سمیع اللہ ملک،لندن
آتی ہے مقتل سے صدا چپ نہ رہو
آج پھرکشمیریوں سے یکجہتی کا دن منایاجارہا ہے اورقارئین اسی موضوع پر کوئی تحریر پڑھنے کی امید رکھتے ہونگے لیکن تحریر، ہاں کیا ہر واقعہ تحریر کیا جاسکتا ہے؟ شاید۔ ہو سکتا ہے خود پر تھوڑا سا جبر کریں، خود کو جمع کریں تو آپ لکھ لیں گے۔
!لیکن کیاہربات لکھی جاسکتی ہے؟خوشی کوتولکھاجاسکتاہے۔ اورغم کو…
!دکھ توتحریرہوسکتاہےاوردرد۔۔۔۔۔۔۔
!!آنسوئوںکوکیسےلکھاجاسکتاہے۔ کرب کوکیسےلکھیں…اضطراب کو،بےکلی کو،بےحسی کو،اناکوتحریر میں کیسےسموئیں
لفظ وہی ہوتے ہیں، قلم وہی ہوتا ہے ، صفحات وہی ہوتے ہیں… سب کچھ وہی ہوتا ہے ۔ لیکن آپ بے دست و پا ہوتے ہیں۔ رحمت کو تو بیان کیا جا سکتا ہے، تحریر کیا جا سکتا ہے۔ نحوست کو کیسے پابند تحریر کیا جا سکتا ہے ! اداسی کو تحریر کر سکتے ہیں آپ؟ کچھ نہیں کر سکتے ہم۔ فیض صاحب نے تو کہا ہے ” جو دل پہ گزرتی ہے سو گزرتی ہے، اسے بیان کیسے کریں! میرے لیے یہ ممکن نہیں۔ نہیں مجھے یہ ہنر نہیں آتا۔ اور مجھے یہ سیکھنا بھی نہیں ہے ۔ ضروری تو نہیں ہے مجھے سب کچھ آتا ہو۔ نہیں ‘میں نہیں لکھ سکتا دل کو، اداسی کو، بے کلی کو، اضطراب کو… بالکل نہیں لکھ سکتا۔ آنسوئوںکو کیسے تحریر کروں؟ بتائیے آپ؟ اگر آپ تحریر کر سکتے ہیں تو ضرور کیجئے۔کالم کی تحسین میں کئی ایسی تحریریں ملتی ہیں کہ جن کے الفاظ چیخ چیخ کر آسمان کو بھی خوں کے آنسو رلا دیتے ہیں۔ان بہت سی تحریروں میں صرف ایک تحریر کے چند حصے آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:
کئی ماہ پہلے ہفتہ وار ”رہبر” میں آپ کا پہلا کالم شائع ہوا تومیری شدید خواہش تھی کہ آپ کے کالم تو کشمیر کے تمام اخبارات کی زینت بننے کے لائق ہیں کیونکہ آپ کے کالم کیلئے ہفتہ بھر انتظار کرنا دشوار محسوس ہوتا تھا ۔اللہ کا شکر ہے کہ اب ہم سب کی دعائیں رب العزت نے قبول فرمائیں اوراب کشمیر کے بڑے اخبارات میں تقریباً روزانہ کوئی نہ کوئی کالم آپ کا پڑھنے کو مل جاتا ہے۔
پرانی روایات سے پتہ چلتا ہے کہ کسی شاعر کی مقبولیت کا اندازہ لگانا ہو تو دیکھا جاتا تھاکہ اس شہر کے مانگنے والے کتنے فقیراورخوش گلوگانے والیاں اس کلام کو ترنم کے ساتھ پڑھتے ہیں لیکن اب اس دور میں سیاسی تجزیہ نگاروں کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے کیلئے کسی سرو ے کی ضرورت اس لئے باقی نہیں رہتی کہ کالج و یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلباء ‘ وکلاء کے علاوہ شکارے کے ملاح بھی بڑی محبت سے آپ کے کالم کا تذکرہ کرتے ہیں۔
پچھلی چھ دہائیوں سے صنم کے پنجروں سے اس قدر مانوس ہو گئے ہیںکہ پہاڑوں میں رہنے والے عقاب اپنی پرواز سے نا آشنا ہو گئے ہیں لیکن جذبہ حریت کی غیرت و حرمت کو جب ٹھیس پہنچتی ہے تو اقبال کے ان شاہینوں کو دوبارہ چٹانوں کی چوٹیوں میں اپنے آشیانے یاد آتے ہیں۔آپ کے کالم پڑھ کران شاہینوں نے دوبارہ پھڑپھڑانا شروع کردیا ہے اوران شاہینوں کو پھر سے اپنی کھوئی ہوئی منزل سامنے نظر آنا شروع ہو جاتی ہے۔آپ کے کالم میں مستور پیغام کی ہرکوئی تشریح اپنے انداز میں کرنے کی کوشش کرتا ہے اور بعض اوقات کلاس روم میں اس دلچسپ بحث میں اساتذہ کو بھی مجبوریوں کا دامن بھلا کراپنے خیالات کا اظہار کرنا پڑتا ہے۔آجکل انٹرنیٹ کی پابندیوں کےباوجودسچ کاوجودزیادہ دیرتک چھپانہیں رہتا……..
بعض اوقات پاکستان کے کچھ بھائیوں کے کے خیالات پڑھ کر کوفت ہوتی ہے ۔کیا اب تک اسی ہزار سے زائدجانوں کا نذرانہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ کشمیری اب بھی آپ سے کس قدر محبت کرتے ہیں۔ ہماری محبت کو تو یہ عالم ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہوئی تو سارے کشمیر میں اس کا سوگ منایا گیا اور سارے کشمیر میں ہڑتال ہوئی اور جب ضیاء الحق کو شہید کردیاگیا توکئی دن گھروں میں چولہا نہیں جلا(یہاں کسی فرد سے محبت کا اظہار مقصود نہیں بلکہ پاکستان سے ہر معاملے سے اپنی محبت کا اظہار مقصود ہوتا ہے) ۔جب بھی پاکستانی کرکٹ ٹیم کا مقابلہ بھارت کی ٹیم سے ہوتا ہے تو پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی فتح کیلئے سب سے زیادہ دعائیں کشمیر میں ہی مانگی جاتی ہیں اور پاکستان کی فتح پر کشمیر کے ہر گھر سے پاکستانی جھنڈا اٹھائے ہوئے سب مائیں بہنیں اس کا جشن مناتی ہیں۔
ہمیں اپنے شہداء کے قبرستانوں پر بڑا فخر ہے اورہر” نامعلوم شہید” کے کتبے پر” محمد بن قاسم”کا نام کندہ کردیا جاتا ہے ۔ان شہداء میں اکثریت ان جانبازوں کی ہے جو اپنی بہنوں اورماؤں کی عصمتوں کی حفاظت کیلئے قربان ہو گئے اورکشمیری مائیں اپنے بچوں کو ان کے نام کی لوریاں سناتی ہیںاورہر اسلامی تہوار پر ان شہداء کے مزارات پرکشمیری مائیں اپنے خونِ دل سے چراغ روش کرتی ہیں اور اپنے آنسوؤں کے پھولوں سے ان مزارات کو منور کرتی ہیں کیونکہ یہ وہ شاہین تھے جو کوہستانی مردوں کو نیند سے بیدار کرنے آئے تھے اور ہم روزِ قیامت بھی ان کے احسانات کی گواہی دیں گے ………..میں شائد کچھ زیادہ جذباتی ہو گئی ہوںکیونکہ میں بھی اک ماں ہوںاور مجھے ان ماؤں کی کوکھ پر ناز ہے جہاں انہوں نے جنم لیا۔
آپ کے کئی کالم دلوں کو اس قدر چھوجاتے ہیں کہ ہفتوں ان کا درداورکسک دل میں رہتاہے۔کچھ ماہ پہلے آپ نے اپنے کالم میں ڈاکٹر کشورکی پاکستان ہجرت کی جو داستان تحریر کی اس نے مجھے کئی دن بے حال رکھالیکن میرے بھائی اب تو ایسی داستانیںآپ کو کشمیر کے گلی کوچوں میں عام ملیں گی اورشادی و بیاہ اوردوسری تقریبات میں ہم اپنے ان اعزازات کو شمارکرکے حساب لگاتے ہیںکہ اس دفعہ بازی کس کے ہاتھ رہی۔میں بہت زیادہ لکھ گئی ہوں ویسے بھی بہنیں اپنے بھائیوں کو ہی دل کے زخمدکھاتیہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
…….!”اللہآپکیحفاظتفرمائےاورآپاسیطرحکالملکھتےرہیںاورہمارےدلوںکیجوتجگاتےرہیں۔آخرمیںآپہیکاایکجملہ”رہےناممیرےربکا
..!آپکیایکدعاگوگمنامبہن
میری بہن!سونے میں تولنے کے لائق ہے آپ کی یہ تحریراورمیں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جس قوم اور نسل میں آپ جیسی مائیں ہوں ان کو غلام بنائے رکھنا اب کسی کے بس میں نہیں۔روس کو بھی اپنی طاقت کا بہت گمان تھا لیکن جب آپ جیسی ماؤں سے واسطہ پڑا تو اب کئی حصوں میں بٹ گیا۔اب امریکا اور اس کے تمام اتحادی بھی اپنی جان بچانے کیلئے سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں کہ کسی طرح ا س کمبل سے جان چھوٹ جائے !پھرآپ کوغلام بنانے والی طاقت توان سامرجی قوتوں کے مقابلے میں انتہائی کمزور ہے وہ بھلا کس طرح آپ کے جذبۂ حریت کے سامنے ٹھہر سکتی ہے؟
اس پیغام کے موصول ہونے کے بعدمجھے انسانی حقوق کے چیمپئن بہت یاد آئے اورجبہ ودستار والے بھی۔ ہاں وہ بھی۔ کیا ہم سب حکمرانوں کامحاصرہ کرکے انہیں اپنی کشمیری مجبور و مقہور بہنوں کا یہ پیغام نہیں پہنچا سکتے؟ لیکن ہم اپنے راحت کدوں میں بیٹھ کر یہ سب کچھ دیکھ رہے ‘انسانی حقوق کے چیمئپن بھی اور جُبّہ و دستار والے بھی’ہاں میں بھی….!کیاسال میں ایک دفعہ یکجہتی کشمیرکادن منانے سے کشمیریوں کے زخم مندمل ہوجائیں گے اورکیا اس سے کشمیرآزادہوجائے گا؟؟ ہم پہلے بھی سب کے سب زبانی جمع خرچ کرتے رہے بلکہ وہ جسے اس کا بالکل اختیار نہیں تھا کشمیر کی تقسیم کے کئی منصوبے اپنی طرف سے پیش کرتا رہا اور موجودہ حکومت نے تو سرے سے کشمیر کا نام لینا بھی ترک کردیا ہے۔ان کیلئے تو سب سے بڑا مسئلہ قوم کی لوٹی ہوئی دولت کو محفوظ کرنا ہے چاہے اس کیلئے ملک میں کو داؤ پر لگانا پڑجائے۔
نجانے اس موقع پرمجھے وہ لڑکی ”راچل کوری”کیوں یاد آئی ہے۔ جب فلسطینیوں کے گھر بلڈوز کرنے کے لیے اسرائیلی فوج آگے بڑھی تو اس امریکی لڑکی نے ان کا راستہ روکا تھا: ” نہیں تم نہیں گرا سکتے ان کے گھر ”… اور پھر ہوا کیا تھا، جانتے ہیں آپ؟ جی، اس لڑکی پرسے بلڈوزر گزار دیا گیا تھا۔ آپ کچھ نہ کر سکے۔لیکن قربانی کہاں رائیگاں جاتی ہے۔میری کشمیری بہن کے اس پیغام نے مجھے ایک امتحان میں مبتلا کردیا ہے۔ نتیجہ تو بعد میں نکلے گا۔ کیا ؟ میں نہیں جانتا۔ بس میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ میں نے کیا کیا اور ان کا نتیجہ کیانکلے گا؟ہاں دعا کروں میں … لیکن کس منہ سے دعا کروں؟ کیسے اپنے رب کا سامنا کروں؟
اک نئی کربلا میرے سامنے بپا ہوئی۔ بچے اور بچیاں تہہ تیغ کئے جا رہے ہیں ۔ آپ کہاں ہیں اور کیا کہتے ہیں ؟معصوم بچوں اور بچیوں کی چیخیں مجھے جینے نہیں دیں گی۔ میرا سینہ شق ہو جائے گا۔ میں کچھ نہیں کر سکا۔ ہاں مجھے زندگی پیاری ہے… ہاں میں سانس کی آمدورفت کو زندگی سمجھتا ہوں… ہاں میں نے ذلت و رسوائی کی زندگی قبول کرلی ہے … ہاں میں موت سے بہت ڈرتا ہوں… ہاں میں نے اپنا رب بدل لیا ہے… ہاں میں عزت و ذلت کا مالک انہیں سمجھتا ہوں جن کے ہاتھ میں بے حس بندوقیں ہیں۔ شعلہ اگلتی ہوئی بندوقیں۔ میں انہیں زندگی اور موت کا مالک سمجھتا ہوں جن کے ٹینکوں کی گڑگڑاہٹ سے دل دہل جاتا ہے۔ ہاں وہی ہیں میرے مالک… آپ کے متعلق کیسے کہہ سکتا ہوں! آپ جانیں اور آپ کا کام۔میں نے کشمیر کے مقتل سے ایک مجبورومقہور بہن کی صدا کا کچھ حصہ آپ کے گوش گزار کردیا ہے۔
حق و باطل کا وہی معرکۂ عہد ِ قدیم
گرم دنیا میں بہ اندازِ جدید آج بھی ہے
فرق یہ ہے کہ کہ نہیں عزمِ حسینی ورنہ
کربلا آج بھی ہے، روحِ یزید آج بھی ہے