عباس ملک
زندگی میں بے بسی کس کا نام ہے کیا اسے جمہوریت کا نام دینا مناسب ہوگا۔ انسان کتنا بے بس ہو جاتا ہے جب اپنے ہاتھوں جوتے اتار کر دوسرے کو دیتا اور پھر اپنا سر بھی اگے کرتا ہے کہ مجھے مارو۔پھر بھی جب مارنے والا کہتا ہے کہ مجھے مزا نہیں آیا پھر سر اگے کرو میں ایک اور جوتا مارنا چاہتا ہوں تو وہ سر اگے کر کے ایک جوتا اور کھاتا ہے۔ اچھا ایک جوتا میرا یہ یار بیلی ہے اس کے ہاتھ سے بھی کھائو تو وہ یہ بھی کرتا ہے۔ جوتے کھانے کی یہ مشق اس قدر پختہ ہو جاتی ہے کہ پھر اس کا دل کرتا ہے کہ کوئی ہو جو اسے جوتے مارے۔ خود کو رسوا کرنے کی یہ مشق جمہوری اقدار کہلانا شروع کر دیتی ہے۔ جوتے مارنے والے پشت در پشت جوتے مارے جا رہے ہیں اور کھانے والے نسل در نسل جوتے کھائے جارہے ہیں۔ اس دوران میں اگر ایک پارٹی کو اکثریت نہیں ملی تو دوسری اس کے ساتھ مل جاتی ہے تاکہ وہ بھی جمہور کی خدمت میں اپنا حصہ ڈال سکے۔ اس کیلئے ضروری نہیں کہ اصولوں کی پابندی کی جائے۔ مذہبی اور سیکولر خیالات کے حاملین مل کر یہ فریضہ سر انجام دے سکتے ہیں۔ البتہ عوام کو دھوکا دینے کے لیے ضروری ہے کہ جمہوریت کے نام پر علیحدہ علیحدہ ہی نعرے بلند کیے جائیں ۔ عوام کو جس طرح بھی ہو سکے کسی ایک قدر پر اکھٹا ہونے سے روکا جائے۔ تاکہ جوتے مارنے اور کھانے والوں کی تخصیص اور فاصلے میں کوئی کمی واقع نہ ہونے پائے ۔ عوام ان کے کھیل کو سمجھ نہ پائیں اور کہیں بغاوت نہ کر دیں ۔یہ نہ ہو کہ جوتے کھانے کی باری اپنی طرف منتقل ہو جائے ۔ پھر بھی وہ جوتے مارنے والوں کے ممنون ہیں کہ انہوں نے ان کی خارش کا علاج کیا۔ یہ جوتے مارنے والے سیاستدان کہلانا شروع ہو گئے اور کھانے والوں کو عوام کا نام دے دیا گیا۔ جوتے مارنے اور کھانے کا یہ عمل جمہوریت کے نام سے منسوب کر دیا گیا۔ سیاستدان عوام کے ساتھ جو کچھ کر رہے ہیں اور جو انہوں نے کیا اور جو کرنے کی تمنا وہ جمہوریت کے نام پر ہی ممکن ہے۔ نسل در نسل موروثی سیاست نے عوام کو بے بس اور لاچار کر رکھا ہے کہ وہ ان سیاستدانوں کے کہے کو حق کی صدا جانتے ہوئے اس کی پیروی اور تقلید کریں ۔ سیاست کو اخلاقیات کے اصل معیار سے دور لے جا کر سیاسی عمائدین نے سیاست کی تعریف کو ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ موجودہ حکومت نے جوتے مارنے کے پانچ سال مکمل کر لیے ہیں اوراب چاہتی ہے کہ اسے مزید پانچ سال دئیے جائیں۔ اپوزیشن کے راہنما چاہتے ہیں کہ نہیں اب ہمیں موقع دیا جائے۔ سیکولر ازم ،سوشلزم ، اسلام کے نام پر جوتے مارنے کا حق جتانے والے بیشمار ہیں۔ ہر کسی نے اپنے لیے کوئی نہ کوئی نعرہ بنا رکھا ہے کہ مجھے اس کے تحت جوتے مارنے کا حق ہے۔روٹی کپڑا مکان ، اسلام اور خلافت ، پاکستان اور عوام کے حقوق کی حفاظت ،انصاف کے نام پر ، گروہی ، لسانی حقوق کے نام پر جملہ حقوق محفوظ کرائے گئے ہیں۔ سبز جھنڈے ، سرخ جھنڈے ، سیاہ جھنڈا ، تیر ،شیر ، سائیکل ، کتاب اور بلاکو عوام کی دھلائی کا بندوبست کرنے کے لیے نشان منتخب کیا گیا ہے ۔ ہر کوئی بڑھ چڑھ کر اپنے کارنامے بیان کر رہا ہے کہ اس نے عوام کی خواہشات کے عین مطابق اور ان کی حسب اوقات جوتا ماری کی ہے۔ عوام ہیں کہ جئے جیوے جیوے اور زندہ ہے زندہ باد ، آوے ہی آوے ، نعرے وجن گے اور آنے والے خوب رجن گے کے نعرہ مستانہ میں مدہوش ہیں۔ پانچ سال میں عوام کے لیے کیا گیا اور پانچ منٹ میں اپنے لیے کیا کچھ کر لیا۔ عوام کے حقوق کی محافظت کے نام پر اپنے حقوق کی نگہبانی کس طرح کی گئی ۔ اس پر نہ کوئی شرمندگی ہے اور نہ کوئی ندامت ہے ۔ عوام کو جمہوریت کے پاسداروں نے کیا دیا۔ جمہوریت کے تسلسل کیلئے عوام نے پانچ سال جو ذلت برداشت کی کیا اس کا صلہ اسے آنے والے جمہوریت کے نگہبان دے پائیں گے۔ کیا آنے والے دنوں میں جمہوریت کے پاسدار صرف جمہوریت کے تسلسل یعنی اپنے اقتدار کے ساتھ کیا جمہور کے مفادات کی نگہبانی کی طرف متوجہ ہونگے۔ آج ڈرون حملے کرنے والے خود تسلیم کر رہے ہیں کہ یہ پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہے لیکن ہمارے حکمران یہ نہیں مانتے۔ آج پانچ سال میں اگر وہ اپنے عوام کا تحفظ نہیں کر پائے تو پھر پاکستان کے تحفظ اور اس کے عوام کے تحفظ کا حلف کا کیا ہوگا۔ کیا وہ آئین کے تحت اپنے ملک کی سلامتی اور اس کے دفاع میں ناکامی کے ذمہ دار قرار پائیں گے۔ سابقہ دور میں عوام کے مفادات کو تہس نہس کر دیا گیا ۔ عوام سے زندگی کی ہر خوشی چھینے لینے کی ہر طرح ہر زاویے سے کوشش کی گئی ۔ ضروریات زندگی کو عوام کی دسترس سے باہر کیا گیا۔ اشیاء صرف کو اتنا مہنگا کر دیا گیا کہ عوام روٹی سے محتاج کر دئیے گئے ہیں۔ آج عزت انا خودی بیچ کر جینا پڑ رہا ہے۔ کیا عوام کی اس خدمت کے عوض پھر بھی دعوی کیا جا سکتا ہے کہ ہم عوام کے حقیقی راہنما اور ان کے حقوق کے محافظ ہیں۔ اگر ایسا کیا گیا تو بے غیرتی اور بے حسی اور بے شرمی کی انتہا ہوگی ۔ایسا ہوگا کیونکہ جس قوم کے یہ لیڈر کہلاتے ہیں وہ بھی انتہائی بے حس ہو چکی ہے۔ بے حسی کے اس دور میں جو سب سے بڑا بے حس ہو گا وہی سردار بھی ہوگا۔ جب تک قوم میں خودی ، انا اور عزت کا عنصر بیدار نہیں ہوتا انہیں ایسے ہی حکمرانوں سے سابقہ پڑتا رہے گا۔ جب عوام ایک دوسرے کے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں ایک دوسرے کو دھوکا دیتے ہیں ایک دوسرے کو کم تر جان کر ایک دوسرے کی بے عزتی کرتے ہیں تو پھر ان میں اتفاق اور یکجہتی کا عنصر ختم ہو جاتا ہے ۔ وہ کسی بھی متحدہ مقصد کے حصول کیلئے یکجا اور یک جان نہیں ہو سکتے ۔ عوام کو اگر انقلاب لانا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ وہ اپنی سوچ اور اپنے عمل میں تبدیلی لائیں۔ ایک دوسرے کے مفادات کو زک
پہنچانے کی بجائے اور ایک دوسرے کے گلے پڑنے کی بجائے ایک دوسرے کے قریب آئیں۔ ایک دوسرے سے محبت کریں۔ ایک دوسرے کے کام آئیں۔ ان کے درمیان اتفاق پیدا ہوگا اور اس کے نتیجے میں وہ یکجا ہو کر اپنے دشمنوں پر غالب آ پائیں گے۔ انقلاب لانے کیلئے اس کی تمنا کرنا ہی کافی نہیں ہوتا اس کیلئے قربانی بھی دینا ہوتی ہے۔ بیشک قربانیاں قوم دیتی آ رہی ہے لیکن یہ قربانی انقلاب کیلئے نہیں بلکہ اپنے نفاق کی وجہ سے سیاستدان ان سے لے رہے ہیں ۔ جو کہ ان کے مفاد کی بجائے انہیں مزید کمزور کر رہی ہے ۔انتخابات میں بھی عوام کو اب اپنے لیے نئے جوتے مارنے والے منتخب کرنا ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام کیسے جوتے مارنے والے کا انتخاب کرتے ہیں۔ ویسے مجھے یقین ہے کہ متشدد مائنڈ ہونے کی وجہ سے ہم چاہیں گے جو زور سے جوتے مارے مزا تب ہی آئیگا ۔یا چاہیں گے جو زرا کم طاقت سے جوتے مارے وہ ٹھیک ہے کیونکہ اب جوتے کھا کھا کر پنڈا لال ہو چکا ہے ۔ اب درد ہوتا ہے جس سے معمولی زور سے بھی لگایا ہوا جوتا بھی چیخنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ابھی تک عوام نے سسکی بھی نہیں بھری کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ۔چیخیں تو دور کی بات ہے۔ اس قوم نے کسی بھی جوتے پر اگر احتجاج کیا ہوتا ، چیخی ہوتی کہ نہیں اب اور نہیں یا ہمیں درد ہو رہا ہے یا یہ ہماری برداشت سے باہر ہے تو کیسے ممکن تھا کہ اسے مزید جوتے پڑتے ۔ منتخب ہونے والے دعوی سے کہتے ہیں کہ انہیں عوام نے منتخب کیا ہے وہ جو چاہیں کریں۔ عوام نے انہیں کبھی پوچھا ہی نہیں کہ تمھیں ہم نے کس لیے منتخب کیا اور تمھاری اوقات کیا ہے۔ چار ووٹوں کے بھکاری اور عوام کی نہ کے محتاج ہو۔ عوام ان کو منتخب کر کے مغل اعظم کے اختیارات استعمال کرنے کیلئے کھلا چھوڑ دیتے ہیں۔ پھر گلا کسی سے کیسے کیا جا سکتا ہے۔ اپنا ہی کیا دھرا ہے ۔اپنے کیے کا شکوہ کس سے یقینا اپنے کیے کا ازالہ کوئی اور نہیں کر سکتا۔
اب کیا ہوگا
اب کیا ہوگا