Home / Socio-political / امن کی آشا

امن کی آشا

بہت دنوں کے بعد ہندو پاک کے عوام میں امید کی  ایک نئی کرن دیکھائی دی ہے ، درا صل اس طرح کی کوششیں بہت دنوں کے بعد میں دیکھنے میں آئی ہیں۔عا م طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا نے ہند وپاک کے مابین تلخی اور کشیدگی پیدا کرنے میں بڑا رول ادا کیا ہے ۔ اب اس بات میں کتنی صداقت ہے اس پہلو پر ابھی گفتگو نہیں کرو نگا ۔ لیکن اس پر کلی طور پر اعتبار بھی نہیں کرتا کیونکہ کسی ایک یا دو چینل کے کرتوت کے سبب تمام میڈیا کو بدنام کرنا میرے نزدیک دانشمندی نہیں ۔ کیونکہ یہی میڈیا ہے جس نے ان دونوں ممالک کو قریب لانے میں مدد بھی کی ہے ۔ جس کی تازہ ترین مثال ابھی حال ہی میں امن کی آشا کے پروجیکٹ کے تحت پاکستان کا سب سے بڑا میڈیا گروپ جنگ اور جیو نے ہندستان کے میڈیا گروپ ٹائمس آف انڈیا کے اشتراک سے ایک سروے کرایا ہے جس میں سرحد پار کے  دونوں  طرف عوام سے تاثرات جاننے کے بعد اس نتیجے کو اخذ کیا ہے کہ دونوں جانب کی عوام یہ چاہتی ہے کہ دونوں ممالک میں امن بحال ہو اور عوا م کی جانب سے اس میں کبھی بھی کسی طرح کی روکاوٹ نہیں رہی ، البتہ حکمراں طبقے کی جانب سے ہمیشہ ہی مداخلت کی گئی اور کسی نہ کسی طرح کی روکاوٹیں کھڑی کی گئیں تاکہ یہ تلخیاں برقرا ررہے ۔ اس رپورٹ میں دونوں ممالک کے عوام کی ساٹھ سے زیادہ فیصد لوگ امن کے حق میں ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ ممالک دوست بن کر رہیں ۔

          یہ ایک اچھی بات ہے کہ اس طرح کی کوششوں سے عوامی جذبات کا اظہار تو ہوتا ہے ۔ یہ ایک سروے رپورٹ ہی صحیح مگر اس سے یہ تو اندازہ ہوتاہے کہ بیوروکریسی کی اور کچھ منفی قوتوں کے سبب بار بار ایسی کوشش ہوتی ہے کہ امن کو تباہ برباد کیا جائے او ر خطے میں انتشار کو ہوا دی جائے ۔ اس سے فائد ہ تو چند لوگوں کو  ہوتا ہے مگر اس سے جتنا نقصان ہوتا ہے اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا ۔ اس لیے اب اس کی ضرورت ہے کہ ایسا کوئی منصوبہ بنایا جائےجو ان منفی قوتوں کو بے نقاب کر سکے اور عوام کے سامنے لاکھڑا کیا جائے تاکہ عوام ان کا مواخذہ کرسکے ۔

          اسی طرح کی قابل تحسین کوشش دہلی میں ہوئی جہاں انڈو پا ک پیس کے دوروزہ مذاکرے میں ہندستان اور پاکستان کے دانشوروں کے علاوہ کچھ سیاست دانوں نے بھی شرکت کی ۔اس سے ایک بہتر فضا کی سماں بندی ہوتی ہے ، اس لیے ضروت ہے کہ ا س طرح کی مجلسیں باربا ر او ر مختلف مقامات پر منعقد کی جائیں ۔لیکن اس کے ساتھ اس کی بھی کوشش کی جانی چاہیے کہ اس حوالے سے جو منفی  رائے سامنے آتی ہے اس کو بھی کاؤنٹر کیا جائے ۔امن کی آشا کی رپورٹ کے بعد ہندو پاک میں کئی کالم لکھے گئے ۔بیشتر لوگوں نے اسے سراہا ہے لیکن میں یہاں ایک کالم کے چند اقتباسات پیش کرنا چانا چاہتا ہوں جو دراصل اس طرح کی کوششوں پر ضرب لگانے کی سعی کے مترادف ہیں ۔محمد احمدترازی نے آئن لائن اردو انڑنیشنل میں اپنے کالم میں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’گذشتہ دنوں پاکستان اور بھارت سے تعلق رکھنے والے دو بڑے میڈیا گروپس نے پاکستان اور بھارت میں ”امن کی آشا“ کے عنوان سے سروے کرائے،اس سروے رپورٹ کے مطابق 72 فیصد پاکستانیوں اور 66 فیصد بھارتیوں نے پرامن تعلقات کے حق میں رائے دی، اس سروے رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھارت میں مردوں،عورتوں،بچوں اور بڑوں سمیت سب کی رائے ایک سی ہے،جبکہ پاکستان میں خواتین کی نسبت مرد امن کے زیادہ حق میں ہیں،قابل غور بات یہ ہے کہ ”امن کی آشا“ پراجیکٹ کے تحت کیے گئے سروے کے دوران 64 فیصد پاکستانیوں کی رائے یہ تھی کہ” ذہن میں بھارت کا نام آتے ہی کشمیر کا خیال آتا ہے“،یوں تو امن کی آشا کا مطلب امن کی خواہش یا امن کی امیدہے،اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ خیال برا نہیں،لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس سروے میں شامل کتنے لوگ ایسے ہیں جن کو اس بات کا علم ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان نزاعی معاملات کی اصل اور بنیادی نوعیت کیا ہے؟یہاں یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ اس سروے رپورٹ کے منظر عام پر آنے سے صرف ایک دن پہلے پاکستان سمیت دنیا بھر کے اخبارات میں بھارتی آرمی چیف جنرل دیپک کپور کی وہ تقریر بھی شائع ہوئی،جو دہلی میں ایک سیمینار میں کی گئی تھی،اس سیمینار میں جنرل دیپک کپور نے واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ بھارت،پاکستان اور چین کے ساتھ بیک وقت جنگ کرنے بلکہ جیتنے کے امکانات پر کام کر رہا ہے اور اس حوالے سے بنیادی ہوم ورک تیار کرلیا گیا ہے۔لیکن شایدوہ یہ بات بھول رہا ہے کہ جنگیں صرف اسلحے کے زور پر لڑی اور جیتی نہیں جاسکتیں،جنگ جیتنے کیلئے اُس جوش، جذبے اور ولولے کی ضرورت ہوتی ہے جس کا اظہار کرتے ہوئے جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل طارق مجید نے کہا کہ بھارتی فوج کے سربراہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بھارتی افواج کیا کر سکتی ہے اور پاکستان کی مسلح افواج کیا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے انہوں نے کہا کہ چین کی بات تو چھوڑیں،جنرل دیپک کپور اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ بھارتی مسلح افواج کتنے پانی میں ہے اور ان کی مسلح افواج عسکری اعتبار سے کیا کر سکتی ہے،جنرل طارق مجید کی یہ بات دراصل پوری قوم کی آواز ہے کہ بھارتی چیف کو علم ہے کہ پاک فوج کیا کر سکتی ہے،جنرل طارق مجید کے اس بیان سے ہر کوئی یہ سمجھ سکتا ہے کہ پاک فوج دشمن کے مقابلے کے لئے ہر قسم کے اسلحے اور جذبہ ایمانی سے لیس اور ہمہ وقت اپنے ملک و قوم کے دفاع کے لئے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کیلئے تیار ہے واضح رہے کہ اس سے قبل چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی اوراب جنرل طارق مجیدکا دشمن کیلئے منہ توڑ بیان قوم کے دلوں کی آرزو اور دشمن کیلئے موثر پیغام کا درجہ رکھتا ہے۔در حقیقت بھارت روز اول سے ہی پاکستان کے وجود کے خلاف اور اکھنڈ بھارت کے منصوبے کو مکمل کرنے کیلئے کوشاں ہے،اب چونکہ بھارت کو اس حوالے سے امریکہ کی مدد اور سرپرستی بھی حاصل ہے،اسی تناظر میں امریکہ نے بھارت کے ساتھ سول ایٹمی معاہدہ کیا اور افغانستان میں امریکہ نے بھارت کو وہ کردار دیا ہے جس کا کسی بھی طرح کوئی جواز نہیں بنتا تھا،یوں بھارت نے افغانستان کی سرزمین کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے خلاف ہر سطح پر سازشوں کا وہ جال بچھادیا ہے کہ آج پورا ملک دہشت گردی اور بدامنی کی لپیٹ میں ہے،بھارت ایک طرف جہاں کشمیر یوں پر ظلم و ستم ڈھا رہا ہے تو دوسری طرف امریکی آشیرباد سے وہ ہمارے خلاف افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں حالات خراب کرانے اور پاکستان مخالف جذبات پیدا کرنے کیلئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر رہا ہے،شایداپنی انہی سازشوں کی وجہ سے بھارت یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان اس کے لئے ترنوالہ ثابت ہوگا۔‘‘ اس طرح کی باتیں کر کے دراصل ان کوششوں کو سبوتاز کرنا ہی کہاجائے گا۔ ابھی لوگ نہ صرف ہندوپاک کی دوستی کی باتیں کر رہے ہیں بلکہ یہ خواب بھی دیکھ رہے ہیں کہ مستقبل میں یوروپ کی طرح ہم بھی سارک ممالک کی متحدہ انجمن بنائیں گے اور ایک کرنسی ہوگی تاکہ نئی صدی کے چیلنجز کو ہم بھی ایک مضبوط طاقت بن کر مقابلہ کرسکیں ۔ترازی صاحب سے مودبانہ گذارش ہے کہ اس طرح کی باتیں کر کے ان کوششوں کو  ہدف نہ بنائیں بلکہ ہندستان پر الزام رکھنے سے قبل اپنے ملک کی بھی امریکی غلامی کو دیکھیں جس نے نہ صرف پاکستا ن کی حالت خراب کر رکھی ہے بلکہ اس کے دور رس اثرات پورے خطے پر مرتب ہورہے ہیں۔ابھی وقت ہے کہ میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد مثبت فکر کے ساتھ آگے بڑھیں اور دونوں ملک کی بھلائی کے لیے کام کریں ۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

روشن پاکستان ۔۔محمد افضل  خان

ہماری آبادی کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے جو حیران کن صلاحیتوں اور حوصلہ مندی سے بھرپور ہیں۔
زمینی حقائق یہ ہیں کہ ہمارا موجودہ معاشرہ ہر طرح سے اتتشار، خوف، بے چارگی، لاوارثی، جہالت اور افراتفری کی گرفت میں ہے۔ دہشت گردی اور لاقانونیت کی بنا پر پوری قوم کا مزاج اور رویہ درشت اور سفاک ہو گیا ہے۔ ہم حال سے خوفزدہ اور مستقبل سے بے گانہ ہو چکے ہیں۔ دہشت گردی و لوٹ مار کسی بھی بڑی کارروائی کو ہم قسمت کا لکھا سمجھ کر چند روز میں چپ ہو جاتے ہیں قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی ذمہ داریاں ادھر ادھر منتقل کر کے بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ ملزمان سزا سے بچ جاتے ہیں جس کی وجہ سے ملک مجرموں، قانون شکنوں، دہشت گردوں اور ملک دشمنوں کی آماجگاہ بن چکا ہے ان مٹھی بھر لوگوں نے 12 کروڑ عوام کو یرغمال بنا رکھا ہے اور ہمیں ایک گہرے گڑھے کی جانب دھکیل رہے ہیں اور ہم بھی بھیڑ بکریوں و غلاموں کی طرح سر جھکائے اسی جانب رواں دواں ہیں۔
مایوسی یقینا حرام ہے چونکہ مسائل بہت گمبھیر ہیں اس لئے تبدیلی کی کوشش بھی بہت ہنگامی بنیادوں پر کرنی ہو گی۔ اب ہمیں نئے سرے سے سارے معاملات کو دیکھنا ہوگا ہمت اور جرأت کے ساتھ۔
چند مسائل کی نشاندہی اور ان کے ممکنہ حل:۔-1 دہشت گردی کے خلاف جنگ (2) امن و امان کا معاملہ۔ (3) تعلیمی پسماندگی و جہالت۔ (4) فرقہ وارانہ کشیدگی۔ (5) معاشی بد حالی۔
قومی حلف برداری:
ان تمام مسائل پر روشنی ڈالنے سے پیشتر پوری قوم کو ذہنی طور پر آمادہ اور فعال ہونا چاہئے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور توانائیوں کو بروئے کار لانا ہوگا۔ یکجہتی پر توجہ کو مرکوز کرنے کے لئے قومی سطح پر ایک دن صدر مملکت سے لیکرعام آدمی تک اپنے خدا، اپنے ضمیر اور اپنے پیاروں کو گواہ کرتے ہوئے عہد کریں کہ وہ خوف و لالچ سے بلند ہو کر، سیاسی وابستگیوں فرقہ وارانہ کشیدگیوں سے بلند ہو کر ، علاقائیت وصوبائیت سے بلند ہو کر نیک نیتی سے ہر جگہ ہر موقع پر انتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ کریں گے۔ معاشرے کی تمام کالی بھیڑوں کا بائیکاٹ کریں گے چاہے وہ ان کے قریبی عزیز ہی کیوں نہ ہوں اور قانون کی پاسداری کریں گے۔
-1 دہشت گردی کے خلاف جنگ:۔ پرانی ذہنی ساخت اور خوف سے باہر نکل کر ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری موجودہ بربادی کی بڑی وجہ امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ سے منسلک ہونا ہے ہم نے اپنی سرحدوں کے قریب امریکہ کو جنگ شروع کرنے میں مدد دی اس جنگ کا تمام تر ساز و سامان، اسلحہ بارود ہماری بندرگاہوں سے، ہماری فضائی حدود سے، ہماری سڑکوں سے ہوتا ہوا افغانستان پہنچتا ہے ۔ اپنی سر زمین کی آزادی و خود مختاری کی حفاظت کرنی چاہئے۔ ڈرون حملوں کا تمام تر ریکارڈ اقوام متحدہ و عالمی عدالت انصاف میں لیکر جانا چاہئے اور ان سے تمام حملوں کا ہر جانہ طلب کرنا چاہئے۔ ابھی حال ہی میں عراق کی امریکہ کے زیر سایہ قائم پٹھو حکومت نے بلیک واٹر پر اپنے ملک میں اور امریکی عدالتوں میں مقدمہ دائر کردیا ہے کیا ہم ان سے بھی گئے گزرے ہیں؟ امریکن سفارت خانے کی تمام تر غیر سفارتی مراعات و آزادانہ نقل و حرکت کو فوری طور پر بند کیا جائے۔ ہندوستان ہمارے جن علاقوں میں دہشت گردی میں ملوث ہے اس کا اسی طرح شور و غوغا کیا جائے جیسا کہ وہ ممبئی حملوں کے بارے میں اب تک کر رہا ہے ہمارے علاقوں میں ہندوستانی کردار کے حقائق منظر عام پر لائے جائیں
-2 امن و امان: ہمارے امن و امان قائم کرنے کے ادارے نہایت فرسودہ ہو چکے ہیں پولیس کو زیادہ تر سیاسی مقاصد کے لئے پروٹوکول ڈیوٹی کیلئے یا پھر خود پولیس کے اعلیٰ عہدیداران کی حفاظت کے لئے تعینات کیا جاتا ہے یہ معاشرے سے عوام الناس سے بالکل کٹ چکے ہیں پولیس کو بھی آزاد و خود مختار محکمہ بنایا جائے، سیاسی اثرات و اثر و رسوخ سے پاک کیا جائے اس کی ذمہ داری جرائم کی بیخ کنی اور امن و امان کا قیام ہو ہر علاقے اور ضلع میں وہاں کے مقامی لوگوں کو پولیس میں بھرتی کیا جائے پھر ہر علاقے میں امن کمیٹیاں قائم کی جائیں جو پولیس کے ساتھ براہ راست رابطے میں رہیں اور شہریوں کے ساتھ کوئی بھی ناانصافی نہ ہونے دیں۔
صوبہ سندھ میں رینجرز کو اب ایک مدت گزر گئی ہے اور ہمیں امن و امان میں کوئی بہتری نظر نہیں آتی صرف سو دو سو آدمی پورے شہر کو مفلوج کر دیتے ہیں اور ہم کھڑے تماشا دیکھتے رہتے ہیں ۔اس کا کردار ہماری دوسری دفاعی لائن کا ہے جو شہروں میں طویل موجودگی کے باعث متاثر ہو چکا ہے مگر موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف کو چاہئے کہ جس طرح دانشمندی سے انہوں نے فوج کو سیاست سے دور رکھا مختلف محکموں میں موجود فوجی افسران کو واپس بلوایا اسی طرح رینجرز کی واپسی کا اہتمام کریں اس کی دوبارہ محکمہ جاتی ٹریننگ و کردار پر توجہ دیں ۔
3۔تعلیمی پسماندگی دور کرنے کے لئے ہمیں پوری قوم کیلئے وسیع پیمانے پر جنگی بنیادوں پر تعلیم کا انتظام کرنا ہوگا اسکولوں کے لئے عمارتوں کا مسئلہ بڑی خوش اسلوبی سے مساجد سے پورا کیا جا سکتا ہے۔ مساجد عموماً خالی یا چھوٹے موٹے مدرسوں کی صورت استعمال ہوتی ہیں جہاں جدید تعلیم مہیا نہیں کی جاتی تمام ملک کی مساجد کو مدرسوں و اسکولوں کا درجہ دیا جائے سب سے بہتر تو یہ ہے کہ موجودہ مسجد کمیٹیاں اپنے طور پر لوگوں کو اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ بنیادی تعلیم کیلئے تعاون کریں اس کے ساتھ ساتھ حکومت ان مساجد کی کارکردگی اور طالب علموں کی تعداد کے لحاظ سے ان کے لئے رقم مختص کرے ہم امن و امان پر سالانہ جو اخراجات کرتے ہیں اس کے آدھے اخراجات اگر ہم تعلیم پراضافی خرچ کریں تو ایک مختصر عرصہ میں ہماری پوری قوم تعلیم یافتہ ہو جائے گی جس سے جرائم کی شرح میں نمایاں کمی ہو گی ہمیں ٹریفک سگنل پر بھی پولیس کھڑی کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی اور لوگ معاشی سرگرمیوں میں بھی زیادہ فعال اور نتیجہ خیز ہو جائیں گے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس اور ہرصوبہ میں موجود وسیع و عریض گورنر ہاؤس وزارت تعلیم کے حوالے کر دیئے جائیں اور یہاں سائنس و ٹیکنالوجی کی یونیورسٹیاں قائم کی جائیں صدر، وزیراعظم اورگورنر صاحبان اپنے پہلے سے موجود گھروں میں رہیں یا کوئی چھوٹا گھر سرکاری رہائش گاہ کے طور پر استعمال کریں اس سے اخراجات کی بھی بچت ہو گی۔اب ہمیں ان دکھاوؤں سے نکل کر نئے پاکستان کے لئے تیار ہونا ہے، روشن پاکستان کیلئے۔
-4 فرقہ وارانہ کشیدگی:۔ مسلمان صرف مسلمان ہوتا ہے کسی گروہ فرقے یا مسلک سے وابستہ نہیں یہ بات سمجھنا شاید اب ہمیں دشوار ہو کیونکہ فرقہ واریت ہمارے رگ و پے میں سرائیت کر چکی ہے ۔ہماری مجموعی نفسیات اور مذہبی رویّے کا حصہ بن چکی ہے۔ ہم نے اپنی تاریخ اور مختلف واقعات کو دین کے ساتھ گڈ مڈ کر دیا ہے جس سے ہماری صورت مسخ ہو گئی ہے، معاشرے کی تقسیم در تقسیم کا باعث ہو ہمیں اپنے معاشرے میں ہر چند کلو میٹر پر ایک نیا فرقہ نظر آتا ہے اس رجحان کی سختی کے ساتھ حوصلہ شکنی اور دین کی صرف ایک تفہیم ہونی چاہئے۔
-5 معاشی بدحالی: ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ہرطرح کا عطیہ موجود ہے وسیع و عریض سر زمین، بہترین جغرافیائی محل و وقوع، سمندر، ہر طرح کا موسم، بہترین پھل اور فصلیں، محنت کش عوام اگر کسی چیزکی کمی ہے تو وہ منصوبہ سازی اور ہمارا سیاسی و معاشی ڈھانچہ سودی نظام کی وجہ سے ہم ہر سال تقریباً 8 فیصد اپنے روپے کی قوت خرید کھو دیتے ہیں جس سے مہنگائی اوسطاً 8 فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھ جاتی ہے ہمارے یہاںآ ٹے چینی کیلئے لمبی لمبی قطاریں کسی قحط زدہ ملک کا منظر پیش کرتی ہیں غربت ایک بڑی بیماری ہے جو ہم پر جہالت اور تنگ نظری کی وجہ سے مسلط ہے ہمارے ارد گرد ہر طرح کے مواقع بکھرے ہوئے ہیں ہمیں ان سے فوائد حاصل کرنے کے لئے روایتی طرز فکر سے نکل کر جارحانہ منصوبہ سازی کرنی ہو گی ملک پر سے قرضوں کا بوجھ اتارنا ہوگا اور سرکاری اخراجات کم سے کم کرنا ہوں گے ۔ ہماری صنعتیں بجلی کی کمی اور آزادانہ درآمدی پالیسی کی وجہ سے کسمپرسی کی حالت میں ہیں زیادہ تر صنعتیں خاندانی ملکیتیں ہیں اور بڑے انڈسٹریل کمپلیکسز میں تبدیل نہیں ہو سکیں جس میں عوام کی شرکت سے روزا فزوں ترقی ممکن ہے۔ بہر حال ہمیں اپنا مجموعی جائزہ لیکر ایک بھرپور لائحہ عمل بنانا ہوگا۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

4 comments

  1. dear sir
    u r right that the whole media should not be blamed for the wrong committed by few. it media which is doing every possible good for and for nation and for humanity. this effort of the media group under the aman ki asha program is one of the glaring example for this. mature media personality and writers will do a lot for constructing a good healthy and pro people and pro common relation between India and Pakistan in the in the interest of both countries.

  2. Yes Sir!
    This is really a great effort to make a base of peace between these two countries. The two leading media houses of India and Pakistan – The Times of India and the Jang Group – have come together to develop a stronger Track 2 in the diplomatic and cultural relations between India and Pakistan. “Aman ki Asha: Destination Peace” looks beyond the confines of a 62-year-old political boundary to the primal bonds that tie together the two peoples.
    It’ll work. Don’t care about that kind of people!
    please go ahead!

  3. واقعی امن کی آشا ایک بہت ہی نہک کوشش ہے جو ان دونوں پڑوسی ملکوں کے بیچ کی دوری کو پاٹنے کا کام کری لیکن کچھ لوگ پتہ نہیں کیوں اس سے خوش نہیں کہ یہ دونوں ملک کسی طرح بھی ایک سااتھ ہمسایگی برتیں۔
    شاید کچھ لوگوں کا بزنس ہی ایسا ہے کہ یہ دونوں ملک آپس میں لڑتے رہیں تب ہی ان کی روزی روٹی چل سکتی ہے ۔

  4. آپ نے بہت اچھی بات کہی ہے کہ کچھ لوگ ان کوششوں کو سبوتاز کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن سچ کہوں تو آج لوگ اب اتنے بھی بے وقوف نہیں رہے جو طرازی یا اس طرح کے لوگوں کی باتوں میں آجائیں۔ بلکہ واقعی اگر اس طرح کی کوششیں ہونے لگیں کہ مستقبل میں یوروپ کی طرح ہم بھی سارک ممالک کی متحدہ انجمن بنائیں گے اور ایک کرنسی ہوگی تو کتنا بہتر ہوگا۔
    خدا کرے کہ ایسا دن جلد از جلد آئے۔
    آمین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *