ابرار احمد اجراوی
جے این یو، نئی دہلی
افغانستان اورعراق پر نام نہاد فتح حاصل کرنے اور وہاں کی زمام حکومت اپنے خصوصی کارندوں کو تھمانے کے بعد گزشتہ دس سالوں سے امریکہ کی خون خوار نظریں ایران پر ٹکی ہوئی ہیں۔ بار بار نہ صرف امریکی حکمرانوں ، بلکہ امریکہ کے چشم وابرو کے اشارے پر کام کرنے والے سلامتی کونسل کے اراکین کی طرف سے ایسے سرکاری بیانات اخبارات میں شائع ہو رہے ہیں، جن سے اشتعال، تعصب اور منافرت کی بو آتی ہے۔”ایران بدی کا محور ہے“، ”ہمارا سب سے اہم مقصد یہ ہے کہ ایران ایٹمی صلاحیت کا مالک نہ بنے“، ” ایران کو اپنے ایٹمی توانائی کے حصول کے ارادوں سے باز آجانا چاہیے“،” ایران یورینیم افزودہ کرنے کی سر گرمیاں بند کردے“ ، اس قسم کے آتشیں اور تہدید آمیز بیانات تو عرصے سے اخبارات کی شہہ سرخیوں میں چھپتے رہے ہیں۔امریکہ نے ایک بار پھر ایران کے ارد گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کردیا ہے۔ امریکہ نے نہ صرف یہ کہ جوہری پروگرم کے تنازغ کو طول دیتے ہوئے ماہ گزشتہ ایرانی تیل کی برآمدات پر پابندیاں عائد کردی ہیں، بلکہ یورپی یونین کے ممالک نے بھی ایران کے خلاف ایسی پابندیوں سے اتفاق کیا ہے۔چناں چہ ایران کی تیل بر آمدگی پر پابندی عائدکرنے کے لیے وزرائے خارجہ کی میٹنگ ۲۳/ جنوری کو منعقد ہونے جارہی ہے۔ یوں تو امریکہ کی ہٹ لسٹ میں ایران کے علاوہ شام، سوڈان اور شمالی کوریا کا نام بھی شامل ہے، تاہم چوں کہ شمالی کوریا ۱۹۵۰ء اور ۱۹۵۳ء میں امریکیوں کو جنگ کے میدان میں شکست کی دھول چٹا چکا ہے اور اب بھی وہ امریکہ کی طرف سے ہونے والی کسی بھی جنگ یا اس کی طرف سے متوقع کسی بھی حملے کا جواب اینٹ کے بجائے پتھر سے دینے کے لیے پوری طرح کمر بستہ ہے، اس لیے امریکہ کی ساری ستم رانیوں کا محور اس وقت ایران ہے اور ایران کے خلاف مجوزہ جنگ کا محاذ کھولنے اور اس پر سخت قسم کی اقتصادی اور معاشی پابندیاں عائد کرنے کے لیے امریکہ ہر دم پیچ وتاب کھاتا رہتا ہے۔ ایران کی گوشما لی اور اس کو بزور طاقت’ راہ راست پر لانے‘ اور وہاں کی بساط حکومت پلٹنے کے لیے ہر طرح کے سیاسی اور سفارتی حربوں سے کام لینے کے لیے امریکہ ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہے۔ حد تو یہ ہے کہ امریکہ کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے اقوام متحدہ نے بھی بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ذریعے تلاش وجستجو کی مہم میں ایران کی ناک میں دم کردیا ہے۔ چناں چہ چند روز پہلے ہی اقوام متحدہ نے یہ کہا ہے کہ ایران نے مقدس شہر قم کے نزدیک فردو نامی ایک بنکر میں اپنے زیر زمین پلانٹ میں یورنیم کی بیس فی صد افزودگی شروع کردی ہے۔اس سے شہہ پاکر انٹر نیشنل اٹامک انرجی کے اعلی اہل کاروں کا ایک وفد اس ماہ کے آخر( ۲۸ /جنوری) میں ایران کے لیے پرواز بھرنے والا ہے، تا کہ وہ تہران کو عالمی برادری کی تشویش سے آگاہ کرسکے۔
ایران کے حوالے سے امریکہ کے مذکورہ سخت رویے کی کئی وجہیں ہیں۔ (۱) امریکہ کا یہ ماننا ہے کہ عراق میں روز بروز بڑھتی مزاحمت اور امریکی خوابوں کو تعبیر کا جامہ پہنانے والے حکومتی اہلکاروں کے خلاف محاذ آرائی کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے۔ (۲) شاہ رضا پہلوی کی نام نہاد اسلامی حکومت کا تختہ پلٹنے کے بعد، اس خطے کے حوالے سے ترتیب دی جانے والی امریکی حکمت عملی اسلامی انقلاب کے سیلاب میں خس وخاشاک کی طرح بہہ چکی ہے، ایرانی سر زمین پر امریکی جمہوریت کی تخم ریزی اور ایران کے گھر آنگن میں مغربی طرز زندگی کے ہاتھ پاوٴں پھیلانے کی راہ میں یہی اسلامی انقلاب سد سکندری بن کر حائل ہے۔ (۳) عراق کی طرح ہی ایران بھی قدرتی ذخائر سے مالا مال ملک ہے، جس پر امریکہ ہر حال میں ہاتھ صاف کرنا چاہتا ہے، تا کہ امریکہ کی رو بہ زوال معیشت کی کمر مضبوط کی جاسکے۔ (۴) امریکہ کے حلق میں یہ بات کسی طرح نہیں اتر رہی ہے کہ کوئی بھی مسلم ملک نیو کلئیر اسلحوں کے حصول کی تو خیر بات چھوڑ دیجیے، ادنی طاقت کے حصول کی راہ پر بھی چل پڑے۔(۵) اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کو بروئے کار لانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ایران کا ” وجود نامسعود “ ہے۔ (۶) اسرائیل اور امریکہ کے منصوبوں کو ناکام بنانے والے ”حزب اللہ“ کی ایران ہمیشہ اخلاقی اور مالی حمایت کرتا رہا ہے۔
۱۱/ ستمبر کے حملوں کا بے بنیاد الزام اسلامی دنیا کے سر منڈھنے اور اسے مذہبی جنگ اور تہذیبی تصادم کا عنوان قرار دینے کے بعد افغانستان وعراق کو تہس نہس کرکے امریکہ کو یہ یقین ہو گیا ہے کہ عالم اسلام کے ہر خطے پر بالادستی حاصل کرنے سے اسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ چناں چہ امریکہ ہر اس مسلم ملک کو ترچھی نظروں سے دیکھ رہا ہے، جو اس کے اہداف کو بہ عجلت رو بہ عمل لانے کی راہ میں حائل ہوسکتا ہے۔ اسرائیل چوں کہ امریکہ کا منظور نظر ہے اور ایران نیو کلیائی توانائی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم ، خلیجی ممالک میں اس کی بڑھتی دخل اندازی اور آگ وخون سے کھیلنے کی اس کی حد سے بڑھی انا کو چیلنج کرسکتا ہے، اس لیے امریکہ، ایران کے نیو کلیائی ٹیکنالوجی کے حصول کی راہ پر بڑھتے قدم کو روکنے کے لیے بے تاب ہے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ یہ سب کچھ اسرائیل کے اشارے پر ہو رہا ہے۔ واقعہ بھی یہی ہے کہ امریکہ کے پالیسی سازوں پر اسرائیلیوں کا کنٹرول ہے۔ یہی وجہہ ہے کہ اگر کوئی امریکی صدر ہمت اور حوصلے سے کام لیتے ہوئے صہیونی مقاصد کو رو بہ عمل لانے کی مفوضہ ذمے داری سے سر مو بھی انحراف یا چشم پوشی کر تا ہے تو اسے اپنی جان اور مال کی خیر منانی پڑتی ہے۔ چناں چہ جس طرح امریکہ نے عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کا بہانہ بناکر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی، اسی طرح ایران کی جوہری تنصیبات کا ہوا کھڑا کرکے اس پر بھی سرا سر ناجائز اور انسانی تاریخ کی ایک اور شرمناک جنگ تھوپنے کے لیے تیار ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے اشتعال انگیز بیانات اور ایران کے خلاف معاشی ناکہ بندی سے امریکہ کا جنگی جنون والا چہرہ بے نقاب ہو گیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے ۱۱/ جنوری۲۰۱۲ء کو اپنے بیان میں صاف کہا :” ایران کا یہ ( یورنیم افزودہ کرنے کا عمل) قدم مظہر ہے کہ احمدی نژاد حکومت کو اپنی ذمے داریوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ اور ایران اپنے اعمال کی وجہہ سے تنہا ہوتا جارہا ہے۔ ․․․تازہ ترین اقدام خاص طور پر موجب تشویش ہے، کیوں کہ اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ “
سر دست امریکہ یورپ سمیت پوری عالمی برادری کو یہ باور کرانے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف ہے کہ ایران کا ایٹمی پروگرام امن عالم کے لیے بڑے خطرے کا پیش خیمہ ہے، جب کہ ایران اپنے حکمرانوں کی زبانی بار بار عالمی برادری کو اس بات کی یقین دہانی کرا چکا ہے کہ اس کا مقصد نیو کلیائی ٹکنالوجی کا پر امن استعمال کرنا ہے اور بس۔ تاکہ اس کے دریعے بجلی کی قلت کے مسائل حل کیے جاسکیں۔ چناں چہ ۱۲/ جنوری ۲۰۱۲ء کومعتبر خبر رساں ایجنسی رائٹر میں ایران کے جوہری پروگرم کے حوالے سے یہ خبر شائع ہوئی کہ:” ایران مغرب کے ان شبہات کو مسترد کرتا ہے کہ اس کا نیو کلیائی پروگرام حربی نوعیت کا ہے۔ ایران خالصتا مر امن مقاصد رکھتا ہے۔ آج سے چھ سال قبل بھی ۲۴/ فروری ۲۰۰۵ ء کی اشاعت میں بھی رائٹر نے یہی کچھ لکھا تھا کہ:” ایران اعلی معیار کا نیو کلیائی ایندھن تیار نہیں کرے گا، کیوں کہ وہ نیو کلیائی اسلحہ بنانے کے کام آتا ہے، جب کہ ان کا ملک نیو کلیائی توانائی کا پر امن استعمال کرنا چاہتا ہے۔“ حالاں کہ امریکہ سمیت فرانس، جرمنی اور برطانیہ ایران کو نیو کلیائی ٹیکنالوجی حاصل کرنے سے باز رکھنے کے لیے کئی سیاسی اور اقتصادی تعاون کی تجاویز پیش کر رہے ہیں، مگر ایران نے دو ٹوک الفاظ میں ایک بار پھر کہہ دیا ہے کہ” اسلامی جمہوریہ ایران کسی دباوٴ یا لالچ میں آکر اپنے حق سے دست بردار نہیں ہوگا۔“
عالمی برادری اور امریکہ کا یہ دوہرا پیمانہ نہیں تو اور کیا ہے اگر کوئی مسلم ملک پر امن مقاصد کے لیے نیو کلئیر توانا ئی حاصل کرنا چاہ رہاہے، تو اس کو سنگین نتائج سے دو چار ہونے کی دھمکی دی جارہی ہے ۔ دوسری طرف اگر کوئی یورپی ملک پر امن مقاصد کے لیے نہیں، بلکہ خالص سیاسی اور جنگی مقاصد کے تحت بھی ایٹمی ہتھیار بنائے، تو نہ امریکہ کو اس کی فکر ہوتی ہے اور نہ ہی عالمی برادری اس کے خلاف عالمی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے۔ اگر ایران یا کوئی دوسرا مسلم ملک پرامن طور پر ترقیاتی کاموں کو روبہ عمل لانے کے لیے اس قسم کی کوئی پیش رفت کرے، تو وہ بدی کا محور، امن عالم کے لیے خطرہ ہے اور اگر کوئی صلیبی اور صہیونی ملک جوہری ہتھیاروں کا مالک ہو اور بار بار امن عالم کو چیلنج کرتا ہو، تب بھی وہ دنیا کے لیے تحفظ اور امن وسلامتی کا محافظ ہے۔ آخر ایسا کیوں؟ عالمی برادری کو اس کا جواب نہ صرف امریکہ ، بلکہ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کے اراکین سے بھی پوچھنا چاہیے۔ امریکہ کا بغل بچہ اسرائیل نیو کلئیر ہتھیاروں کے اتنے بڑے ذخیرے کا مالک ہے کہ وہ منٹوں میں پورے مشرق وسطی کو آگ اور خون میں نہلا سکتا ہے، لیکن اقوام متحدہ اور امریکہ سمیت پوری عالمی برادری اپنی زبانوں پر خاموشی کا قفل ڈالے ہوئے ہیں۔ یہ کوئی دیوانے کی بڑ نہیں، بلکہ ایک زبردست سچائی ہے کہ اسرائیل کے پاس معتبرذرائع کے مطابق ۲۰۰ جوہری ہتھیارہیں۔ اسرائیل ۱۹۶۵ء میں ہی فرانس کے تعاون سے ایٹمی اسلحہ تیار کر چکا تھا۔ ایک اسرائیلی دانشور ایونر کوہن نے اپنی کتاب”اسرائیل اینڈ دی بم“ میں یہ حیرت انگیزانکشاف کیا تھا کہ امریکی انٹلی جنس کو (اسرائیل کے ) دمونہ ایٹمی پلانٹ کا علم اس کے قیام کے تین سال بعد ہوا، جو اس کی بد ترین ناکامی ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اسرائیل نے صرف خود ہی چوری چھپے ایٹمی ہتھیار نہیں بنائے، بلکہ وہ اپنے دیرینہ حلیفوں کو بھی اس سلسلے میں دامے درمے تعاون دیتا رہا ہے اور اس سے زیادہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ امن عالم کی نام نہاددہائی دینے والوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ مشہور اسرائیلی اخبار ” ہارٹز“ نے ۲۰/ اپریل ۱۹۹۷ء کو یہ خبر مشتہر کی کہ ۸۰ء کی دہائی میں اسرائیل نے جنوبی افریقہ کو جوہری اسلحہ سازی میں مدد دی تھی۔اور اس کے تبادلے میں اس نے ۵۰۰ ٹن یورانیم خریدا تھا۔ اسرائیل نے کبھی ان خبروں کی تردید نہیں کی۔ اسرائیل نے صرف اسلحہ سازی پر ہی بس نہیں کیا، بلکہ اسلحہ سازی میں کام آنے والے مواد کا بڑا ذخیرہ بھی مستقبل کے لیے محفوظ کرلیا ہے۔ خبروں سے پتہ چلا ہے کہ اسرائیل کے پاس ۹۰۰ کلوگرام پلوٹو نیم کا ذخیرہ ہے۔ واضح رہے کہ ایک ہتھیار کی تیاری میں تقریبا ۵کلو پلوٹو نیم کی مقدار استعمال ہوتی ہے۔
صرف اسرائیلی ریاست ہی امن عالم کے لیے خطرہ نہیں، بلکہ پوری یہودی برادری ہی بنی نوع انسانیت کے لیے ایک رستا ہوا ناسور بن چکی ہے۔ یہودی جہاں کہیں بھی جاتے ہیں، شر انگیزی، قتل وغارت گری اور فتنہ فساد ڈالنے کی اپنی فطرت سے باز نہیں آتے۔ یہودیوں کا اس بات پر ایمان ہے کہ اس روئے ارض پر صرف ان کاحق ہے۔ ان کے علاوہ ہر کسی کو اس دنیا کو خیر باد کہہ کر آخرت کو سدھار جانا چاہیے۔ دنیا کا سارا عیش و آرام اور اور زندگی کے تمام تروسائل خدا نے صرف یہودیوں کے لیے پیدا کیے ہیں، لہذا جو بھی اس میں شراکت کا دعوی کرے، اسے اپنی خیر منا نی چاہیے۔ یہ بات خود موساد کے منحرف جاسوس ووسکی نے اپنی کتاب” By the way of deception“ میں لکھی ہے۔ وہ لکھتا ہے۔”دنیا میں ہر جگہ ہنگامہ آرائی کرنا، قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنا اور بد امنی پھیلانا صہیونیوں کا کام ہے۔ اور اب صہیونی ملک اسرائیل اس فساد اور ہنگامے کے پیچھے ہوتا ہے۔ وہ دنیامیں آگ وخون کی ہولی کھیلنے میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ تا کہ دنیا الھی رہے اور وہ قائم رہیں۔“
حالاں کہ اقوام متحدہ سمیت کئی عالمی اداروں نے اسرائیل کو اس قسم کی کارروائیوں سے باز آنے کی تلقین کی، مگر وہ اپنی اس خو سے باز کیوں آئے۔ اسرائیل اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی ۱۵۰ سے زائد قرار دادوں کو پائے حقارت سے ٹھکرا چکا ہے۔ اب اسرائیل نے ایران کو روکنے اور اس کو راہ راست پر لانے کے لیے عالمی داروغہ امریکہ کو دعوت دی ہے اور مختلف پیراےئہ بیان میں ایران کو جوہری ہتھیاروں کی راہ پر چلنے سے باز آنے کی دھمکی دی جارہی ہے۔ ہر جگہ اور ہر ملک میں اس کے جوہری تنصیبات کا راگ الاپا جارہا ہے۔ اور پوری دنیا میں اس کے خلاف محاذ کھولنے کے لیے ترغیب وترہیب سے کام لیا جارہا ہے۔ امریکہ ایک اور جنگ میں کب کود پڑے اس کی پیش گوئی کوئی ماہر نجومی بھی نہیں کرسکتا۔
صرف ایران ہی کی بات کیا، امریکہ تو ہر مسلم ملک کو اپنا دست نگر اور اسلحہ سازی کے عمل سے تہی دست رکھنا چاہتا ہے، اور اسرائیل سمیت دوسرے اسلام دشمن ممالک کو اسلحہ سازی کی کھل چھوٹ دینا چاہتا ہے، ورنہ کیا وجہہ ہے کہ مشرق وسطی میں آگ اور خون سے کھیلنے والے اسرائیل کی پشت پناہی کی جارہی ہے اور پر امن مقاصد کے لیے نیو کلیائی توانائی حاصل کرنے والے ملک کو امن عالم کے لیے خطرہ کے خانے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اب جبکہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ خود ساختہ اور دور ازکار اندیشوں کی بنیاد پر امریکہ ایران کے خلاف عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنے میں تمام تر سفارتی تعلقات کو بروئے کار لارہا ہے تو مسلم دنیا کو بھی اپنی بند آنکھیں کھولنا ہوں گی اور اختلافات کی آگ کو بجھاکر اور بتان رنگ وبو کو توڑ کر صرف اسلام کی بنیاد پریہ سوچنا ہوگا کہ کیا ایک اور مسلم ملک افغانستان اور عراق کی طرح تباہ وبرباد ہوجائے گا؟ عالمی برادری کو بھی عقل کے ناخن لینے ہوں گے اور عالمی داروغہ امریکہ اور اس کے حلیفوں سے یہ پوچھنا ہوگا کہ آخر کس بنیا دپرپر امن مقاصد کے لیے نیو کلئیر توانائی حاصل کرنے والا ایران امن عالم کے لیے خطرہ ہے اور بارود کے ڈھیر پر بیٹھا اسرائیل مشرق وسطی اور امن عالم کے لیے خطرہ نہیں ہے؟؟؟
بہت اچھا مضمون ہے۔ مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ کافی غور و خوض کے بعد مضمون لکھا گیا ہے۔ ابرار صاحب کو بہت بہت مبار ہو!