اصل مستحق کون ؟
عبا س ملک, پاکستان
انسان مادی فوائد کیلئے کتنا طوطا چشم ہو کر فکر وعمل کی منازل طے کرتا ہے ۔ایک مسلمان کیلئے سرکار دوعالم حضور حضرت محمد ﷺ سے عالم کی کوئی بھی چیز عزیز و مقدس اور قابل ترجیح نہیں ہو سکتی ۔جس مسلمان کے دل میں سرکار کی ذات سے بڑھ کر صرف دنیاوی مفادات کا حصول قابل ترجیح قرار پائے وہ ہرگز بھی مسلمان کہلانے کے لائق نہیں۔وزیر اعظم صاحب ہو ں یا محترم صدر صاحب یا پھرا کابرین پارٹی راہنما سب ہی کیلئے اپنے پارٹی راہنماﺅں کا زندہ ہونابرحق ہے ۔بابا بھی زندہ اور بی بی بھی زندہ ہے تو سرکار دوعالم ﷺ کیلئے اس کے برعکس عقیدہ کیونکر ؟ سرکار کی محبت دل میں مردہ کیوں ؟پارٹی منشور اور پارٹی سے غداری کی سزا اگر موت ہے تو اسلا م شریعت اورسرکار دوعالم کی ذات سے انحراف اور ان کی تکذیب کی سزا موت کیوں نہیں ؟آسیہ کا کیس اگر سیاسی یا سماجی دشمنی کا ہی شاخسانہ قرار دیا بھی جائے تو کیا پاکستان کے اندر ایسے نظریہ کے حامی نہیں رہتے اور اپنے اکارک ی ترویج نہیں کر رہے جو باعث تزھیک شان نبوت ہے ۔سرکار دوجہاں کے نام نامی کے ساتھ یا کا لاحقہ ہٹانے کیلئے خالق کائنات کے نام کے ساتھ بھی لفظ یا کوہٹاکئی جگہ پر لکھا دیکھا جا سکتا ہے ۔ معاذ اللہ صرف اللہ اور محمد ۔اس روایت کو مٹانے کیلئے مساجد میں یاحی و یا قیوم لکھنے کی روایت ڈالی گئی ۔سرکار دوجہاں کی ذات اقدس کا نام مقدس لکھنے کا تردد ہی نہ کرنا پڑے ۔مسلک کے اختلافات رفع یدین اونچا کلمہ پڑھنے اور جہر آمین کہنے سے سرکار دوجہاں کی ذات اقدس کی صفات مقدسہ تک لائے گئے ۔سراکر دوجہاں کو ایک عام آدمی کی طرح لکھا گیا اور قرار دیا گیا۔ سراکر دوجہاں کو بڑا بھائی لکھنے والا اپنے لیے ابو الاعلیٰ کا لاحقہ استعمال کر کے مجدد کہلایا ۔میں بڑے سے بڑے عالم اور بڑے سے بڑے ولی سے یہ سوال کرتا ہوں کہ مجھے بتایا جائے کہ آخر کسی بھی شخص کی اوقات ہی کیا ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ کی ذاتی صفات کے بارے میں کوئی پیمانہ مقرر کرے ۔درجہ نبوت کو کیا اختیارات حاصل ہیں یا نبی اور رسول کو کیا کیا طاقتیں وعید کی جاتی ہیں اخر درجہ نبوت پرفائز ہوئے بغیر کسی بھی فلاسفر کو ان ماروائی طاقتوں کا ادارک کیسے ہو سکتا ہے ۔نبی اگر عام آدمی کی طرح ہوتے تو وہ بے خطا اور معصوم کیسے رہ سکتے ؟اللہ تعالی ٰ جو کہ سب کا خالق ہے ان کے نام کی قسم کیوں دیتا ؟کیا ان کے اہل بیت اورازواج مطہرات امہات المومینین کے درجات عام لوگوں اور عام خواتین جیسے ہیں۔کیا خلفاءراشدین کا مرتبہ عام آدمیوں جیسا ہے ۔سرکار نے فرمایا میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں کیا کوئی عام آدمی اس میں شامل ہوسکتاہے جس کی تقلید و پیروی کرکے بھلائی اور فلاح و ہدایت پائی جا سکتی ہے ۔سرکار کو کیا وعید ہوا اور کیا نہیں کیا مسلمان کیلئے وہ ضروری ہے یا سرکار کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا اور ان کا مقلد ہونا ضروری ہے ۔نماز میں امام سے پہلے کوئی بھی عمل جائز نہیں اس کی پیروی کرنا ضروری ہے ورنہ نماز نہیں ہوتی تو امام انبیاءپر حرف گیری پر اسلام کو کوئی خطرہ لاحق نہیںہو گا۔یہاں پر یزید کو جنتی اورامام عالی مقام کو باغی قرار دینے والے بھی موجود ہیں ۔یہاں پرنظریہ اسلام کے پیروکار کم اورسیاسی پارٹیوں کے وفادار زیادہ پائے جاتے ہیں ۔سرکار کی ذات پر کٹ مرنے ولاے کدھر یہاں تو سیاسی گرو کیلئے خود سوزی کرنے والوں کی داستانِ وفا عام کی جاتی ہے ۔یوم تاسیس پر سیاسی لیڈروں کی راہ میں سرخ قالین بچھائے جاتے ہیں اور دنیا کے پجاریوں کی تقلید ِوفا کے پیمان کیے جاتے ہیں۔سیاسی نظریہ سے انحراف کرنے والوں کو غدار قرار دیکر سزا موت کا حقدار قرار دیا جاتا ہے لیکن رسالت مآب کیلئے نگالی گئی ریلی پر آنسو گیس کے شیل برسا کر سرکار سے عقیدت کا اظہار کیا جاتاہے ۔یہ مولوی سے نفرت کا سبب بیان کیا جتا ہے لیکن اس وقت مولوی سرکار کیلئے روڈ پر تھے ۔غیر مسلم تو سرکار کے خلاف کذب بیانی کرتے ہی رہتے ہیں اور اس سے رسالت مآب کی شان اقدس میں کوئی فرق نہیں آتا ۔دشمن تو دشمن ہوتا ہے اس گالی اور گولی کی ہی توقع ہوتی ہے لیکن اپنوں کی زبان درازی کو کس زمرے میں شمار کیا جائے ۔امت مسلمہ کی غیرت کا معیار صرف سرکارر دو عالم کی ذات گرامی قدر ہے۔ اللہ کو عیسائی بھی مانتے ہیں ،یہودی اور ہندو سکھ بھی مانتے ہیں ۔بدھ مارکسٹ بھی اللہ تعالی کی ذات پر یقین رکھتے ہیں لیکن وہ سرکار کی ذات ِگرامی کو تسلیم نہیں کرتے ۔ایک مسلمان ہیں جو اللہ اور اس کے محبوب پر ایمان و یقین رکھتے ہیں ۔یعنی کہ فرق رسالت مآب ہیں۔یہی اختلاف دوسرے مذاہب کے ساتھ امت مسلمہ کی مخامصت کا سبب اول ہے ۔آج سرکار کو درمیان سے نکال دیا جائے تو ان میں اور ہم میں کیا فرق ہے ۔وہ یہی فرق دور کرنا چاہتے ہیں ۔ ہمارے نام نہاد دانشور ،فلاسفر اور مجدد اس میں ان کی پوری مدد کرنے کا جرم کرتے آرہے ہیں ۔کبھی ناروے تو کبھی سویڈن اور ہالینڈ اور جرمنی میں سرکار کی ذات پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے لیکن سرکار کی سنت ہے کہ وہ اپنے پر کوڑا گرانے والی غیر مسلم خاتون کی بیمار پرسی کیلئے تشریف لے گئے تھے ۔انہوں نے اس کیلئے کوئی سزا تجویز نہیں فرمائی لیکن اپنے اندر کے مفسد اور خارجی کیلئے سزا موت تجویز فرمائی۔سرکار کی سنت کے مطابق آسیہ کو کچھ کہا جائے یا نہ کہا جائے لیکن اس کے بالا حمایت میں پریس کانفرنسیں کرنے والے نام نہاد مسلمانوں کیلئے کیا تجویز کیا جائے ۔ایسے مسلمان کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہیے جو سرکار کے مقابل ایک غیر مسلم کے حقوق کو ترجیح قرار دیتا اور اس کے حقوق کو سرکار کے مساوی قرار دیتا ہے ۔اس شخص کیلئے چیف جسٹس سموٹ] ]>