Home / Socio-political / فوج کی سیاسی ونگ اور پاکستانی سیاست

فوج کی سیاسی ونگ اور پاکستانی سیاست

فوج کی سیاسی ونگ اور پاکستانی سیاست

پاکستانی سیاست اور فوج کا روز اول سے ہی بڑا گہرا رشتہ رہا ہے ۔ یہ رشتہ گہرا ان معانوں میں نہیں کہ دونوں ایک دوسرے کی مضبوطی کے لئے کوشاں ہیں بلکہ یہ رشتہ حدود سے تجاوز اور مفادات کا ہے۔  یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو اب تک آمر ہی ملے ہیں خواہ وہ فوجی ہوں یا سیاسی فوجی آمروں نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے سیاست کا سہارا لیا اور سیاسی آمروں نے فوج کا  نتیجتاً کبھی ناو پر گاڑی اور کبھی گاڑی پر ناو کے مصداق دونوں برسر پیکار رہے۔ اس نورا کشتی میں فوج بتدریج مضبوط ہوتی گئی اور سیاست کمزور۔ فوج کی خودمختاری بڑھتی گئی اور سیاست فوج کے لئے محض ایک تماشہ بن کر رہ گئی جس میں جب جس کردار سے جی بھر گیا یا برا لگا فورا ً تبدیل کر دیا۔ اسی تماشہ کا ایک حصہ مہران بینک اسکینڈل کی شکل میں سامنے آیااور وہ بھی اس لئے کہ فوج کے ہی ایک شخص ائر مارشل (ریٹائرڈ) اصغر خان نے عدالت میں فوج کے کردار کو چیلینج کردیا۔ ظاہر ہے یہ باتیں ایسی ہیں کہ جب نکلتی ہیں تو دور تلک جاتی ہیں اور گئیں بھی۔  عدالت میں اپنے حلفیہ بیان میں  آئی ۔ ایس ۔ آئی   کے سابق سربراہ اسد درانی نے کہا کہ انہیں آرمی چیف  مرزا اسلم بیگ سے حکم ملا تھا کہ اسلامی جمہوری اتحاد جو پیپلز پارٹی کے خلاف ایک متحدہ محاذ تھی اسے فنڈ فراہم کیا جائے اور اس کے لئے کراچی کی تاجر برادری نے فنڈ جمع کر رکھے ہیں۔  اسد درانی نے یہ بھی کہا کہ انہیں معلوم تھا کہ اس کام کا حکم مرزا اسلم بیگ کو اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان سے ملی ہے۔ اس بیان میں یہ بات بھی سامنے آئی کے آئی ۔ ایس ۔ آئی  میں کوئی سیاسی سیل بھی موجود ہے جس کا ایجنڈا فوج طے کرتی ہے اور اسی ایجنڈے کو بروئے کار لانے کے لئے اس نوع کی تمام تگ و دو کی جاتی ہیں۔  ہر چند کہ اسد درانی نے کسی سیاسی ونگ کی موجودگی سے انکار کیا  تاہم ایک انٹرویو میں حمید گل نے اس بات سے اتفاق کیا تھا اور اس کا بھی انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے بینظیر بھٹو کو سب کچھ سچ سچ بتا دیا تھا۔  ماہرین کے بقول آئی۔ ایس ۔ آئی میں یہ سیاسی ونگ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں قائم ہوئی اور اس کا مقصد یہ تھا کہ اس ونگ کے ذریعے ذوالفقار علی بھٹو اپنے مخالفین کے سیاسی عزائم کو تہہ و بالا کر سکیں۔ لیکن ستم ظریفی قسمت دیکھیں کہ اس ونگ نے ان کی بیٹی کے خلاف ہی محاذ کھڑا کیا اور اس کے لئے تمام حربے استعمال کئے گئے۔

                سوال بہر حال یہ اٹھتا ہے کہ آخر فوج کو سیاست میں مداخلت کرنے کی ضرورت پیش کیوں آتی ہے؟  اس کا جزوی جواب اسی کیس میں جسٹس خلجی عارف کے ریمارکس سے مل جاتا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ فوج میں اب بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو”Bloody Civilians” کی اصطلاح تواتر سے استعمال کرتے ہیں۔ یوں تو یہ بیماری دنیا کی تمام افواج میں کم و بیش موجود ہے تاہم پاکستان میں سیاسی لوگوں نے خود کو اس خطاب کا اہل ثابت کرنے کے لئے کافی مشقت کی ہے۔ سیاست کو اقتدار اور اقتدار کو ذاتی دولت حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھا گیا اس اس کھیل میں سر دھر کی بازی لگائی گئی۔ مقبول ترین عوامی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو نے بھی عوام کو صرف وعدے اور نعرے دئیے جبکہ جاگیر داروں اور وڈیہروں کو فائدہ پہونچایا تاکہ ان کا سیاسی مستقبل تابناک رہے۔  اپنے سیاسی عزائم کو پورا کرنے میں انہوں نے اس بات کا بھی پاس نہیں رکھا کہ فرنٹیئر اور بلوچستا کی حکومتیں منتخب ہیں اور انہوں نے ان حکومتوں کو  گرا ڈالا۔

                ان حالات کو پیش نظر رکھ کر اگر سپریم کورٹ کے اس بیان کو دیکھا جائے کہ “اگر فوج میں سیاسی سیل ہے بھی توبھی وہ کام نہیں کر سکتا” بے معنی نظر آتا ہے کیونکہ فوج اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہے کہ پاکستان کو فوج کے علاوہ کوئی صحیح طریقے سے چلا سکتا ہے۔ اور سیاسی حکومتوں کے دور میں ہی ایک وقت ایسا آتا ہے کہ لوگ تنگ آکر فوج کی طرف دیکھنے لگتے ہیں اور فوج تمسخر سے   “Bloody Civilians” والا اپنا فقرہ دہراتی ہے۔

                چیف جسٹس کو چاہئے کہ وہ ان حالات کے محرکات تلاش کریں جو پاکستان کی اشرافیہ کی مفاد پرستی میں پنہاں ہے۔ مفاد پرست اشرافیہ پاکستان کے ٹکڑے ہوتے ہوئے دیکھ سکتی ہے لیکن عوامی فلاح وہ بہبود کے لئے لینڈ ریفارم نہیں کر سکتی۔  وہ لوگوں کے بے بسی اور غم و غصہ کو دبانے کے لئے مذہبی اور مسلکی تعصبات کا کھیل کھیل سکتی ہے لیکن دوسرے ملکوں کے جمع سرمائے پاکستان نہیں لا سکتی۔  یہ اپنے بچوں کو غیر ممالک تو بھیج سکتی ہے لیکن اپنے ملک کو ان کے لئے بہتر نہیں بنا سکتی۔

                دوسری حکومت آئی تو زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا لندن یا سعودی عرب پکنک منانے چلے جائیں گے لوٹ کو پھر سیاسی لوٹ مار ہوگی اور سلسلہ چلتا رہے گا۔

                یہ وہ سوچ ہے جس نے پاکستان کی فوج میں سیاسی سیل کا جواز فراہم کیا ہے۔ اور غور سے دیکھا جائے تو فوج بھی اسی اشرافیہ کا حصہ ہے اور اس لوٹ مار میں برابر کی شریک۔ جو اسکینڈل سامنے آتا ہے اس میں فوجی جنرل اور کرنل موجود ہوتے ہیں اور اس کی تازہ مثال بحریہ ٹاؤن کا معاملہ ہے۔ فوج اپنے ایجنڈاپر عمل در آمد کے لئے سیاسی ونگ رکھنے سے باز نہیں آئے گی خواہ وہ اعلانیہ ہو یا خفیہ ۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *