عوامی نمائیندگی حق کون ادا کررہاہے؟
عباس ملک
پاکستان میں حکمران اکثریت جب بھی اس عہدہ جلیلہ پر فائز ہوتی ہے تو اسے اللہ تعالی کی طرف سے ودیعت کردہ نہیں بلکہ اپنا حق گردانتے حاصل کرتے ہیں ۔اس پر مزید یہ کہ اکابرین سلطنت کی سوچ سے ظاہر ہوتا ہے کہ و ہ اسے ذمہ داری نہیں بلکہ عوام پر احسان کرتے ہوئے ادا کرتے ہیں ۔حکمرانوں کے لب و لہجہ سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اگر قوم پر یہ احسان عظیم نہ کیا ہوتا تو قو م اب تک بحیرہ عرب میں غوطہ زن ہوتی ۔آئین بنا نا کس کی ذمہ داری اور اس میں ترمیم کا اختیار کس کو ہے ،کون اس کی تشریح کاحق رکھتا ہے ۔آئین کس لیے اور کن کیلئے بنا یا جاتاہے ۔کیا اس متاثرہ کو اس کی ضرر رسانی پر احتجاج کا بھی ذرا سا استحقاق نہیں ۔ملک کی موجودہ صورتحال میں یہ سوال اہمیت کھو کر پس پر دہ ہو چکے ہیں ۔الطاف حسین نے سچ ہی تو کہا لیکن اس استحصال اور استبداد کے جرم میں کیا ہو برابر کے شریک نہیں ۔ان کی سیاست بلیک میلنگ سے شروع ہو ئی اور بلیک میلنگ پر ہی قائم ہے ۔ انہوں نے خود کو مہاجر کے لاحقے میں مقید رکھ کر پاکستانیت کی ہمیشہ نفی ہی کی ہے ۔انہیں مہاجر کے حقوق کیلئے پاکستانی کا حق اور پاکستانی کو مارنا جائز نظر آتا ہے ۔کراچی کو مہاجر وںکی ملکیت قرار دیکر دیگر پاکستانیوں کیلئے نوگوز ایریا بناکر انہوں نے جس سیاست کی بنیاد رکھی آج اس سبب وہ کراچی میں قدم رنجہ فرمانے سے بھی محروم ہیں ۔ پاکستانی سیاست کے اس کریہہ روپ کو البتہ اپنے منہ سے بیان کر کے وہ خود کو سیاست کا ولی ثابت کرنا شاید چاہتے ہوں۔پاکستان کی سیاست کے تاجدار لیکشن کمپین پر ایک حلقے میں جتنا سرمایہ انوسٹ کرتے ہیں کیا وہ سیلاب زدگان کو دینے کیلئے بھی تیار ہو سکتے ہیں ،مگر کیوں نہیں ۔کروڑوں روپے ایک پارٹی کا امیدوار خرچ کرتا ہے اورایک حلقے میں کتنے ہی امیدورا الیکشن لڑتے ہیں ۔ایک بڑی پارٹی کے ایم این اے جو کہ خو د بھی بہت بڑے کالم نگار ہیں کو فون کر کے غریبوں کے ایک مسلہ کو پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی میں اجاگر کرنے کی درخواست کی تو جواب ملا کہ ابھی تو سیشن آوٹ ہے اس لیے دوبارہ یاد کرائیں ۔غریب پروری اور غریبوں کے ان داتا میاں نواز شریف کے انتہائی ان قریبی صاحب کی اس بات سے اندازہ ہو ا کہ درد صرف تقریروں اور پریس کانفرنسوں تک ہی محدود ہوتا ہے ۔میرے دوست ایم این اے جو کہ مشرف صاحب کی ڈگری شرط کی مہربانی سے سیاست میں کامیاب ہوئے کل اخبار میں ان کی خبر تھی کہ انہوں سیلاب زدگان کیلئے امدادی کیمپ کا دورہ کیا اور پریس کانفرس میں شاباش کے سوا ان کے پاس کچھ سرمایہ نہ تھا ۔قرض لیکر الیکشن لڑا اور آج لینڈ کروز مافیہ بیرے کا مالک ہے لیکن مسجد اور غریب کیلئے آج بھی ہاتھ ا ور دل تنگ ہے ۔ایک بھائی ایم این اے اور دوسرا ایم پی اے لیکن سیلاب زدگان کیلئے شاباش اور پھر دعوی بھی غریب پروری اور غریبوں کے راہنما ہونے کا کیا جاتاہے ۔اس سے زیادہ دکھ کی بات ہے کہ میڈیا نے ان کی اس آمد پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں صحفہ اول پر جگہ دی ۔جمالی صاحب کو قائم علی شاہ کا جواب کہ اب وہ وعزیر اعظم نہیں رواداری اور سینارٹی کے احترام کی زندہ مثال ہے ۔جعلی ڈگریوں کے حامل سیاستدانوں نے کورٹ میں حاضری سے خودکو بری قرار دیکر بھی اعلی روایات کا امین ہونے کا ثبوت فراہم کیا ہے ۔ملک میں وفاق اور صوبو ں کے درمیان تفائل کا عمل خلیج بنگال اور خلیج فارس کے فاصلوں کی نشاندہی کر رہا ہے ۔صوبیدار ملک کے وزیر اعظم کو سینگوں پر اٹھائے ہوئے ہیں ۔وفاق کی اکائیوںکو کمزور بنایا جا چکاہے کہ صوبے خود کو علیحدہ تشخص کا حامل گردانتے ہیں۔ایک قومی تصور کمزور بنایا جا رہا ہے ۔چار قوموں کو ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑا کرنے کیلئے یہ منصوبہ زیر عمل ہے ۔ پاکستان کا مشترکہ نظریہ اور مشترکہ قومی درد کا کانسپٹ concept))مفقود ہو کر پنجابی ،سندھی ،پٹھان اور بلوچ کے شخصی درد میں سمٹ آیا ہے۔کیا ان میں وہی قومی درد کی عکاسی پائی جاتی ہے ۔اگر ان میں وہ درد پایا جاتا تو آج لیڈر شپ کی بے حسی کا یہ عالم نہ ہوتا۔انقلاب فرانس کی نوید یا دستک کے ذمہ دار کون ہیں سیاستدان یا کوئی اور ہے۔سیلاب کی تباہ کاریوں اور دیگر قدرتی آفات سے عبرت حاصل کرنے کی بجائے سیاسی بیانات میں کے زریعے عوامی مقبولیت کے مراحل طے کرنے کی غیر فطری پالیسی کی بجائے اگر عوام خدمت کو شعار بنا یا جائے تو آج ملک اور معاشرے کی ہر گز یہ حالت نہ ہوتی۔ سیاستدان خود اپنی غلطیوں سے غیر جمہوری عمل کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔خود ہی آمریت کو مداخلت کی دعوت بھی دیتے ہیں ۔خوہ ہی اس آمریت کے خلاف عوام سے قربانی کا مطالبہ کرتے ہیںاور اس سے نجات کیلئے تحریکیں بھی مدون کرتے اور خود ہی اس آمریت کا دفاع اور اس کا استقبال بھی کرتے ہیں۔جب اقتدار اور اختیار آمریت سے لیکر جمہوریت کے پاسداروں کے حوالے عوام کرتی ہے تو جمہوریت کے یہ مبلغ غیر جمہوری رویوں کے ساتھ جمہوریت کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیتے ہیں۔کراچی سے لیکر ملک کے دیگرعلاقوں میں عوام کا متشدادنہ رویہ اس بات کا غماز ہے کہ ہم ایک دوسرے کے گلے کاٹنے کیلئے تیار ہیں ۔عوام کو جب حکومت اور حکومتی اداروں کی طرف کوئی بہتر رسپانس نہیں ملتا وہ اپنے فیصلے خود کرنے لگ جاتے ہیں۔سیاسی عمائدین و اکابرین نے زلزلہ زدگان کی بحالی کیلئے کیا اقدامات کیے جو آج قوم ان پراعتبار کرے۔ جب حکومت پر قوم ہی کو اعتبار نہیں تو عالمی برادری سے کیسے توقع رکھی جائے ۔میثاق جمہوریت نامی دستاویز کو پہلے ردی قرار دیکر مسترد کیا گیا اور بعد میں چوم کر آنکھوں کو لگا یا گیا لیکن اس کی ٹھنڈک سے عوام آج تک محروم ہیں ۔سیلاب
کی آفت پاکستان میں آئی لیکن ہمارے صوبیدار اسے اپنے صوبے تک محدود رکھے ہوئے ہیں ۔مجھے دو باقی تو ویسے ہی لٹیرے ہیں ۔یہ وہ سبق ہے جو اس وقت قوم اس گھڑی جب اسے متحد ہونے کی ضرورت ہے نفاق کیلئے دیا جا رہا ہے ۔اس سے قوم کو تقسیم کیا جارہا ہے ۔الطاف حسین ہو یا گیلانی صاحب ہر کوئی اقتدار و اختیار کا کھیل کھیلنا چاہتا ہے خدمت جو سیاست کی بنیاد اور خاصہ ہے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی ۔ملک اور قوم کو خوابوں کی تعبیر کے نزدیک آنے کے اعلانات کی بجائے ایسے اقدامات کی طرف توجہ دینی چاہیے جس سے واقعی ان خوابوں کی تعبیر سچ ہونا ممکن ہو پائے ۔اس کے بعد ہی سیا سی عمائدین خود کو کس حد تک قوم کا راہنما یا اس کے ہمدرد کے روپ میں دیکھا جانا حقیقت کر پائیں گے ۔
Dr. Khwaja Ekram Prof. Dr. Khwaja Mohd Ekramuddin