ایران کے ساتھ امریکہ کا ایٹمی معاہدہ ایک ایسے وقت میں وجود میں آیا ہے جب لوگ افغانستان کے بعد ایران کو امریکہ کا اگلا نشانہ تصور کرنے لگے تھے۔ یہ بات قرین قیاس بھی تھی کیونکہ امریکہ ایران جیسے ملک کو اپنے خلاف رکھنے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ ایران کی جغرافیائی اور سیاسی صورت حال ایسی ہے جو امریکہ کے لیے حد درجہ اہمیت کی حامل ہے۔ ایران کی جغرافیائی صورت حال اسے عراق، افغانستان پاکستان اور چین جیسے ممالک سے جوڑتی ہے جن سے امریکہ کے براہ راست مفا دات جڑے ہیں جبکہ سیاسی طور پر ایران تمام دنیا کے شیعہ مسلمانوں کی قیادت کرتا ہے۔ ان نکات پر اگر غور کیا جائے تو امریکہ ایران کو کسی بھی حال میں طویل مدت تک اپنا دشمن نہیں رکھ سکتا تھا اور اس کے لیے اس نے عرب ممالک میں چلنے والی عرب اسپرنگ کو ایران تک لے جانے کی کوشش بھی کی تاکہ ایران میں ایسی قیادت کو لایا جا سکے جو امریکہ کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہو لیکن امریکہ کی وہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی اور یہ کام ایران میں ہونے والے انتخابات کے ذریعہ عمل میں آیا جسے بین الاقومی سطح پر امید افزا قدم بتایا گیا۔ نئی قیادت انتخابات کے دوران ہی اس بات کا عندیہ دیتی رہی تھی کہ وہ بشمول امریکہ تمام ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہاں ہے اور اس ضمن میں اہم بات یہ رہی کہ حکومت میں آنے کے بعد بھی حسن روحانی اپنی بات پر قائم رہے۔
اس ضمن میں امریکہ کی بھی ستائش کی جانی چاہیے جس نے ایران کے ساتھ اپنے مذاکرات کو ایک سال تک خفیہ رکھا اور یہاں تک کہ اپنے حلیف اسرائیل کو بھی اس کی ہو انہیں لگنے دی۔ جس کے نتیجے میں اسرائیل نے اس معاہدے کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا اور اس کے خطرناک نتائج کی پیشن گوئی کر ڈالی۔ مختلف اخبارات کے مطابق یہ مذاکرات مشرق وسطی کے مختلف ممالک میں ہوتے رہے جن کی بھنک اسرائیل تک کو نہ ہو سکی۔ یہ ایک امید افزا قدم ہے کہ امریکہ ان امور پر اب صرف اسرائیل کی رائے ماننے کی روایت سے انحراف کر رہا ہے جس کی وجہ سے مسلم ممالک میں اس کی ایک نئی شبیہ قائم ہونے کی امید ہے۔ شاید یہ بات اب ریاستہائے متحدہ امریکہ کی سمجھ میں آ گئی ہے کہ صرف اسرائیل کی خوشنودی کے لیے آدھی دنیا کو ناراض کرنا عقلمندی نہیں بلکہ ایک سنگین غلطی ہے جس نے ساری دنیا میں اس کی شبیہ خراب کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
اس بات سے کوئی بھی ذی ہوش انسان انکار نہیں کر سکتا کہ مستقل جنگ کے حالات نہ صرف فلسطین بلکہ اسرائیل کے لیے بھی خوش آئند نہیں ہیں اور اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس جنگ میں لوگ خواہ کسی جانب کے مریں ہیں تو انسان ہی۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بین الاقوامی طاقتیں اگر اتنا سوچ لیتیں تو مختلف جنگوں میں کروڑوں لوگ جانوروں کی طرح سے نہ مرتے۔ انسانیت کے حوالے سے ہمیں اسرائیل اور فلسطین دونوں کے شہریوں سے ہمدردی ہونی چاہیے اور ہے بھی لیکن اسرائیل کی غاصبانہ حکمت عملی کے خلاف بولنا بھی اتنا ہی ضروری ہے کیونکہ حق تلفی کی بنیاد پر دیر پا امن کی عمارت کھڑی نہیں کی جا سکتی ہے۔ اب ضروری یہ ہے کہ اسرائیل بھی اس بات کا ادراک کرے کہ مسلسل جنگ اس کی بقا کی ضامن نہیں ہے بلکہ اب امن کے ذریعہ اپنی بقا کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
ایران کے اساتھ ہونے والے اس معاہدے سے نہ صرف یہ کہ مشرق وسطی اور یورپ کے حالات میں تبدیلی آئے گی بلکہ جنوبی ایشیا کے حالات بھی بدلیں گے۔ ہندوستان میں اس حوالے سے ایک فکر ہمیشہ پائی جاتی رہی ہے کہ ایران کے ساتھ نہ صرف ہمارے تہذیبی اور ثقافتی رشتوں کو فروغ ملنا چاہیے بلکہ ہم تجارتی اور معاشی محاذ پر بھی ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ چلیں کیونکہ آج بھی جو تہذیبی اور لسانی بنیادوں پر استوار رشتہ ہے وہ اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ اس حوالے سے مزید اقدامات درکار ہیں۔ ایران قدرتی گیس سے مالا مال ملک ہے اور اور اس کے علاوہ بھی ایران کے پاس بہت سے وسائل ایسے ہیں جن کی بنیاد پر دونوں ممالی میں معاشی تعاون فروغ پا سکتا ہے ۔ اسی طرح ہندوستان کے پاس بھی ایران کے لیے بہت کچھ ہے جس سے ایران فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ دونوں ممالک کے رشتوں میں اگر کوئی چیز رکاوٹ تھی تو وہ عالمی برادری کی ناراضگی کا خطرہ تھا جو امریکی معاہدے کے بعد ختم ہو گیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ معاہدہ دونوں ممالک کی حکومتوں اور عوام کے لیے مزید قربت کے مواقع فراہم کرے گا۔