Home / Socio-political / آسام فسادات کوکس کے اشارے پر نہیں روکا گیاتھا؟

آسام فسادات کوکس کے اشارے پر نہیں روکا گیاتھا؟

آسام فسادات کوکس کے اشارے پر نہیں روکا گیاتھا؟
عابد انور
جب تلوار گردن تک پہنچ جائے اس کے باوجود راگر کچھ لوگ مسلک میں الجھے رہے اور اس بات پر لڑتے جھگڑتے رہے ہیں نماز میں ہاتھ کہاں باندھنا چاہئے، رفع یدین کرنا چاہئے ، نماز کیلئے کس وقت کھڑا ہونا چاہئے وغیرہ وغیرہ اس سے بڑی بدقسمتی کی بات کوئی اور نہیں ہوسکتی ہے کیوں کہ تلوار یہ نہیں دیکھتی کہ گردن کسی دیوبندی کی ہے، یا بریلوی کی، شیعہ کی ہے یا اہل حدیث کی۔اس وقت اسے صرف اور صرف مسلم گردن نظر آتی ہے اور اس دھوکے میں قادیانی بھی مارے جاسکتے ہیں کیوں کہ لباس، نام مسلمانوں جیسا ہی ہے۔ جس قوم کے پاس متحد ہونے کے ہزاروں کی وجوہات ہوں اور انتشار کے لئے ایک بھی نہیں اس قوم کا اس قدر منتشر ہونا افسوسناک ہے ۔ ہر طبقہ او ر ہر مسلک میں لیڈر پیدا ہوگئے ہیں جو الگ الگ ڈفلی بجاتے ہیں۔مسلمانوں کے ساتھ نا انصافی کی سب سے اہم وجہ ان میں انتشار بھی ہے ۔ جو قوم منتشر ہوتی ہے اسے ہر کوئی ڈرانے، دھمکانے، استحصال کرنے، ان کے مال و دولت کو لوٹنے اور ان کی عورتوں کی عصمت کو تار تار کرنے کی کوشش کرتاہے۔ آج مسلمان کو اسی انتشار نے دو ٹکے کا بھی نہیں رکھا ہے لیکن مسلمان ہیں کہ مسلک کے نام پر جوتے میں ڈال بانٹ رہے ہیں۔ اتنے خطرناک حالات بھی انہیں متحد ہونے کی طرف راغب نہیں کر رہے ہیں۔ پورے ملک میں جہاں جہاں بھی فساد ہوتا ہے یا تشدد کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے اسے عمداً روکنے کی کوشش نہیں کی جاتی اور فسادیوں کو کھلم کھلا چھوٹ دے دی جاتی ہے کہ وہ جس طرح چاہیں تشدد برپا کریں۔ آسام میں بھی یہی ہوا ۔ آسام میںجو کچھ ہوا وہ کوئی اچانک وقوع پذیر ہونے والا واقعہ نہیں تھا۔ اس کی منصوبہ بندی پہلے سے کرلی گئی تھی۔ اسی حساب سے حکام کو تیار کیا گیا تھا فسادیوں کو چھوٹ دے دیا جائے۔ یہ بات ہر جگہ برپاہونے والے فسادات میں سامنے آئی ہے ۔ پولیس دیر سے پہنچی، یا فوج کو دیر سے تعینات کیاگیا جیسا کہ گجرات میں کیا گیاتھا۔
آسام کی حقیقی صورت حال کیا ہے یہ کوئی نہیں جانتا کیوں کہ متاثرہ علاقے میں کسی کو جانے نہیںدیا جارہاہے۔ جو لوگ بھی جاتے ہیں وہ کیمپ میں متاثرین سے مل کر آجاتے ہیں اورجائے واردات پر ابھی تک کوئی ٹیم نہیں پہنچی ہے۔اس کا واضح مقصد یہ ہے کہ کسی کو بھی صحیح صورت حا ل کا علم نہ ہو اور آسانی کے ساتھ مسلمانوں کے قتل عام کے ثبوت مٹاسکیں۔ کرفیو لگانے اور علاقہ میں داخلہ پر پابندی عائد کرنے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ حکومت اور فرقہ پرستوں کی ملی بھگت سامنے نہ آئے۔ اس بات کو ایشیا انسانی حقوق کمیشن نے بھی اپنی حالیہ رپورٹ میں ثابت کردیا ہے۔اس کمیشن نے حالیہ رپورٹ میں آسام کی صورت حال کا گہرائی سے جائزہ لیا ہے۔ اس نے اپنی رپورٹ میں واضح طور پر کہا کہ یہ فسادات روکے جاسکتے تھے مگر ریاستی ا ور مرکزی حکومت کی غفلت و لاپروائی اور’کہیں نہ کہیں مسلمانوں کو سبق سکھانے کی منشا‘اس نے فسادات ہونے دیا۔ کمیشن نے یہ رپورٹ آسام کا دورہ کرنے کے بعد تیارکی ہے۔ اس کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کئی چیزوں کی طرف نشاندہی کی ہے۔ ہر فساد میں ایسا ہوتا آیا ہے کہ افسران بر وقت کارروائی نہیں کرتے اور ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں آسام میں افسران نے بھی یہی کیا جب کہ ان کے پاس پولیس جوانوں کادستہ موجود تھا، سی آر پی ایف کی ٹکڑی موجود تھی لیکن اس کے باوجود اس کی تعیناتی میں مجرمانہ لاپروائی برتی گئی۔ ایشیا انسانی حقوق کے ڈائرکٹر مسٹر سوہاس چکمہ کے مطابق ریاستی حکومت کے پاس ۲۷ ہزار سے زائد مسلح پولیس کے جوانوں کے دستے تھے لیکن ان کو تعینات نہیں کیا گیا بلکہ بنگال اور دوسری جگہوں سے نیم فوجی دستوں کا انتظار کرتی رہی۔ اس کمیشن نے کارروائی نہ کرنے کے لئے جہاں مقامی پولیس کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے وہیں وزارت دفاع کے سکریٹری، فوجی سربراہ، ڈائرکٹر جنرل ملٹری آپریشن اور کمانڈ رآف ایسٹرن کمانڈ کو ذمہ دار قرار دیا ہے ۔ اس کمیشن نے آسام کے حالات بگاڑنے کیلئے فرقہ وارانہ ذہنیت رکھنے والے افراد پر انگلی رکھی ہے ۔ اس نے اپنی رپورٹ میں ممبر اسمبلی رومی ناتھ کا بھی ذکر کیا جس نے کچھ عرصہ قبل ایک مسلم نوجوان سے شادی کرلی تھی۔ اس واقعہ کو بہانہ بناکر مسلم مخالف جذبات پیدا کئے گئے اور سرے عام ممبر اسمبلی رومی ناتھ اور ان کے مسلم شوہر کی پٹائی کی گئی۔ اس کے باوجود فرقہ پرستوں پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ دراصل رومی ناتھ کا واقعہ مسلمانوں کے خلاف ہونے والے قتل عام کی پہلی کڑی تھی۔
آسام فسادات کو تقریباً دو مہینے ہونے جارہاہے لیکن اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود ابتک حالات معمول پر نہیں آئے ہیں اور نہ ہی پانچ لاکھ سے زائد کیمپوں میں مقیم افراد اپنے گھر واپس جانے کیلئے تیارہیں۔ یہ بات متاثرین نے آسام کا دورہ کرنے والے کانگریس کے جنرل سکریٹری راہل گاندھی سے بھی کہی تھی۔کیوں کہ آسام فساد کا مقصد ہی مسلمانوں کوبوڈو علاقہ سے نکالنا تھا تاکہ بوڈو اکثریت حاصل کرسکیں۔ بوڈو اور فرقہ پرست طاقتوں کے حوصلہ کتنے بڑھ گئے ہیں کہ انہوں نے کھلم کھلا چیلنج کردیا ہے کہ وہ مسلمانوں کو ان علاقوں میں نہیں آنے دیں گے۔ بوڈو لینڈ ٹریٹوریل کونسل کے سربراہ ہاگرما موہلیاری نے دھمکی دی ہے کہ وہ بنگلہ دیشی مسلمانوں کو بوڈو اکثریت والے علاقوں میں نہیں رہنے دیں گے۔ ہاگرما موہلیاری کو نا پسند کرنے والے انہیں آسام کا ’مودی‘ کہتے ہیں وہیں ان کے چاہنے والے انہیں ’چیف‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ کوکراجھار کے بوڈو قبائل ان کے ساتھ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہاگرما موہلیاری اتنے اعتماد سے یہ کہتے ہیں کہ وہ بنگلہ دیشی مسلمانوں کو نہیں رہنے دیں گے۔ایک رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۳ تک ہندوستان مخالف علیٰحدگی پسند تنظیم بوڈو لبریشن ٹائیگر (بی ایل ٹی) کے سربراہ رہ چکے ہاگرما نے اپنی ساتھیوں کے ساتھ ۲۰۰۳میں ہتھیار ڈال دیے تھے اور امن مذاکرات میں حصہ لینے کے بعد بوڈو پیپلز فرنٹ (بی پی ایف) کی شروعات کی تھی۔ بی پی ایف ان دنوں آسام اور مرکز میں یو پی اے کی اتحادی ہے اور اس کے ریاستی اسمبلی میں بارہ رکن ہیں اورآسام حکومت میں ایک وزیر ہے۔ اس کے علاوہ ان کا ایک رکن پارلیمان بھی ہے۔ مسلمانوں کو چھوڑ کر خودمختار بوڈو علاقے میں رہنے والے سبھی لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ بنگلہ دیشیوں کو یہاں سے جانا ہی ہوگا۔ ہم وہ بنگلہ دیشی مسلمانوں کو اپنے چار اضلاع میں نہیں رہنے دیں گے۔بوڈو ؤں کا تعلق قبائلیوں سے ہے ان میں کچھ نے ہندو مذہب اختیار کرلیا ہے تو کچھ نے عیسائیت قبول کرلی ہے۔ ہندو بوڈو بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ ہیں جب کہ عیسائی بوڈو کانگریس کے ساتھ لیکن مسلمانوںکو بنگلہ دیشی قرار دینے میں دونوں کا موقف ایک ہے۔انہوں نے بی جے پی کے اشارے پر آسامی مسلمانوں کو آسام سے نکالنے کیلئے بنگلہ دیشی مسلمانوں کا ہوا کھڑا کیا ہے۔ کوکراجھار کے امدادی کیمپوں میں رہنے والے مسلمانوں کا کہنا ہے ہاگرما کی سابق علیٰحدگی پسند تنظیم بی ایل ٹی نے ان پر حملے کیے اور ان کے گھر جلائے۔ بوڈوں میڈیا کے سامنے یہ بات قبول کی ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کے گھر جلائے ہیں ۔ تاہم انہوں نے مسلمانوں پر یہ بھی یہ الزام عائد کیا کہ انہوں نے بھی ہمارے گھر جلائے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی تعداد بہت کم ہے۔ بی پی ایف کے ایک ایم ایل اے کمار برہما کے خلاف فسادات میں حصہ لینے کے الزام میں ایف آئی آر بھی درج کرائی گئی ،انہیں گرفتار بھی کیاگیا تھا اور لیکن حکام کی ملی بھگت سے وہ جلد ضمانت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اگر گرفتارہونے والا کوئی مسلم ممبر اسمبلی ہوتا توکیا انہیں بھی اسی طرح ضمانت مل جاتی؟۔
فرقہ پرستوں کا فارمولہ یہی ہے کہ جھوٹ کو اتنی بار بولا جائے وہ سچ لگنے لگے۔ ویسے ہندوستانیوں کا مزاج بن چکاہے کہ مسلمانوں کے بارے میں میڈیا کے توسط سے جتنی غلط باتیں تشہیر کی جاتی ہیں وہ من و عن مان لیتے ہیں۔ آسام کے تشدد کے بارے میںان لوگوں نے طرح طرح سے افواہ پھیلانے کام شروع کردیا ہے اور اب اس مفروضہ کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس فساد کے پیچھے بنگلہ دیشی درانداز کا ہاتھ ہے۔ جیسا کہ سابق وزیر داخلہ اور بی جے پی کے سینئر لیڈر ایل کے اڈوانی کہہ چکے ہیں کہ آسام کے تشددمیں بنگلہ دیشیوں کا ہاتھ ہے۔ اس بات کو ثابت کرنے کیلئے ہندی میڈیا رات دن ایک کئے ہوئے ہے۔ اس طرح سیکڑوں رپورٹ ہندی اخبارات، ویب سائٹ، بلاگ اور دیگر ذرائع ابلاغ پر موجود ہیں۔ اگر بی جے پی اور دیگر دائیں بازو کی ہندو تنطیموں کے پروپیگنڈے پر نظر ڈالیں تو ان کے مطابق بنگلہ دیش کی ایک تہائی آبادی ان ریاستوں میں غیر قانونی طور پر داخل ہو چکی ہے اور یہ کروڑوں غیر قانونی بنگلہ دیشی اقتصادی تاریکین ہی نہیں انتہا پسندی کے بھی حامل ہیں۔ فسادات کاتجزیہ کرتے ہوئے ہندوستان کے ایک موجودہ الیکشن کمشنر نے ایک سرکردہ اخبار میں لکھا تھا کہ ’آسام کے ستائیس اضلاع میں سے گیارہ اضلاع کی صورتحال کافی دھماکہ خیز ہے کیونکہ وہاں مسلمانوں کی آبادی اتنی بڑھ گئی ہے کہ ان کی اکثریت ہو سکتی ہے ان سے یہ سوال کیا جانا چاہئے کہ مسلمانوں کا اکثریت میں ہونا کوئی گناہ ہے جس طرح پورے ملک میں ہندؤں کی آبادی بڑھی ہے اسی طرح مسلمانوں کی آبادی بھی بڑھی ہے شمال مشرق کے کئی صوبوں میں عیسائی اکثریت میں ہے اور قبائلی علاقوں میں تیزی سے عیسائی اکثریت میں آرہے ہیںتو کیا یہ خطرے کی بات ہے؟۔مسلمانوں میںآبادی بڑھنے کی شرح کسی طرح سے بھی ہندوؤں سے زیادہ نہیں ہے ۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس الیکشن کمشنر کے خلاف اس غلط بیانی کے لئے اب تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور نہ ہی کسی مسلم تنظیموں کی طرف سے کوئی احتجاج کیا گیا۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ الیکشن کے دوران مسلم امیدواروں کے تئیں ان کا نظریہ کیا ہوگا۔ حالانکہ آسام کے کئی غیر جانبدارمبصرین اور تجزیہ کاروں نے ان کی اس دلیل کو متعصبانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اوّل تو یہ کہ خود مردم شماری کے اعداد وشمار کے مطابق مسلمانوں کی اکثریت ہونے کا دعویٰ غلط ہے اور دوسرے یہ کہ کسی ضلع میں مسلمانوں کا محض اکثریت میں آجانا کس طرح دھماکہ خیز ہو سکتا ہے۔ اس سے اس الیکشن کمشنر کی متعصبانہ ذہنیت اور نسلی امتیاز والی فکر جھلکتی ہے ۔ اس طرح کی سوچ رکھنے والے افسران پر کبھی بھی کارروائی نہیں کی گئی ہے بلکہ ان لوگوں کو اعلی عہدوں پر بٹھایا گیاہے ۔ جب تک ان لوگوں کے خلاف سخت کارروائی نہیں کی جاتی اس وقت ہندوستانی جمہوریت میں مسلمانوں کو یکساں حقوق حاصل ہونے کا دعوی محض کھوکھلا دعوی ہوگا۔ اگر تھوڑی دیر کے لئے یہ تسلیم کرلیا جائے کہ تشدد کی وجہ بنگلہ دیشی درانداز ہیں تو پھر اتنی بڑی تعدادمیں مسلمانوں کی ہلاکت کیسے ہوئی۔ بیشتر گھر مسلمانوں کے ہی کیوں جلائے گے۔ سب سے زیادہ کیمپوں میں مسلمان ہی کیوں مقیم ہیں۔ یہ سارے ایسے سوالات ہیں جو ان فرقہ پرست لیڈران، متعصب افسران اور نسلی امتیاز والی فکر رکھنے والے میڈیا کے خیالات کو نفی کرتے ہیں۔
ان فرقہ پرست لیڈروں اور افسران کے دعوے کو آسام کے وزیر اعلی ترون گوگوئی نے بھی غلط ثابت کردیا ہے کہ آسام میں غیر قانونی بنگلہ دیشی لوگوں کی تعداد اتنی نہیں ہے جتنا بی جے پی یا دوسرے لوگ کہہ رہے ہیں کہ ان کی تعداد ۳۰ لاکھ ہے کوئی کہتاہے کہ ۵۰ لاکھ ہے لیکن ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ ریاستی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق ریاست میں صرف ۳۷ء۲ لاکھ غیر قانونی غیرمقیم ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ انہوں نے مسلمانوں کی آبادی بڑھنے کی وجہ مسلمانوںکی ناخواندگی کو قرار دیا ۔ یہ بات ان کی کسی حد تک درست ہوسکتی ہے لیکن ناخواندگی کی وجہ سے صرف مسلمانوں میں آبادی نہیں بڑھ رہی ہے بلکہ ناخواندہ ہندو بھی اتنی ہی اولاد پیدا کرتا ہے جتنی کہ مسلمان پیدا کرتا ہے۔ تو پھر صرف مسلمانوں کو ہی ذمہ دار قرار کیوں دیا جارہاہے۔ آسام فساد کی وجہ جہاں فرقہ پرست عناصر ہیں وہیں اقتصادی بدحالی بھی ہے کیوں کہ آسامی مسلمان بدحال ہیں۔ ان فلاح بہبود کے لئے ریاستی حکومت نے کوئی خاص کام نہیں کیا آج تک صرف مسلمانوں کو وہاں بھی صرف ایک ووٹ بینک سمجھا گیا۔ مسلمانوں کو اپنے ووٹ کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا اور وقت کے ساتھ ساتھ اپنے رویے میں تبدیلی لاتے ہوئے ان پارٹیوں کو جو ان کے دشمن ہیں ووٹ کے توسط سے سبق سکھانا ہوگا۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کو اس بات پر زور دینا ہوگا کہ آسام قتل عام کے ذمہ دار افراد کی نشاندہی کی جائے اور انہیں عبرتناک سزا دی جائے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے قتل عام اس وقت تک نہیں روکے جاسکتے جب تک کہ ایسے افسران، فرقہ پرست لیڈران،متعصب اور نسلی سوچ رکھنے والے صحافی اور ذمہ دار وزرائے کوسزا دے کر معاشرے میں انہیں ذلیل نہیں کیا جاتا۔
ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔
9810372335
abidanwaruni@gmail.com

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *