پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین
اردو غزل کے چند نکات
- دنیا کی تمام زبانوں میں ہر طرح کی اصناف موجو د ہیں ۔
- لیکن غزل جیسی صنف صرف اردو اور فارسی زبان کے پاس موجود ہے ۔
- غزل انتہائی نازک صنف سخن ہے ۔
- یہ ایک مختصر بیانیہ کی صنف ہے ، جس میں بہت سی پابندیوں کے ساتھ اختصار میں گفتگو کی جاتی ہے ۔
- ایجازو اختصار کی یہ خوبی غزل کے علاوہ اور کسی صنف میں موجود نہیں ۔
- یہاں علامتوں اور تشبیہات و استعارت کے سہارے باتیں کی جاتی ہیں ۔
- غزل کا لب و لہجہ عاشقانہ ہوتا ہے لیکن اس میں صرف عاشقی کی بات نہیں کی جاتی ،
- بلکہ اس میں دنیا اور دنیا کے تمام حوالوں کو پیش کیا جاسکتا ہے ۔لیکن اس کا اسلوب ایک مخصوص اسلوب ہوتا ہے جسے ہم تغزل کے نام سے جانتے ہیں ۔
- اسی لیے کہا جاتا ہے کہ یہ دل سے اٹھنے والی آواز ہے جو سیدھے دل تک پہنچتی ہے ۔
- یہی وجہ ہے کہ غزل اردو شاعری کا آبرو کہا گیا ہے ۔
- غزل میں عموماً اشعار کی تعداد کم سے پانچ اور زیادہ سے زیادہ گیارہ ہوتی ہے ۔
- ہر شعر میں دو مصرعے ہوتے ہیں ، جن میں ردیف اور قافیہ کی پابنندی ہوتی ہے ۔
- یہی پابندی اردو غزل کی شناخت بھی ہے اور خوبی ہے کہ اس محدود دائرے میں رہ کر بڑی سی بڑی بات کی جاتی ہے جیسے :
- غالب کہتے ہیں :
- گرچہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
- آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
میر تقی میر کہتے ہیں :
- کعبہ پہنچا تو کیا ہوا اے شیخ سعی کر ٹک، پہنچ کسی دل تک
- دل وہ نگر نہیں کہ بھر آباد ہوسکے پچتاوؤگے ، سنوہو یہ بستی اجاڑ کے
- اردو غزل کی یہ سب سے بڑی خصوصیت ہے کہ اس نے انسانی معاشرے کی ہر اچھائی اور برائی کی جانب لوگوں کو متوجہ کیا ہے ۔
- انقلاب کی بات ہو یا محبت کی ہر طرح کے نغمے اردو غزل میں ملتے ہیں ۔ کیونکہ شاعری انسانی حسیات اور ادرکات کا نام ہے ۔
- اقبال نے انسانی عظمت وبلندی اور ترقی کو دیکھتے ہوئے کہا تھا :
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہ کامل نی بن جائے
اور خواجہ میر درد کہتے ہیں :
باوجود یکہ پرو بال نہ تھے آدم کے وہاں پہنچا کہ فرشتے کا بھی مقدور نہ تھا
اقبال کا یہ شعر اور خواجہ میر درد کا یہ شعر در اصل انسانی عظمت کو بیان کرتا ہے کہ انسان اپنی خلقت کے اعتبار سے بہت بلد و بالا ہے مگر انسانی اپنی سرشت سے ابتر بھی ہوسکتا ہے ۔ اقبال نے اسی عظمت کی طرف اشارہ کیا تھا جس نے انسان کو اشرف المخلوقات کو درجہ دیا ۔لیکن آج کا انسان کیا اس عظمت کا حامل ہے یہ ایک بڑا سوال ہے ؟ کیونکہ آج کا انسان شاید سب کچھ ہے مگر انسانیت سے دور ہوتا جا رہا ہے ۔ ہر گام پر فریب و مکر نے انسان کو بدل کا کررکھ دیا ہے ۔ یہ سوال ہر محفل میں ، ہر مجلس میں اور اکثر مواقع پر کیا جاتا ہے ۔ اردو کے شاعروں نے بھی اس جانب توجہ مرکوز کی ۔ آپ جانتے ہیں اردو شاعری بالخصوص غزل نے ہر عہد میں شانہ بشانہ چل کر وقت اور حالات کو سمجھا ہے ، اس عہد کے مسائل کی ترجمانی کی ہے ۔ کبھی انسانوں کو براہ راست مخاظب کیا ہے تو کبھی طنز کے تیر بھی چلائیں ہیں اور کبھی ناصحانہ رنگ بھی اختیار کیا ہے ۔ یہ انسان اور انسانی اقدار کے یہ مسائل اردو شاعری میں شروع سے ہی اہم موضوعات رہے ہیں ۔ خواجہ الطاف حسین حالی جو اردو شاعری میں اصلاحی تحریک کے لیے جانے جاتے ہیں وہ کہتے ہیں :
فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ
جگرؔ مرادآبادی نے کہا کہ :
آدمی کے پاس سب کچھ ہے مگر ایک تنہا آدمیت ہی نہیں
مسئلہ یہ ہے کہ آج کی دنیاآدمیوں سے بھری پڑی ہے لیکن انسان کم دیکھائی دیکھتے ہیں ۔ ندا فاضلی نے اسی کو دیکھتے ہوئے کہا تھا:
ہر طرف ، ہر جگہ بے شمار آدمی پھر بھی تنہائیوں کا شکار آدمی
آج کی دنیا ایک طرف سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقیات کے اعتبار سے بام عروج پر ہے تو دوسری جانب لوگ ان ترقیات کے پس منظر میں گُم ہوتے ہوئے انسان اور انسانیت کی جانب بھی تشویش بھرے انداز میں دیکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ در اصل سائنسی ترقیات ہماری زندگی میں انقلاب انگیز تبدیلیاں لے کر آئی ہیں۔ان تبدیلیوں کا سیدھا اثر ہماری شب و روزکی زندگی پر مرتب ہوئیں ۔ زندگی اتنی آسان ہوگئی کہ ہم نے ان ٹکنالوجی کو اپنی زندگی کا لازمہ بنا لیا اورگرد وپیش کو بھی اسی عینک سے دیکھنے لگے۔ آج کی زندگی کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ لوگ مشینی دور میں خود بھی مشین بن گئے ہیں اور ان کی زندگی کا انحصار بھی انھیں مشینوں پر ہے۔ مشین پر جینے والے آج کے دور کے انسان کا عالم یہ ہے :
اے آسمان تیرے خدا کا نہیں ہے خوف ڈرتے ہیں اے زمین ترے آدمی سے ہم
اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کے انسان نےوقت اور حالات کے تحت بدلنے کا ایسا ہنر سیکھ لیا ہے کہ آدمی کو پہچاننا مشکل ہو گیا ہے بقول ندا فاضلی :
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا
اور بشیر بدر نے بڑے ہی سیدھے سادے انداز میں اس سورت ھال پر بڑا گہر اطنز کیا ہے :
گھروں پہ نام تھے ناموں کے ساتھ عہدے تھے بہت تلاش کیا کوئی آدمی نہ ملا
شہزاد احمد اسی موضوع کو اس طرح بیان کرتے ہیں :
ہزار چہرے ہیں موجود آدمی غائب یہ کس خرابے میں دنیا نے لا کے چھوڑ دیا
انسانییت کے اس المیے یہ اشعار بھی سنیں :
گرجا میں مندروں میں اذانوں میں بٹ گیا ہوتے ہی صبح آدمی خانوں میں بٹ گیا
کوئی ہندو کوئی مسلم کوئی عیسائی ہے سب نے انسان نہ بننے کی قسم کھائی ہے
یہ اور اس طرح کے ہزاروں اشعار کی مثالیں دی جاسکتی ہیں ۔ لیکن اس مختصر وقت میں مککن نہیں ۔ بس اتنی بات ضرور کہتا چلوں کی اردو شاعری میں غزل ایک ایسی صنف سخن ہے جس نے ابتدا سے اب کے تمام ادوار میں غم جاناں کو غم دوراں بنا کر پیش کیا اور اس غزل جو بنیادی طور پر فارسی سے آئی لیکن اردو شاعروں نے اسے ہندستانی رنگ میںرنگ دیا اسی لیے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے ہندستانی تلمیحات کا استعمال کیا ہے:
قلی قطب شاہ کا یہ شعر:
بتخانہ نےن تیرے، ہور بت نین کیاں پتلیاں
مجھ نین ہیں پجاری ، پوجا ادھاں ہمارا
ولی دکنی کا یہ شعر:
کوچہٴ یار عین کاسی ہے جوگیٴ دل وہاں کا باسی ہے
اے صنم تج جبیں اپر یوں خال ہندوئے ہردوار باسی ہے
فیض دکنی کا یہ شعر :
کریں ہم کس کی پوجا اور چڑھائیں کس کو چندن ہم
صنم ہم دیر ، ہم بت خانہ ، ہم بت ، ہم برہمن ہم
گلہائے رنگ رنگ سے ہے رونق چمن/زینت چمن
اے ذوق اس جہاں کوہے زیب اختلاف میں/ سے ذوق
خدا کے عاشق توہیں ہزاروں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کا ، خدا کے بندوں سے پیار ہوگا اقبال
کیسا اس نفرت کے سناٹے میں گھبرا تا ہے دل اے محبت کیا ترے ہنگامہ آرا سو گئے