے لازم وملزوم ہوتے ہیں
اگر ہنسنا ضروری ہے تو رونا بھی ضروری ہے
مہتاب قدر کی شاعری کے حوالے سے پروفیسر مجید بیدار رقم طراز ہیں’’بلاشبہ مہتاب قدر کی شاعری کا سب سے قابل قدر وصف یہی ہے کہ وہ سوچتے ذہن اور دیکھتی آنکھ کے خالق ہیںاور پوری شدت کے ساتھ حقائق کی نمائندگی کرتے ہوئے یہ ثابت کرتے ہیںکہ ان کا کلام نمک پاشی کا کام نہیں کرتابلکہ لفظوں کے توسط سے انسانی احساس کو جگانے کا کام دیتاہے۔‘‘چنانچہ ان کا یہ قطعہ ملاحظہ ہو :
حسین لفظوں کے جادو جگانے والوں سا
ہمارا رنگ نہیں ہے زمانے والوںسا
کٹیلے لفظ ہمارے چبھن بھی دیتے ہیں
ہما را کا م ہے سب کو جگانے والوں سا
مہتاب قدر کی شاعری’ اور بھی غم ہے زمانے میں محبت کے سوا ‘ کا احسا س دلاتی ہے۔ان کا یہ لہجہ، ملاحظہ ہو:
دل شکن اتنے ہوئے شہر کے حالات ابھی
دل یہ کہتاہے کسی سے نہ کریں بات ابھی
غم جاناں سے کہوں صبح ملاقات کرے
غم دوراں کی گذر جائے ذرارات ابھی
غرض ’’چھائوں صحراکی ‘‘مہتاب قدر کا ایک خوب صورت مجموعہ کلام ہے،جس کی نسبت سے وہ خود لکھتے ہیں :
قدم قدم پہ مرا سابقہ رہا جس سے
مرے سخن میں ہے وہ دھوپ چھائوں صحرا کی
اب اپنے چہرے کو میں آئینے میں کیا ڈھونڈوں
بدل رہی ہے مرا ’روپ چھائوں صحرا کی‘
٭٭٭