Home / Socio-political / آزادی کی نصف صدی

آزادی کی نصف صدی

آزادی کی نصف صدی

ہند و پاک نے کیا پایا کیا کھویا

ہند وپا ک کو آزاد ہوئے 64 سال گزر چکے ہیں ۔ اس طویل عرصے میں ان  دونوں ممالک کی کامیابیوں اور ناکامیوں کو دیکھیں تو حیرت ، افسوس ، شرم اور صدمہ ہوتا ہے ۔ حیرت اس    لیے کہ انگریزوں نے جہاں اس ملک کو چھوڑا تھا اس سے ہم بہت آگے نہیں نکل سکے ،افسوس اس لیے کہ ہم نے عالمی سطح پر جو کچھ کرنا تھا اس کو نہ کر کے اس کے بر عکس ہم نے دنیا کے سامنےاپنے آپ کو پیش کیا۔ اور شرم اس لیے کہ ہم ایسے ملک کے شہری ہیں جن پر ہر شخص آسانی سے انگلی  اٹھاتا ہے ۔اور صدمہ اس لیے کہ اپنی آنکھوں کے سامنے یہ سب ہوتا دیکھتا ہوں مگر ہم جیسے لکھنے پڑھنے والے کے بجائے اس ملک میں اس کی طوطی  بولتی ہے جو طاقت و ثروت میں  ہم سے زیادہ ہیں۔ہندستان اور پاکستان دونوں کا حال یہ ہے کہ دونوں ملکوں میں لوٹ کھوسٹ ، اور استحصال کا بارز گرم ہے ۔ ہر طرف قتل وغارتگری کا داردورہ ہے ۔ خاص کر پاکستان میں دہشت گردی نے ملک کو دباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے ۔ حالت یہ ہے کہ اس ملک میں خود پاکستانی ہی محفوظ نہیں ہیں ۔کبھی بازرا میں ، کبھی خانقاہ میں ، کبھی مذہبی جلوس پر ، کبھی مسجد میں ، کبھی امام بارگاہ میں ، کبھی جنازے کے جلوس پر خود کش حملے  ہواجاتے ہیں ۔ مرنے والے سب پاکستانی اور مسلمان ہوتے ہیں ، معلوم نہیں یہ کس کو مارنا چاہتے  ہیں اور کیوں مارنا چاہتے ہیں ؟ ا ن کا مقصد کیا ہے ؟

ادھر ہندستان میں ہر سیاسی پارٹی اپنے دور اقتدار میں زیادہ سے زیادہ  ملک کا سرمایہ لوٹ کر اپنی پارٹی اور اپنی ذاتی ملکیت بڑھانے کے لیے ہر طرح کی بدعنوانی میں ملوث  ہیں۔ حال یہ ہے کہ ملک کا سرمایہ چند لوگوں نے اپنے پاس اتنا جمع کر لیا ہے کہ اس سے ملک کی غریبی دور ہوسکتی ہے ، رشوت کا بازار اتنا گرم ہے کہ ایک آفیسر نے پکڑے جانے کے ڈر سے سارے نوٹ ہی جلا دیئے ۔ موجودہ حکومت کی حالت یہ ہےکہ زیدہ تر وزیر بڑے بڑے گھوٹالے میں  ملوث ہیں ۔ ایک ایک کے پاس اتنی دولت ہے کہ اس سے پورے ملک میں شانداز سڑکیں بنائی جاسکتی ہیں ۔ ہزاروں اور لاکھوں ٹن اناج حکومت کی لا پرواہی سے کھلے آسمان کے نیچے سڑ رہے ہیں۔ دوسری جانب ملک کے میں ہزاروں لوگ بھوکے پیٹ  زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ یہ کیسی آزادی اور کیسا آزادی کا جشن ؟ کسی کے پاس کوئی جواب ہے تو بتائے ۔

پاکستان کا حال بھی اس سے ابتر ہی ہے وہاں نہ تو جمہوریت ہے اور نہ حکومت ہے ۔ یہ ملک خداد اد خدا کے بھروسے ہے ۔ ورنہ اس ملک میں بھی غریب انتہائی غریب اور امیر انتہائی امیر ہیں ۔ کسی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔ پاکستان کا ہر بڑا شہر دہشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے اور اہل اقتدار محلوںمیں چین کی نیند سو رہے ہیں ۔ پولیس اور انتطامیہ کا حال  یہ ہےکہ وہ محافظ بننے کے بجائے لٹیرے اور دبنگئی کرتے نظر آتے ہیں ، چھوٹی سی بات پر ایک نوجوان کو سر عام گولی مار دی جاتی ہے ۔کبھی لسانی عصبیت کی نام پر کبھی علاقائی عصبیت کے نام پر لوگ بر سر پیکار رہتے ہیں ۔ کل کے باغی اور ملک کے مجرم حکومت چلا رہے ہیں ۔ مہنگائی نے لوگوں کے دسترخوان کو تنگ کر رکھا ہے ۔بجلی کی آنکھ مچولی نے صنعتوں کا تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے ۔ ان تمام  مصیبتوں کے بعد عام آدمی ملک کی محبت میں جان دینے کو تیار ہے مگر حکومت خواب خر گوش میں ہے اور موقع ملتے ہی ملک کو بے دام بیچنے سے بھی گرزی نہیں کرتے ۔

پاکستان ہندستان نے کٹ کر ایک نیا ملک بنا ، خواب یہ تھا کہ ایک ماڈل اسلامی ملک بنے گا ۔ لیکن یہ خواب اب تک شر مندہ تعبیر نہ ہوسکا ۔ کیونکہ قائد اعظم کے بعد سے ہی اس ملک کو خود ملک کے سیاستدانوں نے لوٹنا شروع کیا اور اپنی سیاست چمکانے کی غرض سے اشتعا ل انگیز نعرے دینے لگے ۔ کبھی کشمیر کو ایشو بنایا تو کبھی غیر مسلم پڑوسی ملک کو اپنے لیے دشمن قرار دیا ۔ لیکن ان میں سے کسی کا جواز ان کے پاس نہیں ہے۔کشمیر پر آواز اٹھانے والوں نے خود پاکستان کے  پاس موجود کشمیر کی کسی نے نہیں سوچی ، نصف صدی  کے بعد بھی وہاں بنیادی سہولیات موجود نہیں ہیں ۔سڑکیں ، پانی بجلی جیسی سہولیات کے لیے پاک زیر انتظام کشمیر میں سوچا بھی نہیں گیا لیکن جموں کشیر کے لیے ہزاروں لڑاکوں کو تیار کر کے دہشت گردی کی بنیاد ڈال دی گئی ۔ پاکستان کی زیادہ تر  معصوم عوام کو ہندستان کے خلاف اس لیے ورغلایا گیا کہ ہندستان ہندوں کا ملک ہے اس لیے وہ ہمارے دشمن ہیں۔ لیکن کبھی کسی سیاست داں اور دانشور وں نے یہ نہیں سوچا کہ پاکستان میں جتنی مسلم آبادی ہے اس سے زیادہ مسلمان ہندستان میں بستے ہیں۔ اس نقطہ نظر نے ہندستان میں بس رہے ہے مسلمانوں کا کتنا نقصان پہنچایا ہے ۔ یہ کسی نے نہیں سوچا۔ اور رہی بات بات ہندستان مین ہندو اکثریت کی  اور اس لیے ہندستان سے دوستی نہ کرنے کی تو اس کا دسرا رخ بھی دیکھنا چاہیے۔ پاکستان کے جو دوست ممالک ہیں کیا وہ سب کے سب مسلم ہیں ۔ ابھی پاکستان کاجو سب سے بڑا دوست ہے اسی کی بات کر لیں ۔ چین جس کا دم بھرتے پاکستان نہیں تھکتا ، وہ کیا کونسا ملک ہے َ وہاں کس مذہب کے لوگ ہیں اور اسی دوست کی ایہ بات بھی تو سن لیں ۔ کہ ابھی چین نے کاشغر کے علاقے میں دہشت گردی اور فتنہ و فساد کے لیے پاکستان کو تو ہی ذمہ دار ٹھہرایا ، چین نے بغیر یہ سوچے کہ  پاکستان اس کا دوست ہے یہ کہا کہ کہ کا شغر میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس میں پاکستان کے تربیت یافتہ دہشت گردوں کا  ہاتھ ہے ۔اگر ذرا پیچھے جائیں تو مشرف صاحب کے وقت میں یہودیوں سے دوستی کرنے کا منصوبہ کس بات کا غماز ہے؟ اورابھی پاکستان جس ملک  کے آگے سر نگوں ہے یعنی امریکہ ، کیا یہ امریکہ یہودیوں او ر  عیسائیوں کا ملک نہیں ہے ؟ جب پاکستان ان ممالک سے دوستی کر سکتا ہے تو ہندستان نے اس لیے دوری بنانا کہ وہ ایک ہندو ملک  ہے ۔  یہ کیسا مذاق اور کیسا نظریاتی تضاد ہے ۔ جبکہ حقیقت یہ ہےکہ ہندستان ہندو ملک نہیں ہے ، ہندستان ایک جمہوری ملک ہے اور یہاں سب کو برابری کا حق حاصل ہے ۔

ہندستان کی آزادی کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ آزادی کے ساتھ ساتھ اسے فرقہ وارانہ فسادات تحفے میں ملا ، اسی آزادی کے ساتھ لاکھوں لوگوں کی جانیں اس آگ نے لے لی اور اب بھی گاہے بگاہے ہندستان میں فرقہ وارانہ فسادات سے مسلمانوں کو نقصانات پہنچتے رہتے ہیں ۔ گجرات کے فسادات نے نہ صرف ہندستانی مسلمانوں  کو جانی و مالی نقصان پہنچایا بلکہ اس فساد نے پوری دنیا میں ہندستان کا سر شرم سے جھکا دیا ۔ لیکن دیر سے ہی سہی ان مجروموں کا مواخذ ہ کیا جا رہا ہے۔ہندستان میں بھی کچھ فرقہ پرست پارٹیاں ہیں جو ہندو مسلم کے درمیان نفرت کا بیج بو رہے ہیں ، شیو سینا ، آر ایس ایس  جیسی پارٹیاں ہیں جو ملک میں نفرت کا زہرپھیلا کر اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتے ہیں ۔ لیکن برسوں سے منظم اور منسوبہ بند کوششوں کے با وجود اب تک یہ کامیاب نہیں ہوسکے ہیں اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ہندستان میں ایسے کم ظرفوں کی تعداد بہت کم ہے اور راست فکر رکھنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور یہاں جمہوریت مضبوط ہے ۔

اس طرح اس آزدای کے موقعے سے جب ہم دونوں ملکوں کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ غیر فطری بنیادوں پر دشمنی کے نام پر ہم نے ملک کا سرمایہ اسلحوں اور تباہی کے بموں پر خرچ کیا ہے ، اگر آج بھی دونوں ملکو ں کو راست فکر کی توفیق ہو جائے تو آنے والے چند برسوں میں ہی ہم کہاں سے کہاں ہوں گے اور جنوبی ایشیا میں اپنے بل بوتے ایک نئی طاقت بن سکتےہیں او ر کسی کے آگے جبہ سائی کی نوبت بھی نہیں آئے گی۔

دونوں ملکو ں کے عوام کو پھر بھی اس تمنا کے ساتھ مبارک باد دیتا ہوں :


اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *