Home / Book Review / حیرت فرخ آبادی: فن اور فنکار

حیرت فرخ آبادی: فن اور فنکار

نام کتاب: حیرت فرخ آبادی: فن اور فنکار

مرتب: ڈاکٹرہمایوں اشرف
صفحات: 384
قیمت: 400
سن اشاعت: 2015
ناشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ، نئی دہلی
مبصر: امتیاز انجم
ڈاکٹر ہمایوں اشرف صوبہ جھا رکھنڈ کے ممتاز محقق اور ناقد ہیں۔تحقیق، ترتیب اور تنقید ان کا تحریری میدان ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’حیرت فرخ آبادی: فن اور فنکار ‘‘ان کی ترتیب و پیش کش ہے ،جس میں حیرت فرخ آبادی کی حیات و خدمات اور فکر و فن پر مکمل روشنی ڈالی گئی ہے ۔یہ کتاب چھ حصوں پر مشتمل ہے ۔آغاز باب سے پہلے ’’حیرت نامہ‘‘ہے جس میں حیرت کی زندگی کا ما حصل پیش کیا گیا ہے۔ ’’آئینہ حیرت ‘‘کے عنوا ن سے مرتب کا وقیع مقدمہ ہے ۔پہلے حصے میں ’’آئینہ صورتیں بدلتا ہے‘‘کے زیر عنوان حیرت کی حیرت انگیز زندگی پر مشتمل چھ مضامین ہیں۔ جن میں علی منیر کا مضمون ’’نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ‘‘ حیرت کی ادبی زندگی کا بھر پور احاطہ کرتا ہے ۔نیز’’کچھ میرے خاندان اور میرے متعلق ‘‘ کے عنوان سے حیرت کی خود نوشت سوانح ہے،جو نہایت دل چسپ اور حیرت افزا ہے۔ ان دونوں مضامین کے علاوہ مرتب کا حیرت سے ایک طویل مکا لمہ ہے جو بائیس صفحات پر محیط ہے،نہایت بیش قیمت اور معلو مات افزا ہے۔حیرت کی ذہنی و فکری تشکیل کس ماحول میں ہوئی ،اور ان کے پس پشت کون سے عوا مل کا ر فر ما تھے ،ان کی ادبی زندگی کاآغاز کب اور کیسے ہوا،ان سب پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔بالخصوص شاعری کے تعلق سے حیرت کے خیا لات و جذبات اور نظریات کو جاننے کی بھر پور کو شش کی گئی ہے۔ ان کے علاوہ عبدالقیوم ابدالی ، نٹ کھٹ عظیم آبادی اور نصیر افسر کے مضامین بھی حیرت کی زندگی کے نت نئے گوشے وا کرتے ہیں۔
دوسرا حصہ ’’احتساب فکرو فن‘‘ہے۔جس میںحیرت کے فکرو فن کا محاسبہ کیا گیاہے۔اس باب کے تحت مختلف ادیب و دانش ور کے کل 30؍مضامین ہیں، جن سے حیرت کے فکرو فن کے مخفی گوشے مکمل طور سے عیاں ہوجاتے ہیں۔ ان میں پروفیسر قمر رئیس ،پروفیسر وہاب اشرفی،پروفیسر فضل امام،پروفیسر علی احمد فاطمی ،پروفیسر اخترالواسع،اور علیم صبا نویدی وغیرہ کے مضامین کافی اہمیت کے حامل ہیں۔پروفیسر قمر رئیس ’’حیرت فرخ آبادی اور ان کی شاعری ‘‘کے حوالے سے لکھتے ہیں’’حیرت صاحب نہ صرف ایک حساس شاعر ہیںبلکہ کھلے ذہن کے بے باک اور آزاد منش انسان ہیں‘‘۔ اس باب کے تمام مضامین حیرت کی شاعری کے مکمل خد و خال پیش کرتے ہیں ۔ ان تمام تنقیدی اور تجزیاتی مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ حیرت کی شاعری روایت، ترقی پسندی، جدیدیت اور مابعد جدیدیت کا مجموعہ ہے ۔ چناںچہ ڈاکٹر منظر حسین رقم طراز ہیں:ــ’’حیرت کی شاعری کلاسکیت سے شروع ہو کر رومانیت ،ترقی پسندی و جدیدیت اور ما بعد جدیدیت تک کے منازل طے کر چکی ہے جس میں فن بھی ہے ،جذبہ بھی اور فکر بھی‘‘۔
اگلا حصہ ’’نقد پارے‘‘ کے عنوان سے ہے، اس میںڈاکٹر خواجہ اکرام الدین ،ڈاکٹر شمیم صدیقی ،معید رشیدی اور ڈاکٹر حسن نظامی کے تنقیدی و تبصراتی مضامین ہیں۔ جوحس التماس کی اہمیت اجا گر کرتے ہیں۔چوتھا اور پانچواں باب ’’مراسلات‘‘اور’’ خطوط‘‘ پر مشتمل ہے اس کے تحت وارث علوی،شارب ردولوی،شمس الرحمن فاروقی،شمیم حنفی،چندر بھان خیال،محبوب راہی،یوسف ناظم ،ندا فاضلی اور رئوف خیرو غیرہ جیسے مشاہیر ادیب کے نقد پارے،تبصرے ،مراسلات اور خطوط شامل ہیں،جن سے بقول مرتب ’’حیرت صاحب کی شخصیت ،گفتار و کرداراور تخلیقی توانائیوںاور فن پاروں کو سمجھنے سمجھانے میں مدد ملتی ہے‘‘۔
کتاب کا آخری حصہ ’’جمال شاعری ‘‘کے عنوان سے ہے ،جو حیرت کے مجموعہ کلام ’’حس التماس ‘‘پر مشتمل ہے۔
غرض کہ ڈاکٹر ہمایوں اشرف کی یہ کتاب حیرت کی شخصیت اور شاعری پر دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔جس میں حیرت کی زندگی ،فکرو فن اور منتخب کلام سب کچھ ہے،نیز مرتب نے مشاہیر ادیب اور دانش ور کے خطوط ،مراسلات اور نقد پارے شامل کرکے حیرت کی شخصیت اور شاعری کومزید اجاگر کیاہے۔امید ہے کہ یہ کتاب حیرت شناسی کے باب میںبہت اہم رول ادا کرے گی۔دیدہ زیب ٹائٹل پیج اور اس پر حیرت کا مسکراتا ہوا چہرہ قارئین کو دعوت فکر دے رہا ہے کہ:
ــزند گی ایک آئینہ ہے دوست
جیسا تو ہے دکھا ئی دیتا ہے
19ماہی جے این یو نئی دہلی۔9910645177

About admin

Check Also

دینی مدارس پر ایک معروضی نظر

                              …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *