اسلامی دنیا گونا گوں مسائل سے بوجھل دکھائی دیتی ہے۔ وقت کے ساتھ دنیا نے مہذب ہونے کیلئے علم و عمل کی طاقت کو یکجا کر کے اپنے معاشروں میں بہتری لائی ۔ دنیا چاند سے اگے جانے اور چاند پر اپنی دنیا بسانے کی سوچ پر عمل پیرا ہے ۔ اسلامی دنیا جو علم وعمل کے اس ہنر سے آشنا تھی اور انتہائی متمدن تہذیب و ثقافت کی وارث تھی نے سب کچھ بھلا کر اجڈ پن اور وحشت ناکی کا روپ اپنانے کو ترقی کی راہ جانا ۔
دنیا نے اسلامی اطوار اپنا کر اور اسلام کے زریں اصولوں پر عمل کر کے دنیا سنوار لی۔ اسلامی دنیا ان کے متروک اصولوں کو اپنانے میں مستقبل کی تابناکی کی تلاش میں آج بھی سرگرداں ہے۔
دنیا کے متمدن معاشروں کے معماروں نے تسلیم کیا کہ انہوں نے اپنے معاشروں کی تعمیر وترقی میں اسلامی اصولوں کو مدنظر رکھا۔ اس میں مساوات عدل وانصاف اور انسانیت واخلاقیات کے اصول بنیادی طور پر استعمال میں لائے گئے ۔یہ بھی حقیقت سے دور کی بات نہیں کہ ہم اپنے محسنوں کو اپنا دشمن اور دشمن کو اپنا محسن گردانتے ہیں۔ اسلامی اصولوں سے انحراف کرنے میں ہمارا مقصود ذاتی ستائش کے سوا کچھ نہیں۔ سیاسی لوگ اکثر نعرہ لگاتے ہیں کہ وہ پاکستان کی تعمیر وترقی میں فلاں سیاسی قائد کے ویژن اور اصولوں کی تقلید کریں گے ۔اس کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ اس کیلئے دن رات ایک کریں گے ۔یہ تقریبا ہر پارٹی کے کارکن اپنے سیاسی راہنما کے بارے میں کہتے ہوئے پائے جائیں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان مفکرین نے کیا ویژن اور اصول پیش کیے۔ کیا یہ ان کی ذاتی سوچ ہے یا ان کی سوچ کس نظریہ سے متاثر نظر آتی ہے۔ان کی سوچ کس نظریہ کا پرتو اور عکس ہے۔ بہت آسان سے فارمولا ہے کہ اس سوچ کو جانچ کر اس کے بعد اس کے ماخذ کی تلاش کر کے اس کی کامیابی اور ناکامی کا تناسب دیکھنا بہت آسان ہو جائے گا۔ اگر وہ نظریہ قابل تقلید ہوا تو اس کے پیروکار دنیا کے اکثر علاقوں میں مروج پائے جائیں گے۔
مختلف نظریات کے حاملین دنیا میں کثرت سے پائے جاتے ہیں لیکن وہ آج اپنے نظریات کی کم مائیگی پر نالاں ہیں۔ انہیں اپنے نظریات کی خامیاں ترک کرنے پر مجبور کر رہی ہیں۔ وہ دوسرے نظریات سے اقتباس کرتے نظر آر ہے ہیں۔ ان میں سے اکثریت اسلامی طرز معاشرت سے اقتباس کرتے ہیں۔ اسلامی دنیا گمشدہ میراث کو اپنے سینے سے لگانے کیلئے اپنا دامن پھیلائے کھڑی ہے ۔اپنی میراث کی محافظت سے عاری غیروں پر واری ہوئے ہیں۔اسلامی تہذیب و ثقافت میں ایسی کیا کمی ہے جو مہذب معاشروں میں اس اپنانے اور اس کے وارث کہلانے میں شرم محسوس کی جاتی ہے۔ ایسے افعال جو اسلامی ثقافت وتہذیب میں ممنوع قرار پاتے ہیں کے مضمرات سے اگاہی کے باوجود بھی ان سے ہاتھ نہ کھینچنا متمدن ومہذب ہونے کی علامت نہیں ۔ معاشرے میں عود آئی بہت سی اخلاقی برائیاں اس سبب ہیں کہ ہم نے اسلامی تہذیب وثقافت سے منہ موڑ رکھا ہے۔
اسلامی ممالک میں اسلامی شریعت کی تشریح کے ماخذ اپنے اپنے ہونے کے سبب ان میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ اگر ہم قرآن اور سنت رسول اور اسوہ حسنہ کے عمیق مطالعہ سے نتائج اخذ کریں تو ہمیں یہ سمجھنے میں کوئی مشکل پیش آئے گی کہ ہمارے نظریات اسلامی شریعت کی بجائے نفس کے تابع ہیں ۔ اپنے عقائد میں موجود اختلافات کو دور کرنے کیلئے اسلامی دنیا کو چاہیے کہ وہ او آئی سی کے پلیٹ فارم پر تحقیق اور مناظرہ کے زریعے ایک ایک کر کے اختلافی مسائل کا حل تلاش کریں۔ جن عقائد کی اسلامی شریعت سے مماثلت نہیں اور وہ مختلف معاشروں میں دوسرے معاشروں کی نقالی سے عود کر آئے ہیں کو قانونی اور شرعی طورپر ممنوع قرا ر دے کر ان سے خلاصی حاصل کی جائے ۔
اسلام دنیا کے اکثر اختلافات صرف فروعی مسائل کی وجہ سے ہیں۔ ان کی وجہ سے امت مسلمہ تقسیم در تقسیم کے عمل سے دوچار ہو کر اختلافات کی عمیق کھائی میں جا رہی ہے۔ دشمن اس پر اپنی گرفت مضبوط بنار ہے ہیں اور ان اختلافات کو ہی ہوا دے کر ان میں اختلافات کی خلیج کو وسیع تر بنا رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کی حالیہ صورتحال سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمان ایک دوسرے سے کس قدر نفرت اور کراہت کر تے ہیں۔ ایک مسلمان اگر پاکستان کی حمایت صرف اس لیے کر رہاتھا کہ وہ ملک کو یکجا دیکھنا چاہتا تھااور اسے انڈیا کی سازش قرار دے کر اپنے بھائیوں سے جدا نہیں ہونا چاہتا تھا تو اسے پھانسی کی سزا دے دینا قابل تحسین عمل نہیں ۔اس عمل سے امت مسلمہ کے دیگر ممالک کے مسلمانوں کو کیا سبق گیا ہو گا۔ اس سے مسلمانوں میں اختلاف کی خلیج میں مزید بڑھائو آیا ہو گا۔
مسلمان ذاتیات کا آسیر ہو کر ریت میں منہ چھپاکر دشمن سے محفوظ ہونے کی سوچ سے باہر آنے کو تیار نہیں۔ مسلمانوں کو اسلامی تہذیب و ثقافت سے چڑ آتی ہے۔وہ اسے متروک اور زمانہ قدیم کی کوئی چیز جان کر اسے میوزیم کی زینت بنانے کی سوچ رکھتے ہیں۔ اسلام کو دیگر ادیان یا نظریات سے کمتر جاننے کی سوچ نے مسلمانوں کو احساس کمتری کا شکار بنارکھا ہے۔ احساس کمتری اور احساس محرومی نے امت مسلمہ کو مستعار ثقافتوں اور نظریات کی آماجگاہ اور امت مسلمہ کو تجربہ گاہ بنا دیا ۔امت مسلمہ تجربات کی بھینٹ چڑھا کر اسے آدھا تیتر آدھا بٹیر کی بجائے آدھا کوا بنا دیا گیا۔ اب اگے اس کو کیا شکل دی جانے والی ہے وہ مزید نظریات کے امتزاج کی منتظر ہے ۔
ہم ہنس کی چال اپنانے کی سعی میں اپنی بھی بھول چکے ہیں۔ ہم نہ ہم رند بنے اور نہ ہی ہم واعظ بنے ۔ اکابرین کی سوچ ترقی کے سفر میں دنیا کے ساتھ جانے کی ہے۔ انہیں دنیا سے سروکار ہے ہے لیکن وہ اسلام کو دنیا میں ترقی کیلئے رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ ان کی غلط سوچ و تفکر سے ہماری راہ ومنزل کھو چکی ہے۔ اس سے مذہب اور عمل میں فاصلے پیدا ہوئے ہیں۔ نہ ہم مذہب کے پیروکار رہے اور نہ ہم دنیا دار رہے۔ ہم منہ سے اللہ اور رسول کی تابعداری کا اعتراف کرتے ہیں لیکن عمل میں ہم گوئٹے اور شکسپئیر کی پیروی کرتے ہیں۔ ہمارے آئیڈیل وہ نہیں جن کے مراتب ہم چاہتے ہیں ۔ہم شیطان کی پیروی کر کے رحمان کی خوشنودی کے طالبگار ہیں۔ رومی کی پیروی میں کام کرتے ہیں اور درجات عمر فاروق جیسے مانگتے ہیں ۔
وسائل بھی ہیں اور شعور و اگاہی بھی ہے لیکن پھر بھی غلامی کی زنجیر ہے کہ لپٹتی ہی جاتی ہے۔وجہ کیا ہے صرف نفاق کے سوا کچھ نہیں۔ غیروں کے در پر فرش راہ اپنوں کیلئے سنگ راہ کب تک بنتے رہیں گے۔ اکابرین کو اس کیلئے کوشش کرنی ہوگی اور اس کیلئے راہیں ہموار کرنے کی کوشش جلد کرنی چاہیے۔ غلامی کی باڑ بہت تیزی کے ساتھ امت مسلمہ کا احاطہ کرتی جار ہی ہے اور ایسا نہ ہو کہ یہ سر سے اونچی ہو جائے ۔