Home / Socio-political / امریکی پالیسی اور پاکستانی مفادات

امریکی پالیسی اور پاکستانی مفادات

عباس ملک

 

امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کی وضاحت آج تک کسی بھی فورم سے یا حکومت کے کسی بھی ڈیسک کی جانب سے عمومی طور پر تو شاید کی گئی ہو لیکن عوامی طور پر اسے کبھی وضاحت نہیں مانا اور سمجھا گیا ۔امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کو ایک طرف دوستانہ قرار دیا جاتا ہے تو کہیں انہیں سڑیجڈک پارٹنر لکھا اور بولا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ کولیشن پارٹنر اور فرنٹ لائن اتحادی کے الفاظ بھی ان تعلقات کو سمجھانے کیلئے استعمال کیے جاتے ہیں ۔ان سارے الفاظ کا مجموعہ حقیقت میں پاکستان کے عوام کی خواہشات اور مفادات کو استعمال کرنے والے سیاستدانوں کی بے حسی میں سمویا ہوا ہے ۔ریاستوں کے تعلقات کی نوعیت کیا ہوتی ہے ۔سپر پاورز اور ترقی پذیر ممالک کے تعلقات کا توازن کیا مساوی ہوتاہے۔امریکہ کے دیگر ممالک سے تعلقات کی نوعیت یا ہر ملک سے اس کی جغرافیائی اور گلوبل اہمیت کے حساب سے تعلقات ہیں یا ہر ملک سے مساوی بنیاد پر تعلقات کو اہمیت دی جاتی ہے ۔ماہرین کی رائے صائب ہی کہلائے گی لیکن ایک طالب علم کے ذہن میں اٹھتے ہوئے سوالات کی اہمیت اس سے کم نہیں ہو گی ۔امریکہ کی خارجہ پالیسی کو انتہائی مختصر الفاظ میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے استعمال کرو۔امریکی ہر خاص و عام کو استعمال کرتے ہیں لیکن خود استعمال ہوتے ہیں ۔یوں کہنا زیادہ درست ہو گا کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی پر جیوش نظریات کا غلبہ ہے ۔جیوش نظریہ نسلی امیتاز اور اقوام عالم کی غلامی سے منطق ہے ۔کہنے کو تو امریکہ ایک سیکولر سٹیٹ ہے لیکن در حقیقت امریکہ کے حکمران اور پالیسی میکرز کی اکثریت جیوش نظریات کی پیروکار ہے ۔امریکہ کی اکانومی کے بنیادی اداروں پر جیوش افراد کی اجارہ داری امریکن حکمرانوں اور پالیسی سازوں کو جیوش نظریات کے چنگل سے باہر نہیں آنے دیتی ۔امریکی حکمران اپنے ملک اور قوم کے انتہائی وفادار اور نگہبان ہیں ۔اس کا ثبوت ان کی ان تمام کوششوں کو قرار دیا جا سکتا ہے جو وہ اپنے ملک اور عوام کے مفاد کیلئے کرتے ہیں ۔امریکی حکمرانوں نے اپنے ملک اور قوم کی حفاظت کیلئے مسلمانوں کو اولین خطرہ جانتے ہوئے تمام اسلامی ممالک کو ہر طرح کے گروہی ،لسانی جسمانی اور روحانی قضیوں میں الجھا رکھا ہے تاکہ وہ امریکہ کی طرف میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکیں ۔زبان سے امریکہ کے خلاف نفرت کا اظہار کرنے والے مسلمانوں کی امریکن ایمبیسی کے باہر قطاریں دیکھ کر ان کی امریکہ سے محبت اور نفرت کو یقینا محسوس کیا جا سکتا ہے ۔امریکی حکمرانوں نے اس الجھی ہوئی امت کے اکابرین کو زندگی کی رنگینیوں کو ضروریات زندگی کی طرح متعارف کراکے انہیں انہیں اثیر دنیا بنا دیا ہے ۔اب اکابرین کی تما م تر توانیاں وتفکر ان کے حصول کیلئے وقف ہے ۔امریکہ اور امریکی قوم مسلمانوں کی تلوار کی کاٹ سے محفوظ و مامون ہیے۔اقوام عالم کے درمیان امریکن پالیسی کے اس واضح فرق کو محسوس کرنا ہر گز کوئی دشوار امر نہیں جو اس نے مسلم اور اقوام دیگر کے درمیان وضح کر رکھی ہے ۔یہ ان کا حق ہے کہ وہ اپنے مفاد اور اپنے دفاع کیلئے جو حربہ چاہیں استعمال کریں ۔ہم امریکن سے توقع کیوں رکھتے ہیں کہ وہ پاکستان اور مسلمانوں کو مضبوط بنائیں گے ۔انہیں کمزور اور مغلوب کرنے کی پالیسی ترک کر دیں گے ۔نہ تو وہ مسلمان ہیں کہ ان سے کسی اصول ،ضابطے یا اخلاقیات کی توقع رکھی جائے ۔نہ ہی وہ ہمیں اپنے آپ پر مقدم جان کر اپنے ملک اور قوم کے مفادات کو ہمارے قدموں پر نچھاور کرسکتے ہیں۔ امریکہ کی پالیسیوں کی مخالفت اور بات ہے اور امریکہ کی بحیثیت سرزمین مخالفت اور بات ہے یہ ایسا نقطہ نظر ہے جس پر اکابرین گفتگو کے دوران خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ کی سرزمین اگر نہ ہو تو امریکن پالیسی کا وجود ہی عنقی ہو جائے ۔اس لیے لا زم و ملزوم ہونے کے ناتے دونوں ایک ہیں ۔کیا امریکہ کی مخالفت کی جانی چاہیے ۔یقینا ہر دشمن کی مخالفت ہی جاتی ہے۔امریکہ مسلمانوں کا دشمن ہے تو پھر اس کی مخالفت کیوں نہ کی جائے ۔امریکہ مسلمانوں کا کہاں دشمن ہے!امریکہ تو ہر مسلمان ملک کو امداد ڈالز میں دیتا ہے ۔اس کے بھگوڑوں کو پناہ دیتا ہے ۔ان کے فارن کرنسی اکاؤنٹس کی حفاظت کرتا ہے ۔ہمیں دفاعی ساز و سامان دیتا ہے ۔ہمیں ہر زلزلے اور ہر سیلاب پر ڈالرز سے نوازتا ہے تو پھر ہمارا دشمن کیسے ہو ا؟دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم فرنٹ لائن اتحادی ہیں کولیشن پارٹنر ہیں ،قربانیاں ہم نے سب سے زیادہ دی ہیں پھر امریکہ ہمار ی جگہ پر انڈیا کو سول نیو کلیئر ٹیکنالوجی کیوں دے رہا ہے ۔سب سے پہلے تو دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنا یا پر ایا کس کھاتے میں ڈالاجائے ۔اگر اپنی جنگ ہے تو پھر قربانی تو دینا ہی پڑے گی ۔دشمن آپ پر پھول نہیں برسائے گا۔نہ ہی افواج پاکستان کے جوانوں کے ماتھے چومے جائیں گے ۔اگر اپنی نہیں تو پھر اس میں شامل کیوں ہوئے ۔اونٹ سے یاری لگائی ہے تو در بھی اونچے رکھیں۔دونوں عوامل میں ہم کسی بھی معیار پر پورا اترنے کی بجائے معیار سے گرے ہوئے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ گرے ہوئے ہیں۔قومیں لیڈر شپ کی محتاج ہوتی ہیں۔قومیں اصولوں اور اقدار کی پیروکار ہوتی ہیں۔نہ ہمارا لیڈر اور نہ ہم اصولوں اور اقدار کو قریب آنے کی اجازت دیتے ہیں۔ایسے میں غلامی کی ان دیکھی زنجیر میں خود کو جکڑا ہو ا بے بس پاتے ہیں۔یہ ہماری اپنی کوتاہی اور اکابرین کی غلطیوں کا خمیازہ ہے ۔ایک طرف ہم دعوی کرتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کے غلام ہیں ۔بجائے اس کے اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی تابعداری کریں ہم کہتے ہیں کہ دنیا میں رہتے ہوئے دنیا
داری تو رکھنا پڑتی ہے۔یہ حضور کا فرمان نہیں یہ تو لا مذہب فلسفی کا فلسفہ ہے ۔فلسفہ اللہ اور اس کے رسول کا نہ مان کر ہم اللہ اور رسول کو دھوکا دیتے ہیں ۔ان کی پکڑ سے پھر کیسے مامون ہو سکتے ہیں ۔دنیاداروں کیلئے دنیاداری کے مسائل تو ہونگے ۔اللہ والوں کے مسائل خواہ وہ دنیا سے ہوں یا آخروی ہوں اللہ تعالیٰ اسباب پیدا فرماتا ہے ۔حرف آخر یہی ہے کہ امریکہ ہمارا دشمن نہیں ہم اپنے دشمن آپ ہیں ۔ہم خود مصائب و الام کو اکھٹا کرتے ہیں اور مظلومیت کی بھیک اور خیرات پر جینا چاہتے ہیں۔مظلومیت کا بہروپ بھر کر ووٹ حاصل کرکے اسمبلی میں جا کر مظلوم عوام کے حقوق کی نگہبانی کی بجائے اپنی مظلومیت کو ڈالرز میں کیش کرانے کی دوڑ میں شامل ہونے والوں سے عوام کی نگہبانی کی توقع رکھنا عوام کی اپنی غلطی ہے ۔مظلوم عوام کے نمائیندے کس کی نمائیندگی کریں اپنی یا اپنے عوام کی ،پھر ظلم کا راج کیوں نہ ہو۔قوم اگر ظالم اور مظلوم کے فرق کو دور کرنا چاہے تو یہ اس کی اپنی صوابدید ہے ۔آیا وہ ان مظلوموں کو ہی آئیندہ اپنی مظلومیت کی نمائیندگی کیلئے ہی منتخب کریں گے ۔ جب محافظ ہی ڈاکو بن جائیں یا بیچنے پر آ جائیں تو خریدار کا قصور کیا ہے ۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *