Home / Socio-political / امریکا پھرہارگیا

امریکا پھرہارگیا

نائن الیون کے واقعے کی جب تک صحیح حقیقت کاپتہ نہیں چل جاتااس وقت تک اس کے ساتھ منسوب مشکوک کہانیاں گردش میں رہیں گی البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس واقعے کے بعد امریکانے افغانستان اورعرا ق کوجس طرح اپنے بہیمانہ غیض وغضب کانشانہ بنایااور چنددنوں میں افغانستان پرستاون ہزارپروازوں سے زائدمرتبہ جنگی جہازوں کی بمباری سے ظلم کی ایسی تاریخ رقم کردی ہے کہ صدیوں تک اس کی بازگشت انسانیت کوشرماتی رہی گی۔ صدیوں کی تاریخ کاامین ایک انتہائی خوبصورت ملک عراق جوکہ ترقی کی شاہراہ پرگامزن تھامحض اس لئے ایک غلط الزام کی پاداش میں تہس نہس کردیاگیاکہ عرب ممالک میں صرف عراق کے پاس باقاعدہ ایک تربیت یافتہ فوج موجودتھی جواس خظے میں اس کے صہیونی بچے اسرائیل کیلئے کبھی بھی خطرہ بن سکتی تھی حالانکہ عراق ایران کی جنگ کے دوران اسرائیل پہلے ہی عراق کے ایٹمی ری ایکٹر کودن دیہاڑے تباہ کرچکاتھا ۔دوسری طرف دنیاکی ایک سپرطاقت روسی جارحیت کے دانت کھٹے کرنے والاافغانستان ابھی سکون کاسانس بھی لینے پایاتھاکہ نائن الیون نے ایک دفعہ پھران کودنیاکی ایک دوسری مگرواحد سپرطاقت کے مقابلے میں لاکھڑاکیااور طاقت اورتکبرکے نشے میں چورامریکا نے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی مگردس سال گزرنے کے بعداب دن رات ان کوششوں میں مصروف ہے کہ کس طرح اس کمبل سے جان چھڑائی جائے۔

نائن الیون کے بعدامریکانے طالبان کے امیرملاعمرمجاہدکے بارے میں اطلاع دینے پرایک کروڑڈالرکاخطیرانعام مقررکیاتھالیکن اب شکست خوردہ امریکاکے مرکزی تفتیشی ادارے ایف بی آئی نے ملاعمر کانام نہ صرف انتہائی مطلوب بلکہ مطلوب افرادکی فہرست سے بھی خارج کردیاہے بلکہ امریکاکے نائب صدرجوبائیڈن نے میڈیاکے سامنے یہ بیان دیاہے کہ طالبان کے ساتھ اب کوئی دشمنی باقی نہیں رہی۔ دوسری طرف افغانستان کی ہائی پیس کونسل نے قطرمیں طالبان کارابطہ دفترکھولنے پرکوئی اعتراض نہیں کیا۔قطرمیں طالبان کے دفترکھولنے کے حوالے سے امریکااورافغانستان کی کٹھ پتلی حکومت کے درمیان اختلاف بھی رونماہوئے ہیں اوراس کے ساتھ ساتھ پاکستان اورایران نے قطرمیں طالبان کادفترکھولے جانے کے حوالے سے اپنے تحفظات کاضرورکیاہے۔

امریکاکی انتہائی مطلوب فہرست سے ملاعمرکے نام کاخارج کیاجانااس بات کی علامت ہے کہ امریکااب افغانستان سے جلدازجلد بحافظت نکلنے کیلئے کوئی بھی قیمت اداکرنے کو تیار ہے ۔طالبان اورامریکاکے خفیہ مذاکرات خاصی طویل مدت سے جاری ہیں۔امریکامیں ۲۱۰۲ء انتخابات کاسال ہے اورصدراوبامہ کی شدیدخواہش ہے کہ افغانستان سے انخلاء پروگرام کے مطابق ہواورخون خرابہ نمایاں طورپرکم یابالکل ختم ہوجائے ،اگراوبامہ یہ دونوں مقاصدحاصل کرلیتے ہیں تووہ دوبارہ امریکاکے صدرمنتخب ہوسکتے ہیں۔حال ہی میں عراق سے امریکی فوجیوں کونکال کرایک ”کارنامہ“پہلے ہی انجام دیاجا چکاہے اوراس کا”کریڈٹ“بھی لینے کی کوشش کی جارہی ہے اوراگرافغانستان سے بھی پروگرام کے مطابق امریکی اوراتحادی افواج کامحفوظ انخلاء ہوجاتاہے توموجودہ امریکی حکومت آئندہ انتخابات میں کامیابی کیلئے اس کاکریڈٹ بھی لینے کی کامیاب کوشش کرسکتی ہے۔

امریکاکے لئے سب سے بڑامسئلہ افغانستان میں اپناجانی نقصان روکناہے اوراس مقصدکیلئے وہ کسی بھی حدتک جانے کوتیارہیں کیونکہ طاقت کاغیرمعمولی بلکہ انتہائی سفاکانہ استعمال بھی کرکے دیکھ لیالیکن طالبان کوطاقت کے ذریعے جھکانے میں وہ بری طرح شکست سے دوچارہوئے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ امریکااورنیٹوفورسزنے جس قدرطاقت استعمال کی ،طالبان اسی قدرمنظم اورمضبوط ہوکرابھرے ہیں۔ملک کے بیشترعلاقوں میں ان کی پوزیشن قابل رشک اورامریکاکیلئے باعثِ تشویش بن کررہ گئی ہے۔جب مغربی فورسزکوعملاً طاقت کے بے محابہ استعمال کے بعدشکست اورہزیمت کاسامناکرناپڑاتوانہوں نے اپنے مزیدجانی نقصان سے بچنے کیلئے طالبان سے مذاکرات کی ٹھانی اوراس معاملے میں امریکاسے بہت پہلے فرانس،برطانیہ،ڈنمارک،ناروے،کینیڈااورآسٹریلیا وغیرہ نے پہل کی۔اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ان تمام ممالک نے طالبان کے مقامی رہنماوٴں سے گفت وشنیدکے ذریعے اپنے فوجیوں کوتحفظ فراہم کرنے کااہتمام کیا۔برطانیہ اورفرانس کے حوالے سے یہ خبران کے اپنے میڈیامیں آچکی ہے کہ کئی طالبان کمانڈرزکوبھاری رقوم اداکرکے بعض علاقوں کومتعلقہ فوجیوں کیلئے”سیف ہیونز“(Safe Heavens) میں تبدیل کیاگیااوراب تو اپنے فوجی دستوں کیلئے محفوط گزرگاہ کیلئے تاوان اداکرنا ایک معمول بن گیاہے کیونکہ جانی نقصان کے بلندہوتے ہوئے گراف کے باعث جب نیٹوافواج کامورال گرنے لگاتواپنے عوام کے احتساب سے بچنے کیلئے طالبان سے بات چیت کرکے ”سیف ہیونز“(Safe Heavens)قائم کرنااب ان کی مجبوری بن گیاہے۔

اس سارے معاملے میں موجودہ کٹھ پتلی حکومت کارویہ خاصاشکائت آمیزرہاہے اورحامدکرزئی کوشکوہ ہے کہ امریکااوراس کے اتحادی بالاہی بالاکچھ کرناچاہتے ہیں۔مغربی طاقتوں کوجلدازجلدمحفوظ انخلاء کی فکرلاحق ہے اورکرزئی اس لئے خوفزدہ ہیں کہ جب دوبارہ طالبان اصل قوت بن کرمتصرف ہونگے توان کاکیاحشرہوسکتاہے۔اسی لئے کئی بارمیڈیاکے سامنے بعض امورمیں اپنے نظراندازکرنے کاگلہ اوراپنے تحفظات کے اظہارکرکے اپنی حیثیت منوانے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں۔ کرزئی کی شدیدخواہش ہے کہ مستقبل میں طالبان کے ساتھ کسی بھی قسم کے رابطے کے حوالے سے ان کونظراندازنہ کیاجائے۔اس کے ساتھ ساتھ وہ آئندہ کی حکومت اوراقتدارمیں اپنی شراکت داری کسی نہ کسی صورت میں یقینی بناناچاہتے ہیں۔

امریکااوراس کے اتحادی اپنی بدترین شکست سے بچنے اورپنی افواج کے محفوظ انخلاء کیلئے اس قدرسنجیدہ اورطالبان کوایسی رعائتیں دینے کیلئے تیارہیں کہ جس کاچندبرس پہلے تصور بھی نہیں کیاجاسکتاتھا ۔ملاعمر کانام انتہائی بلکہ سادہ مطلوب افرادکی فہرست سے خارج کرنے کامقصد ہی یہی ہے کہ ان کی تلاش کاسلسلہ بندکردیاجائے اور اب انعام کی لالچ میں جتے ہوئے افراداس کام سے بازآجائیں البتہ طالبان کادفترکس ملک میں قائم کیاجائے اس حوالے سے امریکا،افغانستان ،پاکستان اورایران کے تحفظات نمایاں ہیں۔امریکاکی خواہش ہے کہ طالبان کادفترقطرمیں قائم کیاجائے کیونکہ اس کاوہاں ایک بڑابحری اڈہ موجودہے جبکہ پاکستان اورایران یہ سمجھتے ہیں کہ قطرمیں دفترقائم کئے جانے کی صورت میں امریکازیادہ اثراندازہوسکے گا۔دونوں ممالک کی خواہش ہے کہ طالبان اپنادفترترکی یاسعودی عرب میں کھولیں کیونکہ ایساکرنے کی صورت میں امریکاکیلئے طالبان پرزیادہ اثراندازہوناممکن نہیں رہے گا جبکہ افغان پٹھوحکومت کوطالبان کے کہیں بھی دفترکھولنے پرکوئی اعتراض نہیں ،بس اس کی خواہش ہے کہ مستقبل کی پیش رفت سے اسے آگاہ رکھا جائے تاکہ بدلتی ہوئی صورتحال میں وہ اپناکوئی دفاع کابندوبست کرسکے۔

اب امریکاکیلئے بڑامرحلہ پاکستان اورایران کے تحفظات دورکرنے کاہے۔اگرطالبان سے روابط بڑھانے کے معاملے میں پاکستان کونظراندازکیاجاتاہے تومصالحت کاعمل نہ صرف ناممکن بلکہ مشکلات سے دوچارہوسکتاہے۔نیٹوسپلائی ابھی تک بحال نہیں ہوسکی ہے اور مستقبل قریب میں اس کے کوئی آثاربھی دکھائی نہیں دے رہے جس کاخمیازہ امریکااوراس کے اتحادیوں کوشدیدمالی نقصان کی شکل میں بھگتناپڑرہاہے۔ضروری سازوسامان بروقت فراہم نہ ہونے کی صورت میں افغانستان میں ان کے فوجیوں کوشدید مشکلات اوردشواریوں کاسامناہے ۔یورپی ممالک بھی اس بات کوسمجھتے ہیں اس لئے وہ پاکستان اورایران کونظراندازیابائی پاس کرنے کوکوئی خطرہ مول لینے کو تیار نہیں ۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کیلئے سب سے بڑامسئلہ کسی نہ کسی طورپرمحفوظ انخلاء کویقینی بناناہے۔

طالبان کو رام کرنے کی کوششیں اسی مقصدکے حصول کیلئے تیزترکردی گئیں ہیں۔صدراوبامہ کے آئندہ انتخاب میں کامیاب ہونے کیلئے افغانستان سے محفوظ انخلاء ازحدلازم ہے اسی لئے امریکیوں کااپنی حکومت پردباوٴ بھی بڑھ رہاہے کیونکہ افغانستان میں جاری جنگ سے معیشت پربھی ناقابل برداشت منفی اثرات پڑرہے ہیں ۔اب تک امریکااوراس کے اتحادی افواج کے جہاں تین ہزارسے زائدفوجی ہلاک اوردس ہزارسے زائدزخمی ہوچکے ہیں وہاں اب تک تیرہ کھرب ڈالرسے کہیں زائدایسی جنگ کی نذر ہوگئے ہیں جہاں فی الحال شرمناک شکست کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آیااورپاکستان کیلئے بھی امریکاسے اپنی بات منوانے کایہ ایک بہترین موقع ہے جبکہ مغربی طاقتیں بھی افغانستان میں امن کے قیام کو یقینی بنانے کے کسی بھی بندوبست میں پاکستان کی شمولیت کوناگزیر سمجھتے ہیں۔

اسلام آبادیہ حقیقت نظراندازنہیں کرسکتا کہ مغربی فورسزکے انخلاء کے بعدکی صورت حال بھی پورے خطے اوربالخصوص پاکستان کی سیکورٹی کیلئے بہت اہم ہے ۔مغربی انخلاء کے بعد کابل میں تشکیل پانے والی حکومت ہی خطے میں امن کے قیام سے متعلق امورکاتعین کرے گی اورپاکستان بھی اپنی سیکورٹی کے حوالے سے افغانستان میں حکومتی تبدیلی کونظرانداز کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔امریکااپنے مفادات کیلئے طالبان کے سامنے جھکاہے توپاکستان کوبھی اس صورتِ حال سے کماحقہ استفادہ کرناچاہئے لیکن اس خطے میں امریکاکی اس دہری چال پربھی نظررکھنے کی اشدضرورت ہے کہ پاکستان پردباوٴ بڑھانے کیلئے امریکانے بھارت کوافغانستان میں نیٹوفورسزکاحصہ بنانے کیلئے گزشتہ سال سے جاری کوششوں کوباضابطہ طورپرگیارہ نکاتی معاہدے کی شکل دے دی ہے اوروسط جنوری میں واشنگٹن میں بھارتی وزیراعظم اوراوبامہ باقاعدہ اس اہم معاہدے پردستخط کریں گے جس کے تحت بھارتی افواج امریکی مقبوضہ ملک افغانستا ن میں نام نہاد دہشتگردی کے خلاف اپناعسکری کردارشروع کردیں گی۔بھارتی افواج افغانستان میں مختلف فوجی آپریشنز میں نیٹوفورسزکی مددکے علاوہ افغانستان کے عسکری اداروں کی مکمل ٹریننگ کاکام بھی سرانجام دیں گی اوردوسری جانب ۳۰دسمبرسے بھارت،اسرائیل اورامریکی افواج مشترکہ طورپرراجستھان میں فضائی جنگی مشقیں بھی جاری ہیں جن میں اسرائیل کے جدید۳۶طیارے،بھارت کے ۳۶طیارے اورامریکاکے جدیدٹیکنالوجی سے لیس۳۰جنگی جہازحصہ لے رہے ہیں۔ اب یہ بھارت کوبھی سوچناہوگاکہ کیاوہ آئندہ معاہدے پردستخط کرکے اس ہارتی ہوئی جنگ میں کرائے کے سپاہی کاکرداراداکرنے کوتیار ہے؟

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *