اردو ادیبوں کو کشمیر کا درد نظر کیوں نہیں آتا؟
(مشہور ناول نگار مشرف عالم ذوقی سے ایک گفتگو)
سمیہہ:۔ آپ کسی تحریک سے وابستہ ہیں؟ یا تحریک سے الگ رہنا پسند کرتے ہیں؟
ذوقی:۔ میرا تعلق کسی تحریک سے نہیں ہے— ادب کی سطح پر میں آزاد رہنا زیادہ پسند کرتا ہوں۔ لیکن میری شروعات ایک جدید ادیب یا افسانہ نگار کی حیثیت سے ہوئی تھی۔ یہ 1980ء کے آس پاس کا زمانہ تھا جب علامتی اور تجریدی افسانے تحریر ہو رہے تھے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ میں بھی اس سیلاب میں بہہ گیا تھا— کچھ وقت گذارنے کے ساتھ جب میں نے لینن اور مارکس کے فلسفے کو پڑھنا شروع کیا تو میری شناخت ایک ترقی پسند افسانہ نگار کے طور پر بنتی چلی گئی— دس سے لے کر پندرہ برس تک ترقی پسندتحریک سے وابستہ رہا۔لیکن اس کے بعد میں نے محسوس کیا کہ ترقی پسند ادیب اپنے وقت میں جو کچھ بھی لکھ رہے ہیں، ان میں ترقی پسند تحریک کا پروپیگنڈا زیادہ شامل ہے— کہانی بڑے نظریہ کا احاطہ نہیں کر پا رہی ہے— ایسی کہانیاں تقسیم، فسادات، تہذیبی نا ستلجیا(Nostalgia) سے آگے کی فکر کا احاطہ کرنے میں ناکام تھیں۔ 1980ء کے بعد دنیا بہت حد تک بدل چکی تھی۔ نیا نظام سامنے تھا —تقسیم کوایک عرصہ گذر چکا تھا— نئی تحریکیں سامنے آرہی تھیں— اور دنیا آہستہ آہستہ Globalisationکا شکار ہو گئی تھی۔ جاگیر دارانہ نظام ختم ہو چکا تھا۔ نئی دنیا نے نئے مسائل آٹھانے شروع کر دیئے تھے۔ جو مغرب میں لکھا جا رہا تھا ہم اُس سے کافی پیچھے چل رہے تھے— قُراۃؔ العین حیدر تک، اقدار اور تہذیبی نا ستلجیا کے موضوعات کے موضوعات سے آگے نکلنے کو تیار نیہں تھیں— انتظارؔ حُسین اساطیری کہانیاں ،دیومالائی داستانیں، قصے، حکایتوں کے اندر افسانے کو دریافت کررہے تھے— لیکن نئی دنیا پر ان میں سے کسی بھی ادیب کی نظر نہیں تھی۔ ترقی پسند ی 1960ء کے آس پاس گم ہو چکی تھی۔1980ء کے آس پاس جدیدیت کا جنازہ اُٹھ چکا تھا۔ اب ادب کا کام نئے راستوں کو تلاش کرنا تھا— 2010ء تک دہشت گردی دنیا کو اپنی گرفت میں لے چکی تھی— ادب کا کام ہر دور میں نئے سماجی، سیاسی شعور کے راستے اپنی جگہ بنانے کا ہوتا ہے— اسی لیے میں نے اپنے آپ کو آج کی فضا میں کسی تحریک سے وابستہ نہیں رکھا۔ میرا دب آزاد ہے— اپنے حساب سے موضوعات کا انتخاب کرتا ہوں۔
سمیہہ:۔ کن نظریات کو ذہن میں رکھتے ہوئے آپ کہانی لکھتے ہیں؟
ذوقی:۔ اس سوال کے جواب میں مجھے ایک حکایت یاد آرہی ہے— ایک بادشاہ کے دربار میں بیک وقت دو فقیر آئے۔ پہلے فقیر نے صدا لگائی—’’اے بادشاہ تو اچھا کرتا کہ تجھے اچھا انعام ملے۔ دوسرے فقیر نے کہا “اے بادشاہ تو بُرا نہ کرتا کہ تجھے بُرا انعام نہ ملے۔ بادشاہ نے پہلے فقیر کو 10دینار اور دوسرے کو 5 دینار دے کے رخصت کیا—جب فقیر چلے گئے تو وزیر نے کہا— اے انصاف پسند بادشاہ بات دونوں کی ایک تھی، پھر آپ نے یہ نا انصافی کیوں کی— بادشاہ مسکرا کر بولا— تم نے ایک بات غور نہیں کیا، دونوں فقیروں کی بات ایک ہی تھی— لیکن پہلے فقیر نے اسی بات کو اچھائی کا سہارا لے کر بیان کیا تھا— میرا ادب اسی نظریہ پر مبنی ہے —میں Positive سوچتا ہوں اگر کوئی نظریہ میری کہانی یا ناول میں ہے تووہ انسانی زاویہ یا نظریہ ہوسکتا ہے۔ اور اس سطح پر میں فرینچ ناول نگار Victor Hugoسے خود کو قریب محسوس کرتا ہوں— میری کہانیاں اسی انسانی زاوئیے کے ارد گرد گھومتی ہیں۔
سمیہہ:۔ آپ کی دلچسپی ادب سے کس طرح ہوئی اور کیسے بڑھ گئی؟
ذوقی:۔ میرے گھر کا ماحول ادبی تھا— جہاں میں پیدا ہوا وہ گھر کوٹھی کہلاتا تھا—وہاں اکثر مشاعرے ہو ا کرتے تھے— خاندان میں ایسے کئی لوگ تھے جو شاعری کرتے تھے— میرے والد محترم مشکور عالم بصیری خود بھی ایک اچھے شاعر تھے۔ اباجان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ قُرآن شریف ہو، حدیث، گیتا ہو، یا رامائین— انگریزی ادب ہو یا سائنس کا مطالعہ ہو— بچپن سے ہی ابا حضور ہم سب بھائی بہنوں کو لے کر بیٹھ جاتے اور ادب کی گفتگو شروع ہوجاتی— گھر کی لائبریری میں اردو اور انگریزی کی دنیا بھر کی کتابیں موجود تھیں— اس کے علاوہ وقت ملتے ہی ابا حضور ہم بھائی بہنوں کو قصے اور داستانوں کی دنیا میں لے جا یاکرتے تھے۔ اسی لیے بچپن سے لکھنے اور پڑھنے کا شوق پیدا ہو گیا۔ گیارہ سال کی عمر میں پہلی کہانی بچوں کے لیے لکھی —جو بچوں کے رسالہ پیام تعلیم میں شائع ہوئی —اس کے بعدغنچہ، ٹاقی، کھلونا اور نور میں کہانیاںشائع ہوتی رہیں— اس لئے لکھنے کا شوق مجھے وراثت میں ملا۔
سمیہہ:۔ آپ کو ناول اور افسانے میں کون سی صنف زیادہ پسند ہے اور کیوں؟
ذوقی:۔ کہانی ایک چھوٹے سے واقعہ پر مبنی ہوتی ہے— جب کہ ناول کا فن ایک مکمل زندگی کا احاطہ کرتا ہے— مجھے کہانیاں بھی پسند ہیں اور ناول بھی۔ لیکن ناول کی تخلیق آسان کام نہیں ہے— پچھلے 6برسوں میں ، میں نے ایک بھی کہانی نہیں لکھی— ان دنوں میں نئے نئے موضوعات کو لے کر صرف اور صرف ناول کی دنیا میں ہی رہنا چاہتا ہوں— آج کی دنیا بہت اُلجھی ہوئی دنیا ہے انسانی نفسیات کو سمجھنے کا پیمانہ بھی بہت حد تک تبدیل ہو چُکا ہے— اس سے زیادہ کسی مہذب دنیا کا تصور اب فکر کی سطح پر بھی نہیں کیا جا سکتا۔ سیاست کے ساتھ سماج اور مذہب تک نئے مکالمے سامنے آرہے ہیں— یہ ایک بدلی ہوئی دنیا ہے جو کہانیوں سے زیادہ ناول کا تقاضہ کرتی ہے— آپ پاکستان میں دیکھیے تو خالد طور سے لے کر عاصم بٹ تک نئے موضوعات کو اپنا رہے ہیں۔ ہمارا اردو ادیب نئے موضوعات کو گم کر بیٹھا ہے۔ ہندستانی سطح پر ادب بھی کمزوریوں کا شکار ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم کشمیر کے موضوعات پر خاموش ہوجاتے ہیں۔ جب لکھنے کی ضرورت پیش آتی ہے تو ہمارے پاس جواب نہیں ہوتے۔ اس کا واحد جواب ہے، ادب کی سلطنت کو خوف سے جدا کرنا ہوگا۔ میں بہت جلدکشمیر کے موضوع پر ایک ضخیم ناول لکھنے کا پروگرام بنا رہا ہوں۔ اور شاید اسی لیئے میں خود کو ناول کی دنیا سے زیادہ قریب محسوس کرتا ہوں۔
سمیہہ:۔ میں نے پڑھا ہے کہ آپ نے پانچ سو سے زائد کہانیاں لکھی ہیں؟ کیا یہ صیح ہے؟ اگر ہاں تو ہہ کہانیاں کن کن رسائل میں شائع ہوئیں اور کیا آپ کے پاس وہ کہانیاں تحریری شکل میں موجود ہیں؟
ذوقی:۔ گیارہ سال کی عمر سے میری وابستگی ادب کی دنیا سے ہو چکی تھی— میں ان لوگوں میں شامل ہوں جنہوں نے شاید سب سے زیادہ کہانیاں لکھی ہیں۔ تیرہ 13 سے بیس 20 سال کے عرصے تک میری کہانیاں اُس وقت کے تمام مشہور جرائید ، شمع، روبی، بیسویں صدی، محل، شادمان، فلمی ستارے، باجی، بانو میں شائع ہو چکی تھیں۔ اسی کے ساتھ اُس وقت جو زیادہ ترادبی رسائل نکل رہے تھے میری کہانیاں وہاں بھی جگہ پا رہی تھیں— بہت سی کہانیاں وقت کے ساتھ ضائع ہوگئیں۔ اس لئے ان کہانیوں کے نام کو بتانا میرے لئے آسان نہیں ہے— میری ایک بہت بڑی دنیا ہندی زبان کی بھی دنیا ہے— ایک دنیا پاکستان کی ہے۔ جہاں میری کہانیاں مسلسل شائع ہوتی رہتی ہیں۔ ہندی میں میری کہانیوں کے ۱۹ مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا ادبی رسالہ ہو جہاں میری کہانی شائع نہیں ہوئی ہے— اس لئے اتنی ساری کہانیوں میں رسائل کا نام گنوانا اور کہانیوں کا نام گنوانا میرے لئے آسان نہیں ہے۔ یہ کام تحقیق کا ہے جن لوگوں کو میری کہانیوں میں دلچسپی ہوگی، آئندہ آنے والے وقت میں انشاء اﷲ وہ یہ کام ضرور کریں گے۔
سمیہہ:۔ آپ کے ناولوں میں آپ کو کون سا ناول سب سے زیادہ پسند ہے؟
ذوقی:۔ کسی بھی ادیب کے لئے اس کا جواب آسان نہیں ہے —میرے لئے بھی اس کا جواب دینا ایک مشکل کام ہے۔ لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ “پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی” کو لکھنا میرے لئے آسان نہیں تھا۔ سونامی ایک مشکل ناول تھا— اس ناول میں وقت ہیرو تھا— اور سونامی کی سطح پر میں محسوس کر رہا تھا کہ قدرت کا بھیجا ہوا سیلاب سب کچھ بہا کر لے جا رہا ہے— یہاں ہماری قدریں بھی بہہ رہی ہیں تعلیم سے لے کر سیاست، مذہب اور سماج تک ایک ایسی بیزار کن فضاپیدا ہو چکی ہے جس سے باہر نکلنا آسان نہیں ہے— میں نے سونامی میں ایک پوری دنیا کو قید کرنے کی کوشش کی تھی— مجھے لے سانس بھی آہستہ بھی پسند ہے— ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘صرف ہندوستانی تہذیب کا مرثیہ نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے globalسماج کا آئینہ بھی ہے— ’’لے سانس بھی آہستہ ‘‘ کے بعد’’آتش رفتہ کا سُراغ‘‘ منظر عام پر آیا— یہ ناول ہندوستانی مسلمانوں کی آپ بیتی ہے— اور یہ ناول بھی مجھے بہت پسند ہے۔
سمیہہ:۔ آپ نے موجودہ دورکے سلگتے ہوئے موضوعات پر کہانیاں لکھی ہیں؟ ایک ادیب کے لئے اپنے سماج اور سیاست سے باشعور ہونا کتنا ضروری ہے؟
ذوقی:۔ سیاسی اور سماجی شعور کے بغیر کہانی یا ناول کو تحریر کرنا آسان نہیں ہے— میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ سیاست آج کے ادب کا بنیادی مسئلہ ہے— اگر سیاسی اور سماجی سطح پر ہمارا فنکار گہری فکر کے ساتھ اپنے موضوعات کو لے کر چلنے میں ناکام ہے تو بڑی تخلیق کر ہی نہیں سکتا— آج مغرب کے ادب کو دیکھئے— وہاں ایک سیاسی بیداری ملتی ہے— ہمارا ادیب اس سیاسی بیداری سے دور نظر آتا ہے— میں نے سلگتے ہوئے مسائل کا احاطہ اسی لئے کیا کہ اس کے بغیر کسی بھی تحریر کو لکھنا آسان نہیں تھا— عام طور پر میرے لیے موضوعات کا انتخاب مشکل کام ہے—ایک موضوع مسلمانوں کے ارد گرد گھومتا ہے— دوسری طرف ایک تیزی سے بدلتا ہوا سیاسی اور سماجی منظر نامہ بھی ہے— میں جسکا تعاقب کرتا ہوں— اور انہیں اپنی کہانی یا موضوع بناتے ہوئے مجھے ایک خاص طرح کی مسرت حاصل ہوتی ہے۔
سمیہہ:۔ آپ نے ناول اور افسانے کی ابتداء کب اور کیسے کی؟ اور آپ کا سب سے پہلا افسانہ اور ناول کون سا ہے؟
ذوقی:۔ میں نے پہلا ناول 17 سال کی عمر میں لکھا ۔ ’’عقاب کی آنکھیں‘‘اسی کے آس پاس میں ایک ناولٹ ’’ لمحۂ آئندہ‘‘ بھی مکمل کر چکا تھا۔ لمحہ آئندہ جدید طرزکا ناول تھا۔ سب سے پہلا افسانہ ’’جلتے بجھتے دیب ‘‘تھا جو میں نے ریڈ یو کے لئے لکھا تھا— لیکن پہلا افسانہ جو اشاعت کی منزلوں سے گذرا اس کا نام لمحہ رشتوں کی صلیب ہے— یہ کہکشاں ممبئی میں شائع ہوا۔ لکھنے کی ابتداء بچپن سے ہی ہو چکی تھی۔ ایک گھر تھا جسکی خستہ ہوتی ہوئی دیواروں میں صدیاں قید تھیں— یہ گھر کوٹھی کہلاتا تھا۔ہمیں کہیںبھی آنے جانے پر پابندی تھی— اس لئے بچپن سے ہی کتابون سے دوستی ہو گئی۔ اور کم سنی سے ہی کہانی اور ناولوں کی طرف متوجہ ہوا۔
سمیہہ:۔ آپ کے ناولوں کے مطالعوں سے ہم یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ خاص طور پر آپ کی ناولیں نئی نسل کے مسائل پر مبنی ہوتی ہیں— اس کے علاوہ بھی اور بہت سے مسائل درپیش ہیں— جیسے عورتوں کے مسائل، بچوں کے مسائل، وغیرہ— کیا آپ نے اس پر بھی کبھی روشنی ڈالی ہے؟
ذوقی:۔ جہاں تک ناول کا سوال ہے، ناول کا فن ایک مکمل دنیا کا احاطہ کرتا ہے —اس دنیا میں بچے بھی ہوتے ہیں اور عورتیں بھی ۔ اقبالؔ نے کہا تھا:
؎ وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
عورتوں کے وجود کے بغیر کسی تخلیق کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا— میرا پہلا ناول ـ’’عقاب کی آنکھیں‘‘ میں بھی ایک بچہ ہے— جو اپنی معصوم انکھوں سے دنیا کے جبر اور استحصال کا جائزہ لے رہا ہے— پہلے ناول سے ہی میں نے ایسے بچوں کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کی تھی— جنہیں سماج تو بچہ سمجھتا ہے لیکن وہ اپنی عمر سے بہت آگے نکل چکے ہوتے ہیں۔ ’’پوکے مان کی دنیا‘‘ بھی ایک بارہ 12 سال کے بچے کی کہانی تھی اور اس ناول میں بھی میں نے بہت باریکی سے ان بچوں کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کی تھی— ایسے بچے جو جنک فوڈ کھاتے ہیں— سائبر اسپیس کی پیداوار ہیں— انٹرنٹ سے دوستی کرتے ہیں۔ ماں باپ کی نظریں بچا کر پورن سائٹس دیکھتے ہیں— اور ایک دن کسی بڑے جرم کا شکار ہو جاتے ہیں— اسی طرح میں نے کم و بیش اپنے تمام ناولوں میں عورتوں کے الگ الگ مسائل کو سامنے رکھا ہے— میں عورتوں کے کمزور وجود کو پسند نہیں کرتا—اس لئے میرے ناول کی عورتیں کمزور نہیں ہیں— وہ اپنی جنگ لڑتی ہیں— وہ اپنی شناخت چاہتی ہیں— وہ حکومت کرتی ہیں— وہ برابری کی خواہشمند ہیں— وہ خواب دیکھتی ہیں— اور مردوں کے شانہ بہ شانہ قدم سے قدم ملا کر چلنا چاہتی ہیں— بلکہ زندگی کی ریس میں ان سے بھی آگے نکلنا چاہتی ہیں— عورتوں کے مسائل اپنی جگہ لیکن کہانیوں میں بھی عورتوں کو کمزور کرنا، ان کا استحصال کرنا ان کی شناخت کو ختم کرنا مجھے کبھی منظور نہیں ہے— اسی لیئے میرے ناولوں میں ہر عورت اپنی مخصوص شناخت کے ساتھ سامنے آتی ہے اور اپنی جنگ خود لڑتی ہے۔
سمیہہ:۔ آپ نے کس مقصد کے تحت ’’نیلام گھر‘‘لکھا؟ اور اس کے ذریعے آپ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟
ذوقی:۔’’عقاب کی آنکھیںـ‘‘ کے بعد ’’نیلام گھر‘‘ میرا دوسرا ناول تھا— نیلام گھر کو لکھنے سے پہلے میں ALBERT CAMUSکے ناول The Plagueسے بہت زیادہ متاثر ہوا تھا— یہ 1980ء کے آس پاس کی بات ہے— آزادی کے 33-32سال گذر چکے تھے— فسادات ملک کا چوتھا موسم بن چکاتھا— میری عمر اُس وقت 20 سال کی ہوگی— میں نے سیاسی اور سماجی سطح پر جب اس دنیا کو دیکھنے کا ارادہ کیا تو یہ دینا مجھے نیلام گھر کی طرح نظر آئی— ایک ایسا نیلام گھر جہاں سب کچھ فروخت ہو رہا ہے— علم سے سیاست، مذہب اور سماج تک— جیسے ہر شے نیلام ہو رہی ہے— انسانی قدریں ختم ہو چکی ہیں— میں نے انجم کے کردارمیں ایک ایسے بزرگ کو دیکھنے کی ضرورت محسوس کی جسکی آنکھوں کے سامنے سب کچھ نیلام ہو رہا ہے— بدلتے ہوئے وقت سے رشتے بے معنی ہو چکے ہیں— قدریں ختم ہو چکی ہیں— مذہب صرف خوف کی علامت کے طور پر رہ گیا ہے۔ اور یہ فاتح انسان اپنی بر بادیوں کا جشن منارہا ہے — ’’نیلام گھر‘‘ کی شروعات کہانی کے مرکزی کردار انجم سے شروعات ہوتی ہے جو اپنے کمرے سے تیز بدبو کو اُٹھتا ہو محسوس کرتا ہے— یہ بدبو زندگی کے ہر شعبے میں داخل ہو جاتی ہے —میں نے اس ناول میں آزادی کے 33-32برس کے بعد کے ہندوستان کو دیکھنے کی کوشش کی تھی— المیہ یہ تھا کہ نہ پاکستان کے لوگ پاکستان میں خوش تھے اورنہ ہندستان کے لوگ ہندوستان میں— جمہوری قدروں کا مذاق اُڑایاجارہا تھا— شاید اسی لئے تقسیم کے بعد کے ہندوستان کو لے کر بدلتے ہوئے سیاسی اور سماجی منظر نامے میں ،میں نے اس ناول کو لکھنے کی شروعات کی تھی۔
سمیہہ:۔ آپ کے ناولوں میں سب سے زیادہ مقبولیت کس ناول کو حاصل ہے؟
ذوقی:۔ میرے شروعاتی ناولوں میں سب سے زیادہ مقبولیت ’’بیان‘‘کو ملی— بیان بابری مسجد کے المیہ پر مبنی ایک ایسا ناول تھا جس میں آپ اُس وقت کے ہندوستان کی جھلک دیکھ سکتے تھے— اردو کے مشہور نقاد ڈاکٹر محمد حسن نے ’’بیان‘‘ کو آزادی کے بعد کا سب سے اہم ناول قرار دیا ہے— ’’بیان‘‘ایک ایسا ناول تھا جس پر دنیا بھر کے مضامین لکھے گئے— ’’جہان اردو‘‘ نے ایک خصوصی شمارہ بیان کے نام منسوب کیا— ڈاکٹر مشتاق احمد نے بیان منظر پسِ منظر کے نام سے ایک کتاب ترتیب دی جن میں بیان پر تحریر کردہ مضامین شامل کئے گئے تھے— بیان کے بعد پو کے مان کی دنیا کو کئی ناقدوں نے اردو ناول کا turning pointکہا— ’’پوکے مان کی دنیا‘‘کے بعد ’’پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی‘‘شائع ہوئی— مجھے افسوس ہے کہ اس ناول پر شاید سب سے کم بات ہوئی— لیکن مجھے یقین ہے کہ آنے والے وقت میں اس ناول پر بھی گفتگو کے دروازے کھلیں گے— ’’بیان‘‘کے بعد سب سے زیادہ شہرت ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘کو ملی— لے سانس آہستہ کے بعد ’’آتش رفتہ کا سراغ‘‘ منظر عام پر آیا اور یہ ناول بھی اشاعت کے کچھ ہی مہینوں کے بعدقارئین اور نقادوں کے درمیان ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔
سمیہہ:۔ ’پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی‘ میں ’’سونامی‘‘کا واقعہ اصل کہانی سے Match نہیں کرتا— اور قاری کو تقریباََ سو صفحات کی مشقت اٹھانی پڑتی ہے___ کیا آپ اس سے متفق ہیں؟
ذوقی:۔ Matchکرنے کا سوال ہی نہیں ہے۔ “سونامی”پر 100 صفحات سے زائد اسی لئے خرچ کئے گئے کہ یہاں “سونامیــ” ایک علامت ہے— ذرا البیر کامو کی “پلیگ” دیکھئے___پلیگ پھیل رہا ہے ___ ایک جنگ شروع ہوتی ہے ۔Survival for Existance _ پورے ناول میں پلیگ کا اثر ہے اور زندگی کی کشمکش جاری ہے۔ الکزنڑر سو لنسٹین کا کینسر وارڈ اور گلار آرکیپلا گورا اٹھالیجئے__ ’’ موبی ڈک‘‘ دیکھئے__ دی اولڈ مین اینڈدی سی __زندگی اور کشمکش کو پیش کرنے کے لئے یہ ایک شارٹ کٹ راستہ ہے __ کینسر وارڈ کا ہر باب مختلف ہے___ پھر بھی یہ ایک مکمل ناول ہے اور ساری دنیا اس میں ننگی نظر آتی ہے ___ اسی لئے دنیا داری سے مذہب ، سماج اور سیاست کے تعلق سے ہر پہلو کو پیش کرنے کے لیے مجھے “سونامی” لہروں کی ضرورت تھی۔ جو سب بہا کر لے گئی ہے— اور سونامی کے بعد موت کو کیش کیا جا رہا ہے۔ عام انسان سے حکومت تک— اسی لئے پرفیسر ایس کو کہنا پڑتا ہے—’’موسیو‘‘ موت کے بعد بھی زندگی چلتی رہتی ہے—سونامی سے جہاں نقصان ہوا ہے وہاں فائدے اور روزگار کے نئے دفتر کھل رہے ہیں۔ اب ایسے مجھے چونک کر مت دیکھئے موسیو— سمندر میں ہزاروں طرح کے روزگار چھپے ہیں—سونامی لہریں موت دیتی ہیں تو آپ کو زندگی بھی دیتی ہیں— ذرالہروں سے نکل کر ساحل پر جا کر دیکھئے— زندگی سے لبریز لوگ ہنستے گاتے قدرتی لباس میں مساج یاسن باتھ لیتے ہوئے—موسیو، مجھے تعجب اسی بات پر ہے کہ آپ موت کھوجتے رہے اور میں سمندر سے زندگی تلاش کرتا رہا— موت کے ہر ڈر کے بعد زندگی کے دس راستے کھل جاتے ہیں‘‘۔
ایک مثال اور دیکھئے۔
’’موسیوـ‘‘ وہ ساری پیشن گوئیاں اب صیح ثابت ہو رہی ہیں۔ ریگستان پھیل سکتے ہیں— مونگے کی چٹانیں غائب ہو سکتی ہیں۔ گرم ہوائیں اپنارُخ بد سکتی ہیں— دنیا کا ایک بڑا حصہ برف میں گم ہو سکتا ہے— اور ایک بڑے حصے کو دھوپ کی ہرپل بڑھتی ہوئی شدت جھلسا کر راکھ کر سکتی ہے— انٹارکٹیکا میں گھاس اُگ سکتی ہے— گلیشیر پگھلنے لگیں گے—چھوٹے چھوٹے ندی تلاب میں ان کا پانی بھرے گا اور یہ سمندر سے بھی زیادہ بھیانک ہو جائیں گے— موسیو، ممکن ہے تب بھی یہ دنیا قائم رہے—ایک مرداور ایک عورت جیسے—اُس اطالوی فلم میں دکھایا گیا تھا—بس ایک مرد اور ایک عورت— ساری دنیا ختم ہو چکی ہے—لیکن دنیا بننے کا عمل جاری ہے— کیونکہ ہم ہیں— گلیشیر کے ٹوٹنے، بھیانک زلزلے، سونامی کے قہر کے باوجود ہم میں جینے کی طاقت موجود ہے۔ مگر آہ ،موسیو، ابھی کچھ دیر پہلے جو کچھ ہوا وہ آگے نہیں ہونا چاہئے۔
زندگی اور موت کی کشمکش کے یہ اشارئے ناول میں قدم قدم پر ملتے ہیں۔ اس لئے یہ ناول کا سب سے ضروری حصہ ہے— پروفیسر ایس پہلی بار انہی سونامی لہروں کے درمیان بے نقاب ہوتا ہے۔ حکومت کرنے کے دو اہم مونولاگ سے اس کا سابقہ یہی پڑتا ہے۔ پرویز سانیال اسی سونامی سے اپنے اندر ایک مضبوطی پیدا کرتا ہے۔ اور الٹرا ہومین کا کینسپٹ بھی یہیں ٹوٹتاہے۔
سمیہہ:۔ آپ کے ناول ’’ذبح‘‘ کا عنوان جرمن شاعر اریش فریڈ کی ایک نظم سے لیاگیا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟
ذوقی:۔ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی تخلیق کار یا ناول نگار کسی کہانی یا ناول کی تخلیق کر رہا ہوتا ہے تو اُس موضوع سے وابستہ کوئی قول یا کوئی شعر اُس کے ذہن میں آجاتا ہے— ’’ذبح‘‘ کی تخلیق کے دوران بار بار اس جرمن شاعر کی نظم میرے ذہن میں گونجتی رہی تھی— مجھے اس بات کا احساس تھا کہ یہ system ہر ایک کمزور انسان کو ’’ذبح‘‘کر رہا ہے— ایک طرف مسلمان ہیں جن کا سیاسی اور سماجی سطح پر استحصال ہو رہا ہے— اور دوسری طرف دلت طبقہ بھی ہے— اس کی جنگ لڑنے والا کوئی بھی نہیں ہے— اردو میں اس وقت تک دلتوں کے مسائل کولے کر کوئی بھی ناول منظر عام پر نہیں آیا تھا۔ ایک زمانہ تھا جب جاگیر دارانہ نظام میں عبدل سقہ جیسے لوگ پرورش پاتے تھے— بلکہ کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ نسل در نسل ایسے لوگ یا خاندان اپنی خدمات انجام دیتے آئے تھے۔ جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کے بعد ایسے لوگ حاشیے پر چلے گئے— اسی سلسلے کی ایک دوسری کڑی ہے کہ جب ترقی ہوتی ہے کچھ چیزیں کمزور اور بے کار ہو کر ماضی کا حصہ بن جاتی ہے— مثال کے لئے ایک زمانہ تھا جب اردو کتابیں اور رسائل کا تب اور کتابت کے بھروسے تھے— کتابت ختم ہوگئی اور کاتب بے کار ہوگئے— نئی ٹیکنالوجی (technology) آگئی— اسی طرح یکہ اورتانگے کا دور چلا گیا— عبدل سقہ جیسے لوگ مشک سے پانی بھر کر روز گار حاصل کرتے تھے۔ ایسے لوگ بھی سڑکوں پر آگئے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے لوگ کہاں جائیں گے— ایسے لوگوں کا کیا ہوگا— ناول کا مرکزی نقطئہ یہی وہ مقام ہے جہاں مجھے جر من شا عر کی نظم کا سہارا لینے کے لئے مجبور ہونا پڑا— مجھے لگا، سڑے گلے اس نظام (system)میں ایسے لوگوں کا مسلسل استحصال ہو رہا ہے— اور کوئی بھی خواہش کے باوجود بھی ان کی مدد اس لئے نہیں کر سکتا کہ Globalہوتی ہوئی دنیا میں ہر چیز پُرانی ہو رہی ہے— اس لئے ناول کے آخر میں عبدل سقہ کے بیٹے کو کہنا پڑتا ہے— اب ہم تیار نہیں ہیں بار بار ذبح ہونے کے لئے۔‘
سمیہہ:۔ آپ نے اپنے ناول ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ کا عنوان میر ؔکے شعر سے مستعارلیا ہے۔ آپ کے ناول پر یا آپ کی کہانی سے یہ شعر کس طرح مطابقت رکھتاہے؟
ذوقی:۔ اس ناول کے عنوان کے لیے میرؔ کے اس شعر سے بہتر کوئی عنوان ممکن ہی نہیں تھا۔ ناول میں ایک جگہ پروفیسر نیلے میرؔ کے شعر کے تشریح کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ مجھے تعجب ہوتا ہے کہ میرؔ نے کتنا قبل ختم ہوتی تہذیب کا سراغ لگالیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس وقت بھی حالات کچھ ایسے تھے کہ میرؔکو یہ شعر لکھنا پڑا—آج کے ماحول میں دیکھے تو تجزیہ کے لیے اس سے بہتر کسی اور شعر کی امید نہیں کی جا سکتی۔
سمیہہ:۔ آپ اکثر ناولوں کا عنوان کسی کی غزل یا نظم سے کیوں لینا پسند کرتے ہیں؟
ذوقی:۔ ایسا میرے تمام ناولوں کے ساتھ نہیں ہے۔ ـ’’شہر چپ ہے‘‘ ’’ذبح، نیلام گھر، عقا ب کی آنکھیں، مسلمان، لمحۂ آئندہ، بیان،پوکے مان کی دنیا، پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی‘‘کے عنوانات کسی شعر سے متاثر ہو کر نہیں رکھے گئے— ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ کا موضوع ایسا تھا کہ میرؔکے اس شعر سے بہتر کوئی عنوان ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ آفاق کی شیشہ گری کا کام اتنا نازک ہے کہ سانس بھی لینے سے ایک دنیا کے منتشر ہو جانے کا خطرہ سامنے آجاتا ہے— اس لئے جب عنوان کی بات آئی تو میں نے میرؔ کے شعر کا سہارا لیا— ’’آتش رفتہ کا سراغ‘‘کی کہانی آزادی کے بعد کے ہندوستانی مسلمانوں کی آپ بیتی ہے۔ دراصل وہ آگ جو بجھ چکی ہے— وہ ماضی جو گم ہو چکا ہے، یہ ناول اُسی ماضی کے تلاش کا حصہ ہے— اب اسی لئے میرے سامنے اقبال کے اس شعر سے بہتر کوئی عنوان نہیں تھا—آتش رفتہ کا سراغ کا دوسرا حصہ اردو کے نام سے منظر عام پر آرہا ہے— اور میں نے اس کے لئے بھی کسی شعر کی مدد نہیں لی ہے۔
سمیہہ:۔ کیا آپ شاعری سے دلچسپی رکھتے ہو؟
ذوقی:۔ ادب کی شروعات شاعری سے ہوئی— آج بھی اقبالؔ، غالب ؔ، مومن ؔ ، جگر ، ؔ فیض ؔ، فراقؔ، کی شاعری میرے مطالعے میں رہتی ہے— میں اچھی شاعری کا عاشق ہوں— شروعا ت شاعری سے ہوئی— لیکن مجھے جلدی اس بات کا احساس ہونے لگا کہ میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں یا ادب کو دینا چاہتا ہوں اس کے لئے مجھے شاعری سے الگ کا میدان منتخب کرنا ہو گا— اس لیے میں فکشن یا ناول کی دنیا میں آگیا— 17سال کی عمر میں نے اپنا پہلا ناول لکھا— عقاب کی آنکھیں— اور 20سال کی عمر تک میں چار ناول تخلیق کر چُکا تھا۔ لیکن آج بھی میں اچھی شاعری کا عاشق ہوں— خصوصی طور پر ن۔ م ۔ راشد ؔاور فیض ؔکی نظمیں مجھے بے حد پسند ہیں۔
سمیہہ:۔ صحافت اور ادب کا آپس میںکیا رشتہ ہے؟
ذوقی:۔ صحافت اور ادب کا ایک دوسرے سے گہرا رشتہ ہے— اردو نقاد آج بھی صحافت کو ادب کا حصہ تسلیم نہیں کرتے— وہ اس باریکی کو سمجھ نہیں پاتے کہ سیاسی اور صحافتی شعور کے بغیر اچھے ناول کو لکھناممکن ہی نہیں ہے— ایک صحافی ، ایک اچھا صحافی سماج اور سیاست کے تعلق سے مدلل اپنے خیالات کو سامنے رکھتا ہے— ایک ادیب اسی سیاسی شعور کو تخلیقی امکانات سے گذارتے ہوئے ادب کا حصہ بنا لیتا ہے— ایک اچھا ادیب سیاست اور صحافت سے آنکھیں بند کرکے ادب کی تخلیق کر ہی نہیں سکتا۔
سمیہہ:۔ آپ ادب میں کس شاعر یا ادیب سے سب سے زیادہ متاثر ہیں؟
ذوقی:۔ رُوسی ادیب دوستو فسکی میرا ائیڈیل ہے— جب میں نے لکھنا شروع کیا، اُس وقت روسی ادب کو پڑھنے کا موقع ملا— پشکن، ٹالسٹائے، گوگول جیسے ناول نگاروں کو پڑھنے کا موقع ملا— میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے ناول لکھنے کا آرٹ روسی ناول نگاروں سے سیکھا۔ بیس برس کی عمر تک میں مغرب کا بڑا ادب کھنگال چکا تھا۔ میں victor hugo سے بھی متاثر تھا— Albert Camus میرا پسند یدہ ناول نگار تھا— اسطرح چیخوف اورمو پاسان کی کہانیاں بھی مجھے پسند آتی تھیں۔ گنتر گراس کے The Tin Drum نے مجھے متاثر کیا— میں نے دیکھا، گنترگراس اپنی کتابوں میں اپنے وطن ڈنزیگ کے قصے بیان کرتا ہے—جوائز اپنے شہر ڈبلن کے گیت گاتا ہے— روسی مصنفوں کے ناولوں میں ان کا شہر ہنستا مسکراتا ہے— مجھے گابرئیل گارسیا مارخیز کے ناول one hundred years of Solitude نے بھی متاثر کیا— اسی طرحBoris Polo کے ناول The Story of a Real Man کا میں عاشق تھا— کہتے ہیں ایک زندگی وہ ہوتی ہے جو آپکا ،مطالعہ آپ کا وژن Vision آپ کو دیتا ہے— اسی لئے میں مسلسل کتابوں کے مطالعے سے گذر رہا تھا۔دوستو فسکی، پشکن، نکولائی گوگول، میخائل شیلو خوف،ترگنیف،یہ سب مجھے متاثر کررہے تھے— مجھے اردو داستانوں نے لکھنا سکھایا۔ ’’طلسم ہوش رُبا‘‘کا میں شیدائی تھا۔ منٹو اکثر مجھے پریشان کرتا تھا، کرشن چندرؔ کی نثر کسی جادو کی طرح مجھ پر سوار تھی— شاعری میں اقبالؔ، غالبؔ ، مومنؔ، میرؔ فیضؔ، میراجیؔ— ن۔م۔ راشدؔ، جگرؔ، فراقؔ کامیں دیوانہ تھا— اسی لئے میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان میں سے مجھے سب سے زیادہ کس نے متاثر کیا۔ George Orwell کے 1984 اور Animal Farm سے میں نے سیاسی شعور کو ادب میں شامل کرنے کا فن سیکھ لیا تھا— میرے لئے شاعری بھی اہم تھی— اور کہانی اور ناول کی دنیا بھی— میں ان دونوں کے توازن سے اپنے ادب کو فروغ دے رہا تھا۔
سمیہہ:۔ موجودہ دورکے لکھنے والوں میں آپ کے پسندیدہ قلم کار کون ہیں اور کیوں؟
ذوقی:۔ موجودہ دور کے لکھنے والوں میں اگر اردو کی بات کریں تو مجھے مستنصر حسین تارڑ کا ناول خس وخاشاک زمانے بے حد پسند ہے— تارڑ کی تحریرمیں ہم تقسیم کے بعد کی صورتحال کو نئے معنی اور نئے تناطر میں دیکھ سکتے ہیں —مجھے خالد طور کا ناول ” بالوں کا گچھا”بھی بے حد پسند ہے— قدرت اﷲ شہاب کے شہاب نامہ نے مجھے نیا اُفق دکھایا— ہندوستانی منظر نامے میں مجھے منٹو اور قُرآۃالعین حیدر کی تحریریں بے حد پسند ہیں۔
سمیہہ:۔ ادب کے موجودہ منظر نامے پر کچھ اظہار خیال کیجیے؟
ذوقی:۔ اردو ادب کا موجودہ منظر نامہ ناول کے لحاظ سے بہتر ہے— یہ خوشی کی بات ہے کہ اردو ناولوں کو لے کر مسلسل سیمنار اور مکا لمے ہو رہے ہے۔ سن 2000ء تک اردو ادب کا منظر نامہ ایک طرح سے دھند میں ڈوب چکا تھا۔ 2000ء کے بعد اچانک یہ پورا منظر نامہ تبدیل ہو گیا— نئے لوگ سامنے آنے لگے— رسائل کی تعداد بھی بڑھ گئی اور سب سے زیادہ خوشی کا مقام یہ ہے کہ ہندوستان سے پاکستان تک اردو ناولوں کی تعداد میں گراں قدر اضافہ ہوا— اچھے ناول سامنے آئے— پاکستان میں بہت ہی اچھا ادب لکھا گیا— اور یہ سفر ہنوز جاری ہے۔
سمیہہ:۔ اگر آپ چاہتے تو پروفیسر یا کسی اور سرکاری محکمے میں اعلیٰ آفیسر کی حیثیت سے وابستہ ہوسکتے تھے۔ مگر آپ نے ایسا نہیں کیا۔ کیوں؟
ذوقی:۔ میں حکومت کے کسی ادارے سے وابستہ نہیں ہونا چاہتا تھا۔ میرے اندر ایک ادیب چھپا بیٹھا تھا جو بار بار مجھ سے یہی کہتا تھا کہ اگر کالج میں گئے یا سرکاری نوکری قبول کی تو وہ سب نہیں لکھ پاؤ گے جو تم لکھنا چاہتے ہو۔ میںدلی آگیا ۔ فری لانسنگ شروع کی— کچھ اخبارات سے وابستہ ہوا اور اسطرح ایک نئی زندگی کی شروعا ت کی— تعلیم میرے لئے بی۔اے یا ایم۔ اے کی ڈگری نہیں۔ تعلیم میرے لئے پروفیسر بن جانا یا I.A.S بن جانا نہیں ہے تعلیم میرے لئے ایک ایسا سمندر ہے جہاں ہم ہمیشہ کچھ نہ کچھ سیکھتے رہتے ہیں۔ آزادی کے بعد ہی اردو کا رشتہ روزی روٹی سے منقطع کردیا گیا— اسی لئے اگر اردو کا پروفیسر بن جاتا تو روز گار کے ذریعے کھل سکتے تھے لیکن میں اس محدود دنیا میں نہیں جانا چاہتا تھا— آرہ سے دلی کے سفر تک میں اپنا پرگرام ترتیب دے چکا تھا— میں نے سوچ لیا تھا کہ جو کچھ بھی کرنا ہے قلم کے سہارے ہی کرنا ہے— دلی آنے کے بعد میں کچھ اخبارات سے منسلک ہوا۔ 1986 میں دلی آیا اور 1987 تک دور درشن اور Electronic Media کے دروازے میرے لئے کھل چکے تھے— میں دو سال تک دلی کے کئی Prodution house کے لئے فلم اسکرپٹ لکھی— اور 1989 سے میںنے اپنا پروگرام بنانا شروع کیا۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے—
سمیہہ بشیر
گاؤں: کلم
تحصیل و ضلع : کولگام
ریاست: جموں و کشمیر