Home / Socio-political / آنکھیں جہاں ہوں بند اندھیرا وہیں سے ہے

آنکھیں جہاں ہوں بند اندھیرا وہیں سے ہے

زندگی نام ہی سامنا کرنے کا ہے ِ،خوشی کا بھی اور غم کا بھی، آسانی کا بھی اور مشکلات کا بھی۔ یہ آسان بھی ہے اور پیچیدہ بھی، زندگی بھول بھلیاں ہے،تیر کی طرح سیدھی نہیں ہے یہ، عجیب رنگ ہیں اس کے۔ آپ چاہیں نہ چاہیں اس سرنگ میں سے گزرنا پڑتا ہے۔ آپ سرسبز و شاداب کھیتوں سے گزرتے ہیں اور تپتے ریگستانوں سے بھی۔ ایسا ہوتا ہے ناں کہ آپ ایک کشادہ شاہراہ سے جس کے دونوں طرف گھنے درختوں کی قطار ہو ،گنگناتے ہوئے گزرتے ہیں اور پھر اچانک ایک چورستہ آجاتا ہے اور آپ سوچ میں پڑ جاتے ہیں اب کہاں جائیں؟ اگر آپ کو اپنی منزل کا پتا معلوم ہے پھر تو ٹھیک ورنہ آپ کو رک کر کسی سے پوچھنا پڑتا ہے کہ جناب میں فلاں جگہ جانا چاہتا ہوں ،کون سا راستہ جاتا ہے وہاں تک۔ پھر وہ آپ کو دو راستے بتاتا ہے کہ آپ یوں سیدھا چلتے جائیں یا فلاں سڑک سے بائی پاس کریں․․․․․․․․․انتخاب آپ پر چھوڑ کر وہ چل پڑتا ہے اور پھر آپ کچھ دیر سوچ میں پڑ جاتے ہیں۔

زندگی ایک گیت ہے، سنگیت ہے، ایک گیت میں بہت سارے ساز بج رہے ہوتے ہیں۔ ٹھیک ہے آپ نہیں سنتے لیکن آپ کو اس کا تجربہ تو ہے ناں․․․․․․․․آپ نہیں سنتے تو آپ کے پڑوس میں سے آواز آرہی ہوتی ہے۔ بسوں اور ویگنوں میں آپ کو مجبورا ًہی سہی، سننا تو پڑتا ہی ہے ناں۔ تو بہت سے ساز ہوتے ہیں اور اپنی اپنی آوازیں لیکن وہ گائیک کی آواز کو سنبھال رہے ہوتے ہیں۔ یہ سب مل کر نغمہ بن جاتا ہے۔ زندگی بھی ایک نغمہ ہے۔ اسے ذرا اس طرح سے بھی دیکھنا چاہئے۔ زندگی کا ساز ہیں ساری آسانیاں اور مشکلیں۔

کل اچانک وہ مجھے ہسپتال میں ملنے کیلئے آگیاجہاںآ جکل میرازیادہ وقت اپنی اہلیہ کی عیادت میں گزرتاہے۔ وہی پرانا حلیہ، ذرا بھر بھی تبدیل نہیں ہوا وہ۔ مصور ہے بہت اچھا گائیک اور اداکار لیکن یہ سب اسے نہیں بدل سکے۔ ہر وقت مسکرانے والا․․․․․․․․ہاں بھئی آج تو نئے کپڑے واہ کیا بات ہے تیری۔ اس نے مسکراتے ہوئے حساب لگایا دو پاوٴنڈ کی شرٹ ،پانچ پاوٴنڈ کی جینز اور پانچ پاوٴنڈ کے جوتے۔ کل ملا کر دس پاوٴنڈ کا آدمی آپ کے سامنے ہے ،ایسا نہیں کہ وہ مہنگی چیزیں نہیں خرید سکتا لیکن بس نہیں خریدتا۔ اسے کوئی قیمتی تحفہ مل جائے تو وہ اگلے ہی لمحے اپنے کسی دوست کو دے دیتا ہے۔ زندگی کو انجوائے کرتا ہے ،ہنستا کھیلتا ہے اور پھر عجیب عجیب سی باتیں۔ زندگی کے بارے میں اس کا اپنا ہی سوچنے کا انداز ہے اور صرف سوچتا نہیں اس پر عمل پیرا بھی۔میں نے اسے ہمیشہ ہرحال میں فضامیں قہقہے لگاتے دیکھاہے چاہے حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں لیکن آج وہ بلبلاکررورہاتھاکہ آپ نے مجھے غیرجانااوراتنی بڑی قیامت گزرگئی اورمجھے اطلاع تک نہیں۔”اپنے آپ کوسنبھالو،اس حالت میں کیاخاک عیادت کروگے؟“

جونہی ہم کمرے میں داخل ہوئے تواہلیہ جن کوایک مخصوص کرسی پرکھڑکی کے پاس بٹھایاہواتھا ، پاوٴں پکڑکرماں جی کہہ کر زورسے مسکراتے ہوئے بولا”گھر کی صفائی ضروری ہے لیکن اتنی بھی نہیں کہ آپ اپنے آپ کو بھول جائیں۔ اس گھر میں سب سے زیادہ قیمتی آپ خود ہیں اپنا خیال رکھناضروری ہے، ہر وقت کام کرتے رہنا اچھی بات نہیں، کبھی کبھی کچھ بھی نہیں کرنا چاہیے ،اب ”بابا“کی باری ہے ،انہیں ادھارچکانے دیں،انہیں توآپ نے کبھی کام کرنے کی عادت ہی نہیں ڈالی۔یہ دیکھیں،یہ پھول کھلے ہیں ،بادل آئے ہیں․․․․․․․․سامنے دیکھیں۔ دریائے ٹیمز کتنا خوش ہے اور آپ کو بھی بلا رہا ہے۔کبھی ٹیمز سنگ خوشیاں منائیں۔ دکھ کو سکھ بنا لیں، زندگی آسان ہوجائے گی ،اب ہم سب مل کرٹی وی دیکھیں گے، ضرور دیکھیں گے لیکن ٹی وی کے غلام نہیں بنیں گے۔ جو لمحہ گزر گیا گزر گیا ،اب آگے بڑھیں“۔

پھرہم سب کومخاطب کرکے بولا،یہ کیا ترقی ہے، پہلے ایک چینل تھا تو سب گھر والے شام کو اکٹھے بیٹھ کر چائے پیتے تھے، کھانا کھاتے تھے،گپ شپ کرتے۔ اب سو چینل ہیں اور گھر والے بھی سو خانوں میں بٹ گئے۔ یہ تو اچھا نہیں ہوا۔ جھونپڑی میں رہنے والا اس دن کتنا خوش ہوگا جب زلزلہ سے سامنے بنی ہوئی فلک بوس عمارت مٹی میں مل جائے گی اور وہ خوشی سے پکارے گا مالک کتنا بڑا کرم ہے میں توجھونپڑی میں رہتا تھا۔ اتنا سامان جمع ہی کیوں کیا جائے جس کے کھونے کے ڈر سے نیند بھی نہ آئے۔ کار چمکانے سے زیادہ اہم خود کو چمکانا ہے۔ دوسرے کو ہنساوٴ تو خود ہنسو گے۔ گڑھا کھودا تو خود گرو گے ۔”پہلے آپ“ کہنا سیکھیں بہت مزا آئے گا۔ کوئی زبان نہیں سیکھ سکے تو کیا ہوا ،مسکرانا سیکھیں۔ سکھ آیا تو مسکرائے تھے وہ بھی گزر گیا، اب دکھ میں بھی مسکرا ئیں،یہ بھی گزر جائے گا۔ یہ اور اسی طرح کی بہت سی باتیں۔کتنی گہریں باتیں کرگیادل کوڈھارس دینے کیلئے!

زندگی یہ بھی ہے آپ اسے ذرا اس طرح بھی تو دیکھیں ،جملے بہت معمولی ہیں لیکن گہرے کتنے ہیں۔ بس دو پل سکون سے بیٹھ کر سوچئے، زندگی آسان ہوجائے گی۔ آج ہی پڑھا ہے میں نے۔” میں نے ندی کنارے لڑکیوں کو پانی بھرتے دیکھا اور میں دیر تک ان کو دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ پانی بھرنے کے لیے جھکنا پڑتا ہے اور رکوع میں جائے بغیر پانی بھرا نہیں جاسکتا۔ ہر شخص کو رکوع میں جانے کا فن اچھی طرح آنا چاہیے تاکہ وہ زندگی کی ندی سے پانی بھر سکے اور خوب سیر ہوسکے ․․․․․․․․لیکن افسوس کی بات ہے انسان جھکنے کا ،خم کھانے کا آرٹ آہستہ آہستہ بھول رہا ہے اور اس کی زبردست طاقتور ”انا“ اس کو یہ کام کرنے نہیں دیتی ۔یہی وجہ ہے کہ ساری دعائیں اور ساری عبادات اکارت جارہی ہیں اور انسان اکھڑا اکھڑا سا ہوگیا ہے۔ اصل میں زندگی ایک کشمکش اور جدوجہد بن کر رہ گئی ہے اور اس میں وہ مٹھاس وہ ٹھنڈک اور شیرینی باقی نہیں رہی جو حسن توازن اور خوشی کی جان تھی۔ اس وقت زندگی سے جھکنے اور رکوع کرنے کا پراسرار راز رخصت ہوچکا ہے اور اس کی جگہ محض جدوجہد باقی رہ گئی ہے۔ لیکن ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ جھکنے اور رکوع میں جانے کا آرٹ بلا ارادہ ہو، ورنہ یہ بھی تصنع اور ریا کاری بن جائے گا اور یہ جھکنا بھی انا کی اِک شان کہلائے گا۔

وہ بھی مجھے ڈھونڈتے ہوئے ہسپتال پہنچ گئے، ان کا طریقہ بھی عجیب ہے۔ کوئی وعظ و نصیحت نہیں کوئی فوں فاں نہیں کوئی بقراطی نہیں…. دبدبہ نہ طنطنہ سرٹیفکیٹ نہ کوئی ڈگری نہ ہی کبھی کہا: آوٴ یہ دیکھو صفحہ نمبر فلاں پر یہ لکھا ہے دیکھو غور سے کچھ بھی تو نہیں۔ ان کے پاس عاجزی ہے، انکساری ہے، نفی ہے۔ بہت چھوٹے چھوٹے جملوں میں بندکتابیں تھیں محبت بھری شفیق باتیں۔ اپنا پن لیے ہوئے سراپا محبت وایثار و وفا۔ کبھی خفا نہیں ہوئے لاکھوں غلطیاں کیں ،گستاخیاں کیں بدتمیزی تو کسی گنتی میں نہیں آتی۔ سب کچھ کیا لیکن ان رب کی نشانیوں نے کبھی نہیں دھتکارا۔ جتنی زیادہ سرکشی کی ان سے اتنا زیادہ پیار ملا۔ کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں ۔ کہتے ہیں: اچھا بچہ لاکھ کا اور بد سوا لاکھ کا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو پوچھا : یہ کیاکہتے ہیں آپ؟ مسکرائے اورکہا: جو بچہ خود ہی اچھا ہو اس کی کیا چنتا کرنی!جو بد ہے اسے دینا ہے نا پیار اس کا رکھنا ہے خیال کہیں دلدل میں نہ دھنس جائے کسی گڑھے میں نہ گرجائے اندھیرے میں گم نہ ہوجائے راہ کھوٹی نہ کربیٹھے خود کو برباد نہ کربیٹھبیٹھے․․․․․․․․․․․․بہت خیال رکھنا ہے اس کا۔

عجیب سی باتیں کرنے والے لوگ جنہیں لوگ پاگل سمجھتے ہیں ،چریا کہتے ہیں۔ بات کو پالینے والے پاگل محبت میں بسے ہوئے چریا۔ جب موت آئے گی تو مرجاوٴگے ،کوئی سفارش نہیں چلے گی ،کوئی کام نہیں آئے گا ،نہ کوئی رشوت نہ کوئی دھمکی۔ اگر مرنے کا مزا پانا ہے تو ابھی کیوں نہیں مرجاتے مرکر دیکھوکیسا سکون ہے کیسی راحت کیسی حلاوت۔ پھر سمجھ میں نہیں آیا تو پوچھاکیسے؟ کہہ دیا یہ تو تم خود جانو ،کہہ کر خاموش ہوگئے پھر ایک دن میں نے انہیں جالیا تو کہنے لگے خود کو مردہ سمجھنا شروع کردو،پھر طریقہ بھی سمجھایا ،بہت مزا آیا۔ ہاں اس میں ہے حلاوت شیرینی اور سکون۔

مردے کبھی کسی کو ایذا نہیں پہنچاتے، آزار نہیں دیتے، غیبت نہیں کرتے چغلی نہیں کھاتے، سازشیں نہیں کرتے۔ نظر تو زندہ آوٴ اور سب کے کام آوٴ،سمجھو خود کو مردہ۔ کوئی طلب نہیں ، کسی صلہ وستائش کی پروا نہیں، کسی کی گالی طعنہ کچھ بھی نہیں۔ بس دیتے جاوٴ، دیتے جاوٴ۔ پاتے جاوٴگے۔ رب کی مخلوق تو طرح طرح کی ہے ناں۔ رنگارنگ ہے سب ایک جیسے ہیں نہ ہوسکتے ہیں۔ ہمیں مخلوق میں رہتے ہوئے ان کی خدمت کرتے ہوئے رب کو پانا ہے، کوئی کچھ کہے گا،کوئی کچھ سمجھے گا تو سمجھنے دو، پروا نہ کرو۔ کوئی الزام کوئی طعنہ تمہاری راہ کھوٹی نہ کرے اور کوئی تعریف تمہیں غبارے کی طرح پھلا نہ سکے تو بس رب کو دیکھو رب کے بندوں کو دیکھو۔ کوئی بھوکا ہے تو اسے نصیحت نہ کرواسے کھانا کھلاوٴ، پیاسے کو پانی پلاوٴ، دو روٹھے ہووٴں میں پل بن جاو اور خود قلی بن کر دوسروں کا بوجھ اٹھاوٴ، اپنے لیے نہیں بندوں کے لیے طلب کرو اپنے لیے ہی نہیں۔

بندوں کے لیے تھکو اور دیکھو تھکتا وہ ہے جو کسی چیز کا طلب گار ہو۔ تجارت و کاروبارِ زندگی تھکادیتے ہیں۔ اور دیکھو محبت میں انسان کبھی نہیں تھکتا کبھی بھی نہیں۔ ہر دم ہرلمحہ تیار رہتا ہے محبت اسے تھکنے ہی نہیں دیتی۔ محبت کا تعلق کبھی پرانا نہیں ہوتا کبھی نہیں مرجھاتا۔ ہر دم تازہ دم رہتا ہے محبت کا بوٹا سدا بہار ہے اسے خزاں نہیں گھیر سکتی۔ بے لوث بے غرض محبت نخلستان ہے ٹھنڈا میٹھا بہتا دھارا پرسکون ندی اورگہری جھیل۔ محبت بن جاوٴ،سراپا محبت و دعا۔ مخلوق کے لیے ہاتھ پھیلاوٴان کا سائبان بن جاوٴ۔ کسی کو دو میٹھے بولوں کی ضرورت ہے تو ضرور بولو۔ کوئی اداس ہے تو اسے لطیفہ سناو۔ امید بندھواوٴ۔ ہنس کر بات کرو اور اسے ہنساوٴ۔ اپنا زخم چھپاوٴ دوسرے کے زخم پر مرہم رکھو۔ مردہ بن جاوٴ جوکوئی شے طلب نہیں کرتا۔ کوئی آگیا پھول رکھ کر چلاگیا۔ اگربتی جلاکر خوشبو پھیلا گیا بن مانگے ہی۔ تو رب بنائے گا بگڑی ،پار لگائے گا نیا۔ اس اندھیری رات میں سے روشن کرے گا سحر۔

وہ تو مردے میں سے زندہ وجود نکال لیتا ہے اور زندوں کو خاک میں ملا دیتا ہے، لوگوں کے عیوب پر پردہ ڈالو،تمہارا پردہ اللہ رکھے گا۔ محتاجوں کو بے آسرا مخلوق کو سینے سے لگاوٴ ان کے لیے جیو اپنے لیے مرجاوٴ۔ نعمتیں ملیں تو شکر نہ ملیں تو صبر اور صبر سے بڑھ کر دولت کیا ہوگی!جب وہ کائنات کا خالق و مالک صبرکرنے والوں کے سنگ ہے تو پھر کیسی اداسی کیسی مایوسی!! بہت مزے کی بات کہتے تھے: کم کو زیادہ جانو اور میں آج تک اس پر عمل نہیں کرسکا۔ بولتا رہتا ہوں بولتا رہتا ہوں۔ بس آج اتنا ہی․․․․․․․․آپ سدا خوش رہیں…. آباد رہیں…. دل شاد رہیں…. زندگی بخیر رہی تو ملتے رہیں گے ،دنیا کے کام تو چلتے رہیں گے کچھ بھی تو نہیں رہے گا بس نام رہے گا اللہ کا۔

بروزاتوار۱۵جمادی الاول۱۴۳۳ھ ۸اپریل۲۰۱۲ء

لندن

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *