Home / Socio-political / ؍۱۸ دسمبر عالمی یوم عربی زبان کے موقع پر

؍۱۸ دسمبر عالمی یوم عربی زبان کے موقع پر

؍۱۸ دسمبر عالمی یوم عربی زبان کے موقع پر

عربی محض ایک زبان نہیں، ہماری تہذیب و ثقافت کی ترجمان بھی ہے

                                                                                    ابرار احمد اجراوی

قرآن و حدیث کی زبان عربی ہی وہ زبان ہے جو اپنے فضائل و مناقب اور شیرینی و لطافت کے سبب تمام انسانی زبانو ں میں سر فہرست رکھی جاسکتی ہے۔ پوری دنیا کو اسی زبان نے تہذیب و تمدن کا درس دیا، انھیں وحشیانہ طرز زندگی کے بھنور سے نکال کر ایک متمدن قوم اور ایک متحرک و زندہ انسانی اکائی کے مقام پر لا کھڑا کیا۔ ادب کا اعلی ترین کلاسیکل نمونہ اسی زبان کی گود میںہے۔ ہماری مشترکہ گنگا جمنی تہذیب و ثقافت کی شستہ، شائستہ اور مہذب شکل اسی زبان میں موجود ہے۔عربی تہذیب نے ہی ہمیں ماکولات و ملبوسات کے نفیس انسانی طریقے بتائے، ہمارے رسم و رواج اورتہوار و تقریبات کے رنگ و روپ میں اضافہ کیا۔ ہندستانی سنسکرتی اور ہندستانی علوم و فنون کو پوری دنیا میں عربی نے ہی متعارف کرایا ہے۔طب و کیمیا، معاشیات و اقتصادیات، تجارت و زراعت، تاریخ و ثقافت اورزبان و ادب کے اعلی نمونوں کی ماںیہی عربی زبان ہے۔ اس کے وسیع ذخیرۂ الفاظ سے دنیا کی تمام بڑی بڑی زبانوں کا دامن مالا مال ہے۔ عالمی رابطے کی زبان کے منصب پر فائز انگریزی کے ساتھ ہماری ہندستانی زبانوں نے بھی عربی کے الفاظ اور اس کے نحوی اور صرفی قواعد اور اس کی صوتیات سے خوشہ چینی کی ہے اور اپنی تہی دامنی کو دور کیا ہے۔ ہندستانی زبانوں کی ماں سنسکرت نے بھی اس زبان سے رس کشید کیا ہے۔مشرق و مغرب ہر جگہ اسی عربی کی بادشاہت ہے۔عربی زبان چار سو بائیس ملین عربوں کی قومی اور ایک ہزار ملین مسلمانوں کی مذہبی زبان ہے۔ یہ۲۱؍ ممالک کی پہلی اور پانچ ملکوں کی دوسری سرکاری زبان ہے۔ دنیا کی پہلی زبان ہونے کا شرف عربی کو ہی حاصل ہے، حضرت آدم علیہ السلام کو جنت میں جس زبان میں اسماء کی تعلیم دی گئی تھی، وہ عربی ہی تھی۔اس زبان کے رقباتی پھیلاؤ اور اس کے استعمال میں روز بروزاضافہ کی وجہ سے اس کو اقوام متحدہ کی پانچ دفتری زبانوں میں شامل کرلیا گیا ہے اور ۲۰۱۲ء سے ۱۸؍ دسمبر کو عالمی یوم عربی زبان کا انعقاد کیا جاتا ہے۔

لسانی اعتبار سے بھی عربی دنیا کی سب سے وسیع زبان ہے۔ اس کی وسعت کا حال یہ ہے کہ اس کا کوئی حرف بے معنی نہیں ہے۔ اس کی وسعت کے حوالے سے دنیا کی کوئی زبان اس کا مقابلہ کرنے کے پوزیشن میں نہیں ہے۔ ’’ایک اندازے کے مطابق فرانسیسی زبان صرف ۲۵؍ ہزار الفاظ اور انگریزی ایک لاکھ الفاظ پر مشتمل ہے جب کہ ابن درید کی جمہرۃ اللغہ اور خلیل بن احمد کی العین کے مطابق عربی میں پانچ کروڑ چھ لاکھ انسٹھ ہزار چار سو الفاظ ہیں۔ اور ان میں سے پانچ کروڑ چھ لاکھ بیس ہزار مستعمل ہیں اور باقی مہمل و متروک ہیں۔‘‘(حدیث عرب و عجم، شمس کمال انجم، ص:۳۰، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی ۲۰۱۳ء)

عربی زبان میں ہمارا پورا کلاسیکی سرمایہ موجود ہے۔ اس زبان کے اردو ترجموں کے دریعے ہی ہمیں اپنی تہذیب و ثقافت کے بارے میں جان کاری ملی ، اس زبان کو صرف مسلمان ہی نہیں، بلکہ برادران وطن بھی سیکھتے اور اس میں اپنے مافی الضمیر کا اظہار کرتے تھے۔ برہمو سماج کے بانی اور ہندو سماج کے مصلح راجہ رام موہن رائے عربی اور فارسی کے جید عالم تھے۔جامعہ ازہر کے تعلیم یافتہ اور دہلی یونی ورسٹی کے استاد شو چودھری کو عربی پر عبور حاصل تھا۔آج بھی اس زبان کے غیر مسلم ماہر گرودیال سنگھ مجذوب با حیات ہیں جنھوں نے ہندستانی لٹریچر کا عربی میں ترجمہ کرکے اس کے پیغام اور اثرات کی غیر اردو داں حلقوں میں ترسیل و تفہیم کی ہے۔ اور ۲۰؍ جولائی ۲۰۱۲ء کو روز نامہ ہمارا سماج میں شائع خبر کے مطابق، جنوبی دہلی کے مالویہ اسمبلی حلقے میں ۔۔۔غیر مسلم بھی روزگار کی خاطر عربی سیکھنے میں دلچسپی لے رہے ہیں اور وہ لوگ بھی جو اردو میں بات کرنا اپنی توہین سمجھتے تھے اب بصد خلوص عربی پر توجہ دے رہے ہیں۔جے این یو کے شعبہ عربی میں مسلم طلبہ کے شانہ بشانہ غیر مسلم طلبہ بھی عربی زبان سیکھتے ہیں اور اس میں گریجویشن کرکے عرب ممالک کی ملٹی نیشنل کمپنی اور عربی سفارت خانوں میں ملازمت کرتے ہیں۔ہندستان میںمدارس میں تومضمون کے طور پر عربی زبان پڑھائی ہی جاتی ہے، جامعات اور اسکولوں میں بھی عربی زبان داخل نصاب ہے اور ہندستان کی اکثر یونی ورسٹی میں عربی کے شعبے قائم ہیں۔حکومت کی نوڈل ایجنسی قومی کونسل برائے فروع اردو زبان کے زیر نگرانی پورے ہندستان میں ۲۴۷؍ ایسے سینٹر چل رہے ہیں جہاں ایک سالہ عربی سرٹیفکٹ کورس اور ڈپلومہ کرایا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ اردو جاننے والوں کو عربی سکھانے کے لیے دو سالہ ڈپلوما ان فنکشنل عربک کورس بھی چلایا جارہا ہے جس کے تقریبا ملک بھر میں ۲۲۵؍ سینٹر چل رہے ہیں۔

 غور کیا جائے تو عربی بس اپنی جائے پیدائش کی حد تک غیر ملکی زبان ہے، اس کے استعمال کی شرح ، اس کے پھیلاؤ اور اس کے سیکھنے سکھانے والوں کے تاریخی تسلسل پر نظر دورائی جائے تو اس کو بھی ہندستان میں پرورش پانے والی زبان کا نام دیا جاسکتا ہے۔ عربی زبان سر زمین ہندپر اسی وقت اپنے قدم جماچکی تھی، جب حضرت عمر ؓ کے عہد خلافت میں کئی وفد دعوت وارشاد کے مقصد سے ہندستان آئے تھے۔ دسویں صدی عیسوی کے آغاز میں محمد بن قاسم کی آمد نے ہندستان میں عربی زبان کی جڑیں مزید مستحکم کردی تھیں۔ یہاں تک کہ غزنوی خاندان نے اس کو دفتری زبان کا درجہ دے ڈالا۔اکیسویں صدی میں بھی عربی زبان کا جادو صرف مسلمان ہی نہیں غیر مسلموں کے بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق:’’دہلی میںپریس روڈ اور بالخصوص گاندھی پارک، حوض رانی سے متصل آبادی میں غیر مسلموں کے چائے خانوں، پھلوں کی دکانوں، ٹورسٹ دفاتر، کھانے کے ہوٹلوں اور کیمسٹوں پر عربی کا واضح انداز میں استعمال کیا جانا اور کمروں کے خالی ہونے کی صورت میں (سکنۃ للایجار) جیسے جملوں کا عربی میں تحریر کیا جانا عربی سے روزگار کے جڑے ہونے کی دلیل ہے۔ اتنا ہی نہیں گیسٹ ہاؤس کی طرز پر خالی جگہ اور گھر کے استعمال کی اشیا کا پیغام(مفروشات غرف) وغیرہ کا غیر مسلموں کی دکانوں کے دروازوں پر لکھا ہونا عربی کی ضرورت کو تسلیم کراتا ہے۔‘‘(روز نامہ ہمارا سماج، دہلی ۲۰؍ جولائی ۲۰۱۲ء)

عربی زبان نے ہندستانی تہذیب و ثقافت کے تحفظ اور اس کی ترجمانی کے حوالے سے ماضی میں جو خدمات انجام دی ہیں اس کو نظر انداز کرنا نا ممکن ہے،لیکن افسوس ہے کہ آج اسی پیاری عالمی زبان کو دیس نکالا دینے کی تیاری چل رہی ہے۔ اس کوحالیہ تبدیلی کے مطابق یو پی ایس سی کے نہ صرف نئے پیٹرن سے بے دخل کر دیا گیا ہے، بلکہ اس مہذب اور ترقی یافتہ زبان کے لیے یونی ورسٹی اور اسکولوں کے دروازے بند کرنے کی بھی منصوبہ بندی ہورہی ہے۔ اگر کیرل، جھارکھنڈ، بنگال اور جنوبی ریاستوںکا استثنا کردیا جائے تو اکثر ریاستوں کے اسکولوں سے عربی اور فارسی ناپید ہوتی جارہی ہے۔ ریاست بہار جہاں ہزاروں غیر سرکاری عربی اور دینی مدارس کے ساتھ بہار مدرسہ بورڈ بھی موجود ہے وہاں کے اسکولوں سے عربی کا بالکل صفایا کردیا گیا ہے۔ 2+ کی سطح پر صرف ایک اسکول میں عربی اور فارسی کی تعلیم ہوتی ہے۔ اور وہ بھی صرف ایک ٹیچر کے رحم و کرم پر منحصر ہے۔یو پی ایس سی اور اسکولوں سے عربی جیسی کلاسیکل اور ثروت مند زبان کو نکالنے کی پشت پر وہی فرقہ وارانہ سازش کام کر رہی ہے کہ مسلمانوں پر معاش اور روز گار کے ذرائع کو بند کردیا جائے۔ جو طلبۂ مدارس عربی زبان کے سہارے سول سروسز کے امتحانات پاس کرکے یہاں کے اعلی انتظامی عہدوں پر فائز ہونا چاہتے ہیں، ان کی کامیابی کا خوف ہمارے متشدد اور متعصب حکمرانوں کے دل و دماغ پر سوار ہے۔ جیسا کہ راجیہ سبھا کے ممبر محمد ادیب نے عالمی سہارا نیوز چینل کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہاہے:

’’در اصل جب مدارس کے بچے سول سروسز کے لیے کامیاب ہونے لگے تو سول سروسز کے امتحان سے عربی فارسی کو ہٹا لیا گیا، جب کہ یہی دونوں زبانیں ہیں جس نے ہندستان کا تعارف کرایا اور ہندو ازم کا بھی تعارف کرایا۔ ان دونوں زبانوں میں جب تاریخ کا ترجمہ ہوا تو لوگوں نے جانا کہ ہندوستان عظیم ملک ہے اور اسی کے ذریعے گیتا اور مہا بھارت کو بھی لوگوں نے جانا۔‘‘(شائع کردہ راشٹریہ سہارا، ۳۰؍ ستمبر ۲۰۱۳ء)

 آخر ہماری مرکزی اور ریاستی حکومت کن عناصر کے چشم و ابرو کے اشاروں پر کام کر رہی ہے۔ اگر اس کو عربی زبان سے اتنی ہی نفرت ہے تو اس کواپنی مقامی زبانوں اور تہذیب و ثقافت کا وہ تمام سرمایہ بھی واپس کردینا چاہیے جو اس نے عربی زبان اور عربی تہذیب سے اخذ کیے ہیں۔ہمیں فورٹ ولیم کالج، دہلی کالج، دار الترجمہ عثمانیہ اور قومی کونسل وعیرہ کے زیر نگرانی ہونے والے مختلف علوم و فنون:طب، کیمیا، زراعت پر مبنی عربی کے ترجموں سے بھی استفادہ نہیں کرنا چاہیے۔ آخر ہماری ہندی اور سنسکرت نے بھی تو الفاظ اور معانی کی سطح پر اس کا اثر قبول کیا ہے۔ ہم نے تہذیب و ثقافت کی خوشبو بھی عربی سے ادھار لی ہے۔ بلکہ ہمیں خلیجی ممالک سے اپنے سیاسی اور تجارتی تعلقات پر بھی نظر ثانی کرنی چاہیے، جہاں سے ہم گیس کے ساتھ پٹرول اوردوسری مصنوعات بھی در آمد کرتے ہیں اور جہاں سے ہمیں ہندستانی مزدور اور ملازمین ریال، درہم اور دینار کی شکل میں فارن کرنسی بھیجتے ہیں۔ ہماری حکومت کارویہ بھی عجب تضادات کا شکارہے کہ ایک طرف تو وہ عربی اور فارسی کو ہندستان سے روانگی کا پروانہ تھمانے کی پالیسی بنا رہی ہے اور دوسری طرف لکھنو میں خواجہ معین الدین چشتی عربی فارسی یونی ورسٹی قائم ہورہی ہے۔ اس سے پہلے سے ہی بائیس سے زیادہ یونی ورسٹیاں عربی زبان کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہیں۔ ملک بھر میں تقریبا ۲۵؍ شعبے اس زبان کی تدریس میں مصروف ہیں۔ اگر اس زبان کی اہمیت کا احساس نہ ہوتا تو ہمارے صدر جمہوریہ ہر سال سنسکرت کے ساتھ عربی کے ممتاز اساتذہ کو اس زبان میں خدمات کے لیے ایوارڈ اور اعزاز سے نہیں نوازتے۔

ہمارے پالیسی سازوں نے عربی زبان کو بے دخل کرنے سے پہلے اس حقیقت کو کیوں نظر انداز کردیا کہ آج اس زبان کی معاشی اور تجارتی دنیا میں بھی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ عربی زبان ہمیں عرب ممالک اور مشرق وسطی سے مربوط رکھتی ہے جو عالمی سیاسی منظر نامے پر مستحکم شناخت کے حامل ہیں۔پٹرول ، گیس اور دوسری قدرتی اشیاء کی پیداوار صرف عرب ملکوں میں ہوتی ہے، جس کے لین دین کے لیے عربی زبان میں بہترین مترجم اور معاہدہ کار کی ضرورت پڑتی ہے، یہ کام ایک اچھا عربی داں ہی انجام دے سکتاہے۔کیا انھیں یہ معلوم نہیں کہ عربی زبان صرف قرآن و حدیث اور مذہب کی زبان نہیں، بلکہ وہ آج صنعت و حرفت اور تجارت و زراعت کی زبان بھی بن گئی ہے۔ بڑے بڑے تجارتی اور سیاسی ڈیل اس زبان میں انجام پاتے ہیں۔ہندستان کے بہت سے علاقوں میں عربی کا چلن بہت زیادہ ہے۔ مثال کے طور جنوب میں واقع ریاستوں خصوصا کیرل کا نام لیا جاسکتا ہے، جہاں کے لوگ نہ صرف یہ کہ سادہ اور سلیس عربی زبان بولتے ہیں، بلکہ ان کا طرز حیات بھی بہت حد تک عربوں سے ملتا جلتا ہے۔ وہاں کی مقامی زبانوں پر بھی عربی نے اپنے دور رس اثرات مرتب کیے ہیں۔  کیرل کے مسلمان تو عید اور بقر عید کے اسلامی تہوار بھی عربوں کے ساتھ ہی مناتے ہیں۔ ہندستان کی ہزاروں لائبریریوں میں عربی زبان میں ایسی کتابیں موجود ہیں جو ہماری تہدیب و ثقافت کا شان دار حوالہ ہیں۔طب قدیم کے بے مثال اور قیمتی نسخے عربی زبان میں ہی ملتے ہیں۔

سرکاری اداروں اوریوپی ایس سے عربی زبان کو نکالنے کی وجہ سے ہندستان میں اس کا دائرہ سکرتا اور سمٹتا جارہا ہے۔ عربی کا مستقبل موہوم لگتا ہے۔ عربی سبجیکٹ رکھنے والے طلبہ سراسیمہ اور خوف زدہ ہیں۔ بہت سے فارغین مدارس اور عربی زبان کے شیدائی عربی میں بی اے، ایم اے اور اعلی تعلیم کے حصول کی راہ  پر چلنے سے دانستہ طور پرکترا رہے ہیں۔ کیوں کہ جس زبان میں وہ ملک کے اعلی ترین امتحان میں شریک ہی نہیں ہوسکتے،جس کے لیے اسکولوں کے دروازے بند کردیے جائیں، اس میں آخرگریجویشن ، ڈپلومہ اور ایم فل پی ایچ ڈی کرنے سے کیا فائدہ ہوگا۔ عربی زبان کو یو پی ایس سی سے بے دخل کرنے کی وجہ سے پورا مدہبی حلقہ اور طلبہ طبقہ سراپا احتجاج بنا ہوا ہے۔ دہلی سے لے کر بہار تک میں احتجاج ہوا، طلبہ تنظیموں نے پارلیمنٹ اور جنتر منتر پردھرنا دیا، لیکن ان کی ایک نہ سنی گئی۔ جس وقت حکومت نے مقامی زبانوں کے ساتھ اردو زبان کو یو پی ایس سے نکالا تھا، اس وقت بھی پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے باہر سخت احتجاج ہوا تھا جس کے سامنے حکومت نے گھٹنے ٹیکتے ہوئے یہ فیصلہ واپس لے لیا تھا۔ عربی کے حوالے سے بھی حکومت کو ملک میں ہونے والے احتجاج اور مظاہروں کی نوعیت اور شدت پر کان دھرنا چاہیے اور اس فیصلے کو کالعدم قرار دینا چاہیے، تاکہ عربی زبان کی آڑ میں ہندستان کا ایک مخصوص اقلیتی طبقہ متأثر نہ ہو۔ اور عصری اداروں کے ڈگری یافتہ طلبہ کے ساتھ دینی مدارس کے طلبہ بھی اس میڈیم کے سہارے یو پی ایس سی جیسے باوقار امتحان میں کامیابی حاصل کرکے ملک اور قوم کی نمائندگی کے لیے آگے آسکیں۔ علماء اور دانش وران ملک و ملت کے ساتھ ہماری مسلم تنظیموں کو بھی ریزولوشن اور قرار دادوں کے ذریعے اس فیصلے کو واپس لینے کے لیے پریشر بنا ہوگا، صرف سیاسی نعرہ بازی اور ممبر و محراب سے چیخنے اور چلانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ہندستانی حکومت بہت سے معاملات میں من مانی اور من چاہی والا رویہ اپناتی ہے۔ شیدائیان عربی کا یہ خدشہ بجا ہے کہ آج اس عالمی زبان کو یو پی ایس سی سے نکالا گیا ہے، ہو نہ ہو کل تمام درس گاہوں سے ہی اس کو نکال دیا جائے۔ حکومت کے موجودہ مدارس دشمن اور مسلم مخالف رویے سے اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔

مووجدہ عہد گلوبلائزیشن کا عہد ہے۔ پوری دنیا ایک گلوبل ولیج میں تبدیل ہوگئی ہے۔ ایسے میں زبانوں کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ عربی زبان کے ذریعے ہم عربی بولنے والے ممالک سے اپنا سیاسی اور تجارتی رشتہ استورا کرسکتے ہیں۔ حکومت ہند نے عربی کومقابلہ جاتی امتحانات یو پی ایس سی سے نکال کر کوئی دانش مندانہ فیصلہ نہیں کیا ہے۔ متعلقہ وزارتوں اور یو پی ایس سی کو اس بات کا پابند بنانا چاہیے کہ وہ ماقبل کی طرح ہی مستقبل میں بھی اس کو اختیاری زبانوں کی فہرست میں شامل رکھے۔ کیوں کہ عربی کے اخراج سے ملک کی بیس کروڑ سے زائد آبادی کے متأثر ہونے کا شدید امکان ہے۔ ٭٭٭

ABRAR AHMAD

ROOM NO 21, LOHIT HOSTEL

JNU NEW DELHI 110067

Mob:8651708079

Email:abrarahmadijravig@mail.com

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *