Home / Socio-political / آڈیٹرز اور کنٹریکٹ

آڈیٹرز اور کنٹریکٹ

 عباس ملک

انتظامی معاملات میں اداروں کے آڈٹ کو کلیدی اہمیت حاصل ہے ۔کسی بھی نجی ادارے کا سربراہ کبھی نہیں چاہے گا کہ وہ جس آڈیٹر فرم کو ادارے کے نظام میں چھپے ہوئے ناسور طشت ازبام کرنے کیلئے فیس ادا کریں وہ اس نظام میں چھپی ہوئی خرد برد کی بجائے صرف انتظامی غلطیوں کی نشاندہی کرکے ایک طرف ہو جائے ۔آڈٹ کا مطلب ہی یہی ہے کہ ادارے کی آستین میں چھپے ہوئے دشمن اور اس کا خون نچوڑنے والی جونکوں کی نشاندہی کرے ۔اس طرح تو اگر صرف انتظا می کاغذی کلریکل غلطیوں کو اگر آڈیٹر درست کرنے کی مشق کرتے رہے تو پھر اداروں کو نقصان پہنچانے والے عناصر کا خاتمہ کسی صورت بھی ممکن نہ ہو گا۔#

ملک کے انتظامی معاملات چلانے کیلئے آئین اور قانون کاآڈٹ اور پاسداری ضروری ہے ۔آئین اور قانون کے پاسدار ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کی مشق کرتے رہیں تو انتظامی معاملات پر ان کی گرفت نہیں رہے گی ۔قانون بنانے والے اگر قانو پر عمل درآمد کرانے والوں کے ہاتھ روکیں گے تو قانون کی عملداری کسی صورت ممکن نہیں ہو گی ۔قانون پر عملدرآمد کرانے والوں کو استحقاق کی حدود کا پابند بنا دیا جائے تو بھی عدل و انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہو پائیں گے ۔کسی بھی ملک کے آئین اور قانون کی نشریح ہر گز یہ نہیں ہو سکتی کہ فلاں قانون یا آئین کی دفعات عام شہریوں کیلئے تو یوں ہونگی اور لیکن اس سے کسی دوسرے طبقے کے فرد کو استثناء حاصل ہے ۔ریمنڈ ڈیوس آزاد عدلیہ اور قانون کی علمداری اور ملکی انتظامی معاملات پر دسترس رکھنے والوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے ۔ایک آزاد ملک کی آزاد عدلیہ اس طرح فیصلہ دیکر ثابت کرتی ہے کہ انصاف کی فراہمی کی مجوزہ رفتار معاشرے کے تمام افراد کیلئے یکساں نہیں ہے۔اس سے تو یہی ثابت ہوا کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا فارمولا کا ریگر ہے ۔اگر آپ کے پاس پیسہ اور سفارش ہے تو آپ قتل عمد سے بھی خود کو بری کرا سکتے ہیں ۔ملک کو آئین اور قانون کی لاٹھی کا سہارا دینے والے اس لا ٹھی سے اگر مظلوم کا سر پھوڑ دیں تواسے اعلی انصاف سے تعبیر کیا جانا ہی درست مانا جائے گا۔ اٹھارویں ترمیم کے جملہ امور طے کرنے والی کمیٹی کو ہلا ل پاکستان سے نوازا گیا لیکن اس میں اکثریت نے مختلف وجوہات کی بنا پر یہ ایوارڈ لینے سے ا نکار کر دیا ۔یہ بھی بڑی بات ہے کہ کم ازکم انہوں نے اتنا ہی کیا کہ صدر کے ہاتھوں سے تبرک لینے کو ہی گنا ہ جانا ۔ہالبروک کو اگر ایوارڈ دیا جا سکتا ہے تو پھر ریمنڈ ڈیوس کو تمغہ شجاعت سے بھی نوازا جانا چاہیے ۔عام آدمی تو یہی سمجھتا ہے کہ آڈیٹر اداروں اور قانون دان قانون میں پائی جانے والی خامیوں اور اس کے نقائص کو لیکر ذمہ داران کے خلاف کاروائی کا حکم دیتا ہے ۔یہ عام آدمی کی خام خیالی اور کم علمی کے سوا کچھ نہیں ۔ان کے نزدیک ادارے کے انتظامی نقائص کو میں خرد برد کا تصور ہی نہیں بلکہ وہ انہیں انتظامی غلطیاں کہتے ہیں ۔اور اداروں کو انہیں دور کرنے کا صائب مشورہ دیکر بری الذمہ ہو جاتے ہیں ۔ملکی قوانین اگر طبقہ اشرافیہ کے کسی فرد کو کسی طرح اگر گرفت میں لے بھی لے تو قانون دان اس کے فرم کی توجیحات کے انبار کااکھٹاکر لیتے ہیں ۔ملکی قوانین کے تحت منی لانڈرنگ کے کیس ہی اس کی مثال ہیں ۔طبقہ اشرافیہ کے غیر ممالک میں موجود اکاؤنٹس میں لاکھوں کروڑوں ڈالرز اور پاؤنڈز آخر کس طرح او رکس قانون کے زیر لا ئے جائیں۔راحت فتح انڈیا سے روپیہ لانے میں کیونکر ناکام رہے اگر اس کو اس قسم کے کیسززکے تقابل میں دیکھا جائے تو یقینا صورتحال کو سمجھنے میں آسانی رہے گی ۔آڈٹ رپوٹ میں کک بیکس ،کمیشن اور منافع کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا تو پھر آڈٹ کس لیے کیا جاتا ہے۔اس کا آسان جواب یہی ہے کہ آڈٹ ان تمام جرائم کو قانونی گنگا کے پوتر پانی سے آشنان کرا کے انہیں پوتر بنانے اور قرار دینے کا نام ہے ۔لوٹ کھسوٹ اور اخلاقی طور پر اختیارات کا ناجائز استعمال کسے کہتے ہیں ۔کیا قانون ساز اسمبلی کے ممبران اپنے لیے جو مراعات چاہیں ان کو پاس کرا لیں وہ جائز ہونگی ۔اس ملک کو ڈیموں کی تعمیر کیلئے فنڈز کی ضرورت ہے لیکن ممبران پارلیمنٹ کو ولاز کی تعمیر کیلئے فنڈز کی ضروت ہے ۔کو ن سے چیز اہم ہے ۔اگر ڈیموں کیلئے فنڈز دستیاب کرنے کی بجائے پارلیمنٹ لا جز کیلئے فنڈز ریلیز کر دیئے جائیں تو یہ اختیارات کو صیح استعمال ہو گا ۔عوام کو سیکورٹی فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن حکومت اگر صرف وزراء کیلئے سیکورٹی کی فراہمی اور انکی جان کے تحفظ کیلئے بلٹ پروف گاڑیوں کے بیڑے میں ہی اضافے کیلئے فنڈز استعمال کرتی ہے تو کیا یہ اختیارت جو کہ عوام کے ووٹوں سے تفویض کردہ ہیں کا صیح اور برمحل استعما ل ہے ۔اسمبلیوں کے ممبران کی تنخواہوں اورمراعات میں اضافہ کا بل جتنی سرعت میں منظور ہوتا ہے کیا وہ اختیارات کا جائز استعمال ہے ۔آئین اور قانون کو اپنے استحقاق اور تحفظ کیلئے آڑ استعمال کرنے والے اکابرین جن کی ان مراعات کو آئین اور قانون کے تقاضوں کے عین مطابق ہر آڈیٹر قرار دے گا ۔وہ عوام پر ہونے والے ڈرون حملوں کو کس طرح میزان میں لائے گا۔ ملک میں عام کے ساتھ ہونے والی ہر جبر کی خبر کو کس پلڑے میں ڈالا جائے ۔آئین عوام کے جان و مال ،عزت و روزگار کا تحفظ فراہم کرتا ہے ۔ اداروں میں کنڑیکٹ کے نام پر رکھے اور نکالے جانے والے والے گریڈ ۱ سے چودہ تک کے نان ٹیکنیکل سٹاف کے روزگار کی ضمانت کون دے گا ۔کنٹریکٹ کے نام پر عوام کے روزگار پر چلتی ہوئی مشرف اور شوکت عزیز کی اس تلوار کو روٹی کپڑا مکان یا خادم اعلی اور قائد اعظم ثانی کی نظر کرم عوام کے سر پر لٹکتی اس تلوار کو دور کر نے کی سعی کرے گی ۔کیا کوئی قانونی آڈیٹر اس انتظامی غلطی کو درست کرانے کیلئے ضرور قلم صرف کر سکتا ہے ۔نہیں ہو گا کیونکہ پارلیمنٹرین اور ان کے اقربا کو اس سے کوئی سروکار نہیں ۔جاگیردار ،سرمایہ دار ،کارخانہ دار ،صنعتکار کو کیا ضرورت پڑی کہ وہ کنٹریکٹ ملازمت کے مسائل پر توجہ دے ۔ہاں اگر کوئی کنٹریکٹ ان کی توجہ حاصل کر سکتا ہے تو وہ عصر حاضر میں پاور پلانٹس ہیں ۔انہیں درآمد و برآمد کے کنٹریکٹ مرغوب ہیں جن سے ان کے فارن کرنسی اکاؤنٹس کا پیٹ بھر سکتا ہے ۔غیب کیلئے بھوکا رہنا اور ملک اور قوم کیلئے قربانی دینا ضروری ہے ،ورنہ یہ ملک بھی کنٹریکٹ پر کسی کو ٹھیکے میں دیا جا ] ]>

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *