Home / Socio-political / اصل ریزرو بینک

اصل ریزرو بینک

اصل ریزرو بینک

سمیع اللہ ملک

پچھلے سال انہی دنوںکی بات ہے کہ میںکسی کام کے سلسلے میںان سے ملنے گیا۔انہوںنے میراہاتھ تھامااورمجھے اپنے ساتھ لیکرسیرکیلئے نکل کھڑے ہوئے۔چلتے چلتے رک گئے اوربولے ’’تم نے اس سال ٹانگوں کی زکوٰۃ دی‘‘۔بابا جی نے عجیب سوال پوچھا۔میں پریشان ہو کر رک گیا‘سامنے لندن کا خوبصورت ریجنٹ پارک بکھرا پڑا تھا‘شام دھیرے دھیرے کھڑکیوں میں اتر رہی تھی‘درختوں‘پھولدار پودوں کی ہریالی میںایک عجیب سہانی خوشبو رچی ہوئی تھی۔ہم چند لمحوں میں پارک کے اندر بنے خوبصورت ٹریک پر آہستہ آہستہ چل رہے تھے‘وہ مجھے جینوا سوئٹزر لینڈ کے مضافات کی شاموں کے قصے سنا رہے تھے۔وہ ایک ہفتہ پہلے گرمی کی چھٹیاں گزار کر لوٹے تھے‘شام بھی خوبصورت تھی‘منظر بھی لاجواب تھا اور گفتگو بھی زندگی سے بھرپور تھی۔ ہم چلتے چلتے پارک کے سب سے اونچے کونے میں پہنچ چکے تھے جہاں سے لندن شہر کا کچھ حصہ نظر آنے لگا۔لیکن چلتے چلتے نجانے ان کے دل میں کیا آیا‘وہ رکے اور ایک لایعنی سوال داغ دیا۔ کیا تم نے اپنی آنکھوں کی زکوٰۃ دی ہے؟‘‘میری خاموشی میں حیرت بھی تھی اور پریشانی بھی۔باباجی نے خوشبودار نفیس دلپذیر چھڑی سے جوتے کی نوک کریدی اور ہنس کر بولے’’اچھا پھر تم نے اپنے بازوؤں‘ ہاتھوں‘آنکھوں‘کانوں اور زبان کا ٹیکس تو دے ہی دیا ہوگا۔‘‘

میری پریشانی خوف میں بدل گئی‘مجھے محسوس ہوا ‘بابا جی کا تعلق ان لوگوں سے ہے جن کا دماغ ایسے خوبصورت پارک کے اس بلند کونے پر کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔میں نے ڈرے ہوئے پرندے کی طرح آگے پیچھے دیکھا‘دور دور تک کوئی بندہ بشر نہیں تھا‘صرف گھنے درخت تھے‘جھاڑیاں تھیںاور سامنے پارک کے قدموں میں لندن شہر تھا‘وہ تھے اور میں تھا۔ میری ریڑھ کی ہڈی میں کرنٹ سا سرکنے لگا‘مجھے لگا وہ ابھی آگے بڑھیں گے ‘میری گردن دبوچیں گے اور مجھے مار کر کسی جھاڑی میں پھینک دیں گے۔وہ میری کیفیت بھانپ گئے‘ انہوں نے قہقہہ لگایا اور آہستہ آہستہ واپس چلنے لگے۔میں بھی ذرا فاصلہ رکھ کر چلنے لگا۔

’’تین سال پہلے‘‘ ان کی آواز نشیب میں لڑکھڑاتی چٹان کی طرح میری سماعت سے ٹکرائی’’تین سال پہلے جب ایک شخص نے مجھ سے یہ سوال پوچھاتو میرے بھی یہی احساسات تھے لیکن غور کیا تو میں نے جاناپاگل تو میں اس سوال سے پہلے تھا‘تم بھی اسی نتیجے پر پہنچو گے۔‘‘میرا شک حقیقت میں بدل گیا‘مجھے یقین ہو گیا کہ بابا جی حقیقتاً پاگل ہو چکے ہیں۔ میں نے زندگی میں ان کے منہ سے ایسی لا یعنی اور بے سروپا باتیں کبھی نہیں سنی تھیں۔ تھوڑی دیر کیلئے رکے اور آسمان کی طرف دیکھ کر بولے’’دیکھو!ہم معاشرتی زندگی میں جو کچھ کماتے ہیں حکومت اس میں سے اپنا حصہ وصول کرتی ہے‘یہ حصہ وہ ماحول کو پہلے سے بہتر ‘پہلے سے زیادہ سازگار بنانے  پر صرف کرتی ہے تاکہ ہم مزید کما سکیں‘زیادہ بہتر زندگی گزار سکیں‘حکومت کے اس حصے کو ہم ٹیکس کہتے ہیں۔مذہب بھی ہماری سالانہ بچتوں‘ہماری کمائیوں میں سے کچھ حصہ طلب کرتا ہے‘اسے زکوٰۃ کہتے ہیں۔ہم ہر سال ٹیکس دیتے ہیں‘زکوٰۃنکالتے ہیں‘یہ ہمارا فرض بھی ہے اور ہماری ذمہ داری بھی‘میں ٹھیک کہہ رہا ہوں ناں!‘‘

انہوں نے آگے بڑھ کر میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس کی تصدیق چاہی‘مجھے ان کی آنکھوں میں ایک عجیب قسم کی وحشت نظر آئی‘میں نے فوراً ہاں میں سر ہلا دیا۔وہ ہنسے اور چھڑی کو تلوار کی طرح ہوا میں لہرایا اور آگے چل پڑے۔ہم اپنا اصل فرض‘اپنی اصل ذمہ داری بھول جاتے ہیں۔مجھے ان کی آواز جھاڑیوں سے الجھتی محسوس ہوئی‘ہماری ٹانگیں ہیں‘ یہ قدرت کا معجزہ ہیں‘بہت بڑا انعام‘بہت بڑی نوازش ہیں۔میں نے لوگوں کو ٹانگوں کے بغیر زندگی گزارتے بھی دیکھا‘یقین کرو اس زندگی کو زندگی اور انسانوں کا انسان کہتے ہوئے دل دکھ سے اور الفاظ خون سے بھر جاتے ہیں۔ہمارے بازو ہیں‘ہماری زندگی کا آدھا گلاس ان کے بغیر خالی ہے‘ہاتھ ہیں‘ہم ان کے بغیر زندگی کو زندگی نہیں کہہ سکتے‘ذرا سوچو!جو شخص انگلیوں سے برف کی ٹھنڈک اور گرم کپ کی حدت محسوس نہیں کر سکتا‘اس کی زندگی کتنی ادھوری‘کتنی نامکمل ہے‘ہماری آنکھیں ہیں‘دیکھو اس بلند ٹاور کے اوپر سے  اترتی شام تک قدرت کے کتنے ہزار رنگ‘کتنے لاکھ عکس ہیں‘زندگی ان رنگوں اور عکسوں کے بغیر مکمل سمجھی جا سکتی ہے؟نہیں‘بالکل نہیں‘میں جب تک اپنی پوتی کی آنکھوں میںتیرتی چمک نہ دیکھ لوں ‘مجھے اپنے ہونے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔پھولوں کے رنگ‘برسات کی اڑتی پھوار‘وہ سامنے خوبصورت رنگوں سے مزین نظر آنے والی قوسِ قزاح‘کروٹیں بدلتا آسمان اور جھیلوں میں لرزتے کانپتے ایک دوسرے کا تعاقب کرتے دائرے ہی میرے لئے زندگی ہیں۔

یہ آنکھیں نہ ہوںتو ہاتھوں کو رنگ ٹٹولنے پڑیں‘چڑھتے سورج اور گہری ہوتی شام کے معانی ایک ہو جائیں۔ایک گھنٹے میں بارہ کھرب چالیس ارب اسی کروڑ بہتر لاکھ شعاعیں پھینکنے والا سورج دو ملی میٹر پتلی میں غروب ہو جائے۔ہمارے کان ہیں‘ذرا سنو!تمہارے کان ان سرسراہتی ہوا کی درختوں سے سرگوشیاں سن رہے ہیں‘پتوں کی پازیب تم سے کچھ کہہ رہی ہے‘وہ دیکھوڈیزی کے پھول سے تتلی اڑی‘اس کے پروں کی سرسراہٹ سنو‘اس سرسراہٹ میں زندگی ہے۔سامنے پارک کے قدموں میں بہتے شہر سے آوازیں اٹھ  اٹھ کر تم تک پہنچ رہی ہیں‘ذرا سوچو!ایک لمحے کیلئے سوچو‘یہ ساری آوازیں گونگی ہو جائیں‘تمہارے کان پتھر ہو جائیں‘تم کچھ نہ سن سکو‘تمہیں پانی تو نظر آئے ‘اس کے وجود سے اڑتی جھاگ بھی دکھائی دے‘لیکن تم ان کی آواز نہ سن سکو تو تمہاری زندگی کتنی بہری‘کتنی گونگی ہو۔ادھورا ہونے کا شدید احساس کہاں کہاں تمہاراراستہ روکے ‘لوگ تمہیں آوازکی بجائے ہاتھ لگا کر متوجہ کریں اور تم ٹھوکروں اور ٹھڈوں کو آواز سمجھو اور ہماری زبان ہے‘یہ زبان ہماری سوچ ‘ہمارے خیال کو خدو خال دیتی ہے۔انہیں ملکوتی حسن ‘انہیں جسم اور انہیں بدن عطا

فراہم کرتی ہے ۔انہیں لفظوں‘تشبیہوں اور استعاروں کا لباس دیتی ہے۔یہ زبان نہ ہو تو لفظ نہ ہوں‘لفظ نہ ہوں تو خیال کہیں سوچ کی گھاٹیوں ہی میں دم توڑ دیں‘نہ میں تمہیں کچھ کہہ سکوں اور نہ تم مجھ سے کچھ سن سکو۔اتنا کہہ کر وہ خاموش ہو گئے!

میں ان کے خیالات کی روانی میں بہتا جارہا تھا کہ دوبارہ گویا ہوئے’’میرے دوست یہ ٹانگیں‘یہ بازو‘یہ ہاتھ‘یہ آنکھیں‘یہ کان اور یہ زبان ہمارا اصل ریزرو بینک ہیں‘ہماری زندگی کی ساری کمائی‘ہماری ساری پونجی اسی میں جمع ہے۔اس میں سے کوئی ایک لاکرہمیشہ کیلئے لاک ہو جائے تو ہماری پونجی ‘ہماری کمائی ضائع ہو جائے گی‘ہم کنگال ہو جائیں گے‘ہم مفلس اور قلاش ہو جائیں گے۔غریب وہ نہیں ہوتاجس کے پاس زادِ راہ نہیں ہوتا‘غریب وہ ہوتا ہے جس کے پاس پاؤں نہیں ہوتے۔اپنے ان پاؤں‘ان ٹانگوں‘ان بازوؤںاور ان آنکھوں کا ٹیکس دو‘ان کی زکوٰۃ نکالو۔اگر نہ نکالی تو قدرت یہ ٹیکس ‘یہ زکوٰۃ اسی طرح وصول کرے گی جس طرح حکومتیں قرقی کے ذریعے وصول کیا کرتیں ہیں۔‘‘وہ خاموش ہو گئے تو میں نے ان کی طرف دیکھا تو وہ اپنا منہ دوسری طرف کرکے اپنی بہتی آنکھوں کے اشک مجھ سے چھپانے کی کوشش کر رہے تھے۔

یہ ٹیکس‘یہ زکوٰۃ دی کیسے جاتی ہے۔میں نے پہلی مرتبہ سوال کیا؟’’ہاں‘‘انہوں نے چھڑی گھمائی’’سال میں ایک ویل چئیر‘لکڑی کی ایک ٹانگ‘ایک بازو‘ایک اندھے کی آنکھوں کا آپریشن‘ایک آلہ سماعت زندگی کے اس ریزرو بینک کی زکوٰۃ ہے اور بہت سارا شکر اور ڈھیر ساری توبہ اس کمائی‘اس پونجی کا صدقہ‘‘وہ خاموش ہوئے ‘انہوں نے کچھ سوچا اور پھر آہستہ سرد ہوتی آواز میں بولے’’ہم کتنے بے وقوف ہیں‘جو دنیا میں کماتے ہیں‘اس کا ٹیکس تو ساری عمر بھرتے رہتے ہیں لیکن جو دولت انعام میں ملتی ہے‘جو کچھ ہمیں قدرت عطا کرتی ہے اس کا ہم شکر تک ادا نہیں کرتے۔افسوس ہمارے پاس آنکھیں ہیں‘لیکن ہمیں اندھوں کا اندھا پن دکھائی نہیں دیتا‘اپنے مولا کے رنگ نظر نہیں آتے!جلدی کیجئے،عید الفطرکی آمدسے پہلے اپنے اردگردجھانک کراپنے حصے کاٹیکس چپکے سے عیدی کی شکل میںاداکردیں۔میری قارئین سے گزارش ہے کہ اس عیدپران کواپنی دعاؤںمیںضروریادرکھیں جو اپنی علالت کی بناء پرعیدسے مستفیذہونے کی طاقت نہیںرکھتے۔اللہ آپ کوہمیشہ خوشیاںبانٹنے والابنادے۔آمین

فبای الا ربکما تکذبن…….!پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے!

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *