اسلام دشمن طاقتیں یہ کبھی نہیں چاہتیں کہ مسلمان امن و سکون کے ساتھ رہیں۔وہ اسی تاک میں رہتی ہیں کہ مسلمانوں کو کسی نہ کسی بہانے الجھاکر رکھا جائے تاکہ ان کی اقتصادی، تعلیمی اور معاشرتی ترقی پر اسی طرح جمود طاری رہے جس طرح وہ چاہتی ہیں۔ اس کے لئے وہ عمل مسلسل اپنا رہی ہیں اور مسلمان ہیں کہ ان کے جال میں پھنستے چلے جارہے ہیں۔اس کا مطلب یہ قطعی نہیں ہے کہ مسلمان آنکھ بند کرکے اہل مغرب کی اشتعال انگیزی ، بدتمیزی اور مذہب کی توہین کو برداشت کرتے جائیں۔ مسلمانوں کو ہر وہ طریقہ سے اپنانا چاہئے جس میں اسلام، مسلمان اور دین کی سربلندی ہو۔ مسلمانوں کو احتحاج کرکے ناطقہ بند کرنا چاہئے نہ کہ اپنی جان مفت میں گنوانی چاہئے۔ اسلام دشمن طاقتوں کا مقصد ہی یہی ہے کہ ایسا طریقہ استعمال کیا جائے کہ مسلمان مشتعل ہوکر سڑکوں پر آئیں تاکہ وہ پولیس کی گولیوں کا آسانی سے نشانہ بن جائیں۔ آج ہندوستان سمیت پوری دنیا میں مسلمانوں کو مشتعل کرنے کے لئے بڑے پیمانے جال بنے گئے ہیں اور اس میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتاجائے گا۔ امریکہ اورفرانس میں حالیہ دنوں میں جو کچھ ہوا ہے وہ اسی کا حصہ ہے۔ اسلام دشمن طاقتیں بخوبی یہ جانتی ہیں مسلمان خواہ وہ کسی درجہ کا ہو وہ اپنے مذہب کی توہین برداشت نہیںکرے گا اور نہ ہی اپنے پیغمبر کی کی شان میںکسی طرح کی گستاخی برداشت کرے گا ۔یہ حقیقت بھی ہے کہ مسلمان اپنے پیارے نبی پر جان دینا اپنی خوش بختی اور خوش نصیبی تصور کرتا ہے۔ روزاول سے ہی یہ ثابت کرتا آرہا ہے آگے بھی اس میںکوئی کمی نہیں آئے گی۔ امریکہ جو دوسرے ملکوں پر ’بدی کا محور‘ ہونے کا الزام لگاتا آرہا ہے اس وقت سب سے بڑا بدی کا محور ہے۔ آج تک دنیا کے جتنے ممالک میں انتشار، بغاوت، خانہ جنگی، خونیں فساد اور دیگر منظم جرائم ہوئے ہیں اس میں کسی نہ کسی درجہ میں امریکہ کا ہاتھ رہا ہے۔ ہمیشہ دوسروں کو نصیحت کرنے والا امریکہ آج خود اسی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ جہاں اخلاقی، جنسی، انسانیت سوز جرائم عام ہیںوہیں دوسروں کے مذہبی حقوق کا احترام ندارد ہے۔ گناہ کرنا اتنا برا نہیں ہے جتنا کہ گناہ کو گناہ نہ سمجھنا اور اس پر بضدرہنا بدتر گناہ ہے۔ امریکہ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کامضحکہ اڑانے اور توہین کرنے والی فلم ’’مسلمانوں کی معصومیت‘‘ امریکہ کی اسی ذہنی قلاشی کو اجاگرتی ہے۔یہ توہین آمیز فلم اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ وہ اہل چودھویں اور پندرہویں صدی کی طرف واپس جارہے ہیں۔
عیسائی مذہب کے توہین کایہ معاملہ اگر مغرب کے علاوہ کسی دیگرملک میں پیش آیا ہوتا تو امریکہ اور یوروپ اوریہاںتک کے گوگل بھی اس پر فوراً پابندی لگادیتا ۔ مگر گوگل ، امریکہ اور یوروپ اظہار آزادی کی دہائی دیکر اس پر پابندی لگانے سے سے انکار کر رہا ہے۔ مصری نژاد قبطی نکولا (نخولہ) باسیل نے اس طرح کی فلم بناکر نہ صرف پورے عالم اسلام میں اضطراب کی لہر پیدا کردی ہے بلکہ اپنی گھٹیا ذہنیت اور پاگل پن کا بھی ثبوت پیش کیا ہے۔ یہ فلم اس لائق نہیں ہے کہ اسے دیکھا جائے ۔ یہ فلم اس لہر کا حصہ ہے جو مسلسل انجام دیا جانے والا ہے۔ اس فلم میں آنحضور کی شان میںگستاخی کاور ان کے شبیہہ کو مجروح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ متنازعہ توہین آمیز فلم میں کام کرنے والے دو معاون اداکاروں کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ دھوکہ کیا گیا ہے اور یہ فلم توہین آمیز ہے انھیں اس گندے اور خطرناک کام پر صدمہ پہنچا ہے۔انہیں اس بات کا قطعاً کوئی اندازہ نہیں تھا کہ اس فلم میں توہین رسالت پر مبنی پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات سے کسی حوالے سے کوئی تعلق تھا۔ان میں سے اداکارہ فلم میں نوجوان عیسائی عورت کی شکل میں پیش ہوئی تھی اور اس پر ایک مشتعل ہجوم حملہ کردیتا ہے۔اسے ایک دن کے کام کے لیے ایک سو ڈالرز کا چیک دیا گیا تھا۔ اس کے مطابق سیٹ پر محمد نام کا کوئی حوالہ نہیں دیا گیا تھا اور میرا یہ خیال تھا کہ یہ ایک مسلمان لڑکے کے دلیرانہ کردار پر مبنی ہوگی اور اس کی کہانی اس لڑکے کے افغانستان کے ایک قصبے میں پہنچنے سے متعلق ہوگی۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ پہلی بار اس طرح کی فلم یا خاکہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ جب سے امریکہ اور یوروپ میں اسلام کادائرہ پھیلا ہے اسی طرح اسلام دشمنی بھی پھیلی ہے۔ نائن الیون کے بعد جس طرح اسلام کے خلاف ماحول بنایاگیا اسی طرح اسلام قبول کرنے والوں کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ ڈنمارک میں آنحضور کا کارٹون بنایا گیا تھا اس کے بعد اسلام قبول کی شرح بہت بڑھ گئی تھی۔ ابھی حال میں ایک یہودی سائنس داں، افریقی مس یونیورس اور ایک بہت بڑے امریکی تاجر نے اسلام کی دامن میں پناہ لی ہے۔اسلام دشمن طاقتیں اس سے بری طرح بوکھلاگئی ہیں اور وہ مسلمان اور اسلام کو نشانہ بنانے کی نت نئی کوششیں کرتی رہتی ہیں۔
ڈنمارک کے ایک اخبار’’جائی لینڈ پوسٹن‘‘ نے ہی سب سے پہلے آنحضور صلی اللہ وسلم کارٹون ۲۰۰۵ میںشائع کیا تھا۔اس کے بعد متنازعہ کارٹونوں کی ۱۲ سریز گزشتہ ستمبر میںشائع کر کے ڈنمارک کے اخبار یولاس پوسٹن نے اپنے اتحاد کا اظہار کیا تھا۔ بعد میں اخبار یلاس پوسٹن نے مسلمانوں کی جذبات کو ٹھیس پہنچانے پر معافی مانگ لی ہے، لیکن ساتھ ہی کہا ہے کہ اسے اظہار کی آزادی ہے اور وہ جو چاہے شائع کر سکتا ہے۔اس کے بعد کئی عرب ممالک نے ڈنمارک سے باقاعدہ احتجاج درج کرایا ہے جبکہ کئی مسلم ممالک میں ڈینش مصنوعات کا بائیکاٹ شروع ہو گیا ہے۔جس پر مسلم ممالک سے ڈنمارک کے وزیر اعظم کی درخواست پر اس وقت کے امریکی صدر اوربدی کا محور جارج ڈبلیو بش نے مسلم ممالک کے حکمرانوں سے بات کی تھی۔ اس کے علاوہ فرانس کے اخبار ’سواغ ‘نے صفحہ اول پر ایک کارٹون شائع کیا تھا جس میں بدھ مت، یہودی، مسلم اور عیسائیوں کی مقدس شخصیات کو ایک بادل پر بیٹھے دکھایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ “محمد، فکر مت کرو، اس مقام پر ہم سب کے تصویر چھاپے گئے ہیں ۔حالانکہ اس اخبار کے ایڈیٹر کو برخاست کردیا گیا تھا لیکن اخبار کے مالک نے کہا تھاکہ وہ صرف ہر شخص کے ذاتی عقائد کا احترام ظاہر کرنے کے علامت کے طور پر عہدے سے ہٹایا ہے۔امریکی پادری ٹیری جونز نے سال 2010 میں ورلڈ ٹریڈ ٹاور پر ہوئے حملے کی برسی کے موقع پر قرآن کی کاپیاں جلانے کا اعلان کیا 20 مارچ 2011 کو فلوریڈا کے ایک چرچ میں امریکی پیسٹر وین سیپ نے قرآن کی ایک کاپی کو آگ لگا دی تھی۔ اس کے بعد اسی سال فروری میں افغانستان کے بگرام ہوائی اڈے پر امریکی فوجیوں نے قرآن کی کاپیاں جلا دیں۔ اس واقعہ کے بعد فسادات شروع ہو گئے تھے جن میں دو امریکی فوجیوں سمیت 30 افراد ہلاک ہو گئی تھی۔ واقعہ کی تحقیقات کے بعد شائع رپورٹ کے مطابق قرآن کی 53 کاپیاں اور 162 دیگر مذہبی کتابوں کو ایک بھٹی میں جلا دیا گیا تھا۔امریکہ کی حالیہ فلم پر پورے عالم اسلام میں احتجاج جاری تھا کہ فرانس کے ایک ہفت روزہ اخبار ’چارو ہیبدو‘ نے متنازعہ کارٹون شائع کرکے عالم اسلام میں مزید اضطراب کی لہر پیدا کردی ہے۔ فرانس میں مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے حجاب پر پابندی اور دیگر اسلامی شعار پر پابندیاں عائد کی جاتی رہی ہیں۔
امریکی فلم کے خلاف مسلمان اس وقت سڑکوں پر ہیں۔ اس میں درجنوں لوگوں کی جان جاچکی ہے جس میں لبیا میں امریکی سفیر کی ہلاکت بھی ہے ۔ امریکہ ، یوروپ اور اسلام دشمن طاقتوں کامقصد پورا ہورہا ہے کہ مسلمان تمام مثبت فکر چھوڑ کر منفی راہ پر لگ جائیں۔ غازی آباد کے مسوری میں گزشتہ دنوں قرآن کی بے حرمتی پراحتجاج کرنے والے مسلمانوں کا استقبال جس طرح گولیوں سے کیاگیا وہ یہ سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ ہندوستان مسلمانوں کی جان کی قیمت نہیں ہے۔ امریکہ میں نائن الیون کے بعد ہندوستان میں جس طرح پارلیمنٹ پر حملہ ہوتا ہے اوراس کے بہانے یہاںمسلمانوں کا ناطقہ بند ہوتا ہے یہ بہت کچھ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ خصوصاً پولیس کے اعلی افسران کی اس کانفرنس میںجوپارلیمنٹ پر حملہ کے بعد ہوئی تھی جس کی صدارت اس وقت کے وزیر داخلہ ایل کے اڈوانی نے کی تھی اس میں یہ فیصلہ غیر اعلانیہ طور پر کیاگیا تھا جو مسلمان سڑکوں پراترے گا اس کا استقبال گولیوںسے کیا جائے گا۔ اس کے بعد مسلمانوں کے جتنے بھی مظاہرے ہوئے اس میںمسلمانوں کو جانیں ضرور گئیں۔ اگر کسی پولیس اہلکار نے گولیاں چلانے کی اجازت نہیں دی تو ان کا تبادلہ کردیا گیا جیسا کہ ابھی حال ہی میں ممبئی میں ہوا ہے۔
یہ باتیں صرف ہم نہیں کہہ رہے ہیں کہ یہ مسلمانوں کو مشتعل کرنے کی منظم سازش کا ایک حصہ ہے۔ قوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے بھی توہین آمیز فلم پریہی کہا ہے۔ بان کی مون نے کہا ہے کہ انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ توہین آمیز فلم جان بوجھ کر دنیا میں تعصب اور خونریزی کو ہوا دینے کے لئے تیار کی گئی ہے، جو قابل مذمت فعل ہے اور اسلام مخالف فلم غیرمہذب اور شرمناک ہے اور اس کے خالق نے آزادئی اظہارِ رائے کا غلط استعمال کیا ہے۔ آزادئی اظہارِ رائے کو اس وقت یقینی بنایا جانا چاہیے اور تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے جب وہ ’عام انصاف‘ اور ’عام لوگوں کے مقاصد‘ کے لیے استعمال ہو۔ جب کچھ لوگ اس حق کو اشتعال انگیزی یا دوسروں کے عقائد کی بے حرمتی کے لیے استعمال کریں تو ایسے موقع پر ان کے اس حق کا تحفظ نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ اور یوروپ کا قانون اگر کسی مذہب کا احترام نہیں کرسکتا اور مذہب یا مذہبی شخصیات اور پیغمبروں کی توہین کی اجازت دیتا ہے تو وہ اس لائق ہے کہ اسے کوڑے دان میں ڈال دینا چاہئے۔ جو آئین کسی کا احترام کرنے سے خود کو قاصر محسوس کرے تو اس سے لاچار کوئی قانون نہیں ہوسکتا۔ امریکہ اور یوروپ کی اس سے نہ صرف ذہنی و اخلاقی قلاشی اجاگر ہورہی ہے بلکہ وہ اس کے اس مفروضے کی بھی نفی کرتا ہے کہ وہ کسی جمہوری قوانین کا بانی ہے۔ وہ قانون کسی بھی مہذب ملک اورمہذب قوم کا نہیں ہوسکتا جب میں کسی مذہب کے توہین کرنے والے کے لئے سزا نہ ہو۔ امریکہ اور یوروپ کا یہ کہنا ہم صرف اس کی مذمت کرسکتے ہیں سزا نہیں دے سکتے کیوں کہ یہ اظہار آزادی پر قدغن لگانے جیسا ہوگا جب ہولو کاسٹ یا اس طرح کے دیگر موضوع پرکوئی مسلمان بولتاہے تو پھر اظہار آزادی کا حق کہاںچلاجاتا ہے۔ اگر کوئی شخص ہولوکاسٹ کے اتنے بڑے پیمانے پر ہونے کی نفی کرتا ہے تو اس کے لئے فوراً سزا کا تعین کیا جاتاہے لیکن ایک ایسا مذہب جس کی پیشن گوئی تمام آسمانی کتابوں میں دی گئی ہے اس کا مضحکہ اڑانا، اس کے پیغمبر کی اہانت کرنا ، ایک بار نہیںمسلمانوں کو اشتعال دلانے کیلئے بار بار ایسی ہی کرنا کسی وحشی اور درندے ملک کا تو قانون ہوسکتا ہے لیکن کسی مہذب ملک و قوم کا نہیں۔ امریکہ کا یہ دعوی بھی اس کے اس رویہ سے خارج ہوگیا ہے کہ وہاں تمام مذاہب کا احترام کیا جاتا ہے یا بین مذاہب مکالمہ کا حامی ہے۔ امریکہ اور اہل مغرب کا اس طرح کا رویہ دوہرا معیار نہیں تو کیا ہے؟۔
اس واقعہ کو نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات پس منظر میں بھی دیکھنا چاہئے۔ امریکہ میں یہودی دوسری سب سے بڑی آبادی ہے اور یہاں یہودیوں کا ہر شعبے پر غلبہ ہے اور وہ کئی علاقوں میں ان کے ووٹروں کی تعداد خاصی ہے۔ اس لئے وہ اس فلم کے خلاف میدان میں نہیں آرہے ہیں اور اوبا مہ کا بیان صرف فلم کی مذمت تک محدود ہے۔ اس طرح کے طریقے ہندوستان میں بار بار آزمائے جاتے رہے ہیں۔یہاں فرقہ پرست طاقتوں کی نفرت کی کھیتی ہے کیوں کہ یہ کھیتی جلد لہلہانے لگتی ہے۔ ہندوستان میںفرقہ پرست یہودیوں کو اپنا آئیڈیل اس بنا پر مانتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں چھوڑتے۔ یہ طریقہ اس وقت امریکہ میں بھی اپنایا جارہاہے۔جارج ڈبلیو بش کے پہلی میعاد کاالیکشن ہو یا دوسری میعاد کا اس وقت جعلی ٹیپوں اوردیگر واقعہ کے ذریعہ اسی طرح کے مسلم مخالف لہر کو ہوا دی گئی تھی۔ اوبامہ بھی دوسری میعاد کے لئے صدارتی امیدوار ہیں ۔ اوبامہ کی پہلی میعاد اسلام مخالف کارروائیوں سے عبارت رہی ہے۔ ان کے قول و عمل میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ مسلمانوں یا مشرق وسطی کے بارے میں انہوں نے اپنا ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا۔ قاہرہ کا خطاب ہو یا دیگر مسلمانوں میں دئے گئے بیان وہ صرف بیان کے حد تک محدود رہا۔ اہل مغرب اظہار رائے کی آزادی کی بات کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یا توانہیں اظہار رائے آزادی کے بارے میںمعلوم نہیں ہے وہ کیا چیز ہے یا عمداً مسلمانوں کوتکلیف پہنچانے کے لئے اس کا واویلا کرتے ہیں۔ اظہار رائے کی آزادی کا مطلب عوامی مفاد سے ہوتا ہے ۔ اس فلم سے کہیں بھی عوامی مفاد پورا نہیں ہوتا بلکہ یہ عوامی مفاد اور عوامی جذبات کو مجروح کرنے والی ہے۔ یہ سب سے بڑا جرم ہوتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اس کے خلاف شدید سے شدید تر احتجاج کریں لیکن وہ خونریز نہ ہو۔ اس طرح کا طریقہ اپنائیں کہ حکومت کاناطقہ بند ہوجائے ۔ روڈ جام کریں، کام ٹھپ کریں،کسی ادارے کے سامنے مسلسل دھرنا دیں جب تک قصورواروں کے خلاف کارروائی نہ ہو۔مسلمانوں کو قسطوں میں جان دینے کا سلسلہ بند کردینا چاہئے۔ وہ طریقہ اپنانا چاہئے جس سے امریکہ ، یوروپ اور اسلام دشمن ممالک کی معیشت کی کمر ٹوٹ جائے۔ معیشت پروار ایسا وار ہوگا جس کا توڑ کسی کے پاس نہیں ہے۔ مذمت، احتجاج،خون دینے یا خون لینے سے یہ مقصد حاصل نہیں کیاجاسکتا۔ جو ملک بھی اسلام مخالف مواد شائع کرتا ہے یا مذہب اور پیغمبر کی توہین کرتاہے ۔ اس ملک کے تمام مصنوعات کا بائیکاٹ کرناچاہئے اگر عالم اسلام یہ طے کرلے اس ملک کی مصنوعات نہیںخریدیں گے کہ توایک دن میں وہ ملک گھٹنوں کے بل رینگتا ہوا مسلمانوں کے پاس آئے گا۔اس ملک سے اظہار کی آزادی کا نہ صرف بھوت اترچکا ہوگا بلکہ یہ بھی سمجھ میں آجائے گا کہ آزادی اظہار کا دائرہ کیا ہے۔
ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔
9810372335
abidanwaruni@gmail.com