Home / Articles / اسلوبیاتی مطالعہ کی جہتیں اور رشید احمد صدیقی کی تحریریں

اسلوبیاتی مطالعہ کی جہتیں اور رشید احمد صدیقی کی تحریریں

پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین

ہندستانی زبانوں کا مرکز ، جواہر لعل نہر ویونیورسٹی ، نئی دہلی

اسلوبیاتی مطالعہ کی جہتیں اور رشید احمد صدیقی کی تحریریں

 

اسلوبیات جدید لسانیات کی ایک اہم  شاخ ہے ۔عام طور پر اسلوب اور اسلوبیات   میں زیادہ فرق  نہیں سمجھا جاتا  مگر ان میں علمی اور فنی اعتبار سے کافی فرق ہے ۔اسی لیے  اردو ادب میں طرزِ نگارش   اور انشا پردازی  جیسی اصطلاحات کے ساتھ اسلوب کی اصطلاح بھی  رائج ہے، جس سے  بات کہنے کا انداز یا طرز ِتحریرمراد ہے ۔ ان دونوں اصطلاحات میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اسلوب ادبی اظہار کا لازمی اور ناگزیر حصہ ہے۔اور اسلوبیات اُس ادبی اظہار کے تجزیے کا نام  ہے۔  یہ تجزیہ ایک لسانی عمل ہے جو یہ بتاتا  ہےکہ تحریر کی نوعیت کیا ہے؟ اور اس کی خصوصیات کیا ہیں؟۔۔۔ تحریر کے تجزیے کا یہ لسانی عمل  سائنٹیفک بنیادوں پر کیا جائے تو اسے اسلوبیات کا نا م دیا جاتا ہے ۔

مافی الضمیر کی ادائیگی یا  کسی خیال، کسی جذبے یا کسی تجربے کی پیشکش کا کوئی ایک مقررہ انداز نہیں۔ اظہار ِبیان کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں ،اسی لیے ہر مصنف الگ الگ طریقے یا پیرائے کا انتخاب کرتاہے  ۔اس انتخاب کی وجہ مصنف کی اپنی ذاتی پسند ہوسکتی ہے  یا  موضوع ، مخاطب یا مقصد  کے تحت کسی خاص پیرایہ ٴ اظہارکا    انتخاب کیا گیا ہو(موضوع ، مخاطب یا مقصد  ،اسالیب بیان میں تبدیلی کے یہ بنیادی عناصر ہیں )۔۔۔۔ اسلوبیات کا کام یہ پتہ لگانا ہے کہ ادبی اظہار کے جتنے لسانی امکانات موجود تھے  اُن میں سےکسی  ایک کا انتخاب کس بنیاد پر  کیا گیا؟؟۔۔ اسلوبیات کا یہ بھی کام ہے کہ وہ پتہ لگائے کہ اس ادبی اظہار کی لسانی خصوصیات کیا ہیں؟۔۔۔۔یہی وہ زاویے یا  محور ہیں جن پر  لسانی اسلوبیات   کی بنیاد کھڑی  کی جاتی ہے ۔

اُسلوبیاتی مطالعہ اپنے طرز عمل کے اعتبار سے بہت وسیع ہے اور دشوارگذار بھی کیونکہ یہ علم   زبان   کے  فنکارانہ استعمال اور  بیان کی نیرنگیوں کو دیکھنے  کا علم ہے ۔زبان کے فنکارانہ استعمال کا مطلب ہے  لفظوں کا ایسا استعمال  جس میں آوازوں  کا تاثر اور اس تاثر کے ذریعے احساسِ جمال کے ساتھ  معنی ومفہوم   کے نئے زاویوں کو اجاگر کیا جائے ۔ بیان  ی اظہار  کا مفہوم یہ ہے  کہ صنعت و تراکیب کے ذریعے   معنی   میں وسعت وگہرائی  پیدا کس طرح پیدا کی  گئی ہے  ۔لیکن اسلوبیات  تفیسر و تعبیر میں بہت  ہی افراط و تفریط ہے اس لیے چند ماہرین کے آرا ملاھظہ فرمائیں:

پروفیسر  نصیر احمد خان کے مطابق :

’’جہاں تک اسلوبیات یا اسلوبیاتی تنقید اور مطالعے کا تعلق ہے، وہ ایک معروضی مطالعہ پیش کرتی ہے۔ اس میں لسانیاتی اصولوں اور جمالیاتی قدروں کی آمیزش ہوتی ہے جس کے ذریعے کسی تخلیق کی لسانی اور جمالیاتی خصوصیات کا بیک وقت جائزہ لیا جاتا ہے۔”(۱)

اسلوب کی ساخت کے حوالے سے بھی کئی مباحث   ہیں اس کو آسانی سے مسجھنے کے لیے پروفیسر نصیر احمد خان   کا یہ اقتباس دیکھیں :

’’تخلیقی زبان کے تجزیے کے وقت اسلوبیات ان علامتوں اور اشاروں کو بھی دیکھتی ہے جو تہذیبی پس منظر، اخلاقی اور معاشرتی اقدار اور عصری حسیت کا نتیجہ ہوتے ہیں، اسے زبان کی داخلی ساخت کا معروضی مطالعہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ کسی فن پارے کی جمالیاتی تحسین اسی وقت ممکن ہے جب ہم زبان و ادب کے وسیلے سے تخلیق کے درون تک پہنچنے کی کوشش کریں۔‘‘ (۲)

اور وزیر آغا کہتے ہیں کہ:

’’جس طرح پھول کی پہچان اس کی خوشبو سے ہے اسی طرح فن کار کی پہچان اس کا اُسلوب ہے، جس میں اس کی ساری ذات سمائی ہوتی ہے۔ یہ ذات محض ایک خاص لہجے یا آواز کا نام نہیں ہے بلکہ اس زاویۂ نگاہ کا نام بھی ہے جو تخلیق کار کے اندر برپا ہونے والے طوفانوں کی زائیدہ ہے۔ خود ادبی تخلیق بھی اندر اور باہر کی دُنیاؤں سے مرتّب ہونے والی ایک گرہ ہے اور ہر گرہ دوسری گرہ سے مختلف ہوتی ہے، اسی لیے ہر زندہ رہنے والے ادیب کا ایک نیا اُسلوب ہوتا ہے۔‘‘ (۳)

مرزا خلیل احمد بیگ  کے مطابق:

“اسلوبیات دراصل ادب کے لسانیاتی مطالعے کا نام ہے جس میں ادبی فن پارے کا مطالعہ و تجزیہ لسانیات کی روشنی میں اس کی مختلف سطحوں پر کیا جاتا ہے اور ہر سطح پر فن پارے کے اسلوب کے خصائص (Style-Features)کا پتا لگایا جاتا ہے، لہذا اسلوبیات صحیح معنی میں مطالعہٴ اسلوب ہے۔ چوں کہ اس مطالعے کی بنیاد لسانیات پر قائم ہے اس لیے اسے، لسانیاتی مطالعہٴ ادب بھی کہتے ہیں۔اسلوبیات کا براہِ راست تعلق لسانیات سے ہے جو زبان کے سائنسی مطالعے کا نام ہے۔ کسی ادیب کے اسلوب یا کسی ادبی فن پارے کے اسلوبیاتی مطالعے میں لسانیات سے بہت مدد لی جاتی ہے۔”(۴)

         ان اقتباسات سے اسلوبیات   کی بہت واضح صراحت ہوجاتی ہے ۔اسلوبیات  در اصل   حرف کی تشکیل  یعنی آوازوں کا تاثر اور جملوں کی ساخت سے ایک خاص طرح کا   آہنگ سامنے آتا ہے ۔ اسی آہنگ یا اسلوب یا طرز نگارش کو سمجھنے کے لیے اسلوبیاتی مطالعہ  بہت اہم ہے ۔میر کے کلام میں آوازوں کے تاثر کو دیکھتے ہوئے  ڈاکٹر سیّد عبداللہ نے  میر کی شاعری کے اسلوبیاتی  تاثر کو پیش نظر ایک جگہ  لکھا ہے کہ :

” میرؔ کی شاعری کا درجۂ حرارت اس قدر زیادہ ہے کہ اس میں دیر تک ٹھہرنا ممکن نہیں۔۔۔۔۔!!”

اور بقول  فریحہ بخاری :

“آج صوتیاتی طور پر اس کو اس طرح سے بیان کیا جا سکتا ہے کہ میرؔ کے ہاں سَکاری اصوات  (موسیقی کی اصطلاح میں سب سے نیچے سازیا سُرکو کہا جاتا ہے یعنی ایسی آواز جس کا سُر بہت اونچا نہ ہو)بالخصوص [s]، ش `،ز [z] جو سانپ کی سرسراہٹ سے مشابہ ہیں اور پُراسراریت کے ساتھ ساتھ سوز بھی پیدا کرتی ہیں، اِس کثرت سے برتی گئی ہیں کہ سکاری صفیری س [s]کے ساتھ حنکی ش [ʃ](تالوسے نکلنے والی آواز) کا ملاپ میرؔ کے ہاں اس اثر کو شدید تر کر دیتا ہے:

دل کے تئیں آتشِ ہجراں سے بچایا نہ گیا                   گھر جلا سامنے پر ہم سے بجھایا نہ گیا

شہرِ دل آہ عجب جائے تھی پر اس کے گئے                  ایسا اجڑا کہ کسی طرح بسایا نہ گیا

زیرِ شمشیرِ ستم میرؔ تڑپنا کیسا                                سر بھی تسلیمِ محبت میں ہلایا نہ گیا

میرؔ کے سوز وگداز کی اس کیفیت کی سائنسی توجیہ صرف اُسلوبیات ہی دے سکتی ہے!!!”(۵)

ان اقتباسات  سے واضح ہوتا ہے کہ ادب کا مطالعہ کئی جہات سے کرنے کی ضرورت ہے ۔ خالص تحقیق و تنقید کے  زاویے سے بھی اور خالص جمالیاتی نقطہٴ نظر بھی  تاکہ ادب کو افادیت کے ساتھ ساتھ جمالیاتی  سطح پر بھی جانچا اور پرکھا جاسکے ۔ اسلوبیات  کے تحت  زبان   میں صوتی نظام یا لفظوں کی نشست و برخواست  کو سمجھنے کے لیے کنہیا لا ل  کپور کے چند جملے  دیکھیں اس کے بعد اسلوبیات پر  گفتگو ہوگی :

  • ’’آنکھیں :وہ جو اگر آجائیں تو زحمت، چلی جائیں تو مصیبت، لڑجائیں تو آفت اور لڑائی جائیں تو قیامت ہوتی ہیں۔‘‘
  • ’’ محبت پچاس فیصد حماقت ہے اور پچاس فیصد تضئیع اوقات۔ محبت کے تین روپ ہیں۔ حماقت، شدید حماقت اور عشق۔” (۶)

اس اقتباس میں زبان کا استعمال کسی اور نہج پر ہوا ہے ، محاوروں اور لفظوں کے الٹ پھیر سے مزاح کا  پہلو اجاگر کرتے ہوئے  معنوی وسعت  پیدا کی گئی ہے ۔اس لیے یہاں  آوازوں کے تاثر سے زیادہ   جملے کی ساخت پر  بات کی جائے گی۔اس طرح او ر بھی کئی  مثالوں سے اسلوبیاتی مطالعے کی  جہتوں کو سمجھا جاسکتا ہے۔

غور کریں ۔۔۔۔اکیسویں صدی  جسے  ترقیات  کی صدی  کہتے ہیں ۔ اس صدی میں جہاں دیگر علوم و فنون  وجود میں آرہے ہیں وہیں لسانیات اور اسلوبیات میں بھی نئی  جہات اور زاویے سامنے آرہے ہیں ۔یہ صدی ٹکنالوجی اور کمپیوٹر کی  صدی  ہے ۔اس کے اثرات ہمارے ادبی  علوم پر بھی پڑے  ہیں ۔ لہٰذا Computational Linguistics  کیمپیوٹی اسلوبیات کے نام سے اسلوبیات کا ایک ذیلی شعبہ  بھی وجود میں آچکا ہے، جس میں سوفٹ ویئر کی مدد سے  آوازوں  کا تناسب ، اس کی نشست و برخواست سے پیدا ہونےوالے تاثرات  کا  پتہ لگایا جاسکتا ہے ۔ یہ معلوم کرسکتے ہیں کہ کس مصنف یا ادیب کے یہاں کس طرح کے الفاظ کا استعمال زیادہ ہوا ہے ، یا  کس مصنف کے پسندیدہ  الفاظ یا آوازیں  کون  سی ہیں۔کمپیوٹر کی مددسے آوازوں   یا اصوات کا شمار آسانی سے کیا جاسکتا ہے اسی لیے اسلوبیاتی مطالعے میں اس کی مدد لی جارہی ہے اور اس کو Computational Linguistics کے طور پر  جانا جاتا ہے ۔اس  نوع کے مطالعے کی ایک خاص بات یہ ہے کہ کمپیوٹر میں  یہ تمام اعداد و شمار مخلتف انداز سے  محفوظ  کیے جاسکتے ہیں  اس طرح مطالعے کے لیے ایک  کارپس تیار ہوجاتاہے ۔حالانکہ اس  طرز مطالعہ کو ابھی وہ مقبولیت نہیں مل سکی ہے تاہم یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ لسانیاتی مطالعے میں آوازوں  کی درجہ  بندی سے تاثرات  کا پتہ  لگایا جاتا ہے  اور یہ عمل اس طرز مطالعہ میں زیادہ معاون ہے کیونکہ  کمپیوٹر کی مدد سے کئی طرح کی درجہ بندیاں  منٹوں میں کی جاسکتی ہیں ۔

اسلوبیاتی مطالعے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ  ماہرین اسلوبیات کے مطابق اسلوبیاتی مطالعے کو دو حصوں میں بانٹا جا سکتا ہے۔لسانی اسلوبیات(Linguistic Stylistic) اور ادبی اسلوبیات (Literary Stylistic) ۔لسانی اسلوبیات میں لفظ، لفظوں کی ساخت  اورجملے کی تشکیل، فعل، اسم، امدادی افعال، صفات، ضمائر، فقرے، اضافت اور آوازوں کے تاثر وغیرہ سے بحث کی جاتی ہے۔ ادبی اسلوبیات میں تحریر یا طرز نگارش کو  بیان و بدیع کی سطح پر تشبیہ و استعارہ، علامت تمثیل ،تجنیس، قول محال، مبالغہ، پیکر تراشی وغیرہ کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ کسی بھی تحریر کو ان دو بڑے حصوں میں تقسیم کر کے تجزیاتی مطالعہ ممکن ہے۔ لیکن کسی اسلوب کی تمام تر خصوصیات اور امتیازات اسی وقت پورے طور پر نمایاں ہو کر سامنے آسکتے ہیں جب دونوں سطحوں پر ایک ساتھ مطالعہ کیا جائے۔

اس مضمون میں انھیں  حوالوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے  رشید احمدصدیقی  کے اسلوب پربات  ہوگی  ۔ بالخصوص ان کی طنزیہ و مزاحیہ تحریروں کا اسلوبیاتی جائزہ کیونکہ   زبان و بیان کا جتنا خوبصورت استعمال طنز و مزاح میں ہو سکتا ہے وہ کسی اور نثری صنف میں مشکل ہے۔”مضامین رشید  “جو رشید احمد صدیقی کی شاہکار  تخلیق ہے اسی  کو بنیاد بنا کر کچھ عرض کرنے کی کوشش کروں گا۔

         ’’مضامین رشید‘‘ میں موضوعات کا تنوع بھی ہے، اور اسلوب کی رنگارنگی بھی۔ اس میں سماجی، سیاسی، تہذیبی، ادبی، تعلیمی اور اخلاقی مسائل کو بڑے دلچسپ انداز میں بھرپور معنویت کے ساتھ پیش طنز و مزاح  کے پیرائے میں پیش کیاگیاہے  اوررشید صاحب   اس توازن سے پیش کرتے ہیں کہ وہ  باہم شیر و شکر ہو جاتے ہیں ۔رشید احمد صدیقی نے اسلوب کے تشکیل میں اظہارِ بیان کے لئے جس پیرایہٴ اظہار کو اپنایا ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔انھوں نے  اظہارِ خیال کے لئے جو انداز اپنایا گیا ہے وہ گفتگو کا انداز ہے، خود رشید صاحب لکھتے ہیں کہ:

“مجھے مضمون نگاری کے مقررہ آداب و تسلیمات بھی نہیں آتے تھے۔ میں قارئین کو اپنا اچھا اور بے تکلف دوست سمجھ کر گفتگو کرنا شروع کرتا تھا۔ اچھا اور بے تکلف دوست ہی نہیں بلکہ اچھا اور بے تکلف خاندان بھی جس میں جوان، بوڑھے بیمار، تندرست مغموم، مسرور سبھی ہوتے ہیں۔ میں اپنے آپ کو اس حلقے میں ایک اچھے رفیق کی حیثیت سے پیش کرتا تھا۔ اچھی گفتگو پروگرام کے ماتحت نہیں ہوا کرتی۔ گفتگو کرنا ایک سفر کے مانند ہے جس میں مختلف مناظر، مختلف اشخاص اور مختلف حالات و حوادث سے سابقہ ہوتا ہے۔”           (۷)

         اسی لیے رشید صاحب کی گفتگو یعنی اسلوب ُ پر مغز، دلچسپ اور معلومات سے بھرپور ہوتی ہے۔ ان کی گفتگو میں خیالات کا ایک لامتناہی سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ شعور کی رو میں بہتے ہوئے   خیالات و احساسات کی دنیا کی چھوٹی بڑی تمام چیزوں کو بھی اپنے احاطۂ گفتگو میں لے آتے ہیں وہ بات سے بات ضرور نکالتے ہیں۔ لیکن اس بات میں بڑے پتے کی باتیں ہوتی ہیں۔

         ’’مضامین رشید‘‘چونکہ طنزیہ و مزاحیہ اسلوب کا نمائندہ ہے رشید صاحب نے اپنی تحریروں میں طنز و مزاح کو برتتے ہوئے اسلوبی سطح پر بہت سی جدتیں پیدا کی ہیں۔رشید صاحب کی تحریروں میں تنوع اور نیرنگی مختلف صنعتوں کے استعمال سے آتی ہے ان صنعتوں کے ذریعہ جہاں وہ طنز و مزاح کے نادر نمونے پیش کرتے ہیں۔ زبان و بیان کی سطح پر اپنی مہارت اور فنکاری کا ثبوت بھی دیتے ہیں ان کی تحریروں میں مختلف   صنعتوں کا استعمال ہوا ہے کچھ مثالیں ملاحظہ ہوں۔

قول محال

رشید صاحب نے اپنی تحریروں میں قول محال (Paradox) کا خوبصورت اور برمحل استعمال کیا ہے۔ قول محال دراصل ایسی صنعت ہے جس کے ذریعہ دو یا دو سے زیادہ متناقص اشیاء کا ایک مشتر کہ بیان ہوتا ہے جو بظاہر محال ہو مگر اسے اس طرح بیان کیا جائے کہ مماثلت پیدا ہو جائے۔ یہ صناعی رشید صاحب کے اسلوب کا ایک اہم حصہ ہے۔ وہ کبھی چھوٹے فقرے، چھوٹے جملے اور کبھی طویل جملے میں لفظیات کے ذریعہ، کبھی واقعات کے ذریعہ اور کبھی امیجری کے ذریعہ اس صنعت کو اپنی تحریروں میں پیش کرتے ہیں۔’’مضامین رشید‘‘ سے چند مثالیں دیکھیں:

  • چارپائی اور مذہب ہم ہندوستانیوں کا اوڑھنا اور بچھونا ہے۔”(۸)
  • “بیسویں صدی میں کتنوں کو جو تیاں اور کتنوں کو روٹیاں ماری جائیں گی۔”(۹)
  • شباب اور مفلسی کا اجتماع اتنا ہی بے کیف ہے جتنا بے مرچوں کا سالن یا بے تمبا کو کا پان۔”(۱۰)
  • “کرسمس کا زمانہ تھا جب انگریز کیک اور ہندوستانی سردی کھاتا تھا۔”(۱۱)

صنعت تجنیس(Alliteration) کا استعمال رشید صاحب کے اسلوب کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ ”کلام میں دو ایسے الفاظ استعمال کرنا جو تلفظ یااملا یا دونوں میں مشابہت رکھتے ہوں لیکن معنی میں اختلاف ہوں” بذات خودیہ کوئی بہت اہم صنعت نہیں ہے لیکن اسے عبارتوں میں جس طرح لاتے ہیں اور کھپاتے ہیں اس سے مزاح کی چاشنی دوبالا ہو جاتی ہے۔ یہ صنعت عبارت کی شعریت اور دلکشی میں اضافہ کرتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ جملوں اور فقروں کا وہ صوتی آہنگ بھی قابل توجہ ہے جو معنویت، بلاغت اور شعریت کی خوبیوں سے اس شائستہ اور رچے ہوئے اسلوب کی آبیاری کرتا ہے۔ رشید صاحب کی تحریروں میں ہر جملے سے مزاح کا جو نیا انداز اور اور نیا لطف ملتا ہے۔ وہ بہت حد تک اس صنعت کے استعمال سے بھی آیا ہے اور ان جملوں میں جو بلاغت کی شان پائی جاتی ہے وہ بھی اس صنعت کی رہین منت ہے۔ کیونکہ صنعت تجنیس کسی بات کو بلیغ انداز میں بیان کرنے کا ایک وسیلہ بھی ہے۔ یہاں اس رنگ کے چند نمونے ملاحظہ ہوں:

  • “میرے نزدیک مارواڑی عورتیں نمونہ ہیں تین چیزوں کا۔ گھونگھٹ، گندگی، گہنا۔” (۱۲)
  • “تجسس عورتوں کی فطرت ہے اور پاسبانی اس کی عادت۔ اس حقیقت کا سدباب نہ پردہ ہے نہ پیانو۔” (۱۳)
  • “ہندوستان میں جوانی کا انجام دو طریقوں پر ہوتا ہے۔ اکثر شفاخانے میں ورنہ جیل خانے میں۔” (ص: ۸۷)
  • “ڈاکٹر نے مریض کو اور مولویوں نے مذہب کو ہوا بنا کر رکھا ہے۔‘‘( ۱۴)

صنعت ابہام

         “(Ambiguity) ابہام کی صورت حال اس وقت رونما ہوتی ہے جب کسی لفظ، محاورے، جملے، اشارے وغیرہ کی ایسی ترسیل کی جائے کہ اس سے ایک کے بجائے کئی معانی اور مطالب ممکن ہوں۔ ابہام کا ایک عام پہلو عدم تعین ہے۔ یہ ہر خیال یا بیان کا خاصہ ہے جس کے ارادی معانی قطعی طور کسی اصول یا طریقۂ کار کی روشنی میں سلجھائے نہیں جا سکتے جس میں مقررہ اقدامات شامل ہوں۔”(۱۵)

رشید صاحب نے مزاح کے لطف کو دوبالا کرنے کے لئے صنعت ابہام سے بھی اپنی تحریروں میں کام لیا ہے۔ گرچہ اس صنعت کا استعمال بہت کم ہوا ہے مگر جہاں ہوا ہے وہ پوری توانائی کے ساتھ ہے۔ یہاں اس صنعت کے حوالے سے صرف ایک مثال مثال پیش کی جاتی ہے:

“داروغہ جی لالہ گنپت رائے، نائب صاحب لالہ جگل کشور اور دیوان جی لالہ چھیل بہاری غرضیکہ سارا تھا نہ لالہ زار تھا۔”( ص: ۱۶۰)

فقرہ تراشی

         فقرہ تراشی رشید احمد کے اسلوب کی امتیازی خصوصیت رہی ہے۔ وہ اکثر ایسے فقرے لکھ جاتے ہیں جن میں کبھی صنعتوں کے استعمال سے اور کبھی لفظوں کی مخصوص نشست و برخواست سے اور کبھی اختصار، تضاد (Contrast) ، موازنہ(Balance) متوازیت (Parallelism) سے جملے شگفتہ اور دلنواز بناتے ہیں۔ ایسی چند مثالیں ملاحظہ ہوں ۔

متوازیت کی مثال

  • “ریاستوں اور برطانوی حکومت کے درمیان وہی تعلقات ہیں جو ہندستانی شوہر اور بیویوں کے ہوتے ہیں۔”
  • “قانون اور قاعدے سے ان کو انتہائی مس تھا جتنا نئی روشنی کی بیویوں کو اپنے مذہب و مصلحت اندیش شوہروں سے‘‘۔ (۱۶)

موازنہ نگاری کی مثال

  • “ارہر کے کھیت میں دیہاتیوں کے ہاتھ سے مارکھانا اتنا ہی دلچسپ منظر ہے جتنا کسی پبلک مشاعرے میں بھلے مانس شاعر کا اپنا کلام سنانا۔”
  • “محلے کے چوکیدار کی آواز ایسی ہے گویا چور کو دیکھ کر خوف کے مارے چیخ نکل گئی ہو۔” (۱۷)

تضاد کی مثال

  • “حاجی صاحب شعر کہتے ہیں اور بسکٹ بیچتے ہیں۔ شعر اور بسکٹ دونوں خستہ۔” (۱۸)
  • “نمونیا سے ڈرتے تھے اور ایک لڑکی پر عاشق تھے۔” (۱۹)

تکرار لفظی

رشید صاحب نے اپنی تحریروں میں تکرار سے بڑا کام لیا ہے یہ تکرار لفظی اور  صوتی ہر سطح پر موجود ہے۔ چونکہ رشید صاحب الفاظ کے مزاج و آہنگ سے بخوبی واقف تھے لہٰذا انہوں نے صوتی ہم آہنگی سے ایک خاص قسم کا تاثر پیدا کیا ہے اور کہیں الفاظ کے تکرار سے موسیقیت کا جادو جگایا ہے۔

 لفظی تکرار کی چند مثالیں:

  • “ایسی روایات، ایسی فضا، ایسا ساتھ، ایسے مشغلے، ایسے شب و روز،ان سب کا آخر کچھ تو اثر ہوتا ہی ہے” (۲۰)
  • “پھر وہ چار پائی پر لیٹ جائے گا، گائے گا، گالی دے گا یا مناجاتِ بارگاہِ الٰہی پڑھنا شروع کر دے گا۔‘‘              (۲۱)
  • “دولت کا مغالطہ اپنی بوقلموں حیثیات کے اعتبار سے عجیب و غریب ہے، پر دولتمند اپنے آپ کو سب سے زیادہ طاقتور، سب سے زیادہ باعزت، سب سے زیادہ قوم پرست، سب سے زیادہ متقی، سب سے زیادہ وفادار، سب سے زیادہ معقول سمجھتا ہے۔‘‘                                   (۲۲)

صوتی تکرار

س ت/س ت کی تکرار

  • “اگر تصنیف و تالیف کا شوق ہوتو اعتراض سننے اور سہنے کا خوگر ہونا چاہیے۔‘‘ (۲۳)

م/م کی تکرار

  • “دوسرے آپ کے لئے محبوب اور معتقدات متعین اور منتخب کریں۔”(۲۴)

  ح/ج کی تکرار

  • جن حالات و حادثات کی زد میں سرسید نے جو تدابیر اختیار کیں۔”(۲۵)

ر/ر کی تکرار

  • “ہم میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جو اردو اور علی گڑھ کے دیرینہ روایات و روابط سے واقف نہ ہو۔” (۲۶)

ش ق/ش ق کی تکرار

  • ان کی موجودگی سے یونیورسٹی کی شان و شوکت اور قدروقیمت دونوں میں اضافہ ہوگا۔” (۲۷)

ن ں/ن ں کی تکرار

  • “لکھنؤ کی نعمتوں اور نفاستوں کا اثرسب پر خاطر خواہ پڑا۔‘‘ (۲۸)

م ت/م ت کی تکرار

  • کتنا بڑا اور مشکل کام ہے انسان کے حوصلے، عقل، محنت اور محبت نے پورا کر دکھایا۔”

ت ف/ت ف کی تکرار

  • “اگر تصنیف و تالیف کا شوق ہو۔‘‘ (۲۹)

قافیہ بندمرکبات:(Rhyming) …جن کے دونوں اجزاء ایک ہی آواز پر ختم ہوتے ہوں۔

ت/ت کی تکرار

  • “جہاں اقدار اور معتقدات کی شکست و ریخت کا توامکان ہو۔‘‘ (۳۰)

ن/ن کی تکرار

  • “انسانی اذہان اور وجدان پر بھی قابو پا سکتے ہیں۔‘‘ (۳۱)

ز/ز کی تکرار

  • “یہ سوز و گداز آپ کے تندور اور بسکٹوں میں مشکل سے ملے گا۔‘‘ (۳۲)

ر/ر کی تکرار

  • “حاضرین سے وہ داروگیر بلند ہوئی کہ تھوڑی دیر کے لیے حاجی صاحب بھی سراسیمہ ہو گئے۔‘‘ (۳۳)

ان مثالوں سے یہ واضح ہوتاہے کہ رشید صاحب آوازوں کے تاثرات سے اپنے اسلوب کو ایک نیالب و لہجہ اور وزن و آہنگ عطا کرتے ہیں۔

تشبیہات کا استعمال

رشید احمد صدیقی اپنی تحریروں کو جدیدتر تشبیہوں سے بھی سجاتے ہیں اور سنوارتے ہیں۔ ان میں جس قدر جدت ہوتی ہے اسی قدر معنویت بھی۔ مثلاً:

  • “ہم موڑ پر اس تیزی کے ساتھ بلندی کی طرف بڑھ رہے تھے جیسے کسی مہاجن کا سودی قرض۔ سیاہ چکنی چمکتی پرپیچ و پرخم سڑک جیسے پیکر ِکوہ کسی کالے ناگ کے فشارِ آغوش میں ہو۔”(۳۴)
  • پورب سے کاجل سابادل اٹھتا گھٹتا، جھومتا پھنکارتا بل کھاتا ہوا جیسے ’’فیل مست بے زنجیر‘‘ یا جیسے انگریزوں کا کوئی ڈریڈناٹ کہیں پیغام صلح لے جا رہا ہے۔‘‘ (۳۵)

بات سے بات نکالنے کا انداز ملاحظہ ہو:

“ہندوستانی ترقی کرتے تعلیم یافتہ جانور ہی کیوں نہ ہو جائے۔ اس سے اس کی چار پائیت نہیں جدا کی جا سکتی۔ اس وقت ہندوستان کو دو معر کے درپیش ہیں۔ ایک سوراج کا دوسرا روشن خیال بیوی کا۔ دراصل سوراج اور روشن خیال بیوی دونوں ایک ہی مرض کی دوعلا متیں ہیں دونوں چار پائیت میں مبتلا ہیں۔ سوراج تو وہ ایسا چاہتا ہے جس میں انگریز کو حکومت کرنے اور ہندوستانی کو گالی دینے کی آزادی ہواور بیوی ایسی چاہتاہے جو گریجویٹ ہو لیکن گالی نہ دے۔”(۳۶)

اس اقتباس میں چھ جملے ہیں اور سب طویل جملے ہیں۔ اس اقتباس کا اساسی لفظ ’’چارپائیت‘‘ ہے لیکن اسی سیاق و سباق میں طنز کا خوبصورت پہلو نکالا گیا ہے۔

کفایت لفظی

         رشید صاحب کے اسلوب میں جو پختگی نظر آتی ہے وہ کفایت لفظی(Economy of words)

 کے سبب ہے حالانکہ رشید صاحب جیسے باتونی ہیں اگر کفایت لفظی سے کام نہ لیتے تو عین ممکن تھا کہ ان کے یہاں محض عبارت آرائی ہی نظر آتی لیکن زبان و بیان پر کامل دسترس نے ان کی تحریروں کو ادبی و معنوی حسن عطا کیا۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

  • “ہندوستانی کسانوں کو دیکھتے ہوئے یہ بتانا مشکل ہے کہ اس کے بال بچے مویشیاں ہیں یا مویشیاں اس کے بال بچے۔‘‘ (۳۷)
  • “میں جب دنیا سے گذرا ہوں تو ذہن میں اندیشہ بھی جاگزیں تھا کہ مسلمان، دشمن کو شاید ہزیمت

 دے دیں  لیکن مال غنیمت سے ہزیمت یقینا کھا جائیں گے۔‘‘                                                                              (۳۸)

  • “اگر انسان کو بدترین دشمن کی تلاش ہو تو اس کو اپنے عزیزوں میں مل جائیں گے اور بہترین دوست کی ضرورت ہو تو غیروں کا جائزہ لینا چاہیے۔” (۳۹)

         یہ مثالیں اختصار یا کفایت لفظی اور جامعیت کے بہترین نمونے ہیں ۔

منظر نگاری

رشید صاحب کے یہاں منظر نگاری کا بھی نرالا انداز موجود ہے۔ وہ منظر نگاری کرتے ہوئے جزئیات کو بھی بیان کرتے ہیں مگر اس کے لئے وہ صفحے کے صفحے سیاہ نہیں کرتے چند جملوں میں بڑی فنکاری سے زبان کے کرشمے اور آوازوں کے جادو جگاتے ہیں۔ مثلاً…

“بانو کی ٹوٹی ہوئی چار پائی ہے جسے مکا کے کھیت میں بطور مچان باندھ دیا گیا ہے۔ ہر طرف جھومتے لہلہاتے کھیت ہیں۔ بارش نے گردوپیش کو شگفتہ و شاداب کر دیا ہے دور دور جھیلیں جھمکتی جھلکتی نظر آتی ہیں جن میں طرح طرح کے آبی جانور اپنی اپنی بولیوں سے برسات کی عملداری اور مزیداری کا اعلان کرتے ہیں۔”                                                     (۴۰)

دوسری مثال بھی دیکھیں :

“شام کا دھندلکا اور گاؤں کا دھواں پھیلنے لگتا ہے، کتے بھونکنے لگتے ہیں، کسان اور ان کے تھکے ہوئے مویشی ایک دوسرے سے سرگوشی کرتے ہوئے دیہات کو واپس ہوتے ہیں۔”                                 (۴۱)

شوخی و شگفتگی    

رشید صاحب کے یہاں شوخی و شگفتگی سے بھر پور جملے بھی ملتے ہیں۔ وہ ایسے چہکتے جملے لکھتے ہیں جو حسِ مزاح کو بیدار کرنے میں اپنی نظیر آپ ہیں۔ یہاں اس خاص لب و لہجہ کی چند مثالیں دیکھیں:

  • دیوتاؤں کے بارے میں سنا ہے کہ وہ جسے عزیز رکھتے ہیں اُسے دُنیا سے جلد اُٹھا لیتے ہیں۔ دیویوں کے بارے میں سنا ہے کہ وہ جس کو عزیز رکھتی ہیں اُسے کہیں کا نہیں رکھتیں۔” (۴۲)
  • “مارواڑی عورتوں، بنگالی مردوں اور شرعی مسلمانوں کے ساتھ سفر کرنے میں مجھے بڑی کوفت ہوتی ہے۔”(۴۳)

         رشید صاحب کی تحریروں میں سادہ، مرکب اور پیچیدہ ہر طرح کے الفاظ آئے ہیں۔ سادہ الفاظ کے بعد ان کے یہاں مرکب الفاظ کثرت سے استعمال ہوئے ہیں اور پیچیدہ الفاظ تیسرے نمبر پر آتے ہیں۔ مرکب الفاظ کے نت نئے استعمال سے رشید احمد صدیقی نے اپنی تحریروں میں زور، توانائی، روانی، برجستگی، شوخی و شگفتگی جیسے صفات پیدا کئے ہیں۔ مرکبات کے استعمال میں رشید صاحب کو یدطولیٰ حاصل ہے۔ مرکب الفاظ کی جتنی قسمیں ہیں تقریباً وہ رشید صاحب کی تحریروں میں دیکھنے کو ملتی ہیں، لیکن جو اہم مرکبات کی شکلیں ان

کے یہاں موجود ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں:

                  تراوفی مرکبات

مکروفریب، نفرت و حقارت، ظالم و جابر، بین و بکا، انتشار و اختلال، اعتماد و اعتبار، احترام و افتخار، برگ و بار، تضادو تصادم، تفریح و تفنن، حمایت و حفاظت، حسرت و حرماں، سہیل و سلیس، ساز و سامان، ذہانت و فطانت، نفاق و افتراق، وغیرہ وغیرہ۔

تضادوالے مرکبات

حق و باطل، نفرت و حقارت، اقبال و اختلال، خلوص و خلش، رزم و بزم خلوت و جلوت، آمد و رفت، مصائب و مطائیبات، حسن و قبح، نشیب و فراز، نفع و ضرر، ردو قبول، کشش و گریز، عیب و ہنر وغیرہ وغیرہ۔

ہم وزن و ہم آہنگ مرکبات

حالات و حادثات، حمایت و حفاظت، شاکر و شادماں، شیرو شہد، شکست و شکن، فکر و فرزانگی، ریاضت و بصیرت، تاکید و تائید، دیاروا مصار، شوکت و شہرت، شخص و شخصیت، انسان و انسانیت وغیرہ وغیرہ۔

تجنیس صوتی(Alliteration) یعنی ایسے مرکبات جن کے دونوں اجزاء ایک ہی آواز سے شروع ہوں۔

دیگر مرکبات کی مثالیں :

سابقہ کے ذریعے بنائے گئے مرکبات

  • “خوش نصیب، بدنصیب، بدتمیزی، بدزبانی، بددعائیں، خوش حالی، بے ایمانی، بدبختی، بدشگونی، ترش رو، غیر متشدد و غیرہ وغیرہ۔”

لاحقہ کے ذریعہ بنائے گئے مرکبات

  • “آرزو مند، نفع بخش، رونق افروز، آتش بازی، تنومند، گداگر، احسان مند، فلاکت زدہ، سخن شاناس، چشم پوشی، وغیرہ۔”

دو الفاظ پاس پاس رکھ کر بنائے گئے مرکبات

  • “ہل چل، سول سر جن، ماں باپ، پانچ سات، مخلص دوست، مزاج شریف، سج دھج، درگزر، ڈاکخانہ، کتاب گھر، چڑیا گھر، شفاخانہ، دواخانہ، بالاخانہ۔”وغیرہ وغیرہ۔

تکرار مطلق کے ذریعے بنائے گئے مرکبات

  • باری باری، ہنستے ہنستے، کھینچے کھینچتے، چیختے چیختے، کون کون، ہری ہری، کھڑے کھڑے، کبھی کبھی، وقت وقت، حجت حجت، سنئے سنئے، جلد جلد، اپنی اپنی، بیچ بیچ، کیسے کیسے۔” وغیرہ وغیرہ۔

ربطیئے کے ذریعے بنائے گئے مرکبات

  • “روبرو، بیک وقت، دست بدست، روزبروز، کچھ نہ کچھ، دل ہی دل، یکایک، دن بدن، دھڑادھڑ۔” وغیرہ وغیرہ۔

اضافت کے ذریعے بنائے گئے مرکبات

  • “ارباب انجمن، باعث غیرت، فردواحد، حربۂ لہاکت، مشت اسخواں، فرط جنوں، سادگئی اعتراف، نمونۂ قیامت، قرب قیامت، مصرعۂ اوّل، آرائش سخن، وجہ افتخار۔” وغیرہ وغیرہ۔

جدید تراکیب

 اس کی بہت ساری مثالیں تلاش کی جاسکتی ہیں ۔ چند مثالیں دیکھیں جن سے  ان کی طباعی اور زبان کی مہارت اور فنکارانہ استعمال کا اندازہ ہوگا۔

آتش نوائی، مفسدہ پردازی، حرکات ممیونی، جریب زیتونی، دستاویزی غلام، ناشدنی بستئہ تالیف قلب، باصرہ خراش، ایام دماغ، سوزی، تفسیر روغنی، انسدادودیعت، عرس مجبوں، مہمل نگار، حاشیۂ خیال، بیان استغاثہ، ضماد تکمیلہ و تدہین۔ وغیرہ وغیرہ۔

         نحوی سطح پر جب ہم رشید صاحب کے اسلوب کا تجزیہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے یہاں مفرد،

مرکب اور پیچیدہ ہر طرح کے جملے ملتے ہیں۔اور ان میں جو الفاظ کا تناسب ہے وہ اس طرح ہے۔

  • مختصر مفرد جملوں میں کم الفاظ چار ہیں اور زیادہ سے زیادہ چھ۔
  • طویل مفرد جملوں میں کم الفاظ اٹھارہ ہیں اور زیادہ سے زیادہ چھتیس۔
  • مختصر مرکب جملوں میں کم الفاظ چودہ ہیں اور زیادہ سے زیادہ اٹھارہ۔

         جہاں تک جملوں کی ساخت کی بات ہے تو ان کے یہاں جملوں میں کلموں اور کلموں میں فقروں کی تعداد عام روش سے زیادہ ہے اکثر جملوں کو حروف ربط ’’اور‘‘، ’’یا‘‘ کہ ’’البتہ‘‘ ’’لیکن‘‘ وغیرہ سے جوڑ کر مرکب بناتے ہیں۔ ان کے یہاں جو طویل جملوں کا ایک لمبا سلسلہ ملتا ہے ان میں فقروں کے سلسلے پھیلتے چلے جاتے ہیں۔ یہ فقرے کبھی فعلی ہوتے ہیں، کبھی صفاتی اور کبھی اسمی۔ اس طرح کے جملوں کی چند مثالیں درج کی جاتی ہیں:

طویل فعلی فقروں کے سلسلے

فرمایا دیکھتے نہیں بچی بیمار ہے، میں نے کہا دیکھنے کی کونسی بات ہے میں تو اس کے علاوہ یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ آپ آرام فرما رہی ہیں،چوکیدار چیخ رہا ہے، بارش ہو رہی ہے اور میں الو کی طرح بیٹھا ہوں۔ فرمایا تو اس میں میرا کیا قصور ہے کہ آپ کس طرح بیٹھے ہوئے ہیں۔ اچھا اب جا کر سو رہئے۔ تھوڑی دیر میں صبح ہو جائے گی آپ کو ڈاکٹریٹ کے پاس جانا ہوگا اور ہاں آمنہ کہتی تھیں کہ آپ نے کوئی مضمون لکھنے کا وعدہ کیا تھا اب تک پورا نہیں کیا۔‘‘                                                                                                  (۴۴)

طویل اسمی فقروں کے سلسلے

“اس کا تصور زمان و مکان سے آزاد کر کے اس کو کالج کے آغوش میں پہنچادے گا، وہی کمرے، وہی ڈارئنگ ہال، وہی مسجد، وہی یونین، وہی کچی بارک، وہی کرکٹ فیلڈ، وہی شرارتیں، صحبتیں اور سرگرمیاں، جن سے وہ اب دور اور محروم ہے۔‘‘                                                                     (۴۵)

دوسری مثال

“عورت سے محبت کرنا ہمیشہ سے ہر قوم، ہر ادب اور ہر زمانے میں مقبول رہا ہے، جیل خانہ، ہسپتال، پاگل خانہ، شہادت، وصیت نامے، بے قید نظمیں سب میں اسی کی جلوہ گری ملتی ہے۔‘‘                                (۴۶)

صفاتی فقروں کے سلسلے

“دوسری طرف آپ اپنے آپ کو ملاحظہ فرمائیے آپ سے زیادہ یونیورسٹی میں نہ کوئی خوش لباس، خوش اطوار نہ خوش اوقات، آپ کا پاندان میری بیوی کے سنگاردان سے زیادہ خوبصورت ہے۔”                        (۴۷)

         رشید صاحب نے اپنے جملوں میں لفظی الٹ پھیر سے بھی حسن پیدا کیا ہے۔ مزاح کی تخلیق میں یہ حربہ بھی بڑا کار آمد حربہ ہے۔ رشید صاحب کس طرح لفظوں سے کھیلتے ہیں۔ ذیل کی مثالوں میں دیکھیں:

“گواہ قرب قیامت کی دلیل ہے، عدالت سے قیامت تک جس سے مفر نہیں وہ گواہ ہے۔ عدالت مختصر نمونۂ قیامت ہے اور قیامت وسیع پیمانے پر نمونۂ عدالت، فرق یہ ہے کہ عدالت کے گواہ انسان ہوتے ہیں اور قیامت کے گواہ فرشتے جو ہمارے اعمال نامے لکھتے ہیں اور خدا کی عبادت کرتے ہیں۔”( ۴۸)

         ان تفصیلات سے اندازہ ہوتا ہے کہ رشید صاحب کی تحریروں کی دلکشی کا راز ان کے دلچسپ جملوں، بولتے ہوئے فقروں، معنی خیز الفاظ، جملوں کی ساخت، ترتیب، دروبست اور ان کے لفظی الٹ پھیر میں پوشیدہ ہے۔ ان جملوں میں نحوی درجہ بندی کے اعتبار سے الفاظ کا تناسب اس طرح ہے اسماء، افعال، افعال امدادی، صفات تمیز اور ضمائر، ضمائر میں رشید صاحب کے یہاں واحد متکلم کی ضمیر زیادہ استعمال ہوئی ہے اور افعال مفرد اور مرکب دونوں آئے ہیں۔

فارسی و اردو کے اشعار     

ان کی تحریروں کی ایک اہم انفرادیت یہ بھی ہے کہ وہ اپنی تحریروں میں فارسی و اردو کے اشعار اور مصرعے اور کبھی ان کے ٹکڑوں کو برمحل استعمال کرتے ہیں۔ فارسی میں حافظؔ، عرفیؔ، نظیریؔ اور اردو میں اقبالؔ، غالبؔ اور مومنؔ کے اشعار زیادہ استعمال کرتے ہیں اور ضرورت کے وقت ان میں ترمیم و اضافہ و تحریف بھی کر لیتے ہیں۔ اس سے ان کی تحریروں کا رنگ اور بھی چوکھا ہوتا ہے۔ یہ کبھی اختصار کا کام دیتے ہیں اور کبھی وضاحت کرتے ہیں۔ اسی طرح کی چند مثالیں دیکھیں:

اتنے میں حاجی بلغ العلیٰ اس طور پر جھپٹتے ہوئے نکلے گویا کملی اور داڑھی کے علاوہعالم تمام حلقۂ دام خیال ہے۔‘‘         (۴۹)

دوسری مثال

“ایک روز دروازے پر ایک موٹر رکی۔ میں نے ہر قسم کی موٹر دیکھی ہے لیکن یہ اپنی سج دھج اور شور و شغب میں نر الی تھی۔ رکی رہتی تو معلوم ہوتا کوئی سنیاسی حبس دم کئے ہوئے ہے، چلنے والی ہوتی تو معلوم ہوتا زلزلہ آرہا ہے چل نکلتی تو پھر…

نے ہاتھ باگ پر ہے نے پاہے رکاب میں۔‘‘       (۵۰)

         ’’مضامین رشید‘‘ کا صوتی، صرفی اور نحوی سطح پر تجزیہ کرنے کے بعد جو نتیجہ سامنے آتا ہے وہ یہ کہ رشید احمد صدیقی کا یہ اسلوب اردو ادب میں جدت و عظمت کا حامل ہے۔ زبان پر کامل دسترس اور الفاظ کے مزاج و آہنگ سے مکمل آشنائی نے رشید احمد صدیقی کو الفاظ کے رنگارنگ استعمال، جملوں کی ساخت سے اسلوب میں نیرنگی پیدا کرنے اور بات سے بات نکالنے، اپنے مافی الضمیر کو کم سے کم الفاظ میں قطعیت اور جامعیت کے ساتھ ادا کرنے کی قدرت عطا کی اور اسی قدرت کے سبب وہ اپنے ہم عصروں میں ممتاز نظر آتے ہیں ۔

***

حواشی

  1. نصیر احمد خان، پروفیسر ، ادبی اسلوبیات، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس1994، ص11
  2. نصیر احمد خان، پروفیسر،ادبی اسلوبیات، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، 1994ء، ص12
  3. وزیر آغا، ڈاکٹر، تنقید اور جدید اُردو تنقید، انجمن ترقیٔ اردو پاکستان، کراچی، ص74)
  4. (مضمون ، اسلوبیات کی افہام و تفہیم۔ مرزا خلیل احمد بیگ، اجرا، سہ ماہی ، کراچی )

اسلوبیات کی افہام و تفہیم ـ مرزا خلیل احمد بیگ

  1. اقبال کے بعد طویل اُردو نظم کا اسلوبیاتی مطالعہ (پی ایچ ڈی مقالہ) ۔ فریحہ بخاری۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد۔(ص 6)
  2. لغات جدید، مشمولہ کپور نامہ ۔ مرتبہ ۔محمد ہارون عثمانی مغربی پاکستان اردو اکیڈمی۔۲۰۰۷، ص 22
  3. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص:78،79
  4. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص
  5. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص:164
  6. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص:4
  7. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص:157
  8. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص:63
  9. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص:97
  10. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص87:
  11. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص:146
  12. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص:169
  13. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص:147
  14. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص:20
  15. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص:133
  16. مضامین رشید، رشید احمد صدیقی انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص:16
  17. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص:83
  18. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص:172
  19. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص:11
  20. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص:13
  21. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص:14
  22. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص:17
  23. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص:148
  24. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص:11
  25. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص:16
  26. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص:16
  27. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص:24
  28. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص:25
  29. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص:202
  30. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص:191
  31. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص:82۔83
  32. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص:117
  33. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص:78
  34. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص:193
  35. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص:88
  36. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص:109
  37. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص:63
  38. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص:184
  39. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص:174
  40. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص:151
  41. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص:98
  42. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص:179
  43. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص:114
  44. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص:112
  45. صدیقی، رشید احمد، مضامین رشید، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی 1986، ص:144۔145

***

About admin

Check Also

تفہیم میر کی  چند  جہتیں

نوٹ : ترجیحات میں شائع شدہ اداریہ اور مضمون قارئین کے لیے یہاں پیش کررہا …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *