یہ بات اتنی بار اور اتنے ثبوت کے ساتھ عالمی میڈیا میں آچکی ہےکہ پاکستان دہشت گردی کے معاملے میں دوہر ا رویہ اپنائے ہوا ہے ۔کہنے کو وہ دہشت گردی ختم کرنے کے لیے ہر طرح کی کوششیں کر رہا ہے اور اسی نام پر وہ امریکہ سے امداد بھی حاصل کر رہا ہے مگر حقیقت یہ ہےکہ پاکستان کبھی بھی اس معاملے میں سنجیدہ نہیں ہے ۔ وہ امریکہ کے سامنے کہتا کچھ اور ہے اور کرتا کچھ اور ہے ۔ ایک طرف وہ امریکی امداد لے کر دہشت گردی ختم کرنے کے بات کرتا ہے تو دوسری جانب وہی افغانستان میں موجود امریکی اور نیٹو افواج کے خلاف محاذ بھی تیار کر رہاہے ۔ابھی جس تیزی سے نیٹو افواج پر حملے ہورہے ہیں اس میں کئی ایسی شہادتیں ملی ہیں جن کی بنیاد پر عالمی میڈیا میں ایسی روپورٹیں آئی ہیں کہ پاکستان کی آئی ایس آئی نے مقامی لوگوں سے مل کر ا س طرح کی کاروائیاں کی ہیں ۔ رائٹرس کی تازہ تریں رپورٹ کے مطابق اس کے کئی شواہد ملے ہیں ۔ رائٹر نے لکھا ہے کہ پاکستان کی آئی ایس آئی نے مقامی لوگوں کو اسلحے کے ساتھ اس کی نشاندہی بھی کہ کہ کس طرح سے نیٹو افواج پر حملہ آور ہو اجاسکتا ہے ۱۳ جون ۔سنڈے ٹائمس میں مائل امور نے لکھا ہے کہ رمشکل بارڈر پر جس وقت پاکستانی فوج ان گاڑیوں اور بھاری ٹرکوں کی تلاشی لے رہی تھی جو افغانستان جانے والی تھیں ، تو ان میں کئی ایسی گاڑیاں بھی تھیں جن میں اسمگلنگ کے سامان موجود تھے ، ان میں ڈی وی ڈی ، بچوں کے کھیلونے ، کار اسٹیریوز،ٹیلی ویژن وغیرہ یہ اسمگل کے سارے سامان طالبان کے خطرناک لڑاکو قاری رسول کے تھے ۔ جو کچھ ہی دور میں اپنے سفید ٹوئیٹا کار میں تین خود کش بمباروں کے ساتھ تھے ۔ ان کے جوتے کے تلوے ریموٹ کنٹرول سے لیس تھا جو خود ساختہ بم کو اڑانے کے لیے تھا اور ان کا نشانہ نیٹو افوج تھیٕں۔ جب ان کی تالشی لی گئی تو ان کے کار میں کثیر مقدار میں بندوق اور دھماکہ خیز اشیا کی بر آمدگی ہوئی ۔ جب پولیس نے پوچھا کہ یہ کس کے ہیں اور آپ کون ہیں ؟ تو اس کے جواب میں قاری رسول نے بلا جھجھک اور بلا خوف یہ کہا کہ یہ ہمارے ہیں اور میں طالبان کا کمانڈر ہوں ۔ اس کے بعد پولیس قاری رسول کو اپنے آفس لے گئی اور کرسی پر بیٹھایا ، بجائے اس کے کہ اس کے ساتھ سختی سے پیش آتی پولیس نے مصافحہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو سمجھنے کی کوشش کرنی چایئے !اس کا مطلب تھا رشوت ستانی ۔ اس کے بعد قاری رسول نے پاکستان میں اپنے کسی ساتھی کو فون کیا اور اس کے دو ہی گھنٹون بعد یہ لوگ پانچ ہزار پاکستانی روپوں کی رشوت کے عوض رہا کر دئے گئے ۔ قاری رسول نے صحافی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ پہلا موقع تھا جب انھیں بارڈر کراس کرنے میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ورنہ اکثر وہ پاکستان سے اسلحے اور ٹرینڈ لوگوں کو بارڈر کے پار لے گئے ہیں مگر اس کے علاوہ انھیں کبھی پریشانی نہیں ہوئی ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کی حکومت افغنستان میں کس قدر اندر تک ان معاملات میں شامل ہے ۔ یہ تو ایک بات ہے جس کا سنڈے ٹائمس نے انکشاف کیا ہے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس حد پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں افغانستان میں طالبان کے معاملے میں دخیل ہیں ۔
افغانستان کی خفیہ ایجنسی کے سابق ہیڈ امراللہ صالح جو ابھی گذشتہ ہفتے ہی مستعفی ہوئے ہیں انھوں نے بتا یا کہ پاکستان کی آئی ایس آئی کوئیٹہ کے طالبان شوریٰ میں ہوتے ہیں ۔ یہ کہا جسکات ہے کہ آئی ایس آئی باضابطہ طا لبان کے ہی پارٹ ہیں ، وہ مشورے سے لے کر ہر معاملے میں ان کے شریک کار رہے ہیں اور ہیں ۔ لندن اسکول آف اکونومی کے ایک ریسرچ رپورٹ کے مطابق پاکستان دوہری چال چل رہا ہے۔ ان کی ملی جلی حرکتوں کی وجہ سے ویسٹ کے ملین ڈالرس اس میں ضائع ہوئے ہیں اور گذشتہ ہفتے سے اب تک ۳۲ نیٹو فوجیوں کی جانیں گئی ہیں۔
پاکستان کی اس حرکت کے انکشاف کے بعد کود زرداری نے جو باتیں کی ہیں وہ بھی ادھر ادھر کی باتیں ہیں اور اس سوال کے جواب میں کوئی ٹھوس بات وہ نہیں کہہ سکے اور نہ ہی پاکستان کی آئی ایس آئی کوئی بات کہنے کی پوزیشن میں ہے ۔ افغانستان میں موجودہ صورت حال پاکستان کے دوئی کے نظریے اور دوہری پالیسی کو بے نقاب کر رہا ہے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اس پر غور کیا جائے ۔
***