امام اورچور
عباسی خلفاءکے دورمیں جب بدعت وظلم کی سیاہ وحشت ناک راتوںنے دین اسلام کے اجالے میں عظیم فتنہ”خلق قرآن“کے نام سے بگاڑ پیداکرنے کی کوشش کی تواس زمانے کی ظالم حکومت نے اپنے پورے قہروجبرکے ساتھ کلمتہ الحق کہنے والوں کی زبانیں کاٹ کران کے منہ زروجواہرسے بھرناشروع کردیئے۔اپنے اقتدارکی طوالت کی خاطر رسن وداراورفولادی زنجیروں کی بھرمارکرڈالی اوراہل دہشت کی بناءپرخوفِ خداکی شاہراہ کوسنسان کرنے کاہمہ وقتی عمل شروع کردیا۔جہادوغیرہ کادرس دینے والے سہمی ہوئی بھیڑوں کی طرح ایک کونے میں سرچھپائے ہوئے تھے۔اس زمانے میں عام مسلمان”علمائ“کوگوشہ سکوت میں سرچھپائے ہوئے دیکھ کر بڑی دلسوزی کے ساتھ اس بات کی گڑگڑاکردعامانگ رہے تھے کہ کوئی توخداکابندہ ایسا ہوجواس ظلم وباطل کاحق وراستی کے ساتھ مقابلہ کرسکے اوراس امت کوآخرت میں محمد عربیﷺ کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچالے!
تاریخ گواہ ہے کہ اس لرزہ خیزمحاذپر اللہ نے اپنے بندو ں کی مناجات ‘التجائیںبہت قریب سے سنیں اوراس بستی میں سے ایک مجاہدنے اس جہادمیں کودکراس خون آشام جابراورایمان کش اقتدارپرکلمتہ الحق کی ایسی بجلیاںگرائیںکہ کفرکاساراسیاہ دامن اوربدعت وظلمت کاپوراوجودلرزنے لگا۔جب اس بندہ خدانے ظلم وجبرکی آندھیوں میں حق پرستی اورحق گوئی کے چراغ اپنے لہواوراشکوں سے جلانے شروع کئے توان دنیادار‘ظلمتوں کے علمبرداروں نے اپنی پوری کوشش کرڈالی کہ اس روشنی کوزروجواہر ‘اقتداراورمنصب کی لالچ سے ڈھانپ کربجھادیاجائے لیکن”وہ“جان چکاتھاکہ اس دل میں اگرصرف ایک خوف جگہ بنالے تودنیاکے تمام مصائب سے نجات دلادیتاہے۔اس لئے اس نے ”خوفِ خدا“سے اپنے دل کومزین کرلیا۔اسے یہ بھی معلوم تھاکہ جب کوئی اورخوف اس دل میں جگہ بناناشروع کردے توپہلاخوف دبے پاو¿ں چپکے سے نکل جاتاہے۔اسی لئے اس مردِ مومن نے خوفِ خداکی ضربِ کلیمی سے خوفِ دنیاکے پرخچے اڑادیئے۔اس مردِ مومن کویہ علم تھا کہ اس عمل کے بعد اس کے وجودکے پرزے اڑادیئے جائیں گے لیکن ایمانی جوش ‘دنیاوی ہوش پرہمیشہ سبقت لیجاتاہے اوراس کے دل پریہ پیغام پہنچ چکاتھاکہ:
یہ قدم قدم بلائیں یہ قدم کوئے جاناں وہ یہیں سے لوٹ جائے جسے زندگی ہوپیاری
جاہ واقتدارکی مکروہ پیشانی جس کی نگاہوں نے ہمیشہ اپنے سامنے سرجھکتے ہوئے دیکھے تھے‘ایک مردِ حق کاباطل کے سامنے اٹھاہواسردیکھاتوتوبیشماربل آگئے‘ نخوت وتکبرنے اس تنہاگردن وجبیں کوجھکانے کےلئے اپنی پوری طاقت کااظہاراس طرح کیاکہ منوں وزنی لوہے کی زنجیروں میں پابجولاں کرکے شہرکی گلیوں میں گھمایا۔موت کی ہلاکت آفرینیاںہروقت اس مردِ حق کے سرپرمنڈلارہی تھیں‘اس وقت بھی اس عظیم الشان مردِ مجاہد کے چہرے پرایسی مسکراہٹ تھی جس نے اس کے چہرے کے بے حجاب حسن وجمال میں اس قدراضافہ کردیا کہ باطل کے پروردہ منافقین اپنے چہروں کی سیاہی کوچھپانے کےلئے گھروں کے تاریک کونوں کھدروںمیں چھپ گئے لیکن اس مردحق کی عاجزی اورانکساری کاجلال پکارپکارکرکہہ رہاتھاکہ حق کومٹانے والے خودمٹ جاتے ہیں اورحق کی خاطرموت کوگلے لگانے والے ابدی زندگی سے ہمکنارہوتے ہیں اوررہتی دنیاتک امرہوجاتے ہیں۔
عقوبت گاہ میں جب اس مردِ حق پرزندگی ہرطرح سے تنگ کردی گئی،رمضان المبارک کے صبرآزمامہینے میں اس فولادی عزیمت کے پیکر پرکوڑوں کی بارش نے خون کے چھینٹے اڑانے شروع کئے اورپھر کوڑے بھی ایسے کہ ہاتھی کی پشت پراگربرسیں تووہ بھی بلبلااٹھے لیکن اس عظیم شخص کے منہ سے کوئی کراہ‘کوئی آہ اورنہ ہی کوئی بددعاکے الفاظ جاری ہوئے بلکہ وہ توان تمام چیزوں کواپنے دردکی توہین اوراس راستے پرچلنے کاانعام سمجھ رہاتھا۔اگراس کے منہ سے کوئی آوازنکلی تویہی کہ:”کتاب وسنت سے کوئی دلیل لاو¿“حالانکہ اس بھاری ابتلاءکے موقع پرجب کہ خون آشام جبڑے ان کی ہڈیوں کوچبانے کےلئے اپنی پوری قوت صرف کرچکے تھے،حاکمِ وقت نے خودان کی عظمت کوسلام کرکے اپنی ہارماننے کےلئے یہ تجویزرکھی کہ اس معاملے پرخاموش ہوجاو¿،اس کی اگرتائیدنہیں کرسکتے توتردیدبھی نہ کرولیکن عزیمت کے اس پیکر نے آسمان کی طرف منہ اٹھاکراپنی اشک آلودنگاہیں اٹھاکراپنے رب سے فضل ورضاکی درخواست کی اور پھرزمین پرجھک کرقبروبرزخ کی دنیامیں جھانک کراپنی مظلومیت کے حسین ترین انجام کودیکھ کرجب حاکمِ وقت پرنگاہ ڈالی تواس کاساراشاہی رعب ودبدبہ ‘اس کاتخت وتاج اوراس کااپناوجودان نظروں کی تاب نہ لاسکااوراس مغروربادشاہ کاساراوقاراس درویش کے قدموں میں ڈھیرہوگیا۔وہی ظلم وقہرکا پہاڑجس نے تمام علمائے سو کواپنے گردجمع کررکھاتھااورشرعی آڑکی رخصت میں تمام علمائے سوکوزروجواہرکے بدلے اپناہمنوابنارکھاتھا‘منت سماجت پراترآیا لیکن اس مردِ مومن کی ایک ہی پکارتھی کہ:
”اگرکوئی دلیل کتاب اللہ اورسنت رسول اللہﷺ سے لے آو¿تویہ سرنہ صرف اطاعت کےلئے جھک جائے گابلکہ قربان بھی ہوجائے گاوگرنہ ہم دونوں کے راستے بالکل الگ الگ ہیں“۔
جب کوڑوں کی بارش نے جسم کی کھال ادھیڑدی ‘فولادی زنجیروں نے جسم پرخونچکاں بسیراکرلیا‘بھوک وپیاس کی اذیت نے قیامت کاساماں پیداکردیاتوجسم پرغشی کی حالت طاری ہوگئی۔آنکھ کھلنے پرکچھ علمائے سوکے ہاتھوںمیں ٹھنڈاپانی دیکھاجوشریعت میں اس موقع پرپانی پینے کی گنجائش بتارہے تھے تاکہ زندگی بچ جائے لیکن عزیمت کے اس امام نے تاریخ ساز جواب دیکر ”میں روزے سے ہوںاوراسی حالت میں اپنے ر ب سے ملنے کی خواہش وتڑپ رکھتاہوں“ پانی کے اس پیالے کونظروں سے دورکردینے کوکہا۔انہی زخموں سے چوراپنے خالقِ حقیقی کے سامنے سجدہ ریزہوگئے اوردل سے جوہوک اٹھی کہ”شریعت میں صرف رخصت ہی نہیں عزیمت بھی ہے“۔اگرمیں رخصت کی راہ پکڑلوں توآخراس حدیث نبوی پرکون عمل کرے گاکہ جس میں وضاحت کے ساتھ ختم الرسلﷺ نے اپنے صحابہ اکرامؓ کے مصائب کی فریادپرفرمایا کہ:
”تم سے پہلے ایسے لوگ گزرچکے ہیں جن کے سروں پرآرے چلادیئے گئے اورجسم لکڑی کی طرح چیردیاگیا‘لوہے کے کنگھوں سے ان کے جسم کے گوشت کو نوچ ڈالاگیاپھربھی یہ تکالیف ان کوحق کے راستے سے نہ ہٹاسکیں“۔
وہ علماءجوشرعی رخصتوں کی آڑلیکراس فانی دنیامیں چندروزخیریت سے زندگی گزارناچاہتے تھے وہ بھی اس مردِ مجاہدکواپناہمنوانہ بناسکے کیونکہ ان کوعلم ہوگیاتھا کہ یہ اللہ کاسچارفیق طے کرچکاہے کہ محض چندروزہ فانی زندگی کے مقابلے میں اخروی زندگی بدرجہابہترہے ۔موت سے توکسی کومفرنہیں ‘کسی نہ کسی آرزوکا رنگ توکفن کورنگین کرے گا‘پھرکیوں نہ راہِ حق میںاستقلال کارنگ اپنے کفن کےلئے منتخب کرلیاجائے تاکہ جب اس حالت میں فرشتے خداکے پاس لیکرحاضرہوں تودورسے ہی اس کفن کے رنگ میں اللہ کی خوشنودی کاپیام موصول ہواورخداکی رحمت دنیامیں دیئے گئے زخموں پروالہانہ پیارکرنے کےلئے لپک کربوسے دے:
توحیدتویہ ہے کہ خداحشرمیں کہہ دے یہ بندہ¿ دوعالم سے خفامیرے لئے ہے
پھروقت نے دیکھاکہ دنیاوی لحاظ سے کمزوروناتواں‘بے سروسامان مردِ مجاہدنے اس بادشاہِ وقت کوجوکہ اپنے ہرظلم کاہروارآزماچکاتھا‘خداکی نصرت کے بل بوتے پراس کوشکست فاش دی،وہ جواپنی طاقت پربہت گھمنڈکرتاتھا‘جس کواپنے ہتھیاروں اوراپنے عقوبت گاہوں پربڑانازتھا‘جواپنی دولت سے ہرکسی کو خریدنے کادعویٰ کرتاتھا‘اپنی فوجوں کی بہادری اورآہنی محل کے پہریداروںپربڑافخرکرتاتھا‘موت کے فرشتے نے اس کے جسم سے اس طرح جان نکالی کہ آہنی پہریداراورفولادی حلقے اورمضبوط درودیواردیکھتے رہ گئے اوروہ بے بسی کے ساتھ بڑی حسرت ناک اورعبرتناک موت کے سامنے چوں چراِں نہ کرسکا۔
اس مردحق کی زنجیریںنئی قیادت نے انتہائی عقیدت واحترام کے ساتھ نہ صرف کاٹ ڈالیں بلکہ تعظیم وتکریم کے تمام جھونکے نچھاورکرڈالے۔قدم قدم پرعقیدت کیشوں نے آنکھیں بچھائیںمگرعظمت کے اس پہاڑ نے فاتحانہ نہیں مگرعاجزانہ چال کے ساتھ سب سے پہلے صبر کے ابلتے ہوئے آنسوو¿ں اور خوشیوں کی چیخوں میں شکرانے کے جہاں نوافل اداکئے وہاں ظالموںکےلئے راہِ ہدائت کی دعائیں کیں۔نئی قیادت نے پرانے مظالم کاحساب دنیامیں چکانے کی کوشش کی تواس مردِ درویش کی آنکھیں غصے سے ابل پڑیں کہ:
یہ شاہی اشرفیوں کے توڑے شاہی عتاب کے کوڑوں سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہیں۔یہ دنیاجسے ستم سے نہ دباسکی اب اس کوکرم سے خریدنے کی کوشش کررہی ہے“۔
ایک طرف دین کافتنہ تھا‘دوسری طرف دنیاکافتنہ!!شائد ان کووہ واقعہ یادآگیاکہ جب دنیابن سنورکرمحمد عربی کادل لبھانے کےلئے آگے بڑھی تو آنحضرت ﷺ نے دونوں ہاتھوںسے اس کودھکے دیکر نکال دیاتھا‘دنیانے اس وقت کہاتھا”آپ ﷺ تومجھ سے بچ گئے لیکن آپ کے بعد لوگ شائدہی مجھ سے بچ سکیں“۔
یہی وجہ تھی کہ وقت کے اس عظیم امام نے شاہی نوازشات کوبھی بڑی حقارت کے ساتھ ٹھکرادیا۔وہ حاکمِ وقت کے نہیں بلکہ حاکموں کے حاکم کے شکرگزارتھے کہ جس نے ان کی ہرمشکل میں نصرت فرمائی اوران کے دل کویہ توانائی بخشی کہ جسم میں سب سے چھوٹے لوتھڑے نے پہاڑوں کوریزریزہ کردیا۔اکثرتنہائی میں اپنی اورمسلمانوں کی بخشش کی دعائیں کرتے تووہاں ایک گمنام شخص ”ابوالہیثم“کی بخشش کی دعائیں بڑی رقت آمیزاندازمیں کرتے۔جب عقدہ کھلاکہ ابوالہیثم ایک چورتھا،جب اس مرد، مجاہدکوپابجولاں کرکے بازاروں اورگلیوں میں رسواکیاجارہاتھاتواس وقت اس چورنے بڑی دلسوزی کے ساتھ کہاکہ:
”میں ایک چورہوں اورچوری کےلئے کم وبیش اٹھارہ سے بیس ہزارضربیں اپنی کمرپربرداشت کرچکاہوں‘اس کے باوجودمیرے ارادے ٹس سے مس نہیں ہوئے اورمیری یہ ثابت قدمی دنیاجیسی ناپاک چیز کےلئے تھی۔ہزارافسوس ہوگاتم پراگرتم ”راہِ حق“میں اتنی بھی ہمت نہ دکھاسکو“۔
چورکایہ پیغام ان کے دل میں تیرِ حق بن کراترگیااوراس پیغام نے اس مردِ حق کواپنے وقت کاعظیم امام”احمدبن حنبل“بناڈالا۔یہ اس عہدکی کہانی ہے کہ جب ایمان کی آگ سینوں میں اتنی تھی کہ چورکے چندسوزبھرے کلمات نے تاریخ کوایک عظیم الشان مجاہد سے متعارف کروادیالیکن آج سینکڑوں نہیں لاکھوں زبانیں جمع ہوکرجبہ ودستارکی آڑ لیکر فلک شگاف نعرے بھی لگارہی ہیں‘اسی قرآن و سنت سے بے شمارواقعات سناکرجذبات بھی ابھارے جارہے ہیں‘یقینا یہ ایک نیک وصالح عمل ہے لیکن اس کے باوجودجب کبھی ایسا مشکل وقت آن پڑتاہے توواعظ اپنی جان بچانے کوعین فرض سمجھ کرراہِ فراراختیارکرلیتاہے۔اگر کہیں خودنمائی کے مواقع موجودہیں تواس میں شرکت عین ثواب‘اگرکشمیر‘فلسطین اورافغانستان کے عملی جہاد کاذکرتوپھرعین جواب!تقریرکےلئے بہترین سٹیج مہیاکیاجائے توعین عبادت لیکن یہی جبہ ودستارکے پرستاردوستوں سے عمل کی اپیل محض اس لئے کی جائے کہ مسلمان اپنے سچے قول وفعل سے بھی دنیاتسخیرکرسکتاہے توپھر ساری کاوشیں بیکار!!!
حصولِ اقتدارکےلئے دن رات نفاذِ اسلام کانعرہ لیکن اقتدارحاصل کرنے کے بعداسلامی اقدارپرپہرہ!ملک کی معیشت کواسلامی خدوخال پراستوارکرنے کا دعویٰ مگرورلڈبینک ‘آئی ایم ایف اورامریکابہادر کے احکام کاپہناوہ!جہادافغانستان اورکشمیرکی جیتی ہوئی بازی استعمارکے کہنے پرہاردی۔کشمیرپچھلے تریسٹھ سالوں سے ظلم وستم کاشکارہے لیکن کشمیرکوفتح کرنے کے دعویداراقوام متحدہ میں اس مسئلے کواٹھانے سے گریزاں ہیں۔اگرکوئی جماعت مکمل دین حق کانفاذ چاہتی ہے تواس کوملک دشمن اوربنیادپرست کہہ کرالزامات کی بارش سے نوازدیاجاتاہے۔اغیارکے ساتھ ملی بھگت کرکے آج اسلام کونظامِ عبادت کے طورپر توقبول کیاجاتاہے لیکن نظامِ حکومت کے طورپراس کوناقابل عمل سمجھ کرپس پشت ڈالا جارہاہے۔اسلام جو کہ اخو ت اورمحبت کادرس دیتا ہے آج اس کے نام لیوااورپیشوااپنے مذموم مقاصد کےلئے تفرقہ بازی جیسی لعنت کو گلے لگاکرامت کوپارہ پارہ کررہے ہیں۔ہمارے علماءکاآپس میں دست وگریباں ہونا‘اتحاد کےلئے کی جانےوالی تمام کاوشوں کواپنی ذاتی انااورذاتی مخاصمتوں کی بناءپر سبوتاژکرنا‘کہیں ایساتونہیںیہ دنیاکی چکاچونداورخیرہ کردینے والی روشنی ان کی آنکھوں کے ساتھ ان کے دل کوبھی اپنی زدمیں لے چکی ہے اوراب کتاب اللہ اورسنت رسول اللہﷺکی حفاظت کاکام ان سے واپس لیاجارہاہے۔(خدا نہ کرے)اوریہ کام جواسلام کے نام پرحاصل کئے گئے خطہ ارض پرنہ ہوسکا،اب اللہ تعالیٰ اپنی سنت کے مطابق ان افغانوں اورکشمیریوں سے لے لے جنہوں نے فی الواقع جہادکرکے دنیاکی ایک سپرطاقت کو ٹکڑے کر ڈالااوربہت جلددوسری سپرطاقت کی ریشہ دوانیوں کابھی عبرتناک انجام ہوکررہے گاکیونکہ اب وقت نے بھی اس بات کی گواہی دے دی ہے کہ:
فطرت کے مقاصد کی کرتاہے نگہبانی یابندہ صحرائی یامردِ کوہستانی
آیئے آج اپنے اسلاف کے کارناموں کی روح کوسامنے رکھ کراپنے مستقبل کے بارے میں سوچیں کہ ہمیں دنیاوآخرت کی فلاح کےلئے کون سا راستہ اختیارکرناہے ۔کیاوہی راستہ وہی نظام حکومت ‘وہی نظامِ عدل جس میں کتاب اللہ اورسنت رسولﷺ سے ہمیشہ ہرپہلوپررہنمائی حاصل کی گئی اورجس کے طفیل حامل کتاب وسنت کودنیاکوامام بنادیاگیا یاپھرکتاب اللہ اورسنت رسولﷺ سے دوری جس نے واقعی ہمیں ہرچیزسے دورکردیا۔اللہ سے دعاہے کہ ہمیں حق پرچلنے اس پر عمل کرنے اوراس کی برملاحمائت کرنے کی توفیق نصیب فرمائے ثم آمین
امام اورچورعباسی خلفاءکے دورمیں جب بدعت وظلم کی سیاہ وحشت ناک راتوںنے دین اسلام کے اجالے میں عظیم فتنہ”خلق قرآن“کے نام سے بگاڑ پیداکرنے کی کوشش کی تواس زمانے کی ظالم حکومت نے اپنے پورے قہروجبرکے ساتھ کلمتہ الحق کہنے والوں کی زبانیں کاٹ کران کے منہ زروجواہرسے بھرناشروع کردیئے۔اپنے اقتدارکی طوالت کی خاطر رسن وداراورفولادی زنجیروں کی بھرمارکرڈالی اوراہل دہشت کی بناءپرخوفِ خداکی شاہراہ کوسنسان کرنے کاہمہ وقتی عمل شروع کردیا۔جہادوغیرہ کادرس دینے والے سہمی ہوئی بھیڑوں کی طرح ایک کونے میں سرچھپائے ہوئے تھے۔اس زمانے میں عام مسلمان”علمائ“کوگوشہ سکوت میں سرچھپائے ہوئے دیکھ کر بڑی دلسوزی کے ساتھ اس بات کی گڑگڑاکردعامانگ رہے تھے کہ کوئی توخداکابندہ ایسا ہوجواس ظلم وباطل کاحق وراستی کے ساتھ مقابلہ کرسکے اوراس امت کوآخرت میں محمد عربیﷺ کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچالے!تاریخ گواہ ہے کہ اس لرزہ خیزمحاذپر اللہ نے اپنے بندو ں کی مناجات ‘التجائیںبہت قریب سے سنیں اوراس بستی میں سے ایک مجاہدنے اس جہادمیں کودکراس خون آشام جابراورایمان کش اقتدارپرکلمتہ الحق کی ایسی بجلیاںگرائیںکہ کفرکاساراسیاہ دامن اوربدعت وظلمت کاپوراوجودلرزنے لگا۔جب اس بندہ خدانے ظلم وجبرکی آندھیوں میں حق پرستی اورحق گوئی کے چراغ اپنے لہواوراشکوں سے جلانے شروع کئے توان دنیادار‘ظلمتوں کے علمبرداروں نے اپنی پوری کوشش کرڈالی کہ اس روشنی کوزروجواہر ‘اقتداراورمنصب کی لالچ سے ڈھانپ کربجھادیاجائے لیکن”وہ“جان چکاتھاکہ اس دل میں اگرصرف ایک خوف جگہ بنالے تودنیاکے تمام مصائب سے نجات دلادیتاہے۔اس لئے اس نے ”خوفِ خدا“سے اپنے دل کومزین کرلیا۔اسے یہ بھی معلوم تھاکہ جب کوئی اورخوف اس دل میں جگہ بناناشروع کردے توپہلاخوف دبے پاو¿ں چپکے سے نکل جاتاہے۔اسی لئے اس مردِ مومن نے خوفِ خداکی ضربِ کلیمی سے خوفِ دنیاکے پرخچے اڑادیئے۔اس مردِ مومن کویہ علم تھا کہ اس عمل کے بعد اس کے وجودکے پرزے اڑادیئے جائیں گے لیکن ایمانی جوش ‘دنیاوی ہوش پرہمیشہ سبقت لیجاتاہے اوراس کے دل پریہ پیغام پہنچ چکاتھاکہ:یہ قدم قدم بلائیں یہ قدم کوئے جاناں وہ یہیں سے لوٹ جائے جسے زندگی ہوپیاری جاہ واقتدارکی مکروہ پیشانی جس کی نگاہوں نے ہمیشہ اپنے سامنے سرجھکتے ہوئے دیکھے تھے‘ایک مردِ حق کاباطل کے سامنے اٹھاہواسردیکھاتوتوبیشماربل آگئے‘ نخوت وتکبرنے اس تنہاگردن وجبیں کوجھکانے کےلئے اپنی پوری طاقت کااظہاراس طرح کیاکہ منوں وزنی لوہے کی زنجیروں میں پابجولاں کرکے شہرکی گلیوں میں گھمایا۔موت کی ہلاکت آفرینیاںہروقت اس مردِ حق کے سرپرمنڈلارہی تھیں‘اس وقت بھی اس عظیم الشان مردِ مجاہد کے چہرے پرایسی مسکراہٹ تھی جس نے اس کے چہرے کے بے حجاب حسن وجمال میں اس قدراضافہ کردیا کہ باطل کے پروردہ منافقین اپنے چہروں کی سیاہی کوچھپانے کےلئے گھروں کے تاریک کونوں کھدروںمیں چھپ گئے لیکن اس مردحق کی عاجزی اورانکساری کاجلال پکارپکارکرکہہ رہاتھاکہ حق کومٹانے والے خودمٹ جاتے ہیں اورحق کی خاطرموت کوگلے لگانے والے ابدی زندگی سے ہمکنارہوتے ہیں اوررہتی دنیاتک امرہوجاتے ہیں۔عقوبت گاہ میں جب اس مردِ حق پرزندگی ہرطرح سے تنگ کردی گئی،رمضان المبارک کے صبرآزمامہینے میں اس فولادی عزیمت کے پیکر پرکوڑوں کی بارش نے خون کے چھینٹے اڑانے شروع کئے اورپھر کوڑے بھی ایسے کہ ہاتھی کی پشت پراگربرسیں تووہ بھی بلبلااٹھے لیکن اس عظیم شخص کے منہ سے کوئی کراہ‘کوئی آہ اورنہ ہی کوئی بددعاکے الفاظ جاری ہوئے بلکہ وہ توان تمام چیزوں کواپنے دردکی توہین اوراس راستے پرچلنے کاانعام سمجھ رہاتھا۔اگراس کے منہ سے کوئی آوازنکلی تویہی کہ:”کتاب وسنت سے کوئی دلیل لاو¿“حالانکہ اس بھاری ابتلاءکے موقع پرجب کہ خون آشام جبڑے ان کی ہڈیوں کوچبانے کےلئے اپنی پوری قوت صرف کرچکے تھے،حاکمِ وقت نے خودان کی عظمت کوسلام کرکے اپنی ہارماننے کےلئے یہ تجویزرکھی کہ اس معاملے پرخاموش ہوجاو¿،اس کی اگرتائیدنہیں کرسکتے توتردیدبھی نہ کرولیکن عزیمت کے اس پیکر نے آسمان کی طرف منہ اٹھاکراپنی اشک آلودنگاہیں اٹھاکراپنے رب سے فضل ورضاکی درخواست کی اور پھرزمین پرجھک کرقبروبرزخ کی دنیامیں جھانک کراپنی مظلومیت کے حسین ترین انجام کودیکھ کرجب حاکمِ وقت پرنگاہ ڈالی تواس کاساراشاہی رعب ودبدبہ ‘اس کاتخت وتاج اوراس کااپناوجودان نظروں کی تاب نہ لاسکااوراس مغروربادشاہ کاساراوقاراس درویش کے قدموں میں ڈھیرہوگیا۔وہی ظلم وقہرکا پہاڑجس نے تمام علمائے سو کواپنے گردجمع کررکھاتھااورشرعی آڑکی رخصت میں تمام علمائے سوکوزروجواہرکے بدلے اپناہمنوابنارکھاتھا‘منت سماجت پراترآیا لیکن اس مردِ مومن کی ایک ہی پکارتھی کہ:”اگرکوئی دلیل کتاب اللہ اورسنت رسول اللہﷺ سے لے آو¿تویہ سرنہ صرف اطاعت کےلئے جھک جائے گابلکہ قربان بھی ہوجائے گاوگرنہ ہم دونوں کے راستے بالکل الگ الگ ہیں“۔جب کوڑوں کی بارش نے جسم کی کھال ادھیڑدی ‘فولادی زنجیروں نے جسم پرخونچکاں بسیراکرلیا‘بھوک وپیاس کی اذیت نے قیامت کاساماں پیداکردیاتوجسم پرغشی کی حالت طاری ہوگئی۔آنکھ کھلنے پرکچھ علمائے سوکے ہاتھوںمیں ٹھنڈاپانی دیکھاجوشریعت میں اس موقع پرپانی پینے کی گنجائش بتارہے تھے تاکہ زندگی بچ جائے لیکن عزیمت کے اس امام نے تاریخ ساز جواب دیکر ”میں روزے سے ہوںاوراسی حالت میں اپنے ر ب سے ملنے کی خواہش وتڑپ رکھتاہوں“ پانی کے اس پیالے کونظروں سے دورکردینے کوکہا۔انہی زخموں س
ے چوراپنے خالقِ حقیقی کے سامنے سجدہ ریزہوگئے اوردل سے جوہوک اٹھی کہ”شریعت میں صرف رخصت ہی نہیں عزیمت بھی ہے“۔اگرمیں رخصت کی راہ پکڑلوں توآخراس حدیث نبوی پرکون عمل کرے گاکہ جس میں وضاحت کے ساتھ ختم الرسلﷺ نے اپنے صحابہ اکرامؓ کے مصائب کی فریادپرفرمایا کہ:”تم سے پہلے ایسے لوگ گزرچکے ہیں جن کے سروں پرآرے چلادیئے گئے اورجسم لکڑی کی طرح چیردیاگیا‘لوہے کے کنگھوں سے ان کے جسم کے گوشت کو نوچ ڈالاگیاپھربھی یہ تکالیف ان کوحق کے راستے سے نہ ہٹاسکیں“۔وہ علماءجوشرعی رخصتوں کی آڑلیکراس فانی دنیامیں چندروزخیریت سے زندگی گزارناچاہتے تھے وہ بھی اس مردِ مجاہدکواپناہمنوانہ بناسکے کیونکہ ان کوعلم ہوگیاتھا کہ یہ اللہ کاسچارفیق طے کرچکاہے کہ محض چندروزہ فانی زندگی کے مقابلے میں اخروی زندگی بدرجہابہترہے ۔موت سے توکسی کومفرنہیں ‘کسی نہ کسی آرزوکا رنگ توکفن کورنگین کرے گا‘پھرکیوں نہ راہِ حق میںاستقلال کارنگ اپنے کفن کےلئے منتخب کرلیاجائے تاکہ جب اس حالت میں فرشتے خداکے پاس لیکرحاضرہوں تودورسے ہی اس کفن کے رنگ میں اللہ کی خوشنودی کاپیام موصول ہواورخداکی رحمت دنیامیں دیئے گئے زخموں پروالہانہ پیارکرنے کےلئے لپک کربوسے دے:توحیدتویہ ہے کہ خداحشرمیں کہہ دے یہ بندہ¿ دوعالم سے خفامیرے لئے ہےپھروقت نے دیکھاکہ دنیاوی لحاظ سے کمزوروناتواں‘بے سروسامان مردِ مجاہدنے اس بادشاہِ وقت کوجوکہ اپنے ہرظلم کاہروارآزماچکاتھا‘خداکی نصرت کے بل بوتے پراس کوشکست فاش دی،وہ جواپنی طاقت پربہت گھمنڈکرتاتھا‘جس کواپنے ہتھیاروں اوراپنے عقوبت گاہوں پربڑانازتھا‘جواپنی دولت سے ہرکسی کو خریدنے کادعویٰ کرتاتھا‘اپنی فوجوں کی بہادری اورآہنی محل کے پہریداروںپربڑافخرکرتاتھا‘موت کے فرشتے نے اس کے جسم سے اس طرح جان نکالی کہ آہنی پہریداراورفولادی حلقے اورمضبوط درودیواردیکھتے رہ گئے اوروہ بے بسی کے ساتھ بڑی حسرت ناک اورعبرتناک موت کے سامنے چوں چراِں نہ کرسکا۔اس مردحق کی زنجیریںنئی قیادت نے انتہائی عقیدت واحترام کے ساتھ نہ صرف کاٹ ڈالیں بلکہ تعظیم وتکریم کے تمام جھونکے نچھاورکرڈالے۔قدم قدم پرعقیدت کیشوں نے آنکھیں بچھائیںمگرعظمت کے اس پہاڑ نے فاتحانہ نہیں مگرعاجزانہ چال کے ساتھ سب سے پہلے صبر کے ابلتے ہوئے آنسوو¿ں اور خوشیوں کی چیخوں میں شکرانے کے جہاں نوافل اداکئے وہاں ظالموںکےلئے راہِ ہدائت کی دعائیں کیں۔نئی قیادت نے پرانے مظالم کاحساب دنیامیں چکانے کی کوشش کی تواس مردِ درویش کی آنکھیں غصے سے ابل پڑیں کہ:یہ شاہی اشرفیوں کے توڑے شاہی عتاب کے کوڑوں سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہیں۔یہ دنیاجسے ستم سے نہ دباسکی اب اس کوکرم سے خریدنے کی کوشش کررہی ہے“۔ایک طرف دین کافتنہ تھا‘دوسری طرف دنیاکافتنہ!!شائد ان کووہ واقعہ یادآگیاکہ جب دنیابن سنورکرمحمد عربی کادل لبھانے کےلئے آگے بڑھی تو آنحضرت ﷺ نے دونوں ہاتھوںسے اس کودھکے دیکر نکال دیاتھا‘دنیانے اس وقت کہاتھا”آپ ﷺ تومجھ سے بچ گئے لیکن آپ کے بعد لوگ شائدہی مجھ سے بچ سکیں“۔یہی وجہ تھی کہ وقت کے اس عظیم امام نے شاہی نوازشات کوبھی بڑی حقارت کے ساتھ ٹھکرادیا۔وہ حاکمِ وقت کے نہیں بلکہ حاکموں کے حاکم کے شکرگزارتھے کہ جس نے ان کی ہرمشکل میں نصرت فرمائی اوران کے دل کویہ توانائی بخشی کہ جسم میں سب سے چھوٹے لوتھڑے نے پہاڑوں کوریزریزہ کردیا۔اکثرتنہائی میں اپنی اورمسلمانوں کی بخشش کی دعائیں کرتے تووہاں ایک گمنام شخص ”ابوالہیثم“کی بخشش کی دعائیں بڑی رقت آمیزاندازمیں کرتے۔جب عقدہ کھلاکہ ابوالہیثم ایک چورتھا،جب اس مرد، مجاہدکوپابجولاں کرکے بازاروں اورگلیوں میں رسواکیاجارہاتھاتواس وقت اس چورنے بڑی دلسوزی کے ساتھ کہاکہ:”میں ایک چورہوں اورچوری کےلئے کم وبیش اٹھارہ سے بیس ہزارضربیں اپنی کمرپربرداشت کرچکاہوں‘اس کے باوجودمیرے ارادے ٹس سے مس نہیں ہوئے اورمیری یہ ثابت قدمی دنیاجیسی ناپاک چیز کےلئے تھی۔ہزارافسوس ہوگاتم پراگرتم ”راہِ حق“میں اتنی بھی ہمت نہ دکھاسکو“۔چورکایہ پیغام ان کے دل میں تیرِ حق بن کراترگیااوراس پیغام نے اس مردِ حق کواپنے وقت کاعظیم امام”احمدبن حنبل“بناڈالا۔یہ اس عہدکی کہانی ہے کہ جب ایمان کی آگ سینوں میں اتنی تھی کہ چورکے چندسوزبھرے کلمات نے تاریخ کوایک عظیم الشان مجاہد سے متعارف کروادیالیکن آج سینکڑوں نہیں لاکھوں زبانیں جمع ہوکرجبہ ودستارکی آڑ لیکر فلک شگاف نعرے بھی لگارہی ہیں‘اسی قرآن و سنت سے بے شمارواقعات سناکرجذبات بھی ابھارے جارہے ہیں‘یقینا یہ ایک نیک وصالح عمل ہے لیکن اس کے باوجودجب کبھی ایسا مشکل وقت آن پڑتاہے توواعظ اپنی جان بچانے کوعین فرض سمجھ کرراہِ فراراختیارکرلیتاہے۔اگر کہیں خودنمائی کے مواقع موجودہیں تواس میں شرکت عین ثواب‘اگرکشمیر‘فلسطین اورافغانستان کے عملی جہاد کاذکرتوپھرعین جواب!تقریرکےلئے بہترین سٹیج مہیاکیاجائے توعین عبادت لیکن یہی جبہ ودستارکے پرستاردوستوں سے عمل کی اپیل محض اس لئے کی جائے کہ مسلمان اپنے سچے قول وفعل سے بھی دنیاتسخیرکرسکتاہے توپھر ساری کاوشیں بیکار!!!حصولِ اقتدارکےلئے دن رات نفاذِ اسلام کانعرہ لیکن اقتدارحاصل کرنے کے بعداسلامی اقدارپرپہرہ!ملک کی معیشت کواسلامی خدوخال پراستوارکرنے کا دعویٰ مگرورلڈبینک ‘آئی ایم ایف اورامریکابہادر کے احکام کاپہناوہ!جہادافغانستان اورکشمیرکی جیتی ہوئی بازی استعمارکے کہنے پرہاردی۔کشمیرپچھلے تریسٹھ سالوں سے ظلم وستم کاشکارہے لیکن کشمیرکوفتح کرنے کے دعویدار
اقوام متحدہ میں اس مسئلے کواٹھانے سے گریزاں ہیں۔اگرکوئی جماعت مکمل دین حق کانفاذ چاہتی ہے تواس کوملک دشمن اوربنیادپرست کہہ کرالزامات کی بارش سے نوازدیاجاتاہے۔اغیارکے ساتھ ملی بھگت کرکے آج اسلام کونظامِ عبادت کے طورپر توقبول کیاجاتاہے لیکن نظامِ حکومت کے طورپراس کوناقابل عمل سمجھ کرپس پشت ڈالا جارہاہے۔اسلام جو کہ اخو ت اورمحبت کادرس دیتا ہے آج اس کے نام لیوااورپیشوااپنے مذموم مقاصد کےلئے تفرقہ بازی جیسی لعنت کو گلے لگاکرامت کوپارہ پارہ کررہے ہیں۔ہمارے علماءکاآپس میں دست وگریباں ہونا‘اتحاد کےلئے کی جانےوالی تمام کاوشوں کواپنی ذاتی انااورذاتی مخاصمتوں کی بناءپر سبوتاژکرنا‘کہیں ایساتونہیںیہ دنیاکی چکاچونداورخیرہ کردینے والی روشنی ان کی آنکھوں کے ساتھ ان کے دل کوبھی اپنی زدمیں لے چکی ہے اوراب کتاب اللہ اورسنت رسول اللہﷺکی حفاظت کاکام ان سے واپس لیاجارہاہے۔(خدا نہ کرے)اوریہ کام جواسلام کے نام پرحاصل کئے گئے خطہ ارض پرنہ ہوسکا،اب اللہ تعالیٰ اپنی سنت کے مطابق ان افغانوں اورکشمیریوں سے لے لے جنہوں نے فی الواقع جہادکرکے دنیاکی ایک سپرطاقت کو ٹکڑے کر ڈالااوربہت جلددوسری سپرطاقت کی ریشہ دوانیوں کابھی عبرتناک انجام ہوکررہے گاکیونکہ اب وقت نے بھی اس بات کی گواہی دے دی ہے کہ:فطرت کے مقاصد کی کرتاہے نگہبانی یابندہ صحرائی یامردِ کوہستانیآیئے آج اپنے اسلاف کے کارناموں کی روح کوسامنے رکھ کراپنے مستقبل کے بارے میں سوچیں کہ ہمیں دنیاوآخرت کی فلاح کےلئے کون سا راستہ اختیارکرناہے ۔کیاوہی راستہ وہی نظام حکومت ‘وہی نظامِ عدل جس میں کتاب اللہ اورسنت رسولﷺ سے ہمیشہ ہرپہلوپررہنمائی حاصل کی گئی اورجس کے طفیل حامل کتاب وسنت کودنیاکوامام بنادیاگیا یاپھرکتاب اللہ اورسنت رسولﷺ سے دوری جس نے واقعی ہمیں ہرچیزسے دورکردیا۔اللہ سے دعاہے کہ ہمیں حق پرچلنے اس پر عمل کرنے اوراس کی برملاحمائت کرنے کی توفیق نصیب فرمائے ثم آمین