Home / Book Review / کچھ محفل خوباں کی

کچھ محفل خوباں کی

کچھ محفل خوباں کی

شاعر: ڈاکٹر منصور خوشترؔ

صفحات : 114
قیمت: 200روپئے
ملنے کا پتہ: بک امپوریم ، سبزی باغ ، پٹنہ(بہار)
رابطہ: 9234772764

مبصر: امتیاز انجم

ریسرچ اسکالر ، جواہر لا ل نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی

جو ہے کچھ محفل خوباں کہ اس کا شعری مجموعہ

سلیقہ جس میں اظہار حدیث دل کا دکھلایا

ڈاکٹرمنصور خوشتر نئی نسل کے ابھرتے شاعر اور صحافی ہیں۔بہ یک وقت ادبی و صحافتی منظرنامے پر اپنی شنا خت قائم کرنامعمولی بات نہیں ہے۔تاہم جہاں بھی صحافت اور ادب کا  امتزاج ہوجائے ، وہاں سے ملک وقوم کی فلاح کے دلکش سوتے پھوٹنے لگتے ہیں ۔ صحافت میں ادبی چاشنی گھلنے لگتی ہے اور ادب میں ایسا لچیلا پن اور سادگی آ جاتی ہے کہ اس کی تفہیم آسان ہونے لگتی ہے ۔ اس طرح کبھی شاعری دو آشتہ محسوس ہوتی ہے تو کبھی صحافت ۔ ایسے سخنوروں کا دائرہ وسیع تر ہوجاتا ہے ۔ بالکل یہی حال ڈاکٹر منصور خوشتر کا بھی ہے کہ ان کی شاعری میں زمانے کی دھمک اسی طرح موجود ہے ، جیسی صحافت میں ہوتی ہے ۔ ان کی صحافتی تحریروں میں وہی چاشنی پائی جاتی ہے ، جو ادبی تحریروں کا حصہ ہے ۔

 زیر تبصرہ کتاب’’کچھ محفل خوباں کی‘‘ان کا تازہ ترین پہلا شعری مجموعہ ہے جو اشاعت کے اولین دن سے لے کر اب تک قارئین و ناقدین کا مرکز توجہ بنا ہوا ہے۔ کیوں کہ اس مجموعہ میں جہاں انھوں نے محبت اور عشق وشوریدگی کی لَے میں نغمگی بکھیرنے کی کوشش کی ہے ، وہیں انھوں نے فکرِفردا کی لڑیوں میں تخیل کو پرودیا ہے ۔کبھی وہ زمانہ شناسی کرتے ہیں تو کبھی زبان وبیان کی چاشنی سے اپنے کلام کو پر لطف بنادیتے ہیں ۔

تقریبا 80غزلوں پر مشتمل یہ مجموعہ خوشتر کی تخلیقی صلاحیت کو اجاگر کرتا ہے نیز اس مجموعے میں شامل مناظر عاشق ہرگانوی ،جمال اویسی ،عطا عابدی،سلیم انصاری اور اور احسان ثاقب کے مضامین خوشتر کی شاعری پر بے لاگ تبصرہ ہے۔علاوہ ازیںپروفیسر طرزی کا منظوم خراج عقیدت خوشتر کی تمام تر ادبی ،صحافتی اور سماجی کار گزاریوں پر محیط ہے۔’کچھ محفل خوباں کی ‘ میں شامل تمام غزلیں عام فہم ،سادہ و سلیس زبان میں ہیں تاہم ان میں جو خیالات پیش کیے گئے ہیں وہ جذبہ و احساس سے مملو ہیںجن سے اندازہ ہوتا ہے ان کی شاعری کے ڈانڈے کلاسیکیت سے جا ملے ہیں ۔ان کی شاعری محض قافیہ پیمائی نہیں بلکہ ان کا پورا وجود اس میں شامل ہے۔

 منصور خوشتر کے یہاں روایت کی پاسداری کے ساتھ ساتھ باغیانہ تیور بھی ہے اور ناکا م محبت کامرثیہ بھی۔یہ لہجہ ملاحظہ ہو ـ:

اپنی ناکام محبت کا تو لکھ اے خوشتر

مرثیہ لکھنے کا اک موقع تجھے ہاتھ آیا

٭٭

مسکرا کر اس نے دیکھا ہی تو تھا

دل میںکیوں ہے شورش طوفان کچھ

اس شعر میں خوشتر نے ان احساسات وجذبات کی ترجمانی کی ہے ، جو فقط ذرا سی تبسم سے مچل اٹھے ۔ چاہے ، ان مسکراہٹوں میں خلوص کی پنہائی نہ ہو ۔ سچائی کا شائبہ نہ ہو ۔ ساتھ ہی اس شعر سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ انسانی ذہن ودماغ محبت آشنا ہے اور ہمیشہ محبت آشنا رہے گا بھی ۔ چنانچہ اسے کہیں بھی محبت کا کوئی لمس ملے ، بس وہیں کا ہوجانا اپنا فریضہ تصور کرلیتا ہے ۔ یعنی پھیکی مسکراہٹ میںبھی اسے سچی ہمدردی نظر آتی ہے ۔ سچا پیار اور خلوص کی کشش نظر آتی ہے ۔اس لیے دل کا میلان اس مسکراہٹ کی طر ف ہونے لگتا ہے ۔ اس کی شعریات میں تضاد کی کیفیت نے نغمگی پیدا کردی کہ ایک طرف انسان ، انسانیت کے لہو کا پیاسا ہے ۔ دوسری طرف انسان ، انسان کی مسکراہٹ پر اس قدر دیوانہ کہ اس سے وصال کے لیے بے قراری کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے ۔ برخلاف اس کے ذیل کے شعرمیں شاعر نے زمانہ کی ناہمواریوں اور صداقت وسچائی کی گم ہوتی ڈور کی آئینہ داری کی ہے :

سیکڑوں قتل کیے جس نے وہی منصف ہے

شہر کا تیرے ہے دستور نرالا کیسا

شاعر حساس دل ہوتا ہے ۔ اپنے معاشرہ سے اس کا گہرا رشتہ ہوتا ہے ۔ اس کا کلام سماج کاآئینہ دار ہوتا ہے ۔ منصور خوشتر کا یہ شعر بھی موجودہ عہد سے بالکل آہنگ ہے ۔ جانے پہچانے لفظوں کو انھوں نے وہ شعری جامہ عطا کیا ، جو آج کے ہر انسان کے قلب وذہن کواپیل کرتا ہے ۔ جیسا کہ راقم نے چند سطور قبل بھی کہا کہ خوشتر کی شاعری میں زمانہ کی دھمک ، صحافت کی طرح رچ بس گئی ہے ، اس کی تائید کے لیے مذکورہ شعر بآسانی پیش کیا جاسکتا ہے ۔ کیوں کہ اس میں جہاں صحافت کی ترسیل کی طرح اسلوب سادہ اور پرشکوہ ہے ، وہیں معنویت سے لبریز اور پیش آمدہ معاشرہ کا آئینہ دار بھی۔مذکورہ اشعار میں خوشتر نے اپنے دلی جذبات و کیفیات کابے باکانہ اظہار کیا ہے جو انہیں دیگر شعرا سے ممتاز کرتا ہے۔

موڈرن تہذیب کو بھی انہوں نے موضوع سخن بنا یا ہے ۔ جس سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف روایات کی پاسداری کرتے ہیں ، بلکہ نت نئے تجربات کے سہارے موجودہ دور کے نئے نئے مسائل سے شاعری کو لبریز کرنا چاہتے ہیں :

فیس بک اور ہے ٹیوٹر کا زمانہ آیا

کتنے اقدار جو اعلی تھے وہ ہم سے گزرے

ایک لعنت ہے یہ نئی تہذیب

کاش صحرامیںہی مکاں ہو تا ہے

ان اشعار میں جہاں انھوں نے دبے لفظوں میں دنیا میں ہونے والے انکشافات کی افادیت تسلیم کی ہے ، وہیںجدید ٹکنالوجی کی قباحتیں بھی واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی اشارہ کیا ہے ، نئی ایجادات کے ساتھ بے شمار اعلی قدریں بھی ہم سے رخصت ہوجاتی ہیں ۔

’’منصور خوشتر کی غزلوں میںزندگی اور معاشرہ کو دیکھنے ،سمجھنے اور پرکھنے کا انداز ان کا اپنا ہے۔اور اظہار میں تخیل و تصور اور آدرش سے زیادہ تجربہ،مشاہدہ اور حقیقت کا دخل ہے‘‘۔

 منا ظر عاشق ہرگانوی کا یہ اقتبا س خوشتر کی شاعری کے تمام گوشوں پر محیط ہے۔

خوشتر کے یہاں زندگی کے گوناگوںتجربات ،تلخ مشاہدات اور داخلی کیفیات کا بیان فنکا رانہ طریقے سے ہو ا ہے۔

سڑک پر چلنے والے کو نہیں اتنی سی مہلت

تڑپتی لاش کو بھی دیکھ کر رکتا نہیں ہے

٭٭

کچھ ایسی اب زمانے کی روش ہے

کہ اندر جو بھی ہو ،باہر ہے بدلا

یہ نئی نسل کے نوجوان شاعر کی فکر ہے جس میں گرد و پیش کے حادثات و واقعات کو بہت ہی خوب صورتی کے ساتھ کے پیش کیا گیا ہے ۔ ایک تخلیق کار کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ حساس ہو اور آس پاس کی چیزیں اسے غور و فکر کی دعوت دیتی ہوں،نیز معاشرے کے سفید و سیاہ پر اس کی گہری نظر ہو ۔یہ تمام خوبیا ں منصور خوشتر کے ہاں بدرجہ اتم موجود ہیں۔کیوں کہ کبھی صحافت کی ترچھی آنکھوںسے مسائل کا وہ محاکمہ کرتے ہیں تو کبھی ادب کی دلکش زبان میں حالات کو پیش کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں مسائل کی رنگارنگی ، مٹتی اور گم ہوتی تہذیب کا مرثیہ ، فکرِفکردا اور فہم وادرا ک کی سعی ، ہر جگہ موجود ہے ۔ الغرض دیدہ زیب ٹائٹل پیج کے ساتھ یہ مجموعہ اردو شاعری کا ایک خوب صور ت گلستاں ہے جس میں نوع بہ نوع گل و بلبل موجود ہیں۔امید ہے کہ یہ گلستاں ادب کے خوشہ چینوں کو بے حد پسند آئے گا۔

About admin

Check Also

دینی مدارس پر ایک معروضی نظر

                              …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *