سمیع اللہ ملک
کچھ ہی عرصے میں امریکاکے دفاع کی باگ ڈورسنبھالنے والے سی آئی اے کے چیف لیون پنیٹاکے غیراعلانیہ دورہٴ پاکستان کوملکی اورغیرملکی اخبارات ایک ناکام دورہ تصورکررہے ہیں۔اس میں جہاں امریکاکی جانب سے پاکستان پردباوٴ ڈالاگیاوہی سوال یہ بھی اٹھتاہے کہ کیایہ سوال سچ ہے کہ پاکستان نے بھی لگی لپٹی کے بغیرامریکاکوکئی معاملات پراپنااصل موٴقف سنادیاہے ؟جہاں امریکاپاکستان کے شمالی وزیرستان اوراس کے ملحقہ علاقوں میں آپریشن چاہتاہے وہی سوال یہ بھی اٹھتاہے کہ پانچ جہادی حلقے مثلاً ملاعمر،حقانی نیٹ ورک،گلبدین حکمت یار،کوئٹہ شوریٰ اورمولوی نذیرکوکیا امریکادہشتگرداورپاکستان اپنااثاثہ سمجھتاہے؟آخرپاکستان ان کامستقبل میں افغانستان سے امریکاکی واپسی کے بعد کیا کرداردیکھ رہاہے؟اگرافغانستان میں ان جہادی گروپوں کی کوئی اہمیت ہے تواس بات کی کیاضمانت ہے کہ پاکستان کوان سے کوئی خطرہ نہیں ہوگا؟اوراگرکوئی خطرہ نہیں ہے تو چند ہی روزقبل اپردیرپرہونے والے حملوں میں کون سی قوتیں ملوث تھیں؟کیاحملہ آورصرف افغان طالبان تھے یاان میں پاکستانی طالبان بھی شامل تھے؟سب سے اہم سوال یہ ہے کہ افغانستان میں ماضی کی اسٹرٹیجک ڈیپتھ پالیسی کیااب پاکستان کے مفادمیں ہے کہ نہیں؟ماضی کی یہ اسٹرٹیجک پالیسی آخرہے کیا،یہ پالیسی کب بنی،کیسے بنی،اس کاہمیں کیافائدہ یانقصان ہوا؟؟؟
ہمیں یہ بتایاگیاکہ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران پاکستان نے اپنے اہم جنگی طیاروں کوممکنہ بھارتی فضائی حملے سے محفوظ رکھنے کیلئے ایرانی بادشاہ رضاشاہ پہلوی کی مددسے جنوبی ایران کے ہوائی اڈے پربھیج دیاتھا تاکہ اگر روائتی جنگ طویل ہوجائے توپاکستان کے یہ قیمتی اثاثے ایک توبھارتی جارحیت سے محفوظ رہیں اوردوسرابھارت پرحملے کیلئے اس محفوظ ہوائی اڈے کواستعمال کیاجاسکے۔اس طرح ہماری اسٹرٹیجک ڈیپتھ پالیسی کے فلسفے کاآغازہواکہ پاکستان اپنی سلامتی کیلئے اپنے کچھ اثاثے دشمن کی نگاہوں سے کہیں اورچھپاکررکھے تاکہ بوقت ضرورت اس اسٹرٹیجک ڈیپتھ پالیسی کافائدہ اٹھاتے ہوئے دشمن کے خلاف وہاں سے کاروائی کی جاسکے۔کیونکہ شاہ ایران اورپاکستان دونوں امریکاکے اتحادی تھے اس لئے پاک ایران تعاون بھی مضبوط تھالیکن ایران میں انقلاب کے بعدامریکااورایران کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہوگئے جس سے امریکاکے اتحادی ہونے کی وجہ سے پاکستان کے ایران کے ساتھ تعلقات اس قدر متاثرہوئے کہ ابایران کے ساتھ اسٹرٹیجک ڈیپتھ پالیسی بھی غیریقینی صورتحال کاشکارہوگئی۔
انہی دنوں جب روس نے نہتے افغانستان پرجارحیت کاارتکاب کیا توقیام پاکستان کے بعد پہلی مرتبہ افغانستان کے لاکھوں افرادنقل مکانی کرکے پاکستان میں پناہ لینے پرمجبور ہوگئے اورپاکستانی حکومت اورعوام نے بے تحاشہ نقصانات اٹھانے کے باوجودمستقل مزاجی کے ساتھ مہمان نوازی کاحق اداکیاتاوقتیکہ روسی افواج جوکہ مریکاکے مقابلے میں ایک سپرطاقت کادرجہ رکھتی تھی، کوشکست کامنہ دیکھناپڑااوروہ روس جس نے پاکستان کے دوٹکڑے کرنے میں بھارت کاساتھ دیاتھابالآخراس کے بھی کئی ٹکڑے ہوگئے اورپانچ نئی مسلمان ریاستوں کاقیام عمل میں آگیا۔اس طرح ۱۹۸۰ء میں ضیاء الحق کے زمانے میں پاکستانی افواج کویہ موقع ملاکہ اس نے پاک افغان کے وہ کشیدہ حالات جو قیام پاکستان سے لیکر روسی افواج کی جارحیت تک قائم تھے ان کونہ صرف دوستی بلکہ برادرانہ اخوت اوربھائی چارے میں تبدیل کرتے ہوئے دوبارہ اپنی اسٹرٹیجک ڈیپتھ پالیسی کاآغازکیا تاکہ مشرقی سرحدوں پردشمن کے ناپاک ارادوں کامقابلہ کیاجاسکے جبکہ ابھی پاکستان جوہری طاقت نہیں بناتھا مگر۱۹۸۸ء میں ضیاء الحق نے ہی کرکٹ ڈپلو میسی کے ذریعے بھارتی وزیراعظم راجیوگاندھی کے کان میں سرگوشی کرکے اپنی جوہری طاقت ہونے کایقین دلایاتھاجس کے بعدبھارت نے اسرائیل کے ساتھ پاکستان کے کہوٹہ پرمشترکہ فضائی کاروائی کرنے سے معذرت کرلی تھی۔
بدقسمتی سے روس کی پسپائی کے بعدامریکااپنے مقاصد کی کامیابی پرفتح کے شادیانے بجاتاہوارخصت ہوگیااورامریکانے ۱۹۸۹ء میں پاکستان پرسخت قسم کی پابندیاں بھی عائدکردیں اورپاکستان کے ایف۱۶خریدنے کیلئے ۶۵۰ملین ڈالربھی ضبط کرلئے۔دنیابھر سے آئے ہوئے مجاہدین پاکستان اورافغانستان میں بے یقینی کی زندگی اورمخدوش مستقبل کے ساتھ مختلف قبائلی علاقوں میں پناہ لینے پرمجبورہوگئے ۔ادھرافغانستان میں مجاہدین کے درمیان اقتدارکی جنگ شروع ہوگئی اورافغانستان میں انہی مجاہدین کے درمیان مستقل خانہ جنگی کوختم کرانے کیلئے افغان طالبان نے جنم لیاجنہوں نے ۸۰٪افغانستان پرمکمل کنٹرول حاصل کرکے ایک پرامن حکومت قائم کردی جسے پاکستان،متحدہ عرب امارات اورسعودی عرب نے باقاعدہ تسلیم کیااورتباہ شدہ افغانستان کی تعمیروترقی کے علاوہ کئی دیگرشعبوں میں نہ صرف خودمددکی بلکہ دوست ممالک کوبھی امدادکیلئے آمادہ کیا اور اس طرح پہلی مرتبہ افغانستان میں پاکستان کی اسٹرٹیجک ڈیپتھ پالیسی کاآغازہوااورپاکستان کی مغربی سرحدیں مکمل طورپرمحفوظ ہوگئیں۔
مگرنائن الیون کے واقعے نے اس خطے کے تمام حالات اورپالیسیوں کوتبدیل کرکے رکھ دیا۔برسوں کی قربانیوں سے تیارکی گئی اسٹرٹیجک ڈیپتھ پالیسی کارخ ایک ہی ٹیلیفون کال نے مکمل طورپرتبدیل کردیااورفاسق کمانڈونے اپنے اقتدارکودوام بخشنے کیلئے یوٹرن لیتے ہوئے ان تمام قربانیوں پرپانی پھیردیا۔جہاں افغانستان کی دوستی سے ہمیں ہاتھ دھونا پڑے وہیں کشمیرمیں جاری جہادکوبھی شدیدنقصان پہنچااورآج اس پرائی جنگ میں آنکھیں بندکرکے امریکاکی حمائت نے ہمیں ساری دنیامیں جہاں تنہاکیاوہاں اب امریکابھی پاکستان پراعتمادکرنے کوتیارنہیں۔ آج افغانستان میں امریکاکی مددسے بھارت نے اپناایک مضبوط نیٹ ورک تیارکرلیاہے جس میں شمالی اتحادکی اسے مکمل حمائت حاصل ہے اور اسی طرح روس اورایران اس خطے سے امریکی انخلاء توچاہتے ہیں لیکن افغانستان کی حقیقی قیادت طالبان کے بارے میں اپنے تحفظات کی خاطربھارتی موجودگی کی مخالفت سے فی الحال گریزاں ہیں۔
وارآن ٹیررکی آڑمیں یہودوہنودنے پاکستان کے جوہری اثاثوں کوختم کروانے کیلئے ملک کے اندرمنظم دہشتگردی کے خفیہ آپریشن پرعملدرآمدشروع کروادیاتاکہ پاکستان کوغیرمستحکم
کرکے اس کو جوہری اثاثوں سے محروم کرنے کیلئے عالمی دباوٴبڑھایاجائے ۔اس خطرناک منصوبے کی تکمیل کیلئے (ٹرائیکا)بھارتی خفیہ ایجنسی را،امریکی سی آئی اے اوراسرائیلی موساد نے پاکستان کے خلاف افغانستان سے مختلف خفیہ آپریشن شروع کررکھے ہیں جن کی تفصیلات کامیں اپنے کئی کالموں میں بارہاذکرکرچکاہوں۔۲مئی کے آپریشن کے بعد پاکستانی افواج کے اندربھی سخت ہیجانی کیفیت پیداہوگئی جس کے ردعمل میں فوری کورکمانڈرزکااجلاس طلب کرکے کچھ ایسے ہنگامی فیصلے کئے گئے جوملک کی سلامتی کیلئے اشد ضروری تھے جس پر فوری عملدرآمدسے پہلی مرتبہ اس وارآن ٹیررمیں مریکیوں کوبھی سخت دھچکالگااوراس خطے میں ان کے مجوزہ منصوبوں کونہ صرف شدیدخطرات لاحق ہوگئے بلکہ اس خطے سے امریکی اوراس کی اتحادی افواج کے انخلاء کاراستہ بھی مسدودہوکررہ گیاہے جس کے ردعمل میں امریکانے ایک طرف پاکستان کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کیلئے امریکی امدادکوبعض کڑی شرائط کے ساتھ مشروط کردیا ہے ۔امریکی ایون نمائندگان نے دفاعی اخراجات کے بل کی منظوری دیتے ہوئے پاکستان کودی جانے والی امدادپرپابندیاں عائدکردی ہیں۔مالی سال ۲۰۱۱ء کیلئے کمیٹی نے دفاعی ادارے پینٹاگون کیلئے ۵۳۰/ارب جبکہ افغان جنگ کیلئے ۱۱۹/ارب ڈالرکی منظوری دی ہے جبکہ پاکستان کیلئے منظورکی گئی ایک اعشاریہ ایک ارب ڈالرکی امدادکا۷۵٪اس وقت تک جاری نہں کیاجائیگاجب تک صدراوبامہ کی انتظامیہ کمیٹی کویہ رپورٹ نہیں دے گیکہ پاکستان کودی گئی امدادکہاں خرچ ہوگی اوردوسری طرف امریکانے پاکستان کے اندراپنے ایجنٹوں کومتحرک کرکے پاکستان کوغیرمستحکم کرنے کی کاروائیوں پر عملدرآمد شروع کردیاہے جس میں پاکستانی عوام اور افواج کے درمیان غلط فہمیاں پیداکرکے ان میں فاصلہ پیداکرنابھی شامل ہے۔
دراصل پاکستانی انٹیلی جنس اداروں نے ۲مئی کوایبٹ آبادمیں ہونے والے امریکی آپریشن کے بعدمتعدد امریکی اورپاکستانی شہریوں کے خلاف عمل کاروائی کرتے ہوئے حراست میں لیکر تفتیش شروع کردی ہے جن کے بارے میں سی آئی اے کے ساتھ تعاون کاشبہ ہے۔پاکستان کے مختلف شہروں میں موجود”امریکی انسانی اثاثوں“کے خلاف کریک ڈاوٴن ۲مئی کے آپریشن کے فوری بعدشروع کردیاگیاتھا۔قومی سلامتی کے معاملات سے متعلق ایک اہم فوجی افسر نے ایک غیرملکی میڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے کہا ہے کہ” اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی کاروائی سے متعلق گرفتاریوں میں دوقسم کے لوگ شامل ہیں،ایک وہ گروہ ہے جس نے امریکی ہیلی کاپٹروں کی ایبٹ آبادکی فضامیں ظاہرہونے کے فوری بعداسامہ کے مکان کے اندرروشنی کاگولہ پھینکاتھا اوردوسرے گروہ میں وہ لوگ شامل ہیں جنہوں نے پاکستانی سرحدکے اندران ہیلی کاپٹرزکوایندھن فراہم کرنے میں مدد کی تھی“۔پاکستان میں موجود”امریکی اثاثے“ان افرادکوقراردیاجارہاہے جوپاکستانی حکومت کے علم کے بغیرملک میں امریکاکیلئے جاسوسی یاان کے خفیہ آپریشنز کیلئے ”لاجسٹک “ مدد فراہم کرتے ہیں۔
بعض اہم عسکری ذرائع کے مطابق ان امریکی اثاثوں کوپاکستانی حکام نے تین مختلف ”کیٹگریوں“میں تقسیم کرکے ان کے خلاف کاروائی میں مصروف ہے۔ان میں پہلی کیٹگری امریکی سی آئی اے کے امریکی اہلکاروں کی ہے جن کی نشاندہی کرکے ان کی مکمل نگرانی کی جارہی ہے اوران کوفوری ملک چھوڑنے کاحکم دیدیاگیاہے اوراب تک کئی درجن امریکی اہلکارپاکستان سے نکل گئے ہیں اوران میں وہ چارامریکی اہلکاربھی شامل ہیں جن کوپچھلے دنوں پشاورمیں ایک گاڑی میں ہماری پولیس نے کئی گھنٹے روکے رکھاتھا۔دوسراگروپ پاکستانی سرکاری اداروں اورسیکورٹی فورسزمیں شامل افرادپر مشتمل ہے اوران میں فوج اورآئی ایس آئی میں تعینات بعض نیم فوجی اورسویلین حکام بھی شامل ہیں۔ان میں بعض افرادکے کورٹ مارشل کی تیاری بھی کی جارہی ہے البتہ ابھی تک اس گروپ کے خلاف باضابطہ تصدیق نہیں ہوسکی ہے اورامریکی اثاثوں کی تیسری کیٹگری وہ عام پاکستانی شہری ہیں جو ملک کے مختلف علاقوں میں مبینہ طورپرسی آئی اے کیلئے جاسوسی کاکام کرتے ہیں اورملک میں پرتشددکاروائیوں میں بھی ملوث ہیں۔ان میں بعض ایسے نوجوانوں کاتعلق با اثر خاندانوں سے ہے جوحال ہی میں امریکامیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے واپس لوٹے ہیں۔
نیویارک ٹائمزکی اطلاع کے مطابق القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت میں مدددینے والوں میں پاک فوج کاایک میجربھی شامل تھاجس کوپاکستانی فوج نے اب اپنی تحویل میں لے لیاہے اوراخبارمیں مزیدیہ اطلاع بھی دی گئی کہ امریکی سی آئی اے کے سربراہ لیون پنیٹانے گزشتہ ہفتے پاکستانی فوجی اورانٹیلی جنس کے سربراہ کے ساتھ اپنی ملاقات میں پاکستان میں سی آئی اے کے ایجنٹس کی گرفتاری پرشدیداعتراض بھی کیاتھاجس کوبعدازاں مستردکردیاگیاتاہم پاکستانی فوج کے تعلقات عامہ کے ڈائریکٹربریگیڈیئرعظمت علی نے پاکستانی فوج سے تعلق رکھنے والے کسی بھی شخص کی اس ضمن میں گرفتاری کی تردیدکرتے ہوئے کہا”کوئی پاکستانی فوجی زیرحراست نہیں ہے لیکن بعض افرادکوہم نے تفتیش کی غرض سے تحویل میں لے رکھاہے جن کے بارے میں ہمیں شبہ ہے کہ یہ لوگ امریکی انٹیلی جنس اداروں کیلئے کام کرتے ہیں“۔البتہ پاک فوج کے ایک بریگیڈیئرعلی خان کوفوجی تحقیقاتی ادارے نے حزب التحریر سے روابظ کے الزامات کے ثبوت ملنے پرحراست میں لے لیاہے اورمزیدچارمیجرزسے بھی تفتیش جاری ہے۔
پینٹاگون اب اس پالیسی پرکاربندہے کہ ایک طرف توپاکستان پردباوٴ،دہمکی اوردھونس کے شدیددباوٴ سے مجبو رکردیاجائے کہ وہ امریکاکی وارآن ٹیرر میں اس کاساتھ دے تاکہ مستقبل میں طالبان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں امریکاکی معاونت کرے اوردوسراپاکستانی افواج جوملکی سلامتی کااہم جزوہے اس کے بارے میں عوام میں خدشات اورغلط فہمیاں پیداکرکے اسے کمزورکیاجائے۔کیا اس وقت بغیرکسی تحقیق کے صحافی سلیم شہزادکے قتل کاالزام آئی ایس آئی پرلگا نادشمن قوتوں کے ہاتھوں کھیلنے کے مترادف نہیں؟غور طلب بات یہ ہے کہ سلیم شہزادنے پہلی مرتبہ اس تکفیری گروپ کے عزائم کوبے نقاب کیاہے جواسلام کے نام پردشمن طاقتوں کے عزائم کی تکمیل میں مصروف ہیں اورخاکم بدہن جوہری پاکستان کوختم کرنے میں ان کی معاونت کررہی ہیں اورایک تیرسے کئی شکارکرنے کاہنرجانتی ہیں۔اس لئے اس خطے میں جاری گریٹ گیم سمجھنے کیلئے احتیاط بہت ضروری ہے۔
بروزجمعرات۲۱رجب ۱۴۳۲ھ۲۳جون۲۰۱۱ء
لندن