Home / Socio-political / آنکھیں نہیں پورا بدن روتا ہے

آنکھیں نہیں پورا بدن روتا ہے

آنکھیں نہیں پورا بدن روتا ہے

سمیع اللہ ملک

لڑائی کی وجہ بہت دلچسپ تھی۔ایک صاحب ریڑھی پر کھڑے پکوڑے کھا رہے تھے۔انہوں نے اچانک لفافہ نیچے رکھا اور بھاگ کر پان فروش لڑکے کو گریبان سے پکڑ لیا‘لڑکا کمزور تھااور وہ صاحب خاصے مضبوط اور لحیم و شحیم‘ لہندا انہوں نے لڑکے کو زمین پر گراکر مارنا شروع کر دیا۔لوگوں نے بمشکل چھڑایا‘تحقیق کی تو پتہ چلا‘لڑکا انہیں پکوڑے کھاتا دیکھ کر ہنس رہا تھا‘لڑکے سے پوچھا گیا تو اس نے بتایا وہ تو ان کے پیچھے کھڑی بلی پر ہنس رہا تھا‘بلی ریڑھی کے پہیوں میں چھپی چڑیاکو پکڑنے کی کوشش میں بار باراس پر جھپٹتی تھی لیکن وہ اس کے قابو میں نہیں آرہی تھی‘یہ چھوٹی سی غلط فہمی ایک لمبے چوڑے فساد کا باعث بن گئی۔پکوڑے کھانے والے صاحب تھانے چلے گئے اور لڑکا ہسپتال۔بظاہر یہ ایک معمولی واقعہ ہے لیکن اگر ہم اس کا نفسیاتی تجزیہ کریںتو معلوم ہو گا پکوڑے کھانے والے صاحب میں قوتِ برداشت کم تھی۔وہ ایک بچے کا مذاق تک برداشت نہیں کر سکے‘اگر وہ لڑکا واقعتا ان پر ہنس رہا تھاتو بھی انہیں ناراض ہونے یا لڑنے کی کیا ضرورت تھی۔وہ خود بھی ہنس کر لڑکے کی حرکت سے لطف اندوز ہو سکتے تھے‘لیکن ایسا نہ ہوا‘انہوں نے چھوٹی سی غلط فہمی کو ’’جنگ‘‘کی شکل دے دی۔

ایسے بے شمار واقعات روز ہمارے ارد گرد وقوع پذیر ہوتے ہیں۔عام معمولی باتیںبڑے جھگڑوں اور جھگڑے فساد میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔یہ چیز‘یہ علامت ثابت کرتی ہے کہ ہمارے معاشرے کی قوتِ برداشت جواب دے چکی ہے‘لوگوں کے اعصاب کمزور ہو چکے ہیں اور وہ اب معمولی معمولی باتوں پرلڑنے مرنے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں۔اعداد وشمار کا جائزہ لیںتو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ سابقہ دس برسوں میں قتل کے جرائم میں آٹھ سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔اس وقت پاکستانی جیلوں میں سزائے موت کے۹۸۱۲ مرد‘۲۵۶ عورتیں اور۴۲۶ نو عمر قیدی ہیں۔یہ تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔اگرآپ ان ۲۰۳۳۰مجرموں کی کیس ہسٹری کا مطالعہ کریں تو آپ یہ جان کر حیران ہو جائیں گے کہ [L:4 R:222]۹۵کیسوں کی وجوہات’’تم مجھے دیکھ کر ہنس رہے تھے‘‘سے ملتی جلتی ہیں۔پنجاب میں تو پچھلے سال دو نوعمر لڑکے مرغی کا انڈہ چوری کرنے پر قتل ہو گئے اور ۸ معصوم بچے آٹا چوری کرنے کے مقدمے میں دھر لئے گئے۔

اب ایک اورعذاب تواترکے ساتھ ہمارے ملک میںنازل ہوگیاہے۔ہرروزمیڈیامیںیہ خبریںپڑھنے اورسننے کومل رہی ہیںکہ ظالم ، سفاک اوراوباش قسم کے افراداپنے انتقام کی آگ بجھانے کی خاطرمخلاف گروہ کی باپردہ عورتوں اوربچیوںکوننگاکرکے گلیوںاورسڑکوںپرایک جلوس کی شکل میںگھماتے ہیںاورہماری پولیس جس کاکام ایسے افرادکونکیل ڈالناہوتاہے ان ملزمان کے ساتھ ملک مکاکرکے انہیںکھلی چھٹی دے دیتی ہے تاکہ وہ اپنے ان گھناؤنے جرم پرفخرسے گردن اکڑاکراسی معاشرے میںاپنے طاقتورہونے کاثبوت فراہم کرتے رہیں بلکہ اب تویہ شرمناک اورقبیح فعل ہمارے پولیس تھانوںمیںرونماہورہے ہیں جہاں کمزوراوربیکس خواتین کی اجتماعی آبروریزی کردی جاتی ہے اور بعدازاںاپنے پیٹی بھائی کوبچانے کیلئے محکمہ کودپڑتاہے یاکوئی اعلیٰ حکومتی اہلکارفوری طورپراپنی اس فرض شناسی اورسخاوت کومیڈیاکے ذریعے سستی شہرت کیلئے ایک چیک لیکر اس کے گھرپہنچ جاتاہے ۔

یہ کیا چیز ہے‘یہ کس بگاڑ‘کس تبدیلی کی علامتیں ہیں۔یہ علامتیں ثابت کرتی ہیںہم اعصابی طور پر ایک کمزور معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ہم ایک ایسے ملک میں زندہ ہیں جس کے شہریوں کی قوتِ برداشت جواب دے چکی ہے۔لیکن سوچنے کامقام یہ بھی ہے کہ ایسے بے غیرت افرادکولگام ڈالنے کیلئے ہمارے حکمران کیوں خاموش ہیں۔اب تک کسی کوعبرت کانشان کیوںنہیںبنایاگیاتاکہ آئندہ کسی کوایسی جرأت نہ ہو۔ آپ قتلوں کے اعدادوشمار ایک طرف رکھ دیں‘آپ ویسے غور کریں‘آپ کے اردگرد آج جن اختلافات پر بڑے فسادات ہو رہے ہیں‘جن پر درجنوں لوگوں کے سر پھٹ جاتے ہیں‘ٹانگیں ٹوٹ جاتی ہیں‘کیا چند برس قبل اختلافات پر یہی ردِعمل ہوتا تھا؟آپ کا جواب یقینا نفی میں ہوگا‘پھر سول پیدا ہوتا ہے اتنی بڑی ’’ڈی جنریشن‘‘(Degeneration)اتنی بڑی مہلک تبدیلی کیسے آگئی۔

وہ کون سی وجوہات ہیںجن کے باعث پورے ملک کی سائیکی تبدیل ہوگئی‘لوگ کیوں صرف دیکھنے’’کھنگورہ‘‘مارنے اور ہنسنے ہر ایک دوسرے سے دست وگریبان ہو جاتے ہیں۔ انتقام کی آگ بجھانے کیلئے بے گناہ خواتین کے ساتھ ایساظالمانہ سلوک کیاجاتاہے کہ جس کودیکھ کرآسمانی مخلوق بھی شرم سے سہم جاتی ہے ۔ہو سکتا ہے ہمارے ملک کے اعلیٰ دماغ معاشی بد حالی اور کم علمی ہی کواس کی وجہ قرار دیںلیکن یہاں ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے امریکہ میں تو کسی قسم کا معاشی مسئلہ نہیں‘دنیا میں سب سے زیادہ فی کس آمدنی امریکہ کی ہے‘تعلیم بھی عام ہے‘۹۹فیصد امریکی تعلیم یافتہ ہیں لہندا وہاں تو اس قسم کے مسائل پیدا نہیں ہونے چاہئیں!لیکن حقائق یہ ثابت کرتے ہیں دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ جرائم امریکہ میں ہوتے ہیں۔امریکہ میں ہونے والے جرائم کا ۹۲ فیصدتشدد پر مبنی ہوتا ہے۔سینٹ کی ایک اسٹینڈنگ کمیٹی کے مطابق دو سال میں تیرہ لاکھ ۵۳ہزارسے زائد امریکی خواتین کی آبروریزی ہوئی‘کمیٹی کے چیئر مین کا کہنا ہے کہ امریکہ میں ہر ہفتے تین ہزارسے زائد خواتین سے جنسی زیادتی ہوتی ہے جس میں [L:4 R:222]۹۳  عورتیںقتل ہو جاتیں ہیں‘ ابھی چند روز پہلے امریکی ادارے نے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ کے ۳۵لاکھ نوجوان خودکشی کرنا چاہتے ہیں۔

ابھی حال ہی میںامریکامیں۲۰جولائی ۲۱۰۱۲ء کوپی ایچ ڈی کے طالب علم جیمز ہولمزJames Holmesنے اندھادھندفائرنگ کرکے۱۲/ افرادکوموقع پرہلاک کردیااوربیسیوں کوزخمی کردیاجن میںچارافرادہسپتال پہنچنے سے پہلے جان ہار گئے ۔ ۲۰۰۷ء میںکولمبیامیںایک امریکی ’’سیونگ ہوئی چاؤSeung-Hui Cho‘‘نے ۳۲/افرادکوگولیوںسے بھون دیااور ۲۰۰۹ء میںالبامہ میں’’ مائیکل مکلینڈن‘‘ نے فائرنگ کرکے  دس بے گناہوں کو موقع پرقتل کرنے کے بعد خودکشی کرلی۔تیسری دنیاکے مقابلے میںامریکامعاشی خوشحالی سے مالامال ملک ہے توپھریہ وحشت  ودرندگی کیسی؟

امریکہ کا دفاعی بجٹ۶۶۰ بلین ڈالرہے‘یہ دنیا کے ۱۶۲ ممالک کے مجموعی بجٹ کے برابر ہے ‘لیکن اتنے بھاری بجٹ اور بھاری مراعات کے باوجود امریکی فوجیوں میں خودکشی کا خوفناک رحجان پایا جاتا ہے‘جب کہ بلند آواز میں بولنے اور برتن توڑنے میں تو امریکیوں کی نظیر نہیں ملتی۔امریکہ کے برعکس اسکینڈے نیوین(Scandinavian) ممالک میںقابلِ تعریف برداشت پائی جاتی ہے۔ناروے‘سویڈن اور ڈنمارک میںتو قتل تو بہت دور کی بات ہے ‘عام لڑائی جھگڑوںکے واقعات بھی خال خال ہی وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ان ممالک میں جرائم کی یہ صورتحال ہے کہ وہاں کے اخبارات میں کرائم رپورٹر کی آسامی ہی نہیں ہوتی۔چین اور جاپان میں جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں۔جاپان میں لوگوں کی قوتِ برداشت کا یہ عالم ہے کہ ایک شاہراہ پر برفباری میں تین گھنٹے ٹریفک بلاک رہی اور مصروف ترین ملک کے مصروف ترین شہر ی بڑے صبر سے گاڑیوں میں بیٹھے رہے۔وجہ معلوم کی گئی تو پتہ چلا سڑک پر کسی جانور کی لاش پڑی تھی۔ایک کار اس کے قریب رکی تو اس کے پیچھے گاڑیاں کھڑی ہو گئیں۔کسی نے ہارن تک نہیں بجایا‘اپنے سے اگلے کار ڈرائیور کو بر ابھلا تک نہیں کہا۔

چین میں پچھلے بارہ برسوں میں قتل کے صرف دو واقعات رپورٹ ہوئے۔یہ فرق کیوں ہے ؟یہ فرق صرف سوشل جسٹس ‘صرف سماجی انصاف کی وجہ سے ہے۔جن معاشروں میں لوگوں کے حقوق ‘لوگوں کی عزتِ نفس محفوظ ہو‘ان کے شہریوں کی قوتِ برداشت بھی قائم ہوتی ہے۔ان معاشروں‘ان ملکوںمیں لوگ ہنسنے کے جرم میں دوسروں کو گریبان سے نہیں پکڑتے‘معمولی معمولی باتوں پر پستول نہیں نکالتے‘لیکن جن ملکوں میں ‘جن معاشروں میں انصاف نہ ہو‘حکومتیں کروڑوں لوگوں کے حقوق روند ڈالتی ہوں‘لوگوں کا حکومتوں ‘عدالتوں اور سیاستدانوں سے اعتماد اٹھ گیا ہو ‘ان ملکوں میں ‘ان معاشروں کے شہریوں کی قوتِ برداشت جواب دے جاتی ہے۔وہ نفسیاتی کینسر کا شکار ہوجاتے ہیں۔کہا جاتا ہے جب آنکھیں نہیں روتیںتو پھر پورا بدن روتا ہے۔جب لوگ حکومتوں سے نہیں لڑ سکتے‘زیادتی پر چیخ نہیں سکتے تو وہ پھر ہر دوسرے شخص سے لڑتے ہیں‘اپنے سے کمزور ہر شخص پر چیختے ہیں۔سوچئے!آج پاکستان میںبھی یہی صورتحال تونہیں؟ رہے نام میرے رب کا جو صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے!

لما تقولون مالا تفعلون……وہ بات کیوں کہتے ہو جس پر تم خود عمل نہیں کرتے!!!

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *