امریکا کے اخبار ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘کی ویب سائٹ پر تحقیق کیلئے کچھ ڈھونڈ رہا تھا کہ ۲۱مئی ۲۰۰۴ء کے اس کالم پر نظر ٹھہر گئی۔جوں جوں پڑھتا جا رہا تھا رگوں میں دوڑتا ہواخون جمنے لگا۔خود امریکا کے اس اہم اخبار نے دنیا کی اس روشن خیال اور مہذب قوم کو جو تصویر پیش کی ہے ،ہمارے ملک کے روشن خیال اور دن رات امریکا کی تعریفوں کے پل باندھنے والے بھی کھلی آنکھوں سے اپنے مربی اور آقا امریکا کا چہرہ دیکھ لیں جو ’’روشن خیال‘‘قوم ہونے کا دعویٰ تو کرتا ہے لیکن اس قوم کا اندرون چنگیز سے بھی تاریک تر ہے۔ابو غریب جیل میں عراقی قیدیوں نے امریکی تفتیشی افسران کے روبرو جو حلفیہ بیانات ریکارڈ کروائے ہیں ،ان سے معلوم ہوتا ہے کہ چنگیز اور ہلاکو کے مظالم امریکا کی فوجی پولیس کے شرمناک تشددکے سامنے ہیچ دکھائی دیتے ہیںاور چنگیز اور ہلاکواگر زندہ ہوتے تو یقینا امن کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتے۔
قیدی قاسم مہدی حلاس نظریں جھکائے اپنے حلفیہ بیان میں کہتا ہے کہ’’جب وہ ابو غریب جیل پہنچا تو فوجی درندے تیزی کے ساتھ اس کی طرف لپکے اور اس کے بدن کے سارے لباس کو چند لمحوں میں تارتار کرکے ننگا کردیااور سب کے سامنے شدید قسم کا تشدد کیاجو ناقابل بیان ہے اور اسی مہدی حلاس نے یہ بھی بتایا کہ اس نے بچشم خود دیکھا کہ ایک فوجی ترجمان نے ایک عراقی بچے کے ساتھ جس کی عمر پندرہ سے اٹھارہ سال تھی،بدفعلی کی ۔اس بدترین ظلم کی بناپر وہ بچہ بعد میں اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا‘‘۔ایک اور قیدی محمد جمعہ نے اپنے حلفیہ بیان میں بتایا کہ’’ جب اسے جیل لایا گیا تو سب سے پہلے اس کا لباس اتار کر سب کے سامنے ننگا کرکے بہیمانہ تشدد کیا گیا،اسے اگلے چھ روز اسی حالت میں ننگا رکھا گیا۔‘‘اسی قیدی محمدجمعہ نے یہ بھی بتایا کہ ’’اس کے سامنے ایک باپ بیٹے کو بھی جیل میں لایا گیا،ان کے چہروں کوتھیلوں سے ڈھانپ کر ان کے بھی کپڑے اتار دیئے گئے اور اچانک کچھ فوجیوں نے ان پر بے پناہ تشدد شروع کردیا۔نوجوان یہ تمام تشدد اور سختی خاموشی سے برداشت کرتا رہا لیکن اس کا بوڑھا بہرہ باپ اپنے سر پر تھیلے کی وجہ سے یہ نہ جان سکا کہ یہ شور اس کے بیٹے پر ہونے والے تشدد کا ہے۔ کچھ دیر تشدد کے بعد اس نوجوان کے منہ کے اوپر سے تھیلا اتاردیاگیا۔جونہی بیٹے نے اپنے والد کو اس حال میں دیکھا تو دھاڑیں مارمار کر رونا شروع کردیا۔قیدی جمعہ نے اپنے حلفی بیان میں مزید یہ بھی کہا کہ کئی بار جیلرگارنر نے کھانا لیٹرین(بیت الخلاء)میں ڈال دیا اور قیدیوں سے کہا کہ وہ وہاں سے اٹھا کر کھانا کھائیں۔
قیدی نمبر ۱۳۰۷۷حیدرصابر نے اپنے حلفیہ بیان میں کہا کہ انہوں نے ہمیں ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل کتوں کی طرح چلنے پر مجبور کیا،وہ ہمیں کتوں کی طرح بھونکنے کا حکم دیتے، اگر ہم انکار کرتے تو ہمارے چہروں اور سینوں پر تھپڑوں کی بارش کر دیتے۔ایک اور قیدی الشیخ نے اپنے حلفی بیان میں کہا کہ اسے ۱۷/اکتوبرکو گرفتار کیا گیااور اسی روز ابوغریب جیل میں لایا گیا ۔پہلی رات تو اسے ایک خیمے میں رکھا گیا ،دوسرے روز اسے ایک دومنزلہ عمارت میں منتقل کردیا گیاجو تشدد کے حوالے سے مشہور تھی۔اس نے بتایا کہ ایک بوری اس کے سر پر چڑھا دی گئی اور آناً فاناً اس کے کپڑے بھاڑ دیئے گئے اور اس کو ننگا کردیا گیا۔امریکی سپاہیوں نے اپنے طنزیہ تبصروں کے ذریعے اس پر طنزوطعن کے تیر برسانے شرع کر دیئے۔ایک نے پوچھا کیا تم اللہ سے دعا مانگ رہے ہو؟میں نے اثبات میں جواب دیا تو سپاہی نے مجھے اور اللہ کو (نعوذباللہ)دونوں کو گالیاں دینی شروع کر دیں۔
انہوں نے کہا تم یہاں سے صحیح سلامت ہرگز باہر نہ جا سکو گے بلکہ ساری عمر کیلئے تمہیں معذور بناکر ہی بھیجیں گے۔اس نے مجھ سے پوچھا کیا تم شادی شدہ ہو؟میں نے اثبات میں جواب دیا تو اس نے کہا کہ اگر تمہاری بیوی تمہیں اس حالت میں دیکھ لے تو اسے کتنا افسوس ہوگا۔پھر ان میں سے ایک نے کہا کہ اگر میں اس کی بیوی کو اس وقت دیکھ لوں تو اسے کوئی افسوس نہ ہوگا کیونکہ میں اس کی عزت لوٹ چکا ہوں۔ اسی قیدی الشیخ نے بتایا کہ ایک سپاہی نے اس کی ٹوٹی ہوئی ٹانگ پر لاٹھیوں کی بارش کردی اور اسے اسلام کو برا بھلا کہنے پر مجبور کیا۔سپاہی نے الشیخ سے پوچھا کہ تمہارا کس پر ایمان ہے؟قیدی نے کہا کہ میرا ایمان اللہ پر ہے، جواباً سپاہی نے کہا کہ میرا ایمان تو تشدد پر ہے اور میں تمہیں مسلسل تشددکا نشانہ بناتا رہوں گا،اس کے بعد کیا گزری،پڑھکر دل دہل گیا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کی یہ رپورٹ پڑھتے ہوئے میرا دل گھبرانے لگا اور شدتِ غم سے میری آنکھوں کی نمی نے مجھے مزید پڑھنے سے روک دیا۔شائد میری زندگی کا سب سے اذیت ناک کالم ہے ۔اس رپورٹ میں قیدیوں پر عینی تشددکے بہیمانہ واقعات اور بھی درج ہیں لیکن میرا قلم انہیں تحریر کرنے سے قاصر ہے۔اس تفتیش کے دوران ملٹری پولیس کے کئی افسران نے کہا کہ انہیں امریکی انٹیلی جنس کی طرف سے قیدیوں پر تشددکرنے کے احکامات موصول ہوئے تھے،ہم نے تشدداپنے طور پر نہیں کیا۔۔۔۔۔۔ایک تحقیق کے دوران ان اعلیٰ امریکی رہنماؤں کے نام بھی سامنے آ چکے ہیں۔کیا عافیہ کو مجرم قرار دینے والی جیوری نے ان افرادکو بھی مجرم قراردیا ہے یا کہ نہیں؟اگر ایسا نہیں ہوا تو تاریخ میں اس دوغلے پن پر جو لعنت بھیجی جائے گی بالآخر ان کا مقدر ٹھہرے گی اور آئندہ امریکی نسل ان ظلم و عفریت کے سیاہ داغ اور دھبوںکو اپنے خون سے دھوبھی سکے گی؟
ابو غریب جیل ،کوفہ و نجف،بغداد و کربلا اورغزہ و رفاہ غرضیکہ قدم قدم پر امریکا نے براہِ راست یا اپنے لے پالک اسرائیل کے ذریعے مستقل قید خانے کھول رکھے ہیں اور دوسری طرف بھارتی ہندو بنیا کشمیر میں خون ِمسلم سے ہولی کھیل رہا ہے ۔۲۰۰۸ء اور۲۰۱۰ء کی ایجی ٹیشن کے دوران جاں بحق ہوئے نوجوانوں کی ہلاکت میں ملوث افرادکو ابھی تک سزائیں نہیں دی گئی اور نہ ہی متاثرین کو کوئی انصاف فراہم نہیں کیا گیا اور وہ آج تک انصاف کے منتظر ہیں۔کشمیری قیادت کومحض اس لئے نظربندکررکھاہے کہ وہ بھارتی سیکورٹی اداروںکے ظلم وستم وناروازیادتیوںکے خلاف نہ صرف سراپااحتجاجی تحریکوں کی قیادت کرتے ہیںبلکہ عالمی میڈیاکوبھی اس سے باخبررکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اس وقت عالمِ اسلام کے عوام ہر سطح پر ان ظالموں کو برا بھلا کہہ رہے ہیں،بے بس اس کے علاوہ کر بھی کیا سکتے ہیںالبتہ عالمِ اسلام کے حکمرانوں کی بے حسی ناقابل فہم ہے۔
علاوہ ازیںاس وقت دنیا کے امن پسند اور منصف مزاج لوگوں کو یہ سمجھانے کی بھی ضرورت ہے کہ امریکا دنیا میں ظلم کا بازار گرم کرکے عالمی امن کوتہہ و بالا کر رہا ہے۔امریکی، اسرائیلی اوربھارتی جنگی جرائم محض مسلمانوں کے خلاف نہیں،ساری انسانیت کے خلاف ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی کانفرنس یورپ کے چند ممالک ،روس اور چین کی مددسے ایک نیا عالمی ادارہ انصاف قائم کرے جو صحیح معنوں میں اپنے چارٹر پر عمل کروائے۔دنیا میں اس وقت تک امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک ظلم کا خاتمہ نہ ہو۔امریکا دنیا میں امن بذریعہ ظلم قائم کرنا چاہتا ہے جو ناممکن ہے ۔امریکا کو جتنی جلدی یہ بات سمجھا دی جائے اتنا ہی عالمی امن کیلئے مفید ہوگا۔ دنیا میں اس ظلم کا ساتھ دینے والے مسلمان ممالک کے ان رہنماؤں کو بھی انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنا ہو گا جو اس جرم میں برابر کے شریک ہیں اور اس وقت امریکی آشیرباد سے اپنی عوام اور ملک کے وسائل کو اس ظلم کی بھٹی کا ایندھن بنا رہے ہیں۔
فلسطین،عراق اور کشمیر میںظلم و ستم کی خونیں لہروں سے نبردآزمااہل جرأت و عزیمت کے ہاتھ شل ہو چکے ہیں،اگرچہ انہوں نے ہمت و استقامت کے چراغ روشن کر رکھے ہیں اور اب دوٹوک فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے!میاںنواز شریف نے بھارت اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کی خواہش کادوبارہ اظہارکرتے ہوئے کہاہے کہ بات چیت کے عمل کو وہیں سے آگے بڑھایا جائے گا جہاں یہ۱۹۹۹ء میںرک گیا تھا ۔پاکستانی قوم نے نواز شریف کا تیسری مرتبہ پاکستان کا وزیر اعظم منتخب کرکے انہیں تاریخی موقعہ فراہم کیا ہے اوردونوں ممالک میںپائیدارامن اسی وقت قائم ہوسکتاہے جب مسئلہ کشمیرکے منصفانہ حل کی طرف فوری پیش رفت کی جائے ۔ دونوں ملکوں کو اس موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے تعلقات میں بہتری اور تمام مسائل کے حل پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔
سنا ہے کہ ہمارے صدرِ زرداری کا روزانہ چار کالے بکروں کا صدقہ اتارا جاتا ہے۔کیا روزانہ ان بیسیوں بے گناہ پاکستانیوں جن کے ڈرون حملوں میں پر خچے اڑا دیئے جاتے ہیں، آخر کب تک ہمارے حکمران ان بے گناہ ومعصوم پاکستانیوںکا صدقہ محض اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے ادا کرتے رہیں گے؟اس کا بھی تو حساب لیا جائے گا؟؟؟آئے دن پوری قوم کو اضطراب کی سولی پر چڑھا دینے کا بیجا شوق کب ختم ہوگا۔
رہے نام میرے رب کا ‘جس کے گھر میں دیر تو ہے لیکن اندھیر نہیں!
میں جل رہا ہوں کسی تیرگی کے منظر میں بلا رہی ہے مجھے روشنی دریچوں سے
ثباتِ عرصۂ تیر ہ شبی کا ذکر نہ کر گلے ملے گی کبھی روشنی دریچوں سے
ہفتہ۲۹رجب المرجب ۱۴۳۴ھ۸جون ۲۰۱۳ء
لندن