Home / Socio-political / آخر کب تک ؟

آخر کب تک ؟

عباس ملک

مارشل لا کو ہی جمہوریت کے امراض کا واحد علاج آخر کیوں قرار دیا جا تا ہے ۔عدلیہ کی بحالی تحریک کی طرح فوج جمہوری اداروں کی ترویج اور ترقی کیلئے اپنا آئینی کردار ادا کرتی رہے۔ احتسابی کردار کی نگرانی اور تحفظ کرے۔جمہوری اقدار کی ترویج کیلئے جمہوری اصولوں پر عمل درآمد کی بجائے سیاسی پارٹیوں کوسیاسی گھرانوں کی جاگیر اور میراث بنادینے سے جمہوری عمل کی بجائے آمریت غالب آئے گی ۔سیاسی راہنماپارٹیوں میں الیکشن کی بجائے نامزدگیاں کر کے جمہوریت کی نفی اورجمہوری عمل کو جمود کا شکار بنا نے کا بنیادی سبب ہیں ۔آراکین نچلی سطح سے بذریعہ الیکشن منتخب ہو کر اوپر آئیں تو جمہوری طرز عمل اور طرز فکر کے ساتھ بہتر عوامی ویژن کے حامل ہونگے ۔پاکستان کی قومیت پر دوسری قومیت کو فوقیت دینے والوں سے کیسے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ پاکستان کو اہمیت دیں گے۔ان کے نزدیک اس کی اہمیت ہوتی تو وہ دوسری قومیت کو اس کے ساتھ کیوں اختیار کرتے۔اپنے مفادات اور اپنی ترقی کی راہ میں یہ رکاوٹ جان کر ہی تو وہ راہ اختیار کی جاتی ہے ۔ سلام چیف جسٹس کو ہو جس نے میمو ایشو پر حکومت اور عسکری قیادت کو احتساب اور جوابدہی کیلئے طلب کیا ۔ آرمی چیف اور ڈی جی آی ایس آئی کے عمل کو بھی مستحصن اور قابل تحسین قرار دیتے ہیں جنہوں نے عدلیہ کے وقار کو تقویت دی ۔آرمی چیف اور چیف جسٹس دونوں جمہوری عمل کے تسلسل کی یقین دھانی کرا رہے ہیں ۔اپوزیشن ،عمران خان، مولانامنورحسن سمیت سب نے حکومت اور جمہوریت کے عمل کو ڈی ریل نہ کرنے کی بھرپور یقین دھانی کرائی ہے ۔ وزیر اعظم صاحب قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر کس سے پوچھ رہے ہیں کہ اسامہ چھ سال بغیر ویزے کے کیسے رہا !جناب چیف ایگزیکٹو تو آپ ہیں۔مشرف کو کس نے گارڈ آف آنر دے کر رخصت کیا ؟تین سال تک اسامہ سے بے خبر آپ کیونکر رہے ؟شمسی آئیر بیس ڈرون حملوں کیلئے کیسے استعمال ہوتا رہا ؟بلیک واٹر ملک میں کیا کرتی رہی ؟آپ کی کابینہ بھارت کو فیورٹ نیشن قرار دینے کی کوشش کر تی رہی ؟آپ کی کابینہ کے ممبران اداروں میں لوٹ سیل لگا کر ان کے درمیاں فاصلے اور غلط فہمیاں پیدا کر کے ایوان صدر اور آپ کی پناہ میں ہیں ۔آپ کو معلوم نہیں کہ عوام پر کیا بیت رہی ہے ؟آپکی انٹیلی جنس رپورٹ صرف یہ بتاتی ہے کہ زرداری صاحب اور آپ کی گورنمنٹ کے خلاف سازش ہورہی ہے ۔بالکل سازش ہو رہی ہے لیکن یہ سازش جی ایچ کیو یا سپریم کورٹ اور اپوزیشن نہیں کر رہی بلکہ صدارتی محل سے ہو رہی ہے ۔جمہوریت کے نام پر دھبہ اور جمہوریت کے دامن پر داغ کون لگا رہا ہے ۔ جمہوریت کے عمل میں رخنے کون ڈال رہا ہے ۔اداروں کے درمیان تضادات کو ہوا کون دے رہا ہے ۔ چند صدارتی ایوارڈ یافتہ غیر جمہوری افراد اس کے ذمہ دار ہیں ۔ہر موقع پر ان کی تضاد بیانی اور بے موقع بیان بازی سے سیاسی اور معاشرتی ابتری پھیلتی رہی ہے ۔ ڈاکٹرز نے اداروں پر بیان بازی کر کے اورانہیں گھیسٹ کر استعمال کرنے کی کوشش کی ۔

جاوید ہاشمی صاحب نے ہمیشہ آمریت خواہ وہ مشرف کی ہو یا میاں کی کے خلاف باغی ہونے کا ثبوت دیا ہے ۔میاں صاحب سے انہی کالم میں عرض کی تھی جس کی توصیح ہاشمی صاحب کے اس بیان نے کر دی ہے ۔جناب قوم آپ کو چاہتی ہے لیکن آپ نے زرداری صاحب کی صدارت پر خاموشی سے جو مہر لگائی ہے وہ عوام کے دلوں پر لگی ہے اور یہی وہ جرم ہے جس قوم کے مفاد میں نہیں بلکہ جمہوریت میں باری کیلئے کیا گیا۔اس کا خمیازہ آپ کو بھگتنا ہوگا۔ہاشمی صاحب اور خواجہ سعد رفیق کے بعد مسلم لیگ ن یاران خاص اور آپ کے عزیزوں کا ڈیرہ قرار پائے گی ۔یہ عوامی جماعت نہیں کہلائے گی۔انہی جیسے لوگوں کے دم قدم سے مسلم لیگ کا امتیاز ہے ۔ بی بی اور میثاق جمہوریت کے نام پر آپ جھانسہ کھاگئے آپ ان کے ہر جرم کے برابر کے ذمہ دار ہیں ۔کیامیثاق جمہوریت کے تحت ہر نااہل کو اہل قرار دینا اور اسے تسلیم کرنااور ایک دوسرے کے جرم سے پردہ اٹھانا اور اس پر پردہ ڈالنا میثاق جمہوریت ہے ۔کہاں گئے وہ کیس جو سیف صاحب نے آپ کے دور میں زرداری صاحب پر قائم کیے تھے ؟کیا وہ جھوٹ تھے یا پھر زرداری صاحب کو فرینڈلی اعتماد کا ووٹ آپ کی غلطی ہے ۔آپ بھگتو گے اور ہم بھگت رہے ہیں۔

نہ بجلی نہ پانی ،گیس نہ روزی نہ روزگار نہ انصاف نہ صحت نہ تعلیم اور یہ 73کے آئین کے بنانے والے اس کے رکھوالے اور اس کا اصلی شکل میں بحال کرنے والوں کا دور ہے ۔یہ روٹی کپڑامکان دینے والے کے داماد اور رفیقوں کا دور ہے ۔وزیراعظم پاکستان عوام کی ترجمانی کی بجائے صدارتی ترجمان اور ایڈوکیٹ کا کردار ادا کررہے ہیں ۔صدر یاان حواری ورفقاکی غلطی پر انکی ترجمانی کیلئے اپنے منصب سے نیچے آکر کردار ادا کرنا عوامی مینڈیٹ کی توہین پارلیمانی منصب کے تقاضوں اوراستحقاق کے خلاف نہیں ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت اب چاہتی ہے اور یہ سازش کر رہی ہے کہ پانچ سال میں انہوں نے عوام اورپاکستان کا جو خون نچوڑنا تھا نچوڑ لیا اب فوج اور عدلیہ کو مشتعل کر کے حکومت سے جان چھڑائی جائے اور ساتھ ہی مظلومیت کا ڈھونگ رچایا جائے کہ ہم سے گورنمنٹ چھین لی گئی ۔غیر پارلیمانی سوچ ہے اس سے بہتر تھا کہ ایسے افراد سے جان چھڑائی جاتی جو اس سفر میں مزاحم ہیں ۔جن کے کردارو مشاورت اور خواہشات و مفاد ات کی ترجمانی میں چار سال کا قیمتی وقت ضائع ہو ا۔ان دوست نما دشمنوں نے پیپلز پارٹی کے عوامی امیج کو تار تار کر دیا ۔عوام کے جسم و روح سے کس بات کا انتقام لیا گیا ۔کیا دیا پیپلز پارٹی کی حکومت نے عوام کو جس کی بنیاد پر وہ عوام کے سامنے سرخرو ہو کر جائے ۔رحمان ملک ،بابر اعوان ،فیصل رضا عابدی ،ڈاکٹر فردوس ،ریاض راجہ جیسے لیڈروں کے کندھے عوامی اعتماد کو بوجھ اٹھانے کی اہلیت رکھتے ہیں ؟ان کو دیکھ کر عوام اعتماد کا ووٹ پیپلز پارٹی کی جھولی میں ڈال دیں گے ۔ یہی خوف اور محرک ہے میمو ایشو کا اور جمہوریت کے خلاف سازش کی چیخ و پکار اور مظلومیت کے ڈھونگ کی تیاری کا ۔جمہوریت صرف پیپلز پارٹی کی گورنمنٹ ،زرداری بقااور بھٹو خاندان کی تاج پوشی کا نام نہیں ۔یہ اصولوں اور اقدار کا ایک ضابطہ ہے ۔جس پرعمل پیرا نہیں ۔ جمہوریت کی پاسبانی اس وقت کی جاتی جب حواریوں میں اعلی عہدوں کی بندر بانٹ ہو رہی تھی تو اس کو رد کیا جاتا۔زرداری صاحب کو اعتماد کا ووٹ دیا لیکن وہ اعتماد پر پورا نہیں اترے تو ان پر عدم اعتماد کی تحریک لائی جاتی ۔عوام کو بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی میں ناکامی پر پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم کو اعتراف حقیقت کرتے ہوئے عہدہ چھوڑ دیتے۔اب اتنا مال اکھٹا ہو گیا ہوگا کہ آنے والی کئی نسلیں سنور گئی ہونگی ۔ کون سی جمہوریت اور کس منہ سے جمہوریت کی بات کرتے ہیں ۔ جمہوراورجمہوریت دونوں شرمندہ و پشیمان ہیں ۔

*****

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *