Home / Book Review / ضیائے اردو

ضیائے اردو

نام کتاب:                      ضیائے اردو

مرتبہ               :         صالحہ صدیقی

 مبصر:                          عروج رخسانہ ، ریسرچ اسکالر جامعہ ملیہ اسلامیہ ،دہلی

صفحات             ضخامت 124   قیمت   150روپئے  ،سنہ اشاعت دسمبر   2016،طباعت عمدہ

کتاب ملنے کا پتہ          ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ،نئی دہلی

زیر نظر کتاب ’’ضیائے اردو ‘‘ صالحہ صدیقی کی مرتبہ کردہ کتاب ہے۔اس کتاب میں کل 22مضامین شامل کیے گئے ہیں ۔مضامین کے علاوہ صالحہ صدیقی نے پیش لفظ اور سوانحی کوائف بھی اس کتاب میں لکھا ہے۔یہ کتاب مہر لال سونی ضیاء فتح آبادی کی شخصیت اور فن پر مبنی مضامین کا مجموعہ ہیں جس سے ہمیں انیسویں صدی کے اس اہم شاعر کی زندگی سے متعلق تمام گوشوںکو جاننے کا موقع فراہم ہوتا ہے ،ساتھ ہی ان کی شاعری کے فنی اوصاف سے متعلق بھی بہت سے گوشے عیاں ہوتے ہیں۔صالحہ صدیقی مبارک باد کی مستحق ہے کہ انھوں نے ایک ایسے شاعر کو منظر عام پر لانے کی سعی کی جسے وقت کے پنوں میں کہیں بھلا دیا گیا تھا ۔

اس کتاب میںشامل پیش لفظ بے حد معلوماتی ہیں جس میں مہر لال سونی کی پیدائش تا وفات تک کی زندگی کے ساتھ ان کی شاعری کے اوصاف اور نشیب و فراز کو بھی بڑی خوبصورتی سے قلمبند کیا گیا ہے۔اس کتاب میں شامل مضامین میں ممتازقلم کاروں کے ساتھ نئے قلم کاروں کے مضامین بھی شامل کیے گئے ہیں جس سے ہمیں ضیاء فتح آبادی کو منفرد نظریات سے سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔

اس کتاب سے فراہم معلومات کے مطابق ضیاء فتح آبادی9 فروری (1913)کو پیدا ہوئے ۔ ضیأ فتح آبادی کا اصل نام’’ مہر لال سونی ‘‘ تھا۔سات بھائی بہنوں میں سات بھائی بہنوں کے درمیان تین بہنوں سے چھوٹے اور تین بھائیوں سے بڑے مہر لال نے فورمن کرسچن کالج لاہور سے ۱۹۳۳ میں بی اے (فارسی آنرز) اور ۱۹۳۵ میں ایم اے ( انگریزی ادبیات) سے ڈگری حاصل کی۔۱۹۳۶ میں ملازمت کی ابتدأ Reserve Bank کے معمولی کلرک سے کیں ۔آگے چل کر مختلف عہدوں پر فائز رہے اور بالآخر ۱۹۷۱ میں ڈپٹی چیف افسر کی حیثیت سے ریٹا ئر ہوئے ۔ضیأ صاحب کو شعر و شاعری کا ہنر فطرت نے عطا کیا تھا۔اور وہ ایک ممتاز شاعر و ادیب ہوئے اپنی شعر گوئی کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں کہ ۔

             ’’ شعر گوئی کا مرض خاندان میں دور تک نہ دیکھا ،نہ سُنا،اس لیے جراثیم ساتھ لے کر پیدا ہوا۔‘‘

ان کا اصل نام’’ مہر لال سونی‘‘ تھا ،اور’’ ضیافتح آبادی ‘‘تخلص اختیار کرتے تھے ۔شاعری کے علاوہ ضیاء صاحب نے نثر میں بھی طبع آزمائی کی انھوں نے نثرمیں ’’سورج ڈوب گیا ‘‘ کے عنوان سے ایک افسانوی مجموعہ اور تذکرہ نویسی پر دو کتابیں زکر سیماب اور نرم گرم ہوائیں  اپنی یادگار چھوڑی ،لیکن ضیافتح آبادی بنیادی طور پر شاعر ہی تھے۔ ان کے کل دس شعری مجموعے ہیں جن میں شامل ہیں (۱) طلوع (۲)طلوع مشرق (۳)ضیا کے ۱۰۰ شعر(۴)نئی صبح (۵)گردِ راہ (۶)حسن خیال (۷)دھوپ اور چاندنی (۸)رنگ و نور (۹)سوچ کا سفر(۱۰)اور نرم گرم ہوائیں شامل ہیں۔’’نرم گرم ہوائیں‘‘ ضیأ فتح آبادی کی وفات (۱۹۸۶) کے بعد (۱۹۸۷) میں اردو اکادمی کے مالی تعاون سے شائع ہوئی،جو کہ ۸۷غزلوں ،دو آزاد غزل،اور ۱۴ متفرق اشعار پر مشتمل ہیں۔ضیأ فتح آبادی اپنے ہم عصر شعراؤں میں منفرد مقام رکھتے تھے ،ان کی شاعر ی میں ہر رنگ موجود ہے،ان کی عظمت کا اعتراف ان کے ہم عصر شعراؤں نے بھی کیا بقول

خواجہ احمد فاروقی :

’’ضیاء صاحب کی شخصیت کو ان کے احساس اور وجدان میں تلاش کیا جاسکتا ہے ۔

وہ جذبہ کو موزونیت اور سلیقے سے الفاظ کے پیر ہن میں پیش کر سکتے ہیں ۔لیکن وہ کشتہ ٔ

رومانیت نہیں۔ان کے یہاں شوق کی بے باکی کے ساتھ انسانیت کی حنا بندی کا نرم

نرم احساس بھی ہے ۔ان کے یہاں جذبات کی گھن گرج نہیں ہے نفاست اور نزاکت

ہے ۔اسی لئے ان کے لب و لہجہ میں دل آسائی اور مٹھاس ہے اور ان کی شاعری میں

پر کاری اور ہشیاری سے زیادہ سادگی اور سرشاری ہے ۔‘‘

اس کتاب سے فراہم معلومات کے مطابق ضیاء فتح آبادی نے اردو کی ترقی کے لیے ایک انجمن ’’بزم سیماب ‘‘ کا بھی آغاز کیا جس کے تحت بزرگ شاعروں کے ساتھ ساتھ نوجوان شاعروں کو بھی اس محفل میں پڑنھے اور ان کی اصلاح کا کام بھی کیا جاتا تھا ،تاکہ ان کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ ان کی اصلاح کا کام بھی کیا جاسکے۔آج ان نوجوانوں میں ایک نام سیماب سلطان پوری بھی ہے جن کی شخصیت اردو ادب میں تعارف کی محتاج نہیں ۔

اس کتاب میں شامل مضامین میں ضیاء فتح آبادی کو الگ الگ زاویوں سے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہیں ،مثلا ضیافتح آبادی نے غزل اور نظم کے علاوہ قطعات ،رباعیات،سانیٹ جیسی شعری صنفوں میں بھی طبع آزمائی کی تھی اس کتاب میں شامل مضامین میں ان تمام موضوعات پر تفصیلی روشنی ملتی ہیں ۔اس میں شامل پیش لفظ کے علاوہ نجمہ عثمان ،پروفیسر علی احمد فاطمی ،ڈاکٹر شاہد دلاور شاہ ،ڈاکٹر امتیازوحید ،حسن کاشفی ،نذیر فتح پوری ،ایاز خلیل کے مضامین انتہائی اہم اور معلوماتی ہیں تو کچھ مضامین کے مطالعہ سے تشنگی کا بھی احساس ہوتا ہیں۔لیکن میں یہ ضرور کہونگی کہ یہ کتاب ایک بزرگ شاعر کو دوبارہ منظر عام پر لانے کی قابل تعریف کوشش ہیں جس کاادبی حلقوں میں خیر مقدم کیا جانا چاہیے ،کوئی بھی شئے مکمل نہیں ہوتی لہٰذا کمیوں کو نظر انداز کر آج اس بات کی ضرورت زیادہ ہیں کہ ہم ایسے ممتاز شاعروں کو منظر عام پر لائے اور انھیں نوجوان نسلوں سے متعارف بھی کرائے جس کا سب سے اچھا زریعہ ہے اس طرح کی کتابیں سامنے لائی جائے اور بھولے بسرے پنوں کی ورق گردانی کی جائے ۔شاید تبھی ہم صحیح معنوں میں اپنے ان بزرگوں یا یوں کہا جائے ادب کے پارکھوں کو خراج عقیدت پیش کر پائیں گے ۔امید ہے اس کتاب کا ادبی حلقوں میں خیر مقدم کیا جائے گا اور صالحہ صدیقی کی اس نئی کوشش کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا ۔

About admin

Check Also

دینی مدارس پر ایک معروضی نظر

                              …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *