Home / Socio-political / اسرائیل امریکا کا ایک آزمودہ سپا ہی

اسرائیل امریکا کا ایک آزمودہ سپا ہی

سمیع اللہ ملک


یہ سوچ بہت عام ہے کہ یہودی یا اسرائیلی اس قدر چالا ک اور ذہین قوم ہے کہ امریکا اسرائیل کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا ۔ دنیا کی معیشت پر یہودیوں کا قبضہ ہے۔ میڈیا پر کوئی مو ضوع یا خبر ان کی مرضی کے بغیر چل نہیں سکتی۔ امریکا میں کوئی شخص کا نگریس کا ممبر یا امریکا کا صدر یہودی لابی کے پیسے اور سیاسی مدد کے بغیر نہیں بن سکتا ‘یہ تاثرات اس وقت اور مضبوط ہو جاتے ہیں جب امریکا مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی حمایت میں نہ تو کسی مخالفت کی پروا کر تا ہے او ر نہ ہی اپنے بنائے ہوئے اصولوں کو توڑ نے میں شرم محسوس کر تا ہے۔دنیا میں جو بھی فساد ہو تا ہے ا س کے پیچھے یہود کا ہاتھ ہو تا ہے اور مسلمانوں پر ہونے والے تمام مظالم کے ذمہ دار یہود ی ہیں ۔ اس تاثر کے نتیجے میں مسلمانوں میں یہ خیال جڑ پکڑ لیتا ہے کہ اصل برائی امریکا یا اس کا استعماری نظام سر ما یہ دار یت نہیں بلکہ اسرائیل یا یہود ہیں اگر ان کی طاقت کا خاتمہ کردیا جائے تو مسلمان اپنی کھوئی ہوئی عظمت رفتہ دوبارہ بحال کر لیں گے ۔

یہ بات ہر شخص جا نتا ہے کہ اس وقت امریکا دنیا کی واحد سپر پاورجس کو چیلنج کرنے والی کوئی دوسری طاقت موجود نہیں ہے ۔ امریکی معیشت دنیا کی معیشت کا ۱۷ فیصد ہے ۔ امریکا کا دفاعی بجٹ روس چین، برطانیہ اور فرانس کے کل دفاعی بجٹ سے زیادہ ہے ۔ اسرائیل جو سپر پاور نہیں، اپنا تحفظ امریکی مدد کے بغیر کر نہیں سکتا ‘ جس کی معیشت ہر سال امریکی امدا د کی محتاج ہے، وہ کس طرح امریکا کو اپنے اشاروں پر چلنے پر مجبور کر سکتا ہے ؟ عموعی طور پر یہ سمجھا جا تا ہے کہ امریکا کی مشرق وسطی سے متعلق پالیسی اسرائیل کی مرضی کے تابع ہو تی ہے امریکا مشرق وسطی میں اسرائیل کو مضبوط کرنے یا اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے کبھی جمہوری قوتوں کے خلاف پا بند یاں لگا تا ہے تو کبھی فوجی بغاوتوں او رآمر حکمرانوں کی حمایت کر تا ہے ،کبھی اقوام متحدہ پراپنی مرضی نا فذ کروانے کے لیے سیاسی اور فوجی اثر ورسوخ استعمال کر تا ہے تو کبھی بین الا قومی قوانین کی خلاف ورزی کر تا ہے ۔اب امریکا کے ان اعمال کا یہ جواز پیش کر نا کہ ایسا وہ صرف اور صرف اسرائیل کے دباوٴ کی وجہ سے کرتا ہے غلط ہو گا ۔ ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ امریکا افریقی ممالک، لا طینی امریکا اور مشرق بعید میں بھی اپنے مفادا ت کے حصول کے لیے اایسے ہی تمام اقدامات اٹھا تا ہے جیسا کہ وہ مشرق وسطیٰ اورجنوبی ایشیامیں کر تا ہے۔ اگر امریکا مشرق وسطیٰ کے علاوہ دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی ایسے ہی اقدامات کر تا ہے جہاں کوئی اسرائیلی مفاد نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا اتنی طاقت رکھتا ہے کہ وہ اپنی من مانی مرضی سے پا لیسیاں بناتا ہے چاہے جن سے دوسرے اتفاق نہ کرتے ہوں ۔

اس کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ امریکا کئی بین الا قوامی امور میں جن کا اسرا ئیل کی سلامتی یا مفادات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا‘ پوری دنیا کی رائے کی مخالفت کر تا ہے چاہے اس وجہ سے اس کو پوری دنیا میں شدید تنقید کا نشانہ ہی کیوں نہ بننا پڑے ۔ پوری دنیا نے زیر زمین سر نگوں (Land Mines) کے خاتمے ،بین الا قوامی عدالت برائے جنگی جرائم کے قیام اور دنیا میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو روکنے کے لیے (Koyoto Protocol) پر دستخط کیے لیکن امریکا نے ان معاہدوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس تجزیے سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ امریکا مشرق وسطیٰ میں بھی ایسے اقدامات اس لیے کر تا ہے کیونکہ بنیادی طور پر یہ اس کے مفاد میں ہوتے ہیں نہ کہ اس وجہ سے کہ اس پر اسرائیل کا کوئی دباوٴ ہو تا ہے ۔

ایک خیال یہ بھی ہے کہ امریکا میں موجود تمام یہودی اسرائیل کی حمایت میں ایک ہو کر امریکا پر دباوٴ ڈالتے ہیں۔ یہ تصور معلومات کی کمی کا نتیجہ ہے جہاں امریکا میں یہودیوں کی ایک بڑی تنظیم {American Israel Public Affairs Committe(AIPAC} اور اس سے منسلک کئی یہودی تنظیمیں امریکی اراکین کا نگریس پر اسرائیل کے حق میں پا لیسیاں بنانے کے لیے دباوٴ ڈالتی ہیں وہیAmerican’s for Peace Now, Israel Policy Forumجیسی یہودی تنظیمیں ہیں جو اسرائیل کے وجود کے خلاف تو نہیں ہیں لیکن اسرائیل کی یہودی آبادکاروں کے حوالے سے پالیسی ‘نئے علاقوں پر قبضہ کرنے‘ دیوار کھڑی کرنے اور امریکا کی اسرائیل کی ہر حال میں حمایت کی شدید مخالفت بھی کرتی ہیں ۔

یہ کہنا کہ یہودی لابی بہت مالدار ہے اور پیسے استعمال کر کے امریکی اراکین کا نگریس پر دباوٴ ڈالتے ہیں بالکل غلط مفروضہ ہے پیسوں کے لحاظ سے سب سے طاقتورلابی امریکا میں دفاعی یا اسلحہ بنا نے والے اداروں ‘تیل کی کمپنیوں اور ادویات بنا نے والے اداروں کی ہے صرف (North Gruman) اور (Lockheed Martin)اپنے اداروں کی لابنگ پر AIPACکے مقابلے میں بالترتیب سات اور پانچ گنا زیادہ خرچ کرتے ہیں اسی طرح AIPAC کی لابنگ کا خرچہ(Genral Electric Boing) اور دوسرے کئی ایسے اداروں سے بہت کم ہے جو کسی بھی دفاعی صنعت سے منسلک ہیں ۔امریکا میں یہودیوں کی آبادی پانچ فیصد سے بھی کم ہے اس میں سے بھی جب ایک معقول تعداد اسرائیل کی ہر حال میں حمایت کی مخالفت کر تی ہو‘ اوردولت کی بنیاد پر یہودیوں سے زیادہ مضبوط لابیز موجود ہوں تو د و یا تین فیصد یہودی امریکی انتظامیہ پر کتنا زور ڈال سکتے ہیں !

اگر ہم اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ امریکا اسرائیل کی مرضی کے خلاف کچھ بھی نہیں کر تا تو میں یہاں کچھ مثالیں پیش کر تا ہوں تاکہ یہ خیال ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے ۔ کسی بھی امریکی صدر نے جب یہ دیکھا کہ اسرائیل لابی کی طرف سے جس پالیسی کو اپنا نے کے لیے دباوٴ ڈالا جا رہا ہے وہ امریکی مفاد میں نہیں تو امریکی صدر نے ہمیشہ اسرائیل کو مجبور کر دیا کہ وہ امریکی پا لیسی کو اختیار کرے ۔ ۱۹۵۶ ء میں جب اسرائیل برطانیہ اور فرانس نے نہر سوئز پر قبضہ کرنے کے لیے جنگ کا آغاز کیا تو اس وقت کے امریکی صدر آئزن ہاور نے اس جنگ پر شدید ناراضی کا اظہار کیا اور اسرائیل کو دھمکی دی کہ اگر اس نے مصری علاقوں سے قبضہ ختم نہ کیا تو امریکا میں اسرائیلی بونڈز اور نجی طور پر اسرائیل بھجوائی جانے والی ، رقوم پر ٹیکس کی چھوٹ ختم کر دی جائے گی ۔ امریکی صدر آئزن ہاور نے اسرائیل کو یہ دھمکی اس وقت دی تھی جب صرف چند ہفتوں بعد امریکا میں صدارتی انتخابات ہونے جا رہے تھے ۔ امریکی صدر آئرن ہاور کی اس دھمکی کے نتیجے میں اسرائیل نے چند مہینوں میں تمام مصری علاقے خالی کر دئیے ۔

اسی طرح جب ۱۹۷۸ ء میں جب اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا اور دریائے لیتانی تک آگیاتو امریکی صدر جمی کارٹر نے اسرائیل کو امداد بند کرنیکی دھمکی دیکر مجبور کردیا وہ لبنان کی سرحد میں چند کلو میٹرتک محدود رہے ۔ اس کے بعد اگلے امریکی صدر رونا لڈریگن نے ۱۹۸۱ء میں AIPAC کے بھرپور دباوٴ کو مستر د کرتے ہوئے فوکس طیارے سعودی عرب کو بیچے ۔ اس کے دس سال بعد بش سنیئر نے اسی AIPAC کے بھر پور دباوٴ کا کا میابی سے مقابلہ کیا اور اسرئیل کے لیے دس ارب ڈالر قرضے کو جاری کرنے میں تاخیر کی جب تک کہ اسرائیل میں الیکشن نہیں ہو گئے اور دائیں بازو کے وزیر اعظم(Yitzhak Shamir)کو شکست نہیں ہو گئی جومشرق وسطیٰ میں امریکی امن منصوبے کی راہ میں رکا وٹ بن رہا تھا ۔

۲۰۰۴ ء میں بش جو نیئر نے اسرائیل کو نہ صرف چین سے اس معاہدے کو توڑنے پر مجبور کر دیا جس کے تحت اسرائیل نے (Harpy Serveillance) طیاروں کو جدید بنا یا تھا بلکہ اسرائیلی وزارت دفاعی کے ڈائر یکٹر جنرل (Amos Yaron)کو بھی استعفیٰ دینا پڑا ،اسی طرح سرائیل پچھلے کئی سالوں سے امریکا کو ایران پر حملے کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن نہ صرف یہ کہ امریکا اس کی اس خواہش کو پورا نہیں کر رہا بلکہ امریکا نے اسرائیل کو بھی سختی سے ایران پر کسی بھی قسم کے حملے سے روک دیا ہے ۔

ان تمام حقائق کے باوجود آخر امریکا کیوں اسرائیل کی اس قدر حمایت کر تا ہے‘ سب سے پہلے تو اس بات کو ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ امریکا جب سے دنیا کی واحد سپر پاوربنا ہے وہ جو بھی فیصلے کرتا ہے اپنی ضرورت اور مفادات کو سامنے رکھ کر تا ہے ۔ مشرق وسطی کا علاقہ کئی اعتبار سے اہمیت رکھتا ہے ،دنیا کے تمام تجارتی بحری قافلے اس کے بحری علاقوں سے گزرتے ہیں، دنیا کے ۶۶ فیصد سے زائد تیل وگیس کے ذخائر اس علاقے میں موجود ہیں اور ان تما م باتوں سے بڑھ کر یہ علاقے مسلم اکثریتی آبادی رکھتے ہیں ۔ مشرق وسطیٰ کی اہمیت کو واضح کر نے کے لیے سابق برطانوی وزیر اعظم (Hery Bannerman)کا ایک تبصرہ کافی ہے ‘ وہ کہتا ہے ۔

”یہاں پر وہ لوگ (مسلمان )رہتے ہیں جو اس زبر دست علاقے اور اس زمین میں موجود ذخائر کو کنٹرول کرتے ہیں ۔ان کی زمین انسانی تہذیب اور مذاہب کا گہوراہ ہے ‘ان لوگوں کا عقیدہ زبان ، تاریخ اور جذبات ایک سے ہیں ۔کوئی قدرتی رکاوٹ ان لوگوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کر سکتی اور اگر کبھی جدا ہو بھی جائیں تو یہ دو بارہ ایک مملکت میں ضم ہو جائیں گے ۔ پھر یہ دنیا کی قسمت کو اپنے ہاتھ میں لے لیں گے اور یورپ کو باقی دنیاسے کاٹ دیں گے۔ان وجوہات کو سنجیدگی سے لیا جائے تو ضروری ہے کہ ایک بیرونی اکائی کو اس قوم کے دل میں پیوست کر دیا جائے تا کہ اس قوم کی صلاحیتوں کو کبھی نہ ختم ہونے والی جنگوں میں ضائع کر دیا جا ئے ۔ یہ بیرونی اکا ئی مغرب کے لیے ایک ایسے پلیٹ فارم کا کام بھی کرے گی جہاں سے وہ اپنے خفیہ منصوبوں کو انجا م دے سکے گا۔ “

یہ ہیں وہ بنیا دی وجوہات جن کی بنا پر پہلی جنگ عظیم کے بعد اس وقت کی سپر پاور برطانیہ نے مشرق وسطیٰ کے علاقے میں یہودی مملکت کی کوششوں کا آغاز کیا اور پھر دوسری جنگ عظیم کے بعد جب امریکا سپر پاور بن گیا تو اس کے مفاد کا تقاضہ بھی یہی تھا کہ اسرائیل کی ریاست قائم کی جائے اور اس کو مضبوط بنا یا جائے ۔ اسرائیلی ریاست کے ذریعے اس علاقے کو مسلسل جنگوں میں مبتلا رکھا جا تا ہے جس سے ایک طرف امریکی اسلحے کی فیکڑیاں چلتی رہتی ہیں تو دوسری طرف ان ممالک کی کمزوری کے سبب امریکا ان ممالک میں اپنے اثرورسوخ کو بڑھا تا اور بر قرار رکھتا ہے۔ دنیا کی واحد سپر پاور امریکا سر مایہ دار یت کے نظریے کا علم بردار ہے ۔ اسلام کا حقیقی دشمن جہاں یہودی یا اسرئیلی ریاست ہے وہاں امریکا کاسرمایہ داریت کا نظام بھی ہے اوراسرائیل امریکی مفادات کو پورا کرنے والاایک کھلا ڑی ہے البتہ اس کھلا ڑی کی یہ جرأت اور طاقت نہیں ہوسکتی کہ وہ وقت کی واحد طاقت کو اپنے مفادات کے مطابق چلا سکے ۔ اسرائیل کی اس حقیقت کو ایک اسرائیل استاداور امن کے لیے کام کرنے والے کا رکن نے اس طرح سے بیان کیا ہے :

اسرائیل اپنے قبضوں کو اس لیے برقرار رکھ پا تا ہے کیونکہ وہ مغرب خصوصاً امریکہ کے استعماری مفادات کو پورا کر نے کے لیے تیار رہتا ہے اور حقیقت میں اب اسرائیل امریکا کا ایک آزمودہ سپاہی بن چکا ہے ۔ “ سابق امریکی وزیر خارجہ (Alexander Haig)نے اسرائیل کے متعلق کہا تھا ۔ :”اسرائیل امریکا کا واحد سب سے بڑا بحری و ہوائی بیڑہ Air Craft Carrier))ہے جوڈوب نہیں سکتا “

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *