Home / Socio-political / آخریہ مذاق کب ختم ہوگا؟

آخریہ مذاق کب ختم ہوگا؟

سمیع اللہ ملک

لندن

آخریہ مذاق کب ختم ہوگا؟

 

اچھاکیا کہ سپریم کورٹ نے زرداری رجیم کو این آراونظرثانی درخواست میں مکمل تیاری کےلئے مزیدچند ہفتوں کی مہلت عنائت کردی۔ زرداری رجیم کی طرف سے ان کے مقررکردہ نئے وکیل سابقہ اٹارنی جنرل لظیف کھوسہ جن کواسی عدالت سے ایک مقدمے میں رشوت لینے پرجب رخصت کردیاگیاتوان کو فوری طورپر وزیراعظم کامشیرمقررکردیا گیا تھا‘زرداری رجیم کے خلاف این آراومقدمے میں وکیل صفائی مقررکئے گئے ہیں۔ اسی مقدمے میں کمال اظفرکووزیراعظم کا مشیرمقررکرنے اپرمزیدوقت کی حکومت کی درخواست دودن پہلے تین رکنی بنچ جس کے سربراہ خود افتخارچوہدری تھے‘ مستردکرتے ہوئے ایک تفصیلی فیصلہ بھی صادر فرمایاتھاجس کی تفصیلات پچھلے کالم میں آچکی ہیں۔اس درخواست کے سماعت کے آغازمیں ہی سپریم کورٹ کے سترہ رکنی لارجربنچ نے زرداری صاحب کی طرف سے نیب کے چیئرمین کی تقرری کاسختی سے نوٹس لیتے ہوئے اس کوسپریم کورٹ کے احکام کی خلاف ورزی قراردیتے ہوئے مستردکردیااورنیب کے چیئرمین کے بیان کوبھی قبول کرنے سے انکارکردیا۔ گویا زرداری رجیم اپنے مقدمات کی صفائی پیش کرنے سے قبل ہی ایک اورقانون شکنی ‘فاش غلطی اورتوہین عدالت کی مرتکب ٹھہری ہے۔

سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل اورزرداری صاحب کے وکیل کی توجہ اپنے ۶۱نومبر۹۰۰۲ءکے فیصلے کی طرف مبذول کروائی جس میں تفصیل کے ساتھ حکومت کو اس بات کا پابند کیا گیا تھا کہ” نیب کاسربراہ غیرجانبداراورایماندارہوناچاہیے‘اس کی تعیناتی نیب آرڈیننس شق۶بی کے تحت اورسپریم کورٹ اسفندیارکیس کے تحت ہوگی‘پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے سربراہ اورسپریم کورٹ کے مشورے کے ساتھ اس کی تعیناتی ہونی چاہئے “۔ نہ تواپوزیشن کے سربراہ سے کوئی مشورہ کیاگیااورسپریم کورٹ کوتوبالکل ہی لاعلم رکھاگیاگویا سپریم کورٹ کے احکام کوبالکل نظراندازکرتے ہوئے زرداری صاحب نیب کے نئے چیئرمین سیددیدارحسین شاہ کونیب کاچیئرمین مقررکرکے توہینِ عدالت کے مرتکب ہوگئے ہیں۔لگتایوں ہے کہ حکومت مزید ایک گہر ی قانونی دلدل میں پھنس گئی ہے اورمستقبل میں سنگین مسئلے سے دوچارہونے والی ہے۔اس کو سمجھنے کےلئے ہمیں عدلیہ کے۶۱نومبر۹۰۰۲ءکے جواب میں ۰۲جنوری ۰۱۰۲ءکے لارجربنچ کے تفصیلی فیصلے کوضروردیکھنا ہوگا جس میں واضح طورپریہ حکم دیا گیا ہے کہ :

”چیئرمین نیب‘پراسیکوٹرجنرل نیب اورایڈیشنل پراسیکوٹر جنرل نیب‘جناب عبدالبصیرقریشی کی جانب سے اس کیس میں درست اورپرخلوص تعاون کی کمی اوران کے طرزِ عمل پرکورٹ اپنی ناپسندیدگی کااظہارکرتی ہے‘اسی لئے کورٹ کےلئے یہ ممکن نہیں کہ متعلقہ مقدمات کے سلسلے میں ان افرادپراعتمادکیاجائے ‘اسی وجہ سے سے یہ تجویزدی جاتی ہے کہ نیب کے ان اہم عہدوں پروفاقی حکومت کی جانب سے قومی احتساب آرڈیننس ۹۹۹۱ءکی شق۶اورخان اسفندیارولی کے کیس SC۱۔۰۰۲۔PLD (۷۰۶)میں کئے گئے مشاہدات کی بنیاد پرنئی تقرریاں کی جائیں“۔قومی احتساب کی جوشق۶ ہے اس میں کہاگیا ہے کہ صدرمملکت اسمبلی میں قائدایوان ‘قائدحزبِ اختلاف کے مشورے سے چیئرمین نیب کی تقرری ناقابل توسیع چارسال کی مدت کےلئے کریں گے۔اب یہ ثابت ہوگیا ہے کہ اس تقرری میںچوہدری نثارکی کوئی ٹھوس تجاویز شامل نہیںاورصدرِمملکت نے اکیلے یہ فیصلہ کیاہے۔

سپریم کورٹ نے ۵۲اپریل ۱۰۰۲ءکواسفندیارفیصلہ میںبڑی وضاحت کے ساتھ یہ تحریرکیاہے کہ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ نے نیب آرڈیننس کے اجراءکے فوری بعداس کے خلاف درخواست دی جس کا فیصلہ اس وقت کے چیف جسٹس ارشادحسن خان کی سربراہی میںجسٹس محمدبشیرجہانگیری‘ جسٹس محمدعارف اورجسٹس قاضی محمدفاروق پرمشتمل چاررکنی بنچ نے کیا‘اس عدالت نے اپنے فیصلے میں کہاکہ ”چیئرمین نیب سے متعلق اس آرڈیننس کا”سیکشن۶کاکلازبے ایک“آئین سے متصادم ہے اورادارے کی خودمختاری کے تصور کے بھی خلاف ہے۔ سیکشن۶میں مندرجہ ذیل ترامیم کے احکامات دیئے جاتے ہیں:

a:چیئرمین کی تقرری صدرمملکت چیف جسٹس آف پاکستان کی مشاورت سے کریں گے ۔

b:چیئرمین نیب اپنے عہدے پرتین سال تک کام کریں گے۔

پراسیکوٹرجنرل کے تقررکے بارے میں اس فیصلے میں یہ تحریر ہے کہ”صدرمملکت پراسیکوٹرجنرل کاانتخاب چیف جسٹس آف پاکستان اورنیب کے چیئرمین کی مشاورت سے کریں گے۔“

آج سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کوحکومت کی ۶۱نومبرکے فیصلے کی اس حکم عدولی پرتنبیہ کرتے ہوئے متوجہ کیا۔قانونی ماہرین زرداری رجیم کے اس عمل کوسپریم کورٹ کے احکام کی توہین سے تعبیرکررہے ہیں۔زرداری صاحب کے قانونی مشیرانتہائی مشکل سے دوچار ہوگئے ہیں ‘یہی وجہ ہے کہ لاہورہائی کورٹ کے بعد اب سپریم کورٹ میں بھی زرداری صاحب کے نیب کے چیئرمین کی اس غیرآئینی تقرری کوچیلنج کردیا گیا ہے۔

جہاں زرداری صاحب اپنے ہمنواوں کے ساتھ پریشان ہیں وہاں وزیراعظم یوسف رضاگیلانی بھی کئی مشکلات میں گھرے نظر آتے ہیں۔میں نے اپنے انہی کالموں میں وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کی اپنے دوستوں کوغیرقانونی طورپرپاکستان کے اہم اداروں میں تقرری کی نشاندہی کی تھی کہ کس طرح ایک سزایافتہ دوست خواجہ عدنان کوانہوں نے ملک کی سب سے اہم اوربڑی کارپوریشن کاچیئرمین بنادیا تھا‘آج اس اہم بدعنوانی کے بارے میںبھی کئی سوالات عدالتِ عالیہ کے لارجربنچ میںاٹھائے گئے۔اسٹیبلشمنٹ کے سیکرٹری کوعدالت میں طلب کرکے جب یہ پوچھاگیا کہ اس شخص کو کس طرح ملک کی اہم کارپوریشن اوجی ڈی سی کاسربراہ مقررکیاگیا تو سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اسماعیل قریشی نے عدالت عالیہ کوبتایا کہ” خواجہ عدنان کی تقرری کےلئے وزیراعظم ہاو س سے ٹیلیفون آیا تھا“۔عدالت نے جب یہ پوچھاکہ” اگر وزیراعظم سے کوئی بھی فون آئے توآپ اس کی تعمیل کرتے ہیں“ تو سیکرٹری نے جواب دیا کہ” میں یہ سمجھاتھاکہ وزیراعظم کی یقیناوزیرپٹرولیم سے مشاورت ہوچکی ہوگی “۔سیکرٹری کی طرف سے ایک حیرت انگیزیہ انکشاف بھی کیاگیا کہ اس عہدے کی تقرری وزیراعظم کے زبانی احکامات پرعمل میں لائی گئی تھی۔عدالت نے سیکرٹری کے جواب کوغیرتسلی بخش قراردیتے اس کی فوری وضاحت طلب کی ہے اوراس غیرقانونی تعیناتی کی سمری کوعدالتی ریکارڈ کاحصہ بنانے کاحکم دیا ہے۔

 ”کیاخواجہ عدنان کی تقرری کےلئے اس کاکوئی بائیوڈاٹاBiodata طلب کیاگیا“عدالت کے اس سوال پرسیکرٹری نے نفی میں جواب دیتے ہوئے اقرارکیاکہ کوئی بائیوڈاٹاطلب نہیں کیا گیا۔اسی دوران جب خواجہ عدنان سے اس کی تعلیم کے بارے میں دریافت کیاگیاتواس نے اپنی تعلیم ایف اے بتائی۔لیکن خواجہ عدنان کی انتہائی ناقص تحریراورغیرمعیاری پڑھنے کی صلاحیت سے ان کی تعلیمی حیثیت پرشک ہوتا ہے۔قانونی ماہرین وزیراعظم کے اس عمل کوقانون کی اہم خلاف ورزی قراردیتے ہوئے عدالت عالیہ کی برہمی کودرست قراردے رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے این آراوکے مقدمے کی سماعت کےلئے عدالت عالیہ کے لارجربنچ کے سامنے لطیف کھوسہ پیش ہوئے حالانکہ یہ وہی سابقہ اٹارنی جنرل ہیں جن کے خلاف اسی عدالت میں لاکھوں روپے کی رشوت لینے کی درخواست دائرکی گئی تھی اوراسی الزام کے پیش نظر ان کواٹارنی جنرل کے عہدے سے ہٹایاگیا تھا۔ان کو فوری طورپر وزیراعظم کامشیربرائے آئی ٹی مقررکردیا گیا جہاں بعدمیں ان کواسی محکمے کامکمل وزیربنادیا گیالیکن کچھ عرصے کے بعدکرپشن اوربدعنوانی کی بناءپران کومعزول کرکے دوبارہ مشیرمقررکردیا گیا تھا لیکن بعدمیںان سے اس عہدے سے بھی استعفیٰ طلب کرلیاگیا تھا۔ حکومت کی طرف سے ایسے شخص کوعدالت عالیہ میں بطوروکیل مقررکرناگویاعدالت عالیہ کے مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔

عدالت نے نیب کی کارکردگی پرعدم اطمینان کااظہارکرتے ہوئے ان سے این آراوسے فائدہ اٹھانے والے ان تمام افرادکامکمل ریکارڈبھی طلب کیاجواس وقت حکومت کاحصہ ہیں ۔سپریم کورٹ کے لارجربنچ نے اٹارنی جنرل سے نیب کے چیئرمین کی تقرری کوعدالت کے احکام کی خلاف ورزی قراردیتے ہوئے اس کی وضاحت طلب کرلی ہے۔زرداری رجیم نے نیب کے چیئرمین کی تقرری کےلئے نہ تو پارلیمنٹ کے حزب اختلاف کے لیڈرسے کوئی مشورہ کیا اورنہ ہی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے کوئی مشاورت کی گئی ‘گویا زرداری صاحب نے سپریم کورٹ کے ۶۱نومبر۹۰۰۲ءکے فیصلے کی کھلی حکم عدولی کی ہے۔ملک کے اہم آئینی قانونی ماہرین اس حکم عدولی کوتوہین عدالت سے تعبیرکررہے ہیںاوردوسری طرف وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے بھی ایک سزایافتہ خواجہ عدنان کوغیرقانونی طورپرملک کی سب سے بڑی کارپوریشن کاسربراہ مقررکرکے توہین عدالت کے مرتکب ہوئے ہیں۔

اس سے قبل کئی کالم میں زرداری رجیم کے کرپشن کی داستانوں کامنظرعام پرلایاگیا ہے کہ کس طرح اس وقت ملک کے ہرادارے میں کرپشن کاراج عروج پر ہے جس کا سپریم کورٹ نے بھی سخت نوٹس لیا ہے۔سپریم کورٹ کے ایک فاضل جج جناب جاوید اقبال نے اپنے ریمارکس میں اٹارنی جنرل کوحکومتی اداروں میں اربوں روپے کی کرپشن کی طرف توجہ دلا تے ہوئے اپنی برہمی کااظہارکیا۔پچھلے دوسال سے میڈیااورسول سوسائٹی مسلسل ان کرپشن کی طرف توجہ دلارہی ہے لیکن زرداری رجیم کواس کی کوئی پرواہ نہیں۔ حکومت کی ملکیت میں چلنے والی نیشنل انشورنس کارپوریشن کے اراضی کی خریدوفروخت اوردوسرے سودوںمیں ڈھائی سو سے لیکر تین سوارب روپے کی کرپشن کی گئی ہے ۔۳۱/اکتوبر کوسماعت کے دوران سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ اس کرپشن میں ملوث ان تمام اہلکاروں اوراس کارپوریشن کے سربراہ ایازنیازی جو کہاس عہدے پرکام کرنے سے پہلے دبئی میں ایک نائٹ کلب کے معمولی منیجرتھے ‘کے خلاف مقدمہ دائرکرکے کاروائی کی جائے۔ان کے خلاف ایف آئی آرتوسپریم کورٹ کے حکم سے درج ہوگئی ہے اورایازنیازی کے علاوہ دوسرے نواہلکاروں کے نام بھی ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کردیئے گئے ہیںلیکن ایازنیازی اوردیگر تمام اہلکاراب بھی اپنے عہدوں پراپنے تمام اختیارات کے ساتھ براجمان ہیں۔ یادرہے کہ ایازنیازی کوبھی براہ راست وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کے احکام پرنیشنل انشورنس کارپوریشن کاچیئرمین مقررکیاگیا تھا۔یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ وزیراعظم نے ابھی تک نہ توکسی اہلکار کوان کے عہدوں سے ہٹایا ہے اورنہ ہی کسی کومعزول کرنے کے احکامات جاری کئے گئے ہیں۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ تحقیقات کے دوران ان کے ماتحت کسی کاروائی میں ان کے خلاف حقائق منظر عام پرلانے کےلئے تحقیقاتی اداروں سے تعاون کریں گے۔ایسی مثال شائدہی پاکستان یادنیاکے کسی کونے میں مل سکے ‘یہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی ایک اورکھلم کھلاخلاف ورزی ہے۔

۳۱/اکتوبرکوسپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں تحریرکیاہے کہ”لاہورمیں ۳۰۸کنال کی زمین کی خریداری کے حوالے سے فروخت کنندہ کوبغیررجسٹری قانونی دستاویزاورمیوٹیشن کے ایک ارب ۰۶کروڑکی رقم اداکی گئیہماری رائے ہے کہ معاہدہ یہ نتیجہ اخذکرنے کےلئے کافی ہے کہ چیئرمین اوردیگرمتعلقہ افرادنیشنل انشورنس کے فنڈمیں خردبرد کے ذمہ دارہیںکیونکہ بالآخریہ رقم حکومتی خزانے کی ہے اوریہ تمام افرادبدعنوانی اورکرپٹ امورمیں ملوث تھے البتہ تفتیشی ایجنسی کودیگرالزامات میں تحقیقات کی ضرورت ہے اورپبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی آرڈیننس ۲۰۰۲ءپبلک پروکیورمنٹ رولز۴۰۰۲ءاورفوجداری قانون کے تحت بھی ان الزامات میں متعلقہ حکام کوتفتیش کی ضرورت ہے“۔گویاسپریم کورٹ اس کارپوریشن کے سربراہ ایاز خان نیازی اوردیگرافرادکواس بدعنوانی کاذمے دار سمجھتے ہیں۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ”سیکرٹری تجارت نے اعتراف کیا ہے کہ مذکورہ معاہدوں میں بے ضابطگیاں ہوئی ہیں سیکرٹری تجارت کوہدائت دی جاتی ہے کہ فوری طورپرایف آئی اے میں ان معاہدوں کے حوالے سے چیئرمین ایازخان نیازی اوردیگرافرادکے خلاف فوجداری رپورٹ درج کرائیں۔ڈائریکٹرجنرل /ایڈیشنل ڈائریکٹرجنرل ایف آئی اے کوہدائت کی جاتی ہے کہ قومی فنڈ میں خردبرداوربدعنوانی میں ملوث تمام افرادکے خلاف قانون کے مطابق مقدمات درج کئے جائیںڈائریکٹرجنرل ایف آئی اے ‘نیب کوتفتیشی عمل کے بارے میں مکمل آگاہ رکھیںگے ایف آئی اے اورنیب حتمی طورپرملزمان کے خلاف کاروائی کے امورطے کریں“۔

ہم سب اس بات سے واقف ہیں کہ اگرکرپشن کی کوئی معمولی سے کاروائی کسی چھوٹے ملازم یاکسی عام آدمی کے خلاف سامنے آئے تویہی محکمے اسے فوری طورپرگرفتارکرکے اسے سلاخوںکے پیچھے بند کرنے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کرتے لیکن سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجودیہ تمام افراداب بھی اپنے عہدوں اوراپنی کرسیوں پربراجمان سپریم کورٹ کے احکامات کوروندتے نظر آرہے ہیں۔ قارئین!شائد آپ کویہ پڑھ کربھی انتہائی تعجب ہوگا کہ دورانِ سیلاب جب زرداری صاحب یورپ کے دورے کے دوران اپنے فرانس کے پرتعیش محل اوربرطانیہ کی سیرمیں مصروف تھے انہی دنوں موصوف نے لندن ہائیڈپارک کے ساتھ ایک اورعالیشان محل ۰۴۱ملین پاونڈ یعنی بیس ارب پاکستانی روپے کاخریداہے۔اگرآپ کویاد ہواس سے پہلے زرداری صاحب کوسرے محل لندن کی وجہ سے بھی کافی شہرت ملی تھی جس کی ملکیت کاانہوں نے کئی سال تک نہ صرف پاکستان کی عدالتوںمیںانکارکیابلکہ اپنے مخالفین کا پروپیگنڈہ قرار دیتے رہے لیکن جب سرے محل کی فروخت کاوقت آیاتواپنے وکیل کے توساط سے زرداری صاحب نے اپنی ملکیت کادعویٰ دائر کردیا۔۔بمبینوسینماسے اپنی زندگی کاآغازکرنے والے زرداری صاحب آخر کیسے ۲۱بلین ڈالر سے زائدمالیت کے اثاثوں کے مالک بن گئے!

 زرداری صاحب کے اقتدار سنبھالنے سے قبل کراچی اسٹیل مل دوارب روپے سرپلس منافع کے ساتھ چل رہی تھی لیکن اب ۶۲/ارب روپے کے خسارے کے ساتھ ملکی خزانے پرایک بوجھ بنادی گئی ہے۔ایک سال پہلے پی آئی اے کے سربراہ نے میڈیاکے سامنے اس کے دیوالیہ ہونے کااعتراف کرتے ہوئے اس کوملکی خزانے پرایک بوجھ قرادیاتھالیکن اس کے باوجودزرداری رجیم نے پی آئی اے کے سینکڑوںبرطرف ملازمین کودوبارہ ان کے عہدوں پرترقی دیتے ہوئے ان کے سابقہ واجبات کی ادائیگی کاحکم دیکرملکی خزانے کواربوں روپے سے محرو م کردیاجب کہ ان افرادکی اکثریت دوسرے محکموں میں کھپادی گئی تھی۔ بدعنوانیوں کی تو ایک لمبی فہرست ہے اس میں چند ملاحظہ فرمالیں۔

۱۔ا امریکا اوربرطانیہ نے اپنے مفادات کی خاطراین آراوکی بساط بچھائی جس میں بے نظیربھٹونے ان ملکوںکومکمل وفاداری کایقین دلاتے ہوئے ملک کے ایٹمی پروگرام کورول بیک کروانے اورمحسن پاکستان ڈاکٹرعبدالقدیرتک رسائی کی پوری یقین دہانی کروائی تھی لیکن بے نظیربھٹوکوایک قاتلانہ حملے میں ماردیا گیا جس کی تحقیقات زرداری رجیم نے اپنے دورحکومت میں بھی ملکی اداروں پرعدم اعتمادکرتے ہوئے اقوام متحدہ سے کروائی جس میںملک کاکثیرزرمبادلہ صرف کردیا لیکن ابھی تک قاتلوں کا سراغ نہیں مل سکااورخودزرداری رجیم نے اس تحقیقاتی رپورٹ پرتحفظات کااظہارکردیا!

۲۔ججز کی بحالی کےلئے مارچ ۸۰۰۲ءمیں ساری دنیاکے میڈیاکے سامنے بھوربن معاہدہ ہوا لیکن ہمیشہ کی طرح وعدہ خلافی کرتے ہوئے یہ کہہ کر مکرگئے یہ کونسا قرآن و حدیث ہے کہ اس پرعمل کیاجائے!

۳۔ساری قوم کے مطالبے کے باوجودجسٹس عبدالحمیدڈوگر کو آخری وقت تک مقرررکھاور اپنے مفادکی خاطرپارلیمانی کمیٹی کے مطالبے کے باوجوداس کی بیٹی کو ۰۲نمبر اضافی دلوانے کی تحقیقات سے بھی انکارکردیا!

۴۔ملک کی خودمختاری پرآئے دن پسنی اور دیگر ہوائی اڈوںسے امریکی ڈرون حملوں کے معاہدے کی توثیق کاانکشاف بھی سامنے آیاجس کی تردیدنہیں کی گئی!

۵۔قصر سفید کے فرعون کی خوشنودی حاصل کرنے کےلئے وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کے امریکی دورے سے ایک دن پہلے آئی ایس آئی کو وزارتِ داخلہ کے ماتحت رکھنے کا حکم پھر چندگھنٹوں میں اپنے حکم کی واپسی نوٹیفکیشن جاری کردیاگیا!

۶۔ممبئی کے حملے کے بعد کوئی مشورہ کئے بغیربدحواسی میںآئی ایس آئی کے ڈی جی کو بھارت بھیجنے کا اعلان اوربعدمیں عالمی جگ ہنسائی!

۷۔پرتاب مکھرجی کی گمنام دہمکی آمیز ٹیلیفون کال‘جس کی تحقیق آج تک حل طلب ہے!

۸۔بھارت کی خوشنودی کےلئے خود ہی اپنی جماعتوں کو اقوام متحدہ سے بلیک لسٹ کرواناحالانکہ اب تحقیق کے بعد اس سازش کے ڈانڈے امریکاکے ڈیوڈ ہیڈلی سے جاملے ہیں !

۹۔زرداری رجیم خود این آراو کی توثیق کےلئے سٹینڈنگ کمیٹی میں معاملہ لیکر گئے لیکن اتحادی جماعت ایم کیوایم کے ساتھ چھوڑ دینے پرسپریم کورٹ میںتحریری طور پر اس کادو مرتبہ دفاع کرنے سے معذرت لیکن اب اچانک اس پرنظرثانی کی درخواست!

۰۱۔حیلے بہانوں سے سپریم کورٹ کے احکام کی تعمیل سے انکاراور محاذ آرائی۔شیخ ریاض جیسے سزایافتہ کواس کے عہدے پرترقی دیکرتعینات کرنااورسپریم کورٹ کے حکم سے شیخ ریاض کوجب دوبارہ جیل بھیجاگیاتوخصوصی صدارتی اختیارات استعمال کرتے ہوئے اس کی سزا معاف کردی گئی اورساتھ ہی اپنے قریبی دوست وزیرداخلہ رحمٰن ملک کی سزابھی معاف کردی گئی!

۱۱۔جمہوریت کانعرہ الاپنے والوں نے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے سیاسی پارٹیوں کے انتخابات کی علت سے استثناءحاصل کرکے اپنی جماعتوں میں آمریت قائم رکھنے کی روایت قائم رکھی!

۲۱۔قواعد وضوابط کی پرواہ کئے بغیرخصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے من پسند۴۵جونئیر آفیسرز کی اعلیٰ گریڈ میں ترقی کردی گئی!

۳۱۔پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ اوران وزرا کےلئے بلٹ پروف گاڑیوں اورپرتعیش رہائش گاہوں کی تعمیرکی منظوری(اس کی تمام تفصیلات پچھلے کالم میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں) ۔

۴۱۔ملتان میں وزیراعظم کی ذاتی رہائش گاہ میں تزئین وآرائش کے نام پردس کروڑ خر چ کردیئے گئے ہیں جس میں عمارت کے باہربم پروف دیوارکی تعمیربھی شامل ہے‘اورپچھلے دنوں وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کی اہلیہ محترمہ نے برطانیہ میں ذاتی خریداری پر ہیتھروائرپورٹ پر۷۸ہزارپانچ سوپاونڈکی وی اے ٹی(VAT) وصول کی۔قارئین!برطانیہ میںاگر غیرملکی کوئی بھی شاپنگ کریں تو قانون کے مطابق وہ ملک چھوڑتے ہوئے اپنی اداشدہ ۵۷۱٪وی اے ٹی ریفنڈ وصول کرنے کاقانونی حق رکھتے ہیں۔گویاسیلاب سے متاثرہ غریب ملک پاکستان کے وزیراعظم کی اہلیہ نے پانچ لاکھ پاو نڈ(چھ کروڑ۵۷لاکھ پاکستانی روپے) کی ذاتی شاپنگ کی اور ۶۷سے زائدسوٹ کیس کوپاکستان میں لانے کافریضہ ملکی ائیرلائن پی آئی اے نے بڑی سعادت مندی سے سرانجام دیا !

 ۵۱۔پارلیمنٹ میں بھی شدیدمخالفت کے باوجود کیری لوگر بل جوملک کی خودمختاری پرایک سوالیہ نشان ہے ‘کی منظوری دی گئی !

 ۶۱۔پاکستانی ایٹمی پلانٹ کہوٹہ کے ممنوعہ ایریامیںبلیک واٹر کے پانچ دہشت گردوں کی گرفتاری اورسیکورٹی اداروں کے مشوروں کے بغیرڈرامائی اندازمیں میںامریکی سفارت خانے کی مداخلت پر ان کورہاکردیاگیا !

۷۱۔سہالہ میں امریکی تربیتی سنٹرکی موجودگی اوربعدمیںسہالہ پولیس کالج کی بندش کے بعدساری عمارت ان کے حوالے کردی گئی جہاں ان امریکن کی اجازت کے بغیرکسی کوجانے کی اجازت نہیں!یادرہے کہ یہ علاقہ پاکستانی کہوٹہ سنٹر کے بالکل قریب ہے جس سے آئندہ اس سارے علاقے کو شدید خطرہ لاحق ہوسکتا ہے!

۸۱۔روات انڈسٹریل ایریامیں انٹررسک سیکورٹی نے کیئر اینڈکرافٹ کے نام سے بلیک واٹر کے تربیتی مراکزکوکام کرنے کی اجازت دے رکھی تھی ‘جس کی چھت پرطاقتورانٹیناکی مددسے ہرقسم کی ٹیلیفون کالزسنی جاسکتی تھیں۔میڈیامیں انکشاف کے بعداس دفترکوبندکرکے کہیں اورمنتقل کردیا گیا!

۹۱۔۸۲ستمبر ۹۰۰۲ءکی ایک اخباری اطلاع کے مطابق بدنام زمانہ بلیک واٹر نے سیکورٹی کے نام پراسلام آبادکی اہم شارع مارگلہ روڈپرجمہوریہ چیک اوراٹلی کے سفارتخانوں کی عمارتوں کے آگے بیرونی دروازے سے آگے نصف سڑک تک بم دیواریں تعمیرکردیںاورسلام آبادمیں امریکی سفارتخانے کومزید۴۶۲مکانات لینے کی اجازت بھی اسی حکومت نے مرحمت کی جبکہ سفارتی قوانین کے مطابق امریکاکواس کی اجازت دینے سے انکارکیاجاسکتا تھا!

۰۲۔تربیلہ میں کئی میل کی پٹی پر ہیلی پیڈ اور امریکی جہازوں کےلئے رن وے کی اجازت ‘جوکہ ملک کی سیکورٹی کےلئے ایک سنگین خطرہ ہے!

۱۲۔معاشی ماہرین کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق مہنگائی میں ۰۰۲٪اضافہ ہواہے۔جتنے قرضے ڈھائی سال میں لئے اتنے پچھلے۵۲برسوں میں نہیں لئے گئے۔ اس وقت ہرپاکستانی پچاس ہزارروپے کامقروض ہے اور پانچ کروڑ پاکستانی رات کوبھوکے سوتے ہیںلیکن یوانِ صدر اور ایوان وزیراعظم کی شاہ خرچیوں کے بجٹ میں کوئی کمی نہیں آئی!

۲۲۔ رینٹل پاورز کے نام پر ڈھائی سوارب روپے کا مزیدبوجھ ملک کے خزانے پرڈال دیا گیا ہے اوران من پسندکمپنیوں کوایڈوانس کے طورپر۰۲٪کی ادائیگی بھی کردی گئی ہے ۔ملک کی ایک سیاسی جماعت نے ان سودوںمیںبدعنوانی کے کئی ثبوت سپریم کورٹ کوبھی مہیاکردیئے ہیں!

۳۲۔زرداری صاحب نے حکومت سنبھالتے ہی ملک کے سب سے بڑے دشمن بھارت کودوستی کاتمغہ عطاکردیاتھااورکشمیرمیں آزادی کامطالبہ کرنے والوں سے نہ صرف لاتعلقی کااظہارکیا بلکہ ان کودہشت گرد قراردیتے ہوئے ملک کی خارجہ پالیسی کارخ موڑدیاجس کے جواب میں بھارت نے پاکستان کے دریاوں کاپانی بند کرکے پاکستان کوبنجربنانے کی خطرناک پالیسی پرعملدرآمدشروع کردیا ہے!

 ۴۲۔پہلی مرتبہ بھارت کو سیکورٹی کونسل کے مستقل ممبربننے کےلئے پاکستان نے کشمیرکے مسئلے کوپس پشت ڈال کراپنی مکمل حمائت کایقین دلایاہے!

۵۲۔کمزور معیشت کے حامل پاکستان کے خزانے کوپچھلے چھ مہینوں میں Gray Telephone(غیرقانونی ٹیلیفون ایکسچینج)کی مدمیں ۵۲/ارب روپے کی کرپشن کاٹیکہ لگایاجاچکا ہے!

۶۲۔مظفرگڑھ کے قریب دریائے چناب پربننے والے پل کی تکمیل کے دوسال بعدمتعلقہ تعمیراتی کمپنی کوکس اہم شخصیت کے حکم پر۱۴کروڑ روپے کی ادائیگی کردی گئی اوربعدازاں اسی اہم شخصیت نے بہت ہی مہنگی لوکیشن پراسی تعمیراتی کمپنی سے دوبنگلے بطورتحفہ وصول کئے!

یوں توپاکستان کی تاریخ ہمیشہ حکمرانوں کی چیرہ دستیوں سے بھری پڑی ہے لیکن پہلی مرتبہ پاکستان کی معیشت کودیوالیہ کے اس قدرقریب پہنچادیا گیاہے کہ اب غیرملکی حکمران بھی پاکستانی حکومت کے اللے تللے پربہت سیخ پاہیں۔پچھے دنوں ہلیری کلنٹن نے بھی اپنے بیان میں پاکستانی حکومت کوان کی کرپشن پرتنبیہ کرتے ہوئے کہاکہ عالمی برادری کب تک پاکستان کی مددکرے‘اب پاکستان کے ان امیروں کوبھی ملک کی مددکےلئے اپنی خزانوں کے منہ کھولناپڑیں گے۔ قارئین!ملکی سلامتی کو اس بمبینو سیاست نے اس قدر شدیدخطرات سے دوچار کردیا ہے کہ موجودہ حکومت کوسیکورٹی رسک قراردیا جاسکتا ہے۔آخر قوم سے یہ سنگین مذاق کب ختم ہوگا؟

 

 

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *