سفر نامہ افغانستان
انسٹی ٹیوٹ آف انڈو پریشین اسٹڈیز کے صدر پروفیسر سیدا ختر حسین ، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی ، دہلی نے تین ماہ قبل افغانستان میں ایک کانفرنس کے انعقاد کی بات کی اور مجھے دعوت دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ آپ کو ضرور شریک ہونا ہے ۔ افغانستان کا نام آتے ہی دل میں ایک خوف کا احساس پیدا ہوالیکن ساتھ ہی افغانستان دیکھنے کا دیرینہ شوق بھی بیدار ہوگیامگر شوق پر خوف بھاری تھا ، اسی کشمکش میں بر جستہ میں نے اختر صاحب سے کہا کہ جناب افغانستان کے علاوہ اور کوئی ملک آپ کو نظر نہیں آیا ؟ حسب عادت اختر صاحب زور سے ہنسے اور کہا کہ دنیا تو گھوم چکے ہیں اس ملک کو بھی دیکھ لیں، جہاں عوامی رابطے کی سخت ضرورت ہے ۔ میں اپنے خوف کو چھپا نہیں سکا اور میں نے جواباً کہا بات تو درست ہے لیکن اس کے لیے ابھی زندگی پڑی ہے کبھی اور سہی لیکن خدا کے لیے آپ بھی اس ارادے سے باز آئیں۔ ( اگرچہ مجھے معلوم تھا کہ انھوں نے ایک بار پروگرام بنا لیا تو بنا لیا اب ملتوی یا رد کرنے کا کوئی سوال ہی نہیں ہوتا) پروفیسر اختر نے اپنی دلچسپ گفتگو جاری رکھی ۔ ان کی خصوصیت ہے کہ وہ مخاطب کو کسی نہ کسی طرح راضی کر ہی لیتے ہیں سو نتیجہ یہی نکلا کہ مجھےباد ل نخواستہ ان کے ہمرا ہی کے لیے حامی بھرنی ہی پڑی ۔اب میں نے سوچا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ کانفرنس کے موضوع کو بہانا بنایا جائے ۔ مجھے معلوم تھا کہ ان کی تنظیم انسٹی ٹیوٹ آف انڈو پریشین اسٹڈیز پورے ملک میں فارسی زبان کی ترویج کے لیے کام کرتی ہے لہذا موضوع بھی فارسی کا ہی ہوگا اس لیے آسانی سے چھٹکارا مل سکتا ہے ۔لیکن جب انھوں نے موضوع بتا یا تو میرا خوف اشتیاق میں بدل گیا کیونکہ کانفرنس کا موضوع ہی ایسا منتخب کیا تھا کہ اردو- فارسی کے احباب نے اس طرح ابھی تک سوچا ہی نہیں تھا ۔ انھوں نے بتایا کہ افغانستان اور ہندستان کے درمیان ربط و اشتراک کی جو تاریخ ہے وہ کئی جہتوں سے ناقابل فراموش ہے ۔ تہذیبی اور ثقافتی حوالے اپنی جگہ ہیں اور موجودہ حالات میں سیاسی اور تجارتی روابط بھی اپنی جگہ لیکن ایک ایسا حوالہ بھی ہے جس کے لیے اب تک علمی اور ادبی اعتبار سے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی ہے ۔میں اختر صاحب کی ساحرانہ گفتگو سنتا رہا اور مجھے اعتماد تھا کہ میرے پاس ان کی جادو بیانی کی کاٹ موجود ہے ۔ جب انھوں نے ہرات اور اجمیر کے مابین روحانی رشتے کی بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس کانفرنس کا موضوع’ سلسلہ ٴ چشتیہ کی صوفیانہ روایت کا تسلسل ہرات سے اجمیر تک‘ ہے اور یہ ادبی قافلہ بزرگوں کی آرامگاہ ہرات میں ان مقدس بارگاہوں کی زیارت بھی کرے گا اور اس قافلے کا سب سے اہم پڑاؤ چشت شریف بھی ہوگا ۔ یہ وہی چشت شریف ہے جس کا تعلق خواجہ اجمیری سے ہے ۔ چشتیہ سلسلے کا آغاز یہیں کے صوفی برزگ ابو اسحا ق شامی سے ہوا ہے ۔خواجہ اجمیری کا روحانی تعلق اسی جگہ سے ہے ۔
یہ ایسی باتیں تھیں کہ تمام خطرات اور خدشات کو بالائے طاق رکھ کر میں نے بخوشی اس دعوت کو قبول کر لی ۔اس کے بعد پروفیسر اختر حسین فاتحانہ مسکراہٹ لیے میرے کمرے سے روانہ ہوگئے ۔ میں دیر تک سوچتا رہا کہ صدیوں کے اس روحانی رشتے پر باتیں تو ہوتی ہیں لیکن تصوف کے عنوان پر ہرات میں شاید یہ پہلی کانفرنس ہوگی۔ میری عقیدت اور محبت جاگ اٹھی تھی افغانستان جانے کااشتیاق اس لیے بڑھ گیا کہ شہر ہرات میں پیر ہرات حضرت خواجہ عبداللہ انصاری ، مولانا جامی اور کئی بزرگوں کے دربار کی زیارت کا موقع ملے گا اور چشت شریف میں خواجہ قطب الدین مودود چشتی رحمہة اللہ الیہ کی بارگاہ میں جانے کا شرف بھی حاصل ہو گا ۔ لیکن جب گھر میں اس سفر کا ذکر کیا تو سختی سے منع کیا گیاکہ ہرگز نہ جائیں وہاں کے حالات ٹھیک نہیں ہیں کیوں خود کو خطرے میں ڈالنا چاہتے ہیں ؟ کسی طرح گھر والوں کو سمجھانے میں کامیاب ہو ا لیکن خویش و اقارب جس نے بھی اس سفر کے بارے میں سنا ، مجھے سختی سے منع کرنے کی کوشش کی مگر کانفرنس کے موضوع نے میرے ارادے کو متزلزل نہیں ہونے دیا ۔
ایک ماہ قبل باضابطہ دعوت نامہ ملا او رکانفرنس کی زبان فارسی ، انگریزی اور اردو قرار پائی اس لیے میں نے اپنا مقالہ اردو میں لکھا ۔زیادہ تر مندوبین نے فارسی میں مقالے لکھے اور کچھ مقالے انگریزی زبان میں بھی لکھے گئے تھے ۔31/ اگست 2019کو روانہ ہونا تھا اور 4 ستمبر کو واپسی کی تاریخ متعین کی گئی ۔لیکن اختر صاحب اکیسویں صدی کے ابن بطوطہ ہیں ایک ماہ میں دو بار امریکہ کا سفر کیا ۔کانفرنس کی تاریخ سے محض تین دن قبل امریکہ سےدہلی لوٹے ۔نتیجہ یہ ہوا کہ کہ دو دن قبل ویزا کے لیے فارم جمع کیے گئے ۔ ہم تقریباً دس لوگ ایک ساتھ افغانستان ایمبیسی پہنچے ۔ مجھے حیرت ہوئی کہ ویزا آفیسرجناب فقیری صاحب جس حسن سلوک سے پیش آئے وہ غیر معمولی تھا ۔باہر کے ہال میں بیٹھنے کے بجائے اندر مخصوص کمرے میں عزت و احترام کے ساتھ ہم سب کو بیٹھایا گیا چائے اور کافی سے ضیافت ہوتی رہی اسی درمیان ویزا آفیسر تمام تفصیلات معلوم کرتے رہے اور چند گھنٹوں میں ویزے مل گئے ۔ یہ اختر صاحب کی جادو بیانی ، کانفرنس کے موضوع کی جدت و ندرت ، کانفرنس کے جائے وقوع کی اہمیت نجانے کس کا اثر تھا ؟ لیکن جو بھی وجہ رہی ہو اس حسن سلوک سے ہمارے دلوں میں افغانستان ایمبیسی کے عملے اور آفیسران کی عزت میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے دوست سینئر ٹی وی جنرنلسٹ ڈاکٹر مہتاب عالم جو نیوز18 کی جانب اس قافلے میں شامل تھے انھیں بھوپال سے 30/ اگست کی رات پہنچنا تھا ۔ مسئلہ ان کے ویزے کا تھا کہ انھیں کیسے ویز ملے گا اور سفر کیسے ممکن ہوپائے گا کیونکہ 31 /کی دوپہر میں ایک بجے فلائٹ کی روانگی کا وقت تھا باوجود اس کے اختر صاحب پُر امید تھے انھوں نے ویزا آفیسر سے بات کر رکھی تھی ۔ لہذا دوسرے دن دس بجے وہ ایمبیسی پہنچے اور انھیں بھی گیارہ بجے تک ویزا مل گیا ۔میں ایمبیسی کےباہر اپنے بیٹے محمد شادن کے ساتھ کار میں ان کاانتظار کر رہا تھا۔ ان کے آتے ہی ہم ائیر پورٹ کے لیے روانہ ہوگئے ۔ بیٹے نے صحیح راستے کا انتخاب کیا اس لیے ہم لوگ وقت پر ائیر پورٹ پہنچ گئے ۔ تمام احباب ہمارے منتظر تھے ۔ ڈاکٹر ندیم اختر اور ڈاکٹر محمود عالم ہمیں دیکھتے ہی خوشی سے کھِل اٹھے کیونکہ انھیں اختر صاحب کے نہ پہنچ پانے کی پریشانیوں کا اندازہ تھا ۔ بہر کیف ان دونوں احباب نے سب کا پاسپورٹ لیا اور جلد ہی چیک اِ ن کی کارورائی مکمل کر لی ۔اب ہم لوگوں نے راحت کی سانس لی اس کے بعد کسی نے چائے پی اور کسی نے ٹھنڈے مشروبات سے اپنی اپنی پریشانیوں کو دور کیا۔اس طرح پروفیسر سید اختر حسین کی قیادت میں۱۲ رکنی وفد نے سفرکا آغازکیا اس وفد میں پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین جے این یو ، پروفیسر علیم اشرف، ڈی یو ، پروفیسرمظفر عالم ،حیدر آباد ، پروفیسر عارف ایوبی ، لکھنؤ، سید سلمان چشتی ، اجمیر شریف ،ڈاکٹر محمود عالم ، حیدرآباد، ڈاکٹر ندیم اختر ، دہلی ، محترمہ نسرین جہاں، کلکتہ، محمدابرارالحق جے این یو ،ڈاکٹر مہتاب عالم ،بھوپال اور محمدفیرو ز عالم، این سی پی یو ایل شامل تھے ۔
ایک گھنٹے کی تاخیر سے طیارے پر سوار ہونے کا اعلان کیا گیا ۔ ہم سب ایک ساتھ کام ائیر پر سوار ہوئے ۔کابل میں فلائٹ تبدیل کرنی تھی یہاں تین گھنٹے کا وقفہ تھا۔ ہمارا ٹکٹ ہرات تک تھا لیکن ہم سے کہا گیا کہ آپ لوگوں کا اپنا سامان کابل میں لینا ہوگا او ر دوبارہ ہرات کی فلائٹ کے لیے چیک اِن کرانا ہوگا ۔ ایسا عموماً ہوتا نہیں ہے ہمیں براہ راست سامان ہرات میں ملنا چاہیے تھا ۔ ہم نے سوچا ممکن ہے سیکیورٹی کے پیش نظر ایسا کیا گیا ہو۔ اس لیے اس تشویش کے ساتھ ہم کابل کے لیے روانہ ہوئے ۔طیارے سےہی افغانی ضیافت کا آغا ز ہوگیا ۔ طیارے کی کھڑکی سے پہلے لاہور اس کے بعد سندھ کے ریگستان کو دیکھتے رہے ۔ اچانک سنگلاخ وادیوں کے اوپر سے ہمارا طیارہ محو پرواز ہوا۔ فضا اتنی صاف تھی کہ نیچے کے علاقے بہت حد تک صاف دیکھائی دے رہے تھے۔ ہم حیرت سے دیکھ رہےتھے کہ ان پتھریلی وادیوں میں لوگ کیسے رہتے ہوں گے ۔ ہر شخص اپنی حیرتوں کا اظہار کر رہا تھا اور اختر صاحب کی لائیو کمنٹری جاری تھی ، عارف ایوبی صاحب کی خاموشی سے لوگ لطف لے رہے تھے، کوئی کسی کو کابل پہنچنے کی دھمکی دے رہا تھا ، کوئی خوش گپی میں مصروف تھا کہ اتنی دیر میں ہمارا طیارہ کابل ائیر پورٹ کے رن وے پر اترنے لگا ۔ سب سے پہلے نیٹو اور امریکی جنگی جہازوں کا دیدار ہوا اس نے ہمارے خوف کو اور بھی بڑھا دیا ۔ رن وے پر جب جہاز رکا تو سامنے فارسی زبان میں حامد کرزئی انٹرنیشل ائیر پورٹ کا بورڈ نظر آیا ۔ ہمارے قائد نے ہمیں بتایا کہ یہ دنیا کا واحد ائیر پورٹ ہے جو کسی زندہ شخصیت کے نام پر ہے۔ خیر طیارے کا دروازہ کھلا کابل کی ٹھنڈی ہواؤں نے ہمارا ستقبال کیا ۔ ہم دل میں خو ف و ہراس لیے سیڑھیوں سے اترنے لگے ۔ ڈاکٹر علیم اشرف چونکہ بار بار کابل آچکے ہیں اس لیے ذرا بے خوف نظر آئے اور سامنے والی بس میں سوار ہوگئے ادھر ڈاکٹر اختر حسین صاحب سے کسی افغانی آفیسر نے بڑی محبت و عقیدت سے سلام پیش کیا اور کہا کہ تمام مہمان بس میں سوار ہونے کے بجائے ایک طرف آجائیں ۔ ہمیں ڈر بھی لگاکہ شاید ہم سے خصوصی طور پر تفتیش ہوگی ۔ جب تمام مندوبین کو گِنا گیا تو دو لوگ کم تھے ، معلوم ہو اعلیم صاحب اور ان کے ساتھ فیروز صاحب بس میں سوار ہیں ، انھیں جلدی سے اتارا گیا ۔ اب ہم استقبال کرنے والے میزبان کی جانب سےکسی خاص حکم کا انتظار کررہے تھے کہ انھوں نے بتایا آپ ہمارے مہمان ہیں اور جناب ہمایوں محتاط صاحب اور سمیہ رامش صاحبہ کا حکم ہے کہ آپ لوگوں کو کوئی تکلیف نہ ہوپائے اس لیے آپ ہمارے ساتھ آئیں ۔ ہم چل پڑے کسی نے سامان کے متعلق پوچھا تو انھوں نے بڑی بے پروائی سے جواب دیا آپ لوگ فکر مندنہ ہوں ۔ ہم کرتے بھی کیا ؟ وہ بجائے ائیر پورٹ کے مین دروازے سے داخل ہونے کے ایک نامعلوم راستے سے باہر کی طرف ہمیں لے چلے ۔ افغانی پولیس نے ہمیں سلام کیا تو خوف کچھ کم ہوا ۔ اچانک ہم تنگ راستے سے ایک چھوٹے سے باغ میں داخل ہوگئے ۔ راحت بخش ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں ۔ کابل ائیر پورٹ چاروں جانب سے پہاڑوں سے گھرا ہواتھا ۔ائیر پورٹ کے جس کنارے پر ہم لے جائے گئے وہ وی وی آئی پی لانج تھا اور اسی کے سامنے یہ چھوٹا خوبصورت باغ تھا جس میں سلیقے سے میز اور کرسیاں لگی ہوئی تھیں ۔ ہم سے کہا گیا کہ چاہیں تو یہاں تشریف رکھیں یا اندر مہمان خانے میں تشریف رکھیں ۔ کابل کی اس سہانی شام اور خوبصورت فضا کودیکھتے ہوئے سب نے بیک زبان باہر بیٹھنے کو ہی ترجیح دی ۔اس خوبصورت منظر کو دیکھ کر سب نے اپنے اپنے کیمرے سے ان مناظر کو قید کرنا شروع کردیا ۔ ہمارے دوست مہتاب عالم ہماری تصویریں بنا رہے تھے ۔ پروفیسر عارف ایوبی جو عادتاً کم سخن ہیں انھوں نے چپکے سے ہماری کئی تصویریں بنائیں اور قریب آکر محبت سے کہا کہ دیکھیے یہ آپ کی تصویریں ہیں ، کیسی لگیں ؟ پہلے تو میں ان کے محبت بھرے لہجے سے متاثر ہوا ور حیران بھی ہوا کہ تصویر لینے کا ہنر انھیں آتا ہے ۔ ایوبی صاحب سے یہ ہماری پہلی ملاقات تھی ۔نام ضرور سنا تھا مگر اس سفر میں ایک اچھے دوست سے ملاقات ہوئی ۔ایوبی صاحب اور مہتاب بھائی کی تصویروں کا ہم موازنہ کر ہی رہے تھے کہ اتنے میں اس افغانی آفیسر نے ہمارا پاسپورٹ طلب کیا۔ڈاکٹر محمود عالم اور ندیم اختر نے بڑھ کر سب کے پاسپورٹ کو جمع کیا اور ان کے حوالے کر دیا ۔ و ہ سب کا پاسپورٹ لے کر ائیر پورٹ کے اندر داخل ہوئے ۔ کچھ ہی دیر میں سبھوں کے پاسپورٹ پر امیگریشن کی مہر لگا کر واپس آگئے ۔ ہماری حیرت کی انتہا نہیں رہی کہ ہماری عدم موجودگی میں ہمارا امیگریشن ہوگیا ۔ اس کے بعد چائے ، کافی ، چاکلیٹ اور مختلف طرح کے افغانی بسکٹ سے ہماری ضیافت ہوئی ۔ اب ہمارا خوف بالکل زائل ہوچکا تھا اور بے فکری سے کبھی چائے تو کبھی کافی کا لطف لے رہے تھے کہ اچانک ایک صاحب مہمان خانے میں داخل ہوئے اور بڑی عزت و احترام اور محبت سے قافلے کے ایک ایک فرد سے ملاقات کی ۔ اختر صاحب نے بتایا کہ کہ یہ محترم ہمایوں محتاط صاحب ہیں انھیں کے حکم سے ہم لوگوں کو وی وی آئی پی ضیافت مل رہی ہے ۔ ہمایوں محتاط حکومت افغانستان میں ایک بڑے عہدے پر فائز ہیں اور ان کی اہلیہ سمیہ رامش بھی اسمبلی کی ممبر ہیں جو اس کانفرنس کے انعقاد میں آئی آئی پی ایس سے اشتراک کررہی ہیں ۔ انھوں نے دہلی یونیورسٹی سے فارسی زبان و ادب میں ایم ۔اے کیا ہے ۔وہی بنیادی طور پر ہماری میزبان تھیں ۔
لانج میں بیٹھے ہوئے ہم ہند و افغان تعلقات پر محو گفتگو تھے کہ معلوم ہوا کہ ہرات جانے والی فلائٹ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے لیٹ ہے۔ اسی درمیان جناب سید فاضل سنچارکی معاون وزیر اطلاعات و ثقافت، حکومت افغانستان تشریف لے آئے ۔ کانفرنس میں شرکت کے لیے وہ اسی فلائٹ سے ہرات جارہے تھے ۔ ان سے فرادً فرداً سب کا تعارف ہوا ۔ اجمیر اور ہرات کے روحانی رشتوں پر دلچسپ باتیں ہوئیں۔ سنچارکی صاحب اور ہمایوں محتاط کی بُردباری او ر اخلاق سے ہم بہت متاثر ہوئے ۔ اتنے میں کسی عملے نے بتایا کہ ہرات کے لیے طیارہ پرواز کو تیار ہے ۔ تمام مسافر سوار ہوچکے تھے لیکن ہم خصوصی طور پر ہمایوں محتاط اور سنچارکی صاحبان کی معیت میں سوار ہوئے ۔ طیارے کے مسافر ہمیں غور سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے ۔
ایک گھنٹے میں ہم ہرات ائیر پورٹ پہنچ گئے ۔ شاید رات کے آٹھ بج چکے تھے ۔ نیچے اترتے ہی سمیہ رامش اور کئی میزبانوں نے ہمارا استقبال کیا ۔بہت محبت اور احترام سے سب کوخوش آمدید کہا ۔ ان کے ساتھ ہی ہرات کی خوشگوار فضائیں جیسے ہمیں خوش آمدید کہہ رہی ہوں ، تیز اور خنک ہوائیں ہمیں بہت اچھی لگ رہی تھیں ۔ پُرسکون اور راحت بخش فضا سے ایسا لگا جیسے واقعی یہ بزرگوں کا شہر ہے اسی لیے ایک خاص طرح کی روحانی کیفیت کا ہمیں احساس ہوا۔ ہم ایک دوسرے سے سر گوشی میں یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ سمیہ رامش صاحبہ نے ہمیں چلنے کو کہا ۔ اس کے بعد یہاں بھی وہی ہوا۔ ہم وی آئی پی گیٹ سے سیدھے ایک خوبصورت مہمان خانے میں داخل ہوئے ۔ باہر سے یہ ایک چھوٹاسا ہال تھا لیکن اندر کی زیبائش و آرائش قابل دید تھی دیواروں پر وسط ایشیائی اور افغانی طرز کی نقاشی اور دیدہ زیب فارسی مصوری کے نمونے آویزاں تھے ۔ سمیہ رامش نے ہماری ضیافت کا انتظام کر رکھا تھا ، و ہ بہت خوش دیکھائی دے رہی تھیں کیونکہ ہمارے علاوہ افغانستان سے شرکت کے لیے اور بھی کئی ادیب و شاعر اسی فلائٹ سے پہنچ چکے تھے ۔ لیکن ان کی خوشی کی ایک اور وجہ یہ تھی کہ ان کے استاد ڈاکٹر سید اختر حسین اور ڈاکٹر علیم اشرف کا اپنے شہر میں وہ استقبال کر رہی تھیں۔
ہرات کی روحانی فضا میں ہم اس مہمان خانے سے متصل پارکینگ کی طرف روانہ ہوئے ۔ سامنے کئی بلیٹ پروف گاڑیاں موجود تھیں ۔ ہم پہلی بار لینڈ کروزر کی بیلٹ پروف گاڑی میں سوار ہوئے ۔ آگے پیچھے مخصوص سیکیورٹی کی کئی گاڑیاں تھیں اور درمیا ن میں ہماری پانچ گاڑیاں فراٹے بھرتی ہرات کے خاموش شہر میں شور مچارہی تھیں ۔ انڈین قونصلیٹ تک تقریباً دس کیلو میٹر کا یہ سفر عجیب طرح کا تجربہ تھا ۔ سوچا تھا افغانستان کے شہر وں کو کئی طرح کی جنگوں کا سامنا ہے تو شاید شام ہوتے ہی دکانیں بند ہوجاتی ہوں گی اور شہر خاموش ہوجاتاہوگا لیکن جس شاہراہ سے ہم گزر رہے تھے اس کے دونوں کنارے پُر رونق تھے ، دکانیں کھلی ہوئی تھیں ، لوگوں کی آمد و رفت جاری تھی ۔ گاڑیوں کے نام پر اکثر موٹر سائیکل یا آٹو سڑکو ں پر چل رہی تھیں ۔ سڑک بہت عمدہ تھی اس کی عمدگی ہمارے لیے باعث استعجاب بھی تھی ۔ہمیں بتایا گیا کہ یہاں کی سڑکیں بہت اچھی ہیں ۔ رات کی تاریکی میں ’’ قہرمان ملی ‘‘ پر چلتے ہوئے کسی خوف کا احساس نہیں ہوا شاید اپنے میزبانوں کا حسن ِ اخلاق وجہ تھی یا سیکیورٹی کے انتظامات ۔ ہمارے برابر مہتاب عالم بیٹھے ہوئے تھے ایک جرنلسٹ کی طرح ان کی آنکھیں مناظر کو دیکھ رہی تھیں تو ان کا دماغ بھی اسی طرح چل رہا تھا وہ مستقل سوال کیے جارہے تھے اور میں باہر کے مناظر دیکھنے میں محو تھا اسی لیے ان کے سوالوں کو ٹالنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ کچھ ہی دیر میں ہم انڈین قونصلیٹ کے سامنے پہنچ گئے ۔ پانچ آہنی دروازوں سے گزرنے کے بعد گاڑیاں قونصلیٹ کے صدر دروازے پر رکیں ۔ جناب کمار گورو قونصلیٹ جنرل ، ہرات اپنے آفیسران کے ساتھ استقبال کے لیے کھڑے تھے ۔ جس تپاک سے انھوں نے اس وفد کا استقبال کیا وہ بڑی بات تھی ۔ رات کے تقریباً دس بجنے والے تھے ۔ انڈین قونصلیٹ میں ہمارے قیام کا انتظام تھا ۔ انھیں اندازہ تھا کہ ہم نو بجے تک پہنچ جائیں گے اس لیے کھانا وقت پر تیار ہوچکا تھا ۔ ہمارے انتظار میں آفیسران نے بھی کھانا نہیں کھایا تھا ۔اس لیے ہم سب ڈائینگ ہال کی طرف روانہ ہوئے ۔ کھانے کی میز پر انڈین قونصلیٹ جناب کمار گورو ادبی قافلہ کا شکریہ ادا کرنے لگے کہ آپ نے ہمیں یہ اعزاز بخشا کہ ہم آپ کی میزبانی کر رہے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ آج تک اتنا بڑا انڈین ڈیلیگیٹ نہیں آیا ۔ جب اس کی وجہ پوچھی گئی تو انھوں نے کئی وجوہات کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ دراصل ہمارے پاس چند ہی بلیٹ پروف گاڑیاں ہیں اس لیے بیک وقت چھ سے زائد افراد کسی بھی ڈیلیگیٹ میں نہیں آتے ۔ اس ادبی قافلے کے لیے کیونکہ میڈیم سمیہ رامش نے بھی کچھ گاڑیوں کا انتطام کیا تھا اسی لیے یہ ممکن ہوسکا۔ کمار گورو ہماری موجودگی سے بہت خوش دیکھائی دے رہے تھے اس کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ وہ جے این یو کے طالب علم رہ چکے تھے اور پروفیسر سید اختر حسین ان کے استاد تھے ، ہمارے قافلے میں شامل جناب ندیم اختر ان کے کلاس ساتھی رہ چکے تھے ، ان دونوں کی موجودگی ان کی خوشی کی وجہ تھی لیکن اس سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ہرات میں ادبی کانفرنس کے لیے ہندستان سے اتنے دانشور یہاں تشریف لائے ہیں ۔ ڈائنیگ ٹیبل پر ہم سب کھانے سے زیادہ کمار گورو کی گفتگو اور افغانستان کے حالات سننے میں محو تھے کہ قونصلیٹ کے ایک آفیسر نے آکر اطلاع دی کہ تمام مہمانوں کے ساما ن کمروں میں پہنچادئے گئے ہیں ۔ ہم سب تھک بھی چکے تھے اس لیے اپنے اپنے کمروں کی چابیاں لیں اور کمرے کی جانب روانہ ہوئے ۔ لیکن اس سے پہلے ہمیں ایک ہدایت دی گئی کہ اپنے کمروں کی کھڑیاں اور دروازے نہ کھولیں کیونکہ کچھ خطرات ہیں ،اس بات نے ہماری سراسیمگی بڑھا دی ۔ ہمیں بتایا گیا کہ ابھی حال ہی میں ہرات قونصلیٹ پر حملہ ہوا تھا اور ایسے کئی حملوں کے منصوبوں کا وقت سے پہلے انکشاف ہوگیا ہے ۔اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی ہدایت دی کہ بغیر سیکیورٹی کے آپ لوگوں کو باہر نہیں نکلنا ہے اور نہ شہر جانا ہے ۔ ہم تو بڑے شوق سے آئے تھے ہے کہ بر صغیر کے تاریخی شہر ہرات کی سیر کریں گے بزرگوں کی دربار میں حاضری ہوگی ۔ لیکن اس پابندی نے ہمیں ذرا مضمحل کردیا ۔ کمرے میں داخل ہوئے تو اچھا لگا کشادہ کمرہ اور ضرورت کی تمام اشیا وہاں موجود تھیں، شہر کی جانب کھڑکی کھلتی تھی ، لیکن کھڑکی پر بلیٹ پروف دروازے لگے ہوئے تھے ۔جب کسی چیز کے لیے منع کیاجاتا ہے تو یہ انسانی فطرت ہے کہ اسے دیکھنے کا اشتیاق بڑھ جاتا ہے سو میں نے حسب ہدایت دروازے کو بند کیا ، تمام لائٹس کو بند کر کے کھڑکی کے ذرا سے حصے کو کھول کر دیکھا ۔ ہرات شہر روشنیوں سے جگمگا رہا تھا ، ایک حسین نظارہ تھا ،سامنے مسجدوں کے مینارے نظر آرہے تھے ، خاموش رات کے پُر کیف مناظر سے دل مسرور ہو الیکن جلد ہی کھڑکی کے پٹ کو بند کر کے سوگیا ۔صبح سویرے جناب مہتاب عالم صاحب نے دستک دی ۔ کچھ ہی دیر میں پروفیسر مظفر عالم کمرے میں داخل ہوئے ساتھ میں صبح کی چائے پی او ر کئی خدشات پر گفتگو جاری رہی ۔ مہتاب صاحب نے بتایا بھائی ہم نے کھڑکی کے پٹ نہیں کھلوے ہیں لیکن ہم نے ان کے کمرے میں داخل ہوکر ان کی کھڑکی کے پٹ کھولے تو شاندار نظارہ تھا ، سامنے پہاڑ اور اس پر کچھ سبزے اُگے ہوئے تھے ۔پہاڑ کی بلندی پر انڈین وقونصلیٹ کی حفاظت کے لیے پولیس چوکی بنی ہوئی تھی ۔ ہم نے قونصلیٹ کے آفیسران سے دوران گفتگو بتایا کہ کہ کتنا شاندار نظارہ ہے اس جانب ، انھوں نے جواباً کہا یہی ہماری مصیبت ہے ہ پہاڑ کی بلندی سے بہت آسانی سے حملہ کیاجاسکتا ہے ۔ یہ سن کر ہم نے کھڑکی کے پٹ بند کر دیے ۔
در اصل انڈین قونصلیٹ جو’ باغ ملی ‘ کے قریب ہے یہ عمارت کسی زمانے میں فائیو اسٹار ہوٹل ہوا کرتا تھا لیکن اسے امریکیوں نے اپنا قونصلیٹ بنا لیا ۔ان کے خالی کرنے کے بعد ہندستانی حکومت نے اسے ہرات میونسپل کارپوریشن سے کرایے پر لے لیا۔ اس کا جائے وقوع بہت ہی دلکش ہے۔ ایک جانب پہاڑ ہے اور دوسری جانب فراز میں شہر واقع ہے ۔ اس عمارت میں کافی کمرے موجود ہیں اسی لیے ہندستانی حکومت کے جو بھی مہمان ہوتے ہیں وہ یہیں قیام کرتے ہیں ۔ شہر کے اہم شاہراہ پر واقع یہ عمارت ضرور پُر رونق ہے مگر ہمارے لیے کئی طرح کی پابندیاں نظر بندی سے کم نہیں تھی ۔ سڑک سے عمارت تک آنے کے لیے پانچ آہنی دروازوں اور سخت سیکیورٹی سے گزرنا پڑتا تھا ۔اندر داخل ہوتےہی ایک نئی دنیا تھی جو افغانستان کے شہر ہرات سے بالکل الگ تھی ۔یہاں آفیسر سے نیچے درجے تک تقریباً ستر عملے ہیں ، ان کی بھی یہی حالت ہے کہ وہ اس چہاردیوراری سے بغیر کسی ضرورت کےباہر نہیں جاتے ۔اسی لیے اس کیمپس میں دل بہلانے کے لیے اسپورٹس وغیرہ کی سہولت موجود ہےتاکہ یہاں مقیم افراد کی دلبستگی ہوسکے ۔
افغانستان دنیا کے نقشے پر ایک ایساملک ہے جسے موجودہ تناظر میں صرف جنگ و جدال کے لیے جانا جاتا ہے لیکن اس ملک کی تہذیبی اور ثقافتی وراثتیں ہمارے تجسس کا سبب تھیں۔ افغانستان کا شہر’ ہرات ‘ کسی زمانے میں اپنی تمدنی اور معاشرتی زندگی کے اعتبار سے دنیا کو اپنی جانب متوجہ بھی کرتا تھا اور اثر انداز بھی ہوتاتھا ۔ افغانستان کے بارے میں دائرة المعارف ( ویکی پیڈیا اردو) میں’ سی آئی اے ورلڈ فیکٹ بک‘ کے حوالے سے یہ معلومات درج ہیں ۔’’ افغانستان کی آبادی جولائی 2011ء کے مطابق اعدا دو شمار کے مطابق دو کروڑ 89 لاکھ 35 ہزار سے کچھ زیادہ ہے ۔ جس میں 42 فیصد پشتون ہیں۔ جب کہ دوسری قوموں میں ایرانی نسل سے تعلق رکھنے والے تاجک 27 فیصد، منگول نسل کے ہزارہ 9فیصد ، ازبک جو نسل کے اعتبار سے ترک ہیں 9 فیصد جبکہ آرمک چارفی صد، ترکمان تین فی صد ، بلوچ دو فی صد اور باقی ماندہ چار فی صد دیگرمختلف اقوام پر مشتمل ہے۔ افغانستان کی بڑی آبادی پشتونوں پر مشتمل ہے، جو مشرقی جنوبی علاقوں میں آباد ہیں۔‘‘ اور ہرات کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’ہرات ایک قدیم شہر ہے جس میں کئی تاریخی عمارات آج بھی قائم ہیں حالانکہ گذشتہ چند دہائیوں کی خانہ جنگی اور بیرونی جارحیت کے باعث شہر کو زبردست نقصان پہنچا ہے۔ھرات ہندوستان، چین، مشرق وسطی اور یورپ کے درمیان قدیم و تاریخی تجارتی راستے پر واقع ہے۔ ھرات سےایران، ترکمانستان، مزار شریف اور قندھار جانے والے راستے آج بھی محل وقوع کے اعتبار سے اہم شمار ہوتے ہیں۔‘‘(بحوالہ :ویکی پیڈیا )
آج بھی ہرات اپنی زندہ دلی او ر صوفیانہ اقدار کے سبب دنیا میں جانا جاتا ہے ۔ ہرات خشک میوے کے علاوہ انگور کی کھیتی کے لیے بہت مشہور ہے ۔ فارسی کی بہت ہی مشہور کتاب ’’ چہار مقالہ ‘‘ میں یہاں انگور کے ایک سو سے زائد اقسام کا ذکر ملتا ہے ۔ جب ہم نےیہاں کے لوگوں سے معلوم کیا کہ کیا اب بھی اتنے اقسام کے انگور دستیاب ہیں تو ہمیں بتایا گیا کہ اتنے تو نہیں لیکن اب صرف 56 قسموں کے انگور کی کاشت ہوتی ہے ۔ اتفاق سے یہ انگور کے موسم کے آغاز تھا اس لیے ہم کئی اقسام کے انگور کی لذتوں سے آشنا ہوئے ۔ حالانکہ ابھی تمام اقسام کے انگور بازار میں نہیں آئے تھے لیکن ایک خاص قسم کا انگور جس کانام ’’ انگورِ حسینی ‘‘ ہے اس کے چھلکے بہت ہی باریک اور نازک تھے ،منہ میں ڈالتے ہی گھُل جاتے تھے ، سائز میں بھی عام انگور سے بڑے ، بہت ہی لذیذ اورخوش رنگ تھے یہ بہت دنوں تک ترو تازہ نہیں رہتے ۔ ہمارے لیے اس انگور کی لذت ایک نیا تجربہ اور ذائقہ تھا ۔اس کے علاوہ تربوز ، خربوز اور انجیر کا بھی یہ موسم تھا ۔ یہاں کے پھل بہت ہی میٹھے اور لذت میں جداگانہ تھے ۔ ہمیں اچھا لگا کہ اس موسم میں ہم یہاں موجود تھے اور ان پھلوں کی لذت سے لطف اندوز ہورہے تھے ۔ہرات کی کالی کشمش اور منقیٰ بہت مشہور ہے ۔ خشک میووں میں کاغذی بادام ،پستہ ،انجیر ، چلغوزہ ، ہیزل نٹ ہرات کی کاشت ہیں ۔ہرا ت کا زعفران اور ہینگ بھی پوری دنیا میں مشہور ہے ۔
یکم ستمبر ہرات میں یہ ہماری پہلی صبح تھی ۔ قونصلیٹ کے احاطے میں چہل قدمی کرتے ہوئے محسوس ہوا کہ فضا بہت ہی صاف ستھری ہے کوئی آلودگی نہیں ، ہواؤں کے تیز جھونکے جیسے ہمارا استقبال کر رہے ہوں اور سفر کی تکان دور کر رہے ہوں ۔معلوم ہوا کہ یہاں ہمیشہ اسی طرح تیز ہوائیں چلتی ہیں یہ ہمارے لیے نیا انکشاف تھا ۔نئے شہر ، نئے ملک میں یوں بھی ہر چیز کو اشتیاق اور تجسس کی نگاہ سے دیکھنے کی عادت ہوتی ہے ۔ اس لیے جب ہم ناشتے کے بعد حسب دستور اسی احتیاط اور سخت سیکیورٹی کے درمیان ہوٹل ارگ کے لیے روانہ ہوئے ۔ ہوٹل اور قیام گاہ کی دوری محض ایک کیلو میٹر یا اس سے کم تھی مگر سیکیورٹی نے ہمیں آزادنہ جانے کی اجازت نہیں دی ۔ ہوٹل ارگ کے سامنے ہی ہرات یونیورسٹی تھی ۔ لڑکےاور لڑکیاں بڑی تعداد میں یونیورسٹی کے ارد گرد نظر آئے تو مجھے حیرت بھی ہوئی کہ اسی افغانستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں عورتوں کو آزادی نہیں اور وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے گھر سے نہیں نکلتیں لیکن یہاں مشاہدہ اس کے بر عکس تھا۔ میں یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کو اس نظر سے دیکھ رہا تھا کہ کیا لڑکے اور لڑکیاں الگ الگ گروپ میں ہیں یا مخلوط طور پر یونیورسٹی میں موجود ہیں ۔ ہمیں ہندستان کی جامعات سے یہاں کے طلبہ و طالبات صرف اس معاملےمیں مختلف نظر آئیں کہ یہاں خواتین نے نقاب پہن رکھا تھا ۔ جب ہوٹل ارگ پہنچے تو یہاں بھی خواتین کی اچھی خاصی تعداد موجود تھی ۔یہ ہمارے ان تصورات کو باطل کررہی تھیں جو میڈیا کے ذریعے پہلے سے ہمارے ذہنوں میں موجود تھے کہ افغان9ستان میں عورتوں پر بے جا پابندیاں ہیں۔اس کانفرنس میں شہر ہرات کی کئی طالبات موجود تھیں ان میں سے کئی خواتین نے اپنے مقالے بھی پیش کیے ۔ خوشی تو اس بات پر ہوئی کہ اکثر نئی نسل کی خواتین کے مقالے تصوف کی اُس روایت پر تھے جو پُر امن بقائے باہمی کی وکالت کرتی ہیں۔ زیادہ تر مقالے اس دیرنیہ روایت کے فروغ کی وکالت کر رہے تھے ۔کئی مقالوں میں ہند و افغان روابط کی نشاندہی بھی کی گئی ۔
در اصل ہندستان اور افغانستان کا رشتہ بہت قدیم ہے ۔ یہ دو ممالک اگر چہ فاصلے کے اعتبار سے بہت نزدیک نہیں اور کوئی سرحد بھی آپس میں نہیں ملتے لیکن کئی لحاظ سے ان کے مابین جو رشتہ ہے وہ یقینا تا قیامت برقرار رکھے گا ۔ ان رشتوں کو کوئی سرحد پابند بھی نہیں کر سکتی ، ان رشتوں میں سب سے اہم رشتہ سلسلہٴ چشتیہ کا ہے جس کا آغاز اسی صوبے کے شہر ’’چشت ‘‘ سے ہوتا ہے جس کے تسلسل کی ایک اہم کڑی اجمیر شریف ہے ۔اس طرح سلسلہ ٴ چشتیہ ہرات سے اجمیر تک ایک ایسا روحانی پُل ہے جو ہر حال میں قائم و دائم رہے گا ۔ ہند-افغان کے درمیان یہ ایسا رشتہ ہے جس کا تعلق روحانیت اور تصوف سے ہے ۔ہرات افغانستان کا ایسا صوبہ ہے جس کو ’مدینة الاولیا‘ بھی کہاجاتا ہے ۔ یہاں بزرگان دین کی متعدد آرمگاہیں ہیں ۔ افغانستان میں مشہور ’’ پیر ہرات ‘‘ یعنی خواجہ عبد اللہ انصاری کا سلسلہٴ نسب نویں پشت میں مشہور صحابی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔ آ پ نے اس پورے خطے کو دینی ، اسلامی اورروحانی تعلیمات سے روشن کیا ۔ مولانا جامی جن کے متصوفانہ فارسی اشعار ساری دنیا میں پڑھے جاتے ہیں بالخصوص اردو اور فارسی جاننے والے ان کو تصوف کے حوالے سے ہمیشہ اپنی تحریروں اور تقریروں میں بیان کرتے ہیں اورخانقاہوں میں ان کے کلام پڑھے جاتے ہیں ۔ان کا مزار بھی اسی شہر ہرات میں موجود ہے ۔ان کے علاوہ اہل سلوک کی بڑی تعداد ہے جو یہاں مدفون ہیں ۔ اولیا ئے کرام کے فیوض و برکات کے سبب ہی یہ شہر زمانے کے نشیب و فراز کے بعد بھی آباد اور مرفع حال ہے ۔ اس شہر کا یوں تو دنیا کےکئی ممالک سے براہ راست تجارتی اور ثقافتی روابط ہیں لیکن ہندستان کا سب سے مضبوط تعلق خواجہ ٴ اجمیری کے سبب ہے ۔ حالیہ دنوں میں ایک اور رشتہ استوار ہوا ہے جسے سلمیٰ ڈیم یعنی’ بند دوستی ہند وافغان‘ کے نام سے جاناجاتاہے۔صوبہ ہرات کا ایک مشہور زمانہ قریہ چشت بھی ہے ۔ یہ وہی قریہ ہے جس کی نسبت سے چشتیہ سلسلے کا آغا ہوا۔ خواجہ معین الدین چشتی نے یہیں کے بزرگ ابو اسحاق شامی سے کسب فیض کیا اور پورے برصغیر میں چشتی سلسلے کا آغازہوا ۔تصوف کے اس سلسلے نےدنیا میں اور بالخصوص بر صغیرمیں امن و محبت کے پیغام کو عام کیا ۔ شہر ہرات کی اسی اہمیت اور صوفی ازم کی ضرورت و افادیت کے پیش نظر انسٹی ٹیوٹ آف انڈو پرشین اسٹڈیز نے شہر ہرات میں دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا ۔ ’’ سلسلہ ٴ چشتیہ کا تسلسل ہرات سے اجمیر تک: ایک روحانی پُل ‘‘ کے عنوان سےبتاریخ 1-2 ستمبر 2018 ہند افغان فاؤنڈیشن اور نو اندیشان کلچرل ، سوشل آرگنائزیشن کے اشتراک سے منعقد ہوا۔ اس کانفرنس میں ہندستان سے ۱۲ رکنی وفد کے علاوہ افغانستان کے مختلف شہروں سےادبا اور دانشوروں نے شرکت کی ۔
سمینار کا آغازیکمستمبر 2018 کی صبح قرآن پاک کی تلاوت سے ہوئی۔اس کے بعد ہندوستان اور افغانستان کے قومی ترانے گائے گیے۔دونوں ملکوں کے مابین خوش آئند تعلقات پر نیک خواہشات کے ساتھ اس افتتاحی سیشن میں خیرمقدمی کلمات محترمہ سمیہ رامش نے پیش کیا۔گورنرآف ہرات جناب محمد آصف رحیمی نے افتتاحی خطاب فرمایا۔کلیدی خطبہ سید سلمان چشتی نے پیش کیا۔مہمان خصوصی کی حیثیت سےانڈین قونصلیٹ جنرل ہرات جناب کمار گور شریک ہوئے ۔سید فاضل سنچارکی معاون وزیر اطلاعات و ثقافت، کابل ، افغانستان مہمان اعزازی کے طورپر شریک ہوئے اور جناب ہمایوں محتاط دائریکٹر جنرل سناش نامہ ملی، افغانستان نے اپنا بھر پور تعاون پیش کیا ۔ اس کانفرنس میں نئی نسل نے بڑی تعداد میں حصہ لیا اور کانفرنس میں پڑھے گئے مقالوں میں ہند- افغان تعلقات بالخصوص تصوف اور روحانیت کےسلسلے پر باتیں ہوئیں لیکن زیادہ تر مقالوں میں اس بات پر زور دیا گیا کہ نئی نسل کو ماضی کی ان روایات سے واقف کرایا جائے کیونکہ صارفیت کےاس دور میں تصوف ہی امن و امان کا واحد راستہ ہے ۔اس کانفرنس سے جو سب سے اہم پیغام گیا وہ یہی تھا اس کے علاوہ اس حقیقت کا بھی اعتراف کیاگیا کہ ہندستان اور افغانستان اچھے دوست ممالک ہیں ۔ افغانستان کی از سر نو بازآباد کاری میں ہندستان بہت معاون بھی ہے جس کے لیے افغان قوم شکر گزار ہے ۔ لیکن اس رشتے کو مزید مستحکم کرنے کے لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہرات اور اجمیر کے درمیان جو سلسلہ ٴ چشتیہ کے ذریعے ایک روحانی پُل بنا ہے اس پر محبت اور امن کے قافلوں کی آمد و رفت میں اضافہ ہونا چاہیے ۔
سیمنار کےدوسرے دن ظہرانے کے بعد شہر ہرات کی تاریخی عمارات اور بزرگوں کی آرامگاہوں کی زیارت کا اہتمام کیا گیا ۔ قونصلیٹ کی سیکیورٹی اور سمیہ رامش صاحبہ اور ان کے ساتھ کئی میزبانوں پر مشتمل یہ قافلہ گوہر شاد بیگم اور علی شیر نوائی کے مقبروں کو دیکھنے کے لیے روانہ ہوا ۔ یہ ہرات کے قدیمی مدرسہ کے احاطے سے متصل ہے جس کے خستہ حال مینارے اپنے ماضی کی داستان سنا رہے تھے ۔امیر علی شیر نوائی کا اس عہد کے دانشوروں میں شمار ہوتا تھا ۔ وہ ایک مقبول و معروف شاعر تھے ۔ان کی شاعری فارسی اور ازبک زبان میں ہے اسی لیے انھیں ’ ذو اللسان ‘ شاعر کہا گیا ۔آ ج بھی افغانستان اور ازبکستان میں انھیں عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔
اس کے بعد ہم لوگ گوہر شاد بیگم کے مقبرے کی طرف گئے ۔ گوہر شاد کے بارے میں ویکی پیڈیا میں جو تفصیلات درج ہیں وہ قارئین کی معلومات کے لیے یہاں درج کر رہاہوں ’’گوہر شاد سلطنت تیموریہ کے دوسرے فرمانروا شاہ رخ تیموری کی اہلیہ تھیں۔ وہ تیموری دورکی ایک با اثر اور اہم شخصیت غیاث الدین ترخان کی صاحبزادی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے خاندان کو ترخان کا خطاب بذات خود چنگیز خان نے دیا تھا۔ ہرات میں تیموری دربار میں انتظامی فرائض انجام دینے والے دو بھائیوں کے ساتھ مل کر گوہر شاد نے تیموری سلطنت کے ابتدائی دنوں میں اہم کردار ادا کیا۔ 1405ء میں ان کی خواہش پر ہی تیموری سلطنت کا دار الحکومت سمرقند سے ہرات لایا گیا۔ کیونکہ گوہر شاد کا تعلق فارس سے تھا اس لیے اُن کے عہد میں فارسی زبان اور فارسی ثقافت سلطنت تیموریہ کا ایک اہم جُز بن گئی۔ ملکہ اور شاہ رخ نے فن، تعمیرات، فلسفے اور شاعری کے لیے عظیم خدمات انجام دیں جس کے نتیجے میں معروف فارسی شاعر جامی سمیت اُس وقت کے بہترین فنکار، ماہرین تعمیرات، فلسفی اور شعرا نے تیموری دربار کا رخ کیا۔ ہرات میں آج بھی تیموری طرز تعمیر کی چند نشانیاں موجود ہیں۔ 1447ء میں شوہر کے انتقال کے بعد گوہر شاد نے اپنے من پسند پوتے (الغ بیگ) کو تخت پر بٹھایا اور اگلے دس سالوں تک وہ دریائے دجلہ سے چین کی سرحدوں تک پھیلی اس سلطنت کی حقیقی حکمران رہی۔ 19 جولائی 1457ء کو 80 سال کی عمر میں انہیں سلطان ابو سعید کے حکم پر قتل کر دیا گیا۔ گوہر شاد کا مزار ہرات میں اس کے قائم کردہ مدرسے کے احاطے میں واقع ہے جس کے مینار آج بھی سلامت ہیں۔ گوہر شاد نے 1418ءمیں مشہد، خراسان میں ایک مسجد تعمیر کروائی تھی۔ فارسی و تیموری طرز تعمیر کا یہ عظیم شاہکار آج بھی مشہد میں ملکہ گوہر شاد کی یاد دلاتا ہے۔ خراسان میں ان کی بہن گوہر تاج کا مزار بھی واقع ہے۔‘‘(بحوالہ : آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا )
ہرات میں اختیار االدین کا قلعہ وسط ایشیا کا ایک مشترکہ تہذیبی ورثہ ہے ۔ اس قلعے کو کئی بادشاہوں نے اپنی حکمرانی کے لیے استعمال کیا ۔ سکندر اعظم نے بھی اس قلعے کو اپنا مسکن بنایا تھا اس کی سن تعمیر ۳۳۰ قبل مسیح بتائی جاتی ہے ۔ گوہر شاد بیگم نے بھی اس قلعے کی تعمیر میں خاص کردار ادا کیا تھا ۔ یہ کئی بار مسمار ہوا اور بالآخر ۱۹۷۹ میں یونیسکو نے محفوظ ورثے کے طور پر از سر نو اس کی مرمت کی ۔ بنیادی طور پر یہ مٹی اور اینٹ سے تعمیر کیا ہوا قلعہ ہے ۔ موجودہ حالت میں بھی یہ دور سے مٹی کا قلعہ معلوم ہوتا ہے یہ وسیع و عریض علاقے میں واقع ہے ۔ کم وقت میں پورے قلعے کو دیکھنا مشکل تھا اس لیے جلدی جلدی ہم لوگوں نے قلعے کے کچھ اندرونی اور بالائی حصے کو دیکھا ۔
اس کے بعد ہم خواجہ عبد اللہ انصاری جنہیں ’پیر ہرات ‘ کہا جاتا ہے ان کے دربار میں حاضر ہوئے ۔ ہماری آمد کی اطلاع وہاں کے منتظمین کو دے دی گئی تھی اس لیے ہمیں مخصوص طور پر زیارت کرائی گئی ۔ سید سلمان چشتی جو ’چشتیہ فاونڈیشن ، اجمیر ‘ کے چئیرمین ہیں ، ان کی موجودگی سے اس قافلے کو مزیداہمیت ملی وہ اجمیر شریف سے خصوصی طور پر چادر ساتھ لائے تھے جو یہاں کے بزرگوں کے مزارات پر پیش کرنی تھی ۔ خواجہ عبد اللہ انصاری کا مزار ایک وسیع و عریض احاطے میں ہے جس کے مینارے اور دیواریں اپنی قدامت اور دستبرد زمانہ کی شہادت دے رہی تھیں ۔ تیموری عہد کی یہ عمارت آج بھی اپنی ماضی کی شان و شکوہ کی گواہ ہے ۔اس احاطے میں کئی بزرگان دین کی قبریں بھی ہیں ۔ خواجہ عبد اللہ انصاری کا مزار جالیوں سے بند تھا یہ دروازہ مخصوص تقریبات کے موقعے پر ہی کھلتا ہے لیکن سید سلمان چشتی صاحب کے تعارف اور اجمیر شریف کے رشتے کی عظمت کو سن کر وہاں کے منتظمین نے ہمارے لیے اس دروازے کو کھولوایا اور ہم سب سید سلمان چشتی کے ساتھ چادر پیش کرنے کی سعادت سے فیض یاب ہوئے ۔ خواجہ عبد اللہ انصاری کے بارے میں آزاد دائرۃ المعارف، ویکی پیڈیا میں بہت مبسوط تعارف لکھا ، میں اسی کو یہاں قارئین کی معلومات کے لیے درج کررہا ہوں۔’’ شیخ ابو اسماعیل عبد اللہ حیراوی انصاری یا پیر ہرات (پیدائش: 4 مئی 1006ء — وفات: 8 مارچ 1089ء) گیارہویں صدی میں ہرات(خراسان، موجودہ صوبہ ہرات افغانستان) کے رہنے والے فارسی زبان کے مشہور صوفی شاعر تھے۔ آپ پانچویں صدی ہجری/ گیارہویں صدی عیسوی میں ہرات کی ایک نادر شخصیت، مفسر قرآن، راوی، مناظر اور شیخ طریقت تھے جو عربی اور فارسی زبانوں میں اپنے فن تقریر اور شاعری کے باعث جانے جاتے تھے۔آپ 04 مئی 1006ء 369ھ کو ہرات کے قدیم قلعہ کھندژ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ابو منصور ایک دکان دار تھے جو جوانی میں کئی سال بلخ میں گزار چکے تھے۔ عبد اللہ، شیخ ابو الحسن خرقانی کے مرید تھے اور اپنے شیخ پر اعتماد اور ان کا بہت احترام کرتے تھے جیسا کہ انہوں نے بیان کیا: “عبد اللہ ایک چھپا ہوا خزانہ تھا اور اس کی چابی ابو الحسن خرقانی کے ہاتھوں میں تھی”۔آپ سنی فقہ حنبلی کے پیرو تھے۔ آپ کا عہد ِتیموری میں تعمیر ہونے والا مزار مشہور زیارت گاہ ہے۔انہوں نے اسلامی تصوف اور فلسفہ پر فارسی اورعربی زبان میں بہت سی کتب لکھیں۔ ان کی سب سے مشہور تصنیف “مناجات نامہ” ہے جو فارسی ادب کا شاہکار شمار کی جاتی ہے۔ ان کی وفات کے بعد ان کی تصانیف کے علاوہ ان کے شاگردوں اور دوسرے لوگوں سے ان کے بہت سے اقوال روایت ہوئے جو تفسیر میبودی، “کشف الاسرار” میں شامل کیے گئے۔ یہ قرآن کریم کی قدیم ترین مکمل صوفی تفاسیر میں سے ہے اور کئی مرتبہ 10 جلدوں میں شائع ہو چکی ہے۔انہوں نے علم حدیث، تاریخ اور علم النسب پر مہارت حاصل کی۔ وہ امیر، قوی اور با اثر لوگوں کی صحبت سے دور رہا کرتے تھے۔ ان کی مجلس وعظ میں شمولیت کے لیے لوگ دور دراز سے آتے تھے۔ جب بھی ان کے مریدین و معتقدین ان کو کوئی تحفہ پیش کرتے وہ غریبوں اور ضرورت مندوں کے حوالے کر دیا جاتا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ان کی شخصیت متاثر کن تھی اور خوش لباس تھے۔ہرات کے خواجہ عبد اللہ انصاری کا سلسلہ نسب نویں پشت میں مشہور صحابی حضرت ابو ایوب انصاری سے جا ملتا ہے۔ خاندان کی تاریخ کی مثل میں بیان کیا گیا سلسلہ نسب اس طرح ہے۔ابو اسماعیل خواجہ عبد اللہ انصاری ولد ابو منصور بلخی ولد جعفر ولد ابو معاذ ولد محمد ولد احمد ولد جعفر ولد ابو منصور تابعی ولد ابو ایوب انصاری۔اسلام کے خلفاء راشدین میں سے تیسرے خلیفہ عثمان بن عفان کے زمانہ میں ابو منصور تابعی نے خراسان کی فتح میں حصہ لیا اور اس کے بعد ہرات میں رہائش اختیار کی، ان کے فرزند خواجہ عبد اللہ انصاری 1088ء 481ھ میں فوت ہوئے۔فقیہ ابن قیم جوزی نے اپنی تصنیف الوابل الصيب من الكلم الطيب میں انصاری کا حوالہ “شیخ الاسلام” کے گرانقدر خطاب سے دیا ہے۔‘‘ (بحوالہ : آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا )
اس کے بعد یہ قافلہ جامع مسجد ہرات جسے مسجد جامی بھی کہا جاتا ہے کہ زیارت کے لیے روانہ ہوا ۔ یہ مسجد شہر کی قلب میں واقع ہے اور عہد تیموری کی فن عمارت سازی کی بے مثل یادگار ہے ۔ اس کی تعمیر غوری بادشاہ غیاث الدین غوری نے 1200 عیسوی میں شروع کی، بعد کے مختلف ادوار میں مختلف بادشاہوں نے اس کی مرمت اور توسیع میں حصہ لیا اس طرح یہ تیموری ،صفوی اور ازبک حکمرانوں کی ایک یادگار ہے اور ہرات میں یہ مسجد زائرین کے لیے ایک اہم مقام ہے۔
شام ہونے کو تھی اور ہدایت کے مطابق ہمیں سورج غروب ہونے سے پہلے اپنے قیام گاہ واپس ہونا تھا ۔ ہرات میں کئی اور اہم تاریخی اور قابل دید عمارتیں تھیں اس لیے آخر میں طے یہ پایا کہ دیگر مقامات کے بجائے صرف مولانا جامی کے مزار پر حاضری دی جائے ۔ مولانا جامی یہ وہی بزرگ ہیں جو فارسی زبان کے بڑے شاعر ہونے کے باوصف تصوف اور روحانیت کے لیے جانے جاتے ہیں ۔ ان کی شاعری سے اہل اردو بھی واقف ہیں اور ان کی شاعری کے تراجم بھی موجود ہیں ۔ ویکی پیڈیا کا یہ اقتباس ان کے تعارف کے لیے کافی ہے ۔’’خراسان کی ولایت جام کے ایک قصبہ خرجرو میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں باپ کے ساتھ ہرات اور سمرقند گئے جو اس زمانے میں اسلامی علوم اور فارسی ادب کا مرکز تھے۔ تعلیم کے بعد سلوک و عرفان کی طرف رجوع کیا اور سعد الدین محمد کاشغری اور خواجہ علی سمرقندی کے حلقۂ طریقت میں ان کا شمار خلفا میں ہونے لگا۔ 1472ء میں حج کیا۔ مختلف شہروں کی سیاحت کرکے ہرات واپس آئے اور وہیں انتقال کیا۔سلطان ابو سعید گرگانی، سلطان حسین مرزا، میر علی شیرنوائی، اوزون حسن، آق قیونلو، سلطان یعقوب، سلطان محمد فاتح اور سلطان بایزید دوم مولانا جامی کی بڑی عزت کرتے تھے۔گوشہ نشین اور درویش منش تھے۔ نظم و نثر کی تصانیف 49 ہیں۔ نظم میں سات مثنویاں ہفت اورنگ سلسلۃ الذہب، سلامان وابسال، تحفۃ الاحرار، صحبۃ الابرار، یوسف زلیخا، لیلی مجنوں، فرد نامۂ سکندری اور غزلوں کے تین مجموعے آپ کی یادگار ہیں۔ نثر میں گیارہ کتابیں تصنیف کیں۔‘‘ ( بحوالہ : اردو ویکی پیڈیا )
دو روزہ سیمنار کے بعد انڈین قونصلیٹ جنرل ،ہرات جناب کمار گورو کی جانب سے چشت شریف کی زیارت اور سلمیٰ ڈیم کی سیر کا اہتمام کیاگیاجو ہند افغانستان دوستی کی علامت ہے ۔ چشت شریف کی زیارت کے لیے ہم سب ہندستان سے ہی ذہن بنا کر چلے تھے لیکن وہاں جانا بھی ایک مشکل مرحلہ تھا کیونکہ ہرات سے چشت کا بذریعہ روڈ سفر طے کرنے کی ہمیں اجازت بھی نہیں تھی او ر نہ ہی ایک دن میں آنا جانا ممکن تھا اس لیے کمار گورو صاحب نے خصوصی طور پر افغان حکومت سے ہیلی کاپٹر انتطام کرنے کو کہا ۔ لہذا بڑی تگ ودو کے بعد دو ہیلی کاپٹر کا انتظام ہوا ۔ ہمارے اس قافلے کے ساتھ خودقونصلیٹ جنرل بھی شامل تھے اور سمیہ رامش صاحبہ کے علاوہ سیکیورٹی کےافراد بھی تھے اس لیے قافلے میں زائرین کی کل تعداد ۲۴ ہوگئی ۔ ہم ہیلی کاپٹر میں سوار ہوکر دس بجے روانہ ہوئے تقریباً ایک گھنٹے کے اس سفر میں اوپر سے ہرات شہر اور صوبے کی سنگلاخ وادیوں کو دیکھنے کا موقع ملا ۔ ہمارے ذہنوں میں تھا کہ روحانی اعتبار سے دنیا بھر میں چشت کا کا نام ہے تو یہ ایک بڑا شہر ہوگا لیکن وہاں پہنچ کر معلوم ہو اکہ یہ ایک چھوٹا قریہ ہے جہاں ہر طرح کی سہولیات بھی موجود نہیں ہے ۔ اس قریہ کے زیادہ تر مکانات بھی مٹی کے بنے ہوئے ہیں ۔ بہت زیادہ آبادی بھی نہیں ہے ۔ حالانکہ قدرتی مناظر کے لحاظ سے یہ مالا مال ہے ۔ قریہٴ چشت کے درمیان سے ہی دریائے ہری رود ہے جس کی وجہ سے یہاں کاشتکاری دیگر علاقوں کی بہ نسبت زیادہ ہوتی ہے ۔چونکہ حکومت ہند نے اسی دریا کے حصے پر سلمیٰ ڈیم بنایا ہے اس لیے آس پاس کے گاؤں والے خوشحال ہوگئے ہیں۔اب ان علاقوں میں دیگر فصلوں کے علاوہ زعفران کی کاشت زیادہ ہونے لگی ہے ۔ ہم ہیلی کاپٹر سے اترے تو ہیلی پیڈ کے قریب ہی کئی گاڑیاں اور مقامی پولیس اور افسران ہمارے استقبال کے لیے موجود تھے ۔ پہلے وہ ہمیں ایک مہمان خانے میں لے گئے جہاں چشت کے تازہ پھلوں اور خالص افغانی طرز کی ضیافت کی گئی ۔ اس کے بعد ہم خواجہ قطب الدین مودو چشتی کے مزار پر حاضری کےلیے روانہ ہوئے ۔ یہاں سلسلہ ٴ چشتیہ کے صوفیا ہماری آمد کی اطلاع سن کر پہلے سے دربارِ مودود چشتی میں ہمارے منتظر تھے ، ان کے استقبال کے والہانہ ا نداز نے ہمیں متاثر کیا ۔ ان کی سادگی اور بردباری قابل دید تھی۔ اجمیر شریف سے سید سلمان چشتی صاحب جواجمیر شریف سے تعلق رکھتے ہیں ، کی آمد کی خبر نے انھیں سراپا مشتاق بنارکھا تھا ۔ سید سلمان چشتی کے ساتھ ہم روضہٴ مبارک پر حاضر ہوئے ۔ یہاں کے صوفیا نے مخصوص طریقے سے سلام و فاتحہ خوانی کے بعد سید سلمان چشتی کو خرقہ اور سید اختر صاحب کو عبا پیش کیااور جناب کمار گورورکو کچھ تحائف پیش کیے اس کے ساتھ قافلے میں شامل تمام افراد کے لیے دعائیں کیں۔انھوں نے خوشی کا اظہار کیا کہ ہندستان سے اس طرح کا قافلہ ہماری زندگی میں پہلی دفعہ مودود چشتی کے بارگاہ میں حاضر ہوا ہے ۔ اجمیر سے چشت کے تعلق کو وہ سب بخوبی جانتے تھے ان کے دل میں بھی اجمیر کی زیارت کا شوق تھا ۔ لہذا آئی آئی پی ایس کی جانب سے انھیں بھی اجمیر آنے کی دعوت دی گئی ۔اس دعوت سے وہ بہت خوش ہوئے اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ کاش چشت اور اجمیر کا یہ روحانی رشتہ اور مضبوط ہو ، دونوں جانب سے لوگوں کی آمد ورفت ہو ۔ ہمارے قافلے کے سربراہ سید اختر حسین نے اس رشتے کی ابتدا کی تھی ، انھو ں نے اپنے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہماری پہلی کوشش تھی اب ان شاء اللہ یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔
خواجہ مودود چشتی رحمة اللہ الیہ یہ وہی بزرگ ہیں جن سے سلسلہ ٴ چشتیہ کا آغاز ہوتا ہے ۔ خواجہٴ اجمیر، معین الدین اسی قریہ کی نسبت سے’ چشتی ‘کہلاتے ہیں ۔ جس سلسلے کا شجرہ اس طرح ہے ۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، علی مرتضی ،خواجہ حسن بصری،خواجہ عبدالواحد بن زید،خواجہ فضیل ابن عیاض،خواجہ ابراھیم بن ادہم البلخی،خواجہ حذیفہ مرعشی،خواجہ ابو ہبیرہ بصری،خواجہ ممشاد علوی دینوری،خواجہ ابو اسحاق شامی،خواجہ ابو احمد ابدال،خواجہ ابو محمد چشتی،خواجہ ابو یوسف چشتی،خواجہ قطب الدین مودود چشتی،خواجہ شریف زندنی،خواجہ عثمان ہارونی،خواجہ معین الدین چشتی اجمیری۔خواجہ قطب الدین مودود چشتی علیہ الرحمة کے بارے میں تصوف کے تمام کتابوں میں تفصیلات درج ہیں ۔ لیکن میں یہاں قارئین کے لیے ویکی پیڈیا کا اقتباس درج کر رہاہوں تاکہ اختصار سے مستند معلومات پہنچ سکیں ۔’’خواجہ مودود چشتی بن خواجہ ابو یوسف آپ کی ولادت بمقام چست شریف مورخہ 430 ہجری اور وفات رجب 527 ہجری کو ہوئی۔ خواجہ قطب الدین مودود چشتی خواجہ ابو یوسف ناصر الدین چشتی (375ہجری 459 ہجری) کے فرزند تھے اور خواجہ ابو یوسف ناصر الدین سید ابو نصر محمد سمعان (ہجری 398ہجری) کے فرزند تھے – آپ کی وفات کے بعد آپ کو چشت ہرات کے مقام پر دفنایا گیا۔سلاجقہ کے ظہور (429 ھ) کے ایک سال بعد سید المشائخ خواجہ قظب الدین مودود چشتی پیدا ہوئے، آل سلجوق کی دور تاسیس (485 –ـ 498ھ) انہوں نے اپنی جوانی میں دیکھا جبکہ مسلسل شمشیر زنی سے سلجوقیوں نے ایک عظیم سلطنت قائم کر دی تھی، سلاجقہ کے تیس سالہ دورعروج (455 –ـ 485 ھ) کو اُنہوں نے اپنے عالم شباب سے لے کر 55 سال کی پختہ عمر تک بچشم سر دیکھا، جبکہ الپ ارسلان اورملک شاہ کی بادشاہی اور نظام الملک کی وزارت نے سلجوقی سلطنت کے آفتاب کو نصف النہار تک پہنچادیاتھا، اس کے بعد خواجہ مودود چشتی نے سلجوقیوں کا تیرہ سالہ دور خانہ جنگی (498 –ـ 552ھ) بھی دیکھا، جبکہ ملک شاہ کے بیٹے باہم مصروف پیکار تھے، آخر میں انہوں نے سلجوقی سلطنت کادور زوال 498 ـ– 552ھ) بھی دیکھا، جس میں محمد اور سنجر اپنے خاندان کے رو بہ زوال قوت کو سنبھالتے ہوئے نظر آئے، اس دوران میں سنجر کے 41 سالہ دور حکومت کے ابتدائی 16 سال ہی آپ دیکھ سکےـ (بحوالہ :تاریخ سلاجقہ ۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی)۔خواجہ قطبالدین مودود خواجہ ابو یوسف کی ملاقات شیخ احمد جام ملقب بہ زندہ پیل سے بھی ہوئی تھی ـ خواجہ ابو یوسف چشتی کا وصال 459 ھ میں ہوا تو ان کے بڑے بیٹے خواجہ مودود چشتی ان کے خلیفہ اور جانشین مقرر ہوئے، آپ کے دوسرے بیٹے کا نام شیخ تاج الدین ابوالفتح تھا، خواجہ مودود چشتی نے ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کی۔ قرآن مجید 7 سال کی عمر میں حفظ کیا۔ اپنی تعلیم 16 سال کی عمر میں مکمل کی، آپ 29 برس کی عمر میں سجادہ نشین ہوئے اور خلق اللہ کی ہدایت میں مشغول ہو گئے، خواجہ قطبالدین مودود چشتی مشائخ چشت سے تھے آپ کے مریدوں کی تعداد بے شمار تھی خلفاء کی تعداد دس ہزار بتائی جاتی ہے اور خلفاء خاص کی تعداد ایک ہزار بتا ئی گئی ہے، جو شخص دلی مراد لے کر آ پ کے مزار پر تین روز جائے اس کی مرادیں پوری ہو جاتی ہیں، آپ ہمیشہ فقراء اور مساکین کے ساتھ صحبت پسند کرتے تھے، نیا کپڑا ہر گز نہیں پہنتے تھے – خواجہ قطب الدین مودود چشتی خواجہ معین الدین اجمیری چشتی کے بھی شیخ الشیوخ تھے ۔خواجہ قطب الدین مودودی بن خواجہ ابو یوسف کے خلفاء کی تعداد دس ہزار بتائی جاتی ہے، اس سے آپ کے حلقہ رشد و ہد اہت کا پتہ چلتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ کا سلسلہ دعوت اس قدر وسعت اختیار کر گیا، اس کے اثرات صرف ہرات تک محدود نہ رہے، بلکہ دور دور علاقوں مغرب میں خراسان، عراق، شام اور حجاز تک اور جنوب میں سیستان، بلوچستان اور برصغیر پاک ہند و سندھ تک پہنچے، مغرب میں آپ کے نظریات کی پرچار آپ کے خلفاء نے کی، ان میں خواجہ شریف زندنی، خواجہ عثمان ہارونی، قابل ذکر ہیں، خواجہ قطب الدین مودود بن خواجہ ابو یوسفؒ کی عمر 29 برس کی تھی جب آپکے والد کا انتقال ہوا، آپ نے خرقہ ادارت اپنے والد سے حاصل کی اور اپنے والد کے سچے جانشین ثابت ہوئے، آپ نے کسی امیر یا بادشاہ کے دروازہ پر کبھی قدم نہیں رکھا، آپ ہر شخص کی تعظیم و تکریم کرتے تھے، سلام کرنے میں ہمیشہ پہل کرتے تھے، سادہ زندگی بسر کرتے اور سادہ لباس پہنتے تھے۔‘‘(ویکی پیڈیا؛ آزاد دائرة المعارف )
اس کے بعد ہم سلمیٰ ڈیم کی طرف روانہ ہوئے ۔ افغانستان کی تعمیر نو کے لیے حکومت ہند نے کئی منصوبے شروع کیے ہیں لیکن ان میں سلمی ٰ ڈیم کی اہمیت اپنی جگہ ہے کیونکہ اس ڈیم سے پانی کی فراہمی کے علاوہ بجلی کی پیداوار میں کافی اضافہ ہوا۔ایک سو میٹر اونچا اور ۵۴۰ میٹر چوڑے سلمیٰ ڈیم میں ۴۲ میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے ۔سلمٰی ڈیم حکومت ہند کی جانب سے افغانستان کو ایک تحفہ ہے جو ہندستان اور افغانستان کی دوستی کی علامت ہے ۔اب یہ ڈیم پورے طور پر حکومت افغانستان کےزیر نگرانی ہے ۔ یہاں بھی ہمارے قافلے کا استقبال کیا گیا اور چائے ناشتے سے ضیافت کی گئی ۔اس کے بعد ہم چشت شریف کی جانب واپس ہوئے ۔ یہاں اس قافلے کے لیے گورنر ہرات کے نائب کی جانب سے ظہرانے کا شاندار اہتمام کیا گیا تھا ۔ افغانی طرز کے کھانے اور دسترخوان کے بارے میں سنا تھا لیکن یہاں اس کا مشاہدہ ہوا۔اس کے بعد ایک چھوٹی نشست کا انعقاد ہو ا جس میں چشت شریف کی اہم شخصیات نے حصہ لیا ، انھوں نے انڈین قونصلیٹ کے سامنے کچھ مطالبات بھی رکھے جسے بہت سنجیدگی سے کمار گورو صاحب نے سنا اور یقین دہانی کرائی ۔ آئی آئی پی ایس کے صدر سید اختر حسین نے اپنی تقریر میں ضیافتوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ہند افغان اور بالخصوص اجمیر اور ہرات کے روحانی رشتوں کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور خواہش ظاہر کی یہ سلسلہ جاری رہے اور نئی نسل کو بھی اس جانب مائل کیا جائے کیونکہ امن و شانتی کا موجودہ عہد میں یہی سب سے بہتر راستہ ہے۔
میزبانوں کا شکریہ ادا کر کے ہم شہر ہرات کے لیے روانہ ہوگئے ۔ شام کے چار بجے ہم انڈین قونصلیٹ پہنچ چکے تھے ۔ ہمیں بتایا گیا کہ چھ بجے شام کو تیار رہنا کیونکہ ہرات میں واقع ’’منظر جہاد ‘‘ میوزیم جانا ہے اس کے بعدکھانے کی ایک دعوت میں شریک ہونا ہے ۔ منظر جہاد در اصل روسیوں کی شکست کی کہانی ہے ۔ اس میوزیم میں روسی اسلحے ، ٹینک اور جنگی جہاز جو وہ چھوڑ کر چلے گئے تھے ان کو اس میوزیم میں رکھا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ میوزیم کے اندرونی حصے میں شہدا کی تصاویر کے علاوہ مصوری کے ذریعے افغانستان میں مختلف جنگوں کی تباہ کاریوں کو دیکھا یا گیا ہے۔اس میوزیم کو دیکھنے کے بعد احساس ہوا کہ اس ملک کو کتنی بھیانک تباہ کاریوں سے گزرنا پڑا ہے تاہم یہاں کی زندگی میں وہی زندہ دلی کی رونق موجود ہے ، بے شک یہ اللہ کا کرم ہے ۔اس سے افغانی عوا م کی جفا کشی اور بہادری کا اندازہ لگا یا جاسکتا ہے اور ان کے حالات پر ترس بھی کھایا جاسکتا ہے ۔ اس میوزیم کو دیکھنے کے بعد ہم ایک عجیب سی کیفیت کے شکار ہوگئے ۔ میزبان شاید یہ سمجھ رہے تھے اس لیے انھوں نے جلد ہی ہمیں عشائیہ کے لیے قریب کے ایک پُر رونق ہوٹل میں لیے گئے جو ایک چھوٹی پہاڑی پر واقع ہے ۔’ دسترخوان شیراز ‘ کے بارے میں ہم لوگوں نے سنا تھا مگر یہاں جس انداز سے انواع واقسام کے کھانوں کا اہتمام کیا تھا اسے دیکھ کر حیرت ہوئی اور یہ لگا کہ اتنا کیوں اہتمام کیا گیا ۔ ہم سب لوگ بہت تھکے ماندے تھے اس لیے بہت زیادہ کھانے کی طرف راغب نہیں ہوئے مگر اپنے میزبان کا سب نے دل گہرائیوں سے شکریہ ادا کیا۔ ہندستانیوں کے لیے افغانی عوام کی محبت نے ہمارا دل جیت لیا ۔۴ /ستمبر کو علی الصباح اسی سخت سیکیورٹی میں ہم ائیر پورٹ پہنچے ۔ یہاں بھی ہمیں بہت کچھ نہیں کرنا پڑا ہمارے میزبانوں نے ہمارے سفر کی تمام کاروائیوں کا مکمل کیا اور ہم افغانستان کی محبتوں کو سمیٹے اپنے ملک واپس آگئے ۔
اپنا کوئی رابطہ نمبر دیں مجھے بات کرنی ہے میں اپنی کتاب بلوچستان میں چشتیہ خاندان کا دوسرا ایڈیشن مرتب کر رہا ہوں
ڈاکٹر اکرم خاور کوئٹہ پاکستان
میرا نمبر آ۹۲۳۳۴۳۶۳۳۱۵۴