سمیع اللہ ملک
اب تک پاکستان کے سات قبائلی علاقوں میں سے چھ میں فوجی آپریشن ہوچکے ہیں اورکم وبیش ہرعلاقے میں ہماری افواج کی مستقل چوکیاں بھی قائم ہوچکی ہیں اورساتواں علاقہ شمالی وزیرستان ہے جہاں فوجی آپریشن کیلئے امریکاکاسخت دباوٴ جاری ہے۔آجکل ہمارے میڈیامیں یہ بحث بڑے زوروشورسے چل رہی ہے کہ کیاہمیں کسی بھی غیرملکی دباوٴ کے تحت فوجی آپریشن کرناچاہئے ؟کیاشمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن میں پاکستان کی سلامتی کوکسی نقصان کااحتمال ہے یاکسی دیرپافائدہ کیلئے آپریشن کاہونابہت اہم ہے؟اس آپریشن کے کیامضمرات ہوسکتے ہیں یاپھریہ آپریشن ملکی خودمختاری کاتقاضہ ہے؟امریکی افواج کے سربراہ ایڈمرل مائیک مولن نے میڈیاکے سامنے یہ انکشاف کیاکہ پاکستان نے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کایقین دلایاہے جس کے جواب میں پاک افواج کے ترجمان میجرجنرل اطہرعباس نے پشاورکورکمانڈرکی موجودگی میں مہمندایجنسی میں میڈیاکواعتمادمیں لیتے ہوئے کہاکہ ” کسی کے دباوٴ میں نہیں بلکہ ملک وقوم کے مفادکومدنظر رکھ کرکہیں بھی آپریشن کافیصلہ کیاجاتاہے“اورکورکمانڈرپشاورنے بھی یقین دلایا کہ” یہ کوئی ایڈہاک کام نہیں ہورہابلکہ پلان اسٹرٹیجی کے تحت آپریشن کئے جاتے ہیں کہ کہاں ہم نے آپریشن کرناہے اورکہاں ہم نے کسی اورطریقے سے کنٹرول قائم کرناہے ،ہم کسی کے دباوٴ کے تحت آپریشن نہیں کرتے“۔
بیش بہاقربانیاں دینے کے باوجود پچھلے دس سالوں میں ”ڈومور“مطالبات کے نتیجے میں ہم آج تک امریکاکومطمئن نہیں کرسکے اوراب۲مئی کے امریکی یکطرفہ آپریشن کے بعدتو صورتحال اس قدربدل گئی ہے کہ عالمی برادری میں بھی پاکستان کوشک کی نگاہ سے دیکھاجارہاہے۔شمالی وزیرستان میں اگرموجودہ سیاسی اوررعسکری قیادت اپنی مرضی سے آپریشن کرنے کافیصلہ کرے گی توقوم اسے ہرحال میں امریکی دباوٴ کانتیجہ ہی سمجھے گی او راس فیصلے پرملک وقوم کاشدیدردعمل سامنے آنے کی بھی توقع ہے۔ہمیں اس وقت یہ دیکھناہوگاکہ کیاواقعی ملکی سلامتی کیلئے ابضروری ہوگیاہے کہ شمالی وزیرستان سے ان تمام غیرملکیوں کوبیدخل کردیاجائے جوآئے دن ملکی اداروں پرایسے خوفناک حملے کررہے ہیں جن کی وجہ سے نہ صرف ملکی سلامتی کوچیلنج کردیاگیاہے بلکہ عالمی طورپربھی ہمارے ایٹمی پروگرام کے خلاف بھی باتیں شروع ہوگئیں ہیں۔
اگر توان دہشتگردوں کاتعلق ان غیرملکی آقاوٴں کے ساتھ ہے جنہوں نے پاکستان کی سلامتی وخودمختاری پرکھلے حملے شروع کردیئے ہیں توپھرسیاسی حکومت کاکام ہے کہ قوم کواعتماد میں لیکر واضح اعلان کرے اوران تمام وجوہات سے قوم کوآگاہ کرے لیکن ہماری حکومت کاوجودتو۲مئی کے بعدکہیں نظرہی نہیں آرہا۔عالمی برادری میں ہم دن بدن تنہاہوتے جارہے ہیں اورہماری خارجہ پالیسی کوگویاکسی بندگلی میں دھکیل دیاگیاہے۔ملک کے اندرکوئی وزیرخارجہ نہیں اورنہ ہی وزرات خارجہ کوئی ایسا موٴثرکرداراداکرہی ہے ۔شمالی وزیرستان پرفوجی آپریشن کادباوٴ پچھلے دوسال سے جاری ہے لیکن ہم جنوبی وزیرستان پرفوجی کاروائی کرکے عالمی دباوٴکامقابلہ کرنے کی کوششوں میں مصروف رہے لیکن ۲مئی کے بعدحالات نے ڈرامائی اندازمیں یوٹرن لیاہے اورعسکری قیادت پرمزیددباوٴ بڑھ گیاہے۔
ابھی حال ہی میں وزارتِ خارجہ کی ترجمان تہمینہ جنجوعہ نے میڈیاکے ساتھ اپنی گفتگومیں شمالی وزیرستان اوردیگرقبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کوملکی مفادمیں قراردیتے ہوئے امریکی دباوٴ کے تاثرکی نفی کرتے ہوئے کہاکہ ” پاکستان دہشتگردی کے خلاف اپنے قومی مفادکی خاطرلڑرہاہے اورکسی بھی علاقے میں فوجی آپریشن کے اقدامات ہم خوداپنے مفادات کیلئے اٹھارہے ہیں اوراس کیلئے مشترکہ آپریشن بھی کئے جاسکتے ہیں کہ یہ ہمارے ملک کی سلامتی اورخودمختاری کیلئے نہائت اہم ہوگئے ہیں“انہوں نے مشترکہ آپریشن کی بھی وضاحت کرتے ہوئے کسی غیرملکی افواج کی موجودگی کومکمل طورپرمستردکرتے ہوئے صرف انٹیلی جنس کی معلومات کے تبادلہ کی حد تک قراردیا۔ان آپریشن کی تفصیلات دینے سے گریزکرتے ہوئے انہوں نے میڈیاکویہ بھی بتایاکہ یہ تمام آپریشنزملک کی سیاسی حکومت کے احکام پرکئے جائیں گے۔ سراسیمگی کی حالت میں قوم ایک مرتبہ پھر سوچ رہی ہے کہ آیایہ جنگ ہماری ہے بھی کہ نہیں یاپھرایسے حالات پیداکردیئے گئے ہیں کہ ملکی سلامتی اورخودمختاری کومحفوظ کرنے کیلئے قوم کو متحدہوکران دہشتگردوں کے خلاف اس مجوزہ آپریشن کی کڑوی گولی کونگلنے کیلئے میدان عمل میں اترناہوگا۔ کیااس معاملے پرقوم کی تقسیم خدانخواستہ کسی بڑے بحران کاسبب تونہیں بن جائے گی؟
ان حالات میں قوم کاایک واضح طبقہ یہ دلائل دیتاہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک زمانہ تھاکہ یہ جنگ ہماری نہیں تھی لیکن اب ایک ایسی جنگ جوایک فاسق کمانڈوکی بزدلی سے اس ملک کے بدنصیب عوام کے سروں پرتھوپ دی گئی ہے جس سے اس قوم کے ۳۵ہزارسے زائدلوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے،چھ ہزار سے زائدسیکورٹی فورسزکے افراد اس جنگ کی نذرہوگئے اوراس غریب اورمفلس قوم کے تقریباً۵۷۸۰/ارب روپے آگ میں جھونک دیئے گئے اوریہ جنگ ابھی تک ہماری سرزمین پرلڑی جارہی ہے ۔جس میں ہمارے ملک کے اسکول بلاامتیازکھنڈرات میں تبدیل کردیئے گئے ہیں،جس میں ہماری پگڑی،مساجدومنبر،داڑھی ومحراب کے تقدس کی دھجیاں اڑادی گئی ہیں جس کے نتیجے میں قومی ذہانت اورسرمایہ اس ملک سے ہجرت کررہے ہیں،اس جنگ میں مرنے والابھی میرااپناہے اورمارنے والا بھی میرااپناہے اوراب ان حالات میں اگر کوئی اس کواپنی جنگ نہیں کہے تواورکیاکہے؟ہاں البتہ یہ ضرور سوچناہوگاکہ یہ کب اورکیوں ہماری جنگ بنادی گئی اورکیااب یہ میری جنگ بن گئی ہے ؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس پرائی جنگ کوبزورطاقت اورہمارے سابق حکمران کی بزدلی کی بناء پرہمیں اس کافریق بنایاگیالیکن کیایہ جنگ نائن الیون کے بعدہماری جنگ بنی؟ اس سے پہلے یہ سوویت یونین اورامریکاکی ایسی جنگ تھی جس میں امریکانے اس خطے کے مسلمانوں کواستعمال کرتے ہوئے روس کی برتری کوختم کیااورمسلمانوں کے خون سے حاصل کی ہوئی فتح کواپنے نام سے منسوب کرتے ہوئے ساری دنیاکی واحدسپرطاقت بن کراب دنیاپرراج کرنے کاخواب دیکھ رہاہے۔اس خطے سے روسی افواج کے انخلاء کے بعدامریکابھی فتح کاجشن مناتے ہوئے واپس چلاگیاجس کے بعدافغانستان میں خودمجاہدین میں اقتدارکیلئے خانہ جنگی شروع ہوگئی اوروہ افغان جنہوں نے دنیاکی ایک سپرطاقت کوٹکڑے ٹکڑے کردیااب وہ آپس کی خانہ جنگی میں ایسے الجھے کہ چندبرس طالبان کے امن کے دورانیہ بھی اب خواب بن کررہ گیاہے۔
ہمارے ملک میں اس جنگ کے شعلوں نے ہمارے پڑوسی دوست ممالک (سعودی عرب اورایران)کی مددسے فرقہ واریت کی شکل اختیارکرتے ہوئے ہمارے اداروں ، مساجد و منبر اورمحراب ومدارس کاخون بہاناشروع کردیااورآج تک اس کشت وخون کاسلسلہ ختم ہونے کانام نہیں لے رہااوراس کے بعدپاکستانی قوم کوواضح طورپرمختلف مذہبی دھڑوں میں تقسیم کرکے اب اس فرقہ واریت کی جنگ کوبھی ملک کی جنگ بنادیاگیا ہے۔ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ یہ تو عرب حکمرانوں ،اسامہ بن لادن اورایمن الظواہری جیسے لوگوں کی جنگ تھی جس کوہماری جنگ بنادیاگیا اورپھرشائدنائن الیون کے بعدیہ امریکااورالقاعدہ کی جنگ تھی جواب ہماری جنگ بنادی گئی ہے اوراب یہ جنگ جو ہماری سرزمین پرلڑی جارہی ہے وہ امریکااورایران کی بھی جنگ ہے ،وہ چین اورامریکاکی بھی جنگ ہے اوروہ ایران اورسعودی عرب کی بھی جنگ ہے اوراس پورے تاریخی تناظرمیں اس جنگ کواپنی جنگ سمجھنے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہٴ کارنہیں لیکن کیا اب اس جنگ کوامن کے ساتھ ختم کیاجاسکتاہے؟
اگریہ جنگ واقعی ہماری جنگ ہے توپھر اس جمہوری حکومت کی مشترکہ پارلیمنٹ نے ۲۰۰۹ء میں اس جنگ سے خلاصی کی پہلی قرادادمنظورکرتے ہوئے اس جنگ سے الگ ہونے کا عندیہ کیوں دیا؟اب حال ہی میں ۲۲مئی ۲۰۱۰ء کو پہلی قراردادکالحاظ رکھتے ہوئے ایک اورقرادادمیں امریکاسے اس جنگ میں معذوری کااظہارکیوں کیاگیا؟اگراس جنگ سے واقعی ہماراکوئی تعلق نہیں توہم اب تک امریکاسے اس جنگ کے اخراجات کس مدمیں وصول کررہے ہیں؟پارلیمنٹ نے تودوٹوک اندازمیں موجودہ حکومت کواپنی پالیسیوں کوتبدیل کرنے کوکہاہے اورمزیدڈرون حملوں کے نتیجے میں امریکاونیٹوکی افواج کی موجودہ سپلائی لائن اورایساف سے عدم تعاون کاکہاہے لیکن اس قرادادکے منظورہوجانے کے بعددس سے زائدڈرون حملے ہوچکے ہیں اورحکومت کی طرف سے کوئی مذمتی بیان تک نہیں آیاتواس کامطلب تویہ ہے کہ یہ جنگ اب بھی امریکاکی جنگ ہے جس کیلئے ہماری سرزمین کواستعمال کیاجارہاہے۔
ایک دلیل یہ ہے کہ ریاست نے ابھی اس کو۱۹۶۵ء اور۱۹۷۱ء کی طرح اپنی جنگ قرارنہیں دیا،نہ ہی کسی ایمرجنسی کااعلان ہواہے اورنہ ہی ہمارے فوجیوں یاسیکورٹی فورسزکی چھٹیاں منسوخ ہوئی ہیں لیکن اس کے باوجودملک حالتِ جنگ میں نظر آتاہے۔اب ہمارے ملک کوکئی ممالک نے اپنے مفادات کے حصول کیلئے ایک چراگاہ بنادیاہے۔اب ریاست اعلان جنگ کرے یانہ کرے ،جنگ روزانہ ہورہی ہے اورپوری دنیادیکھ رہی ہے کہ پاکستان اس وقت حالتِ جنگ میں ہے اورشائد یہ مسئلہ اس لئے حل نہیں ہورہاکہ ہماری سیاسی وعسکری قیادت القاعدہ اورطالبان کے بارے میں حقیقت کااعتراف نہیں کررہی ۔اس جنگ کے حل پراختلاف ہوسکتاہے،اس جنگ کاحل جنگ نہیں ہے بلکہ اس کاسیاسی سفارتی اورمفاہمتی حل نکالنے کیلئے تمام فریقوں کوحقائق کاادراک کرتے ہوئے القاعدہ اورپاکستانی طالبان کی حقیقت کااعتراف کرناہوگاکہ وہ اس وقت اپنی بقاء کیلئے پاکستان کی ریاست کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں اوران کی پشت پر وہ غیرملکی قوتیں بھی ہیں جواس وقت پاکستان کوکمزورکرکے اس کی ایٹمی صلاحیت کوختم کرنے کے درپے ہیں بلکہ اب توایرانی صدراحمدی نژادنے بھی پاکستان کواس امریکی خطرہ سے آگاہ کیاہے۔ اس لئے اس فرق کوسمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ امریکاکی پھیلائی ہوئی دہشتگردی کی جنگ توقطعاً ہماری جنگ نہیں بلکہ وہ توہمارے خلاف جنگ ہے لیکن وہ جنگ جومیرے ملک کے استحکام،سلامتی اورخودمختاری کے خلاف جنگ ہورہی ہے وہ پاکستانی قوم کی جنگ ضرور ہے ۔
پچھلے دنوں فاسق کمانڈونے ایک مرتبہ پھرمیڈیاکے ذریعے اپنی ان فاش غلطیوں اورکوتاہیوں کادفاع کرکے ملک وقوم کی ہمدردیاں سمیٹنے کی ناکام کوشش کی جبکہ اسی کے دورمیں ہمارے نا مورہیرومحسن پاکستان ڈاکٹرعبدالقدیرپرنہ صرف پابندیاں عائدکردی گئیں بلکہ ہم نے اپنے محسنوں سے دغابازی اوردھوکہ بازی کی ایک ایسی بدترین تاریخی مثال قائم کی جس کودھونے کیلئے اب شائدصدیوں کی وفادرکارہوگی۔حیرت کی بات تویہ ہے کہ موجودہ سیاسی حکومت نے بھی مشرف دورکی پالیسیوں پرعملدرآمدکرتے ہوئے ڈاکٹرعبدالقدیرکے ساتھ ابھی تک نارواسلوک جاری رکھاہواہے ۔ ڈاکٹرقدیرصاحب کے پچھلے چندکالموں کی اشاعت نے ہمارے وزیرداخلہ کوکافی ناراض کردیاہے جس کی وجہسے
اب پاکستانی وزارت ِداخلہ نے اسلام آبادہائی کورٹ میں یہ شکائت درج کروائی ہے کہ ڈاکٹرعبدالقدیراپنی حفاظتی پابندیوں کی پرواہ نہیں کرتے ۔اب سارے ملک میں تشویش کی ایک ایسی لہردوڑگئی ہے کہ کہیں حالیہ دہشتگردی کی لپیٹ میں ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب کی زندگی کوتو خطرات لاحق نہیں ہوگئے اورہمارے وزیرداخلہ کے پاس توپہلے سے یہ بہانہ تیارہوگاکہ ان طالبان نے الیاس کشمیری کی ہلاکت کے بعدہمارے ہیروپریہ حملہ کیاہے اوراسی لئے ہم نے ڈاکٹرعبدالقدیرصاحب پر کسی دہشتگردحملے کے خطرے کی بناء پرہائی کورٹ سے پابندیوں کی درخواست دے رکھی تھی۔ اس لئے ملک وقوم کیلئے بہت ضروری ہوگیاہے کہ محسن ِ پاکستان کے خلاف کسی بھی ایسی مجوزہ کاروائی کے تدارک کیلئے موجودہ حکومت سے اس بات کامطالبہ کریں کہ اگرمستقبل میں خدانخواستہ کوئی ایسی کاروائی ہوئی تواس کی مکمل ذمہ دارموجودہ حکومت ہوگی۔
آزادکشمیرکے ایک دوردرازعلاقے ڈڈیال کے ایک پرائمری اسکول کے استادمحمداشرف نے بڑے ہی سادہ الفاظ میں تمام پاکستانیوں سے ایک سوال کیاہے
نہ تم مجنوں نہ تم مجذوب ہو پھرکیاہوا؟اتنے مضروب ہو
سارے جہاں کی جھڑکیاں سہتے ہو کیاتم کسی کے خاکروب ہو ؟