Home / Socio-political / امیدنہیں قضائے مبرم ٹل ج

امیدنہیں قضائے مبرم ٹل ج

امیدنہیں قضائے مبرم ٹل جائے

سمیع اللہ ملک

لندن

زرداری Regime نے ایک مرتبہ پھر یہ کوشش کی کہ سپریم کورٹ میں ۳۱/اکتوبر۰۱۰۲ءکو این آراو کی سماعت کسی نہ کسی طور ٹل جائے اوراسے مزید مہلت مل جائے ۔حکومت کی اس چالاکی کااس وقت پتہ چلا جب حکومت نے این آراونظرثانی کیس میں مقررکردہ وکیل کمال اظفر کو وزیراعظم کا مشیر مقررکردیا ۔ تمام سیاسی مبصرین اورقانونی ماہرین نے پہلے ہی اس شبے کااظہارکیاتھا کہ کمال اظفرکو اس کیس میں وکیل مقررکرنے کے بعد حکومت یقیناکمال اظفر کوکسی اورعہدے پر مقررکرکے ایک مرتبہ پھر اس بہانے سپریم کورٹ سے مزید وقت کےلئے استدعا کرے گی لیکن اب یہ قانونی طورپر بھی ممکن نہیں تھا کہ اعلی عدلیہ حکومت کو مزید کسی تاخیرکی اجازت دے۔بہرحال حکومت کی طرف سے ایک مرتبہ پھر اعلیٰ عدلیہ سے درخواست کی کہ اسے مزید وقت دیا جائے تاکہ وہ اس مقدمے کےلئے کسی اوروکیل کو مقررکرسکے۔ اس درخواست کی سماعت تین اعلیٰ ججزجن کی سربراہی خود چیف جسٹس جناب افتخارچوہدری کرہے تھے ‘حکومت کی اس درخواست کو مستردکرتے ہوئے ایک تفصیلی فیصلہ بھی صادر فرمایاجس میں اب تک حکومت کے تمام حیلے بہانوںاور جان بوجھ کراس مقدمے میں تاخیری حربوںکواجاگر کیاکہ کس طرح حکومت کی خواہش ہے کہ جب تک حکومت اقتدارمیں ہے کسی نہ کسی بہانے اس مقدمے کی سماعت نہ ہونے دی جائے اوریہ مسلسل التواءکا شکار رہے لیکن کمزوردلائل کی بناءپر حکومت کی یہ خواہش دم توڑ گئی۔

دوسری طرف یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اب بھی اپنی اس ہٹ دھرمی پر مصرہے اسی لئے رجیم کے وزیرِ قانون بابراعوان جن کے خلاف خود نااہلی کی درخواست زیر سماعت ہے ‘ آئین کے آرٹیکل ۰۱(جس میں ہرشہری کووکیل مقررکرنے کی اجازت مرحمت کی گئی ہے)کا سہارا لیتے ہوئے میڈیا کو یہ بیان دیا کہ ۳۱اکتوبر بھی آجائے گی اوراس کے بعد ۴۱ اور۵۱اکتوبر بھی گزرجائے گی‘اس کیس کی سماعت برسوں تک جاری رہے گی اورممکن ہے کہ اس مقدمے کا کوئی فیصلہ سامنے نہ آسکے۔لیکن بابراعوان اس بات کی تفصیل بتانے سے گریز کرتے رہے کہ آخر۳۱/اکتوبرکو سپریم کورٹ کاسترہ رکنی لارجربنچ جواین آر اونظرثانی مقدمے کی سماعت کرے گا ‘اس بات کا بھی جائزہ لے گاکہ آخر اب تک کیوں اس مقدمے پر جاری کئے گئے احکامات پرعملدرآمدنہیں کیا گیا‘حکومت اورنیب سے جو تفصیلات طلب کی گئی ہیں‘کیا اس کو بھی تعطل میں ڈالا جا سکتا ہے ‘ان کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔اب قوم بھی رجیم کے حیلے بہانوں سے تنگ آچکی ہے اوراس بات کی منتظر ہے کہ آخربابراعوان کا یہ بھونڈا مذاق کب ختم ہوگا۔یہ وہی این آراوہے جس کی ابتداءمیںحکومت نے خودہی عدم دلچسپی کا اظہارکرتے ہوئے اس وقت کے اٹارنی جنرل شاہ خاور نے کہا تھاکہ حکومت این آراوکو کالا قانون سمجھتی ہے اور سپریم کورٹ میں اس کا کوئی دفاع نہیں کرے گی۔

حکومت کے وہ وکیل جو اب عدالت کے سامنے پیش ہونے سے گریز کررہے ہیںیااب حکومت ان کوعدالت میں پیش کرنے کی بجائے اپنا مشیر بناکرعدالت کے سامنے لیجانے سے گریز کررہی ہے ‘وہ خود اس مقدمے کوسرنڈرکرچکے ہیں۔اس مقدمے میں حکومت کے وکیل کمال اظفرنے اس مقدمے میں ایک سنسنی خیزدعویٰ بھی کیاتھا کہ” حکومت کو غیرمستحکم کرنے میں سی آئی اے اورجی ایچ کیو شامل ہیں“۔بہرحال ا پنے اس استدلال میں اظہارکیا تھاکہ حکومت این آراوکادفاع نہیں کرے گی اورجتنے لوگوں نے اس کالے قانون سے فائدہ اٹھایا ہے حکومت ان پر مقدمہ چلائے گی۔کمال اظفر کے اس بیان کو من وعن سپریم کورٹ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں شامل کیا ہے جس میںکمال اظفرکے اپنے الفاط بالکل واضح تھے کہ”غیرقانونی امورمیں ملوث تمام افرادکے خلاف وفاق استغاثے کی کاروائی کی حمائت کرتا ہے ‘وفاق ان درخواستوں کی مخالفت نہیں کرے گاجن میں قومی مفاہمتی آرڈیننس ۷۰۰۲ءکوغیرقانونی اورآئین کے منافی قراردیاگیاہے“۔کمال اظفر نے یہ بھی کہا”وفاق کا نکتہ


¿ نظریہ ہے کہ این آراوسے مستفیذافراد کے خلاف مناسب قوانین کے تحت عدالتی کاروائی ہونی چاہئے کیونکہ عدالتوںکی جانب سے حقائق پر مبنی امورکے تعین کی ضرورت ہے“۔

 یعنی یہ رجیم دوبارسپریم کورٹ میں یہ کہہ چکی ہے کہ وہ این آراوکادفاع نہیں کرنا چاہتی لیکن کیاوجہ ہے کہ اب وزیرقانون اس کالے قانون کے دفاع کی ضرورت محسوس کرتے ہیںاور قوم کے ساتھ اتنے بڑے دھوکے اورجھوٹ کا سہاراکیوں لینا پڑرہا ہے اورپچھلے دس ماہ سے سپریم کورٹ کے احکامات پر لیت ولعل سے کام لیتے ہوئے ان پرعملدرآمد کیوں نہیں کیاگیا اس کے برعکس ان کی تضحیک کی گئی ہے اوراب تاخیری حربے کے طورپر ان احکامات پر نظرثانی کی درخواست دائرکر دی گئی ہے۔

بابراعوان کے اس مضحکہ خیزبیان کے بعدمحسوس یہ ہورہا ہے کہ حکومت اب ایک بڑے ایڈونچر کےلئے پرتول رہی ہے ۔اس نے سپریم کورٹ کے علاوہ ملک میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ نوازکے ساتھ بھی کھلم کھلاپنجہ آزمائی کا فیصلہ کرلیا ہے۔ زرداری صاحب کا حالیہ اقدام جس میں انہوں نے اپنے صوابدیدی اختیار استعمال کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پردومرتبہ منتخب ہونے والے ایک جیالے ریٹائرڈ جسٹس دیدارحسین شاہ کو نیب کا چیئرمین مقررکیا ہے اس پرحکومت کی تمام اتحادی جماعتیں ‘اے این پی ‘ایم کیوایم اورجے یو آئی بھی نالاں ہیں کہ اتنے اہم عہدے پرتقرری کےلئے ان سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ اے این پی کے رہنماحاجی عدیل نے میڈیاکواس فیصلے پرسخت اعتراض کرتے ہوئے اپنی ناپسندیدگی کااظہارکیاہے اورمولانافضل الرحمان جیسے وفاداراتحادی بھی ۸اکتوبر کووزیراعظم یوسف رضاگیلانی سے ملاقات کرنے کے بعد میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے اس بات کا گلہ کررہے تھے کہ ”چیئرمین نیب کی تقرری پر ہمیں سخت اعتراض ہے اوراس معاملے پراتحادیوں کو اعتماد میں لیا جاتا تو بہتر تھا“۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ خودوزیراعظم یوسف رضاگیلانی بھی اس فیصلے سے جڑے اور خوش نظر نہیں آتے۔۹/اکتوبرکومیڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے یہ تسلیم کیا کہ” اگروہ یہ فیصلہ کرتے توآئین کے مطابق وہ شائد صدرکو مانناپڑتالیکن اس فیصلے میںصدرنے ان سے صرف حزب اختلاف سے مشورہ کرنے کاناخوشگوارکام لیا ہے“۔وزیراعظم کے قریبی ساتھیوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ وزیراعظم نے صدر کو مطلع کردیا تھا کہ سید دیدار حسین شاہ کی بطورنیب کے چیئرمین تقرری پرشدیداختلاف کا سامنا کرناپڑسکتا ہے اس لئے کسی اورنام پر غورکیا جائے لیکن وزیراعظم کے اس مشورے کودرخوراعتنانہ سمجھا گیا۔اسی لئے وزیراعظم نے بارہااپنی پوزیشن کو واضح کرتے ہوئے اس تقرری کے فیصلے سے اپنی لاتعلقی کا اظہارکیاہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب زرداری صاحب اوران کے چندقریبی ساتھی تنہائی کا شکار ہوتے چلے جارہے ہیںاوراپنے اس غلط فیصلے کی تائیدوہ خوداپنی جماعت اوراپنے وزیراعظم سے بھی حاصل نہیں کرسکے۔اس سے ایک طرف تویہ پیغام ملتا ہے کہ اب صدر زرداری کوئی بڑامعرکہ کرنے کےلئے اکیلے میدان میں اترنے والے ہیں اوردوسری طرف یہ پیغام ملتا ہے کہ اپنے جیالے کو نیب کا سربراہ بناکرآئندہ وہ کیا کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔

محاذآرائی اب صرف ملک کی اعلیٰ عدلیہ سے نہیں بلکہ ملک کی دوسری سیاسی اورمقتدر قوتوں سے ٹکرلینے کا ارادہ بھی دکھائی دے رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن)کے سربراہ نے واشگاف الفاظ میں یہ کہا ہے کہ” ان کی جماعت کسی بھی فیصلے کی صورت میںسپریم کورٹ کو ملک کے قانون کا محافظ اورانصاف کی ترجمانی کاادارہ سمجھتے ہوئے اس کی نہ صرف حمائت کرے گی بلکہ اپنی بھرپورطاقت کے ساتھ سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑی ہو گی نہ کہ کرپشن کے ساتھ “۔لیکن پچھلے چنددنوں میں جو سیاسی پیش رفت ہوئی ہے اس میں پہلی باریوں لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے اہم ترین رہنما چوہدری نثارجوپارلیمنٹ میںعملاًاپوزیشن لیڈرکا کرداراداکرہے ہیں ‘صدرزرداری اورپیپلزپارٹی کومتنبہ کررہے ہیں کہ اب حکومت میں آئینی تبدیلی واجب ہو گئی ہے اوراس سلسلے میں حکومتی اتحادیوں سے بھی بات چیت شروع کردی گئی ہے۔دوسری طرف بہت ہی اہم پیش رفت ہوئی ہے جہاںپہلی مرتبہ پنجاب حکومت کے سربراہ شہبازشریف نے بھی حکومت کے ان اقدامات کے خلاف ۰۱/اکتوبر۰۱۰۲ءکومیڈیا کے سامنے لانگ مارچ کرنے کی دہمکی کااعلان کرتے ہوئے یہ بیان دیا کہ”صاحب صدر!ہوش کے ناخن لیں‘من مرضی کرنے کےلئے اورکرپشن کے اوپرکفن چڑھانے کےلئے اگر آپ نے دیدار حسین جیسے فیصلے کئے تو لانگ مارچ ہوگا‘لانگ مارچ ہوگا‘لانگ مارچ ہوگااورسب سے آگے شہبازشریف اورنوازشریف ہونگے“۔انہوں نے لانگ مارچ کے لفظ پرزوردیتے ہوئے اس کو تین بار دہرایا۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ حکومتی پارٹی اس کا جواب نہ دیتی ۔صدرزرداری کے قریب ترین اورمعتمدساتھی بابراعوان بھلا کیسے خاموش رہ سکتے ہیں۔ ان کا بیان بھی ملاحظہ فرمالیں۔”دودفعہ ہم شہبازشریف کے لانگ مارچ کو ”ویلکم“کرتے ہیں‘ایک تو پچھلا پراڈوبرگربار اوراب یہ لانگ مارچ ‘پتہ نہیں ہیلی کاپٹر پرہوگایاکس پرہوگا‘دیکھ لیں گے اوراس کو بھی ویلکم کرنے کی تیاری کریں گے“۔سیاسی منظر نامے پریہ حالات جس قدر تیزی کے ساتھ خراب ہورہے ہیں‘لگتا ہے کہ زرداری صاحب اوران کے چند قریبی ساتھیوںکی خواہش ہے کہ میدان جنگ کاطبل جلدی بجادیا جائے اور ہرحال میں صدرزرادری کوسیاسی شہیدبناکرکرپشن کے مقدمات سے توجہ کو ہٹایا جا سکے۔ زرداری صاحب کو ان کے ساتھیوںنے غالباًیہ سمجھایا ہے کہ اگر ایوانِ صدر اس معاملے پردوقدم پیچھے بھی ہٹ جائے تو عدلیہ اوردوسری قوتیں ان سے کوئی رعائت نہیں برتیں گی‘اس لئے اب وقت آ گیا ہے کہ”مردِ حر“زرداری صاحب کودھڑلے اوربہادری کے ساتھ”فرنٹ فٹ“(Front Foot)پرکھیلنے کےلئے اپنی” ٹرم اینڈ کنڈیشنز“(Terms & Conditions)کوملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے پہل کرنا ہوگی ‘”تخت یا تختہ“(Do & Die Battle) کارویہ اختیارکرناہوگاچاہے اس کےلئے ان کے اقتدارکی مدت کتنی ہی مختصر کیوں نہ ہوجائے کیونکہ قانونی طورپرہرصورت میں زرداری صاحب کواب اپنی شکست ہرحال میں نظرآرہی ہے اس لئے اپنے خلاف کرپشن کے مقدمات کومتنازعہ قراددینے میں ہی عافیت ہے تاکہ ہیرو بننے کا موقع ضائع نہ ہو جائے۔

معلوم ہوتا ہے کہ زرداری صاحب نہ صرف یہ فیصلہ کرچکے ہیں بلکہ تمام مقتدرطاقتوں کوبعض ذرائع سے پیغام بھی دے چکے ہیںکہ وہ ہرحال میں مقابلے کےلئے تیار ہیں۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کوایک ماہ پہلے اپنی کابینہ اورحکومت کے کرپٹ افراد کوفارغ کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا جس کے وضاحت میں وزیراعظم نے میڈیا میں بیان دیا تھا کہ وہ اس وقت ان کے مشورے پرعمل کرکے ان کی عید کی چھٹیوں کوبدمزہ نہیں کرنا چاہتے اوراب ایک مرتبہ پھر انہوں نے اپنی کابینہ کی دس وزارتوں کو ختم کرنے کےلئے مزیددوماہ کااعلان کیا ہے۔گویا اس ملی بھگت سے جہاں مزید وقت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہاں اس بات کا اعادہ بھی کیا گیا ہے کہ اب تک حکومتوں کی رخصتی میں جوخوف کا عنصر شامل ہواکرتا تھا‘اس کےلئے اب وقت ان کا ساتھ دے رہا ہے ۔ایوانِ صدر نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ اپنی رجیم کو بچانے کےلئے حکومت کسی بھی صورت میں کوئی درمیانی راستہ مثلاً مڈٹرم الیکشن کےلئے بھی تیارنہیںہوگی‘ یاتوموجودہ حکومت صدرزرداری کے ساتھ اپنی مدت پوری کرے گی یا پھر ملک میں اس جمہوری نظام کی بساط الٹ دی جائے تاکہ زرداری صاحب جمہوریت کے شہید بن جائیں۔

ملک کے سیاسی ماحول میں تناو


¿ پیدا کرنے کےلئے ایوان صدر کی طرف سے ایک اورافواہ یہ بھی گردش کررہی ہے کہ اگرسپریم کورٹ کی طرف سے کسی سخت فیصلے کی توقع ہوئی تو اس (Executive Order)”ایگزیکٹو آرڈر“کوواپس لے لیا جائے جس کی بناءپر تمام ججوں کو بحال کیا گیاتھاحالانکہ اس ایگزیکٹو آرڈرکوپہلے ہی عدالت میں چیلنج کرکے اس پرسپریم کورٹ کاتفصیلی فیصلہ آچکا ہے کہ یہ ججز کبھی رخصت ہی نہیں ہوئے تھے اس لئے ان کی دوبارہ تعیناتی کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس طرح اس گیدڑبھبھکی میں بھی کوئی وزن نہیں رہاتاہم اس کے باوجودایوانِ صدرسے اپنے مقاصد کی تکمیل کےلئے عدالتِ عالیہ کے ججزکوتقسیم کرنے کے عندیہ کا بھی اظہار کیا گیا ہے۔دراصل بابراعوان کروڑوں روپے وکلاءبرادری کو تقسیم کرنے کے بعداپنے اس کارنامے پربڑے پراعتمادنظر آتے ہیں۔

شائد ہی دنیا کاکوئی ملک یا کوئی پاکستانی ایسا ہو جس کو پاکستان کی موجودہ زبوں حالی کا علم نہ ہو لیکن پاکستان کی معاشی ابتری اورحکومتی اللے تللے ہیں کہ رکنے کا نام نہیں لے رہے۔ایک طرف فیصلہ یہ کیا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کے ممبران کےلئے تین ارب روپے کی سرمایہ کاری کرکے ۶۰۱/ ایسی پرتعیش رہائش گاہیں جن کے ساتھ تین سو سرونٹ کوارٹرز تعمیر کئے جائیں جہاں وہ اپنے خاندان کے ہمراہ رہائش اختیارکرسکیںاوراس کے ساتھ انتہائی سنجیدگی کے ساتھ سوچاجارہا ہے کہ تمام کابینہ کے ایک سو ممبران کےلئے ایک ارب روپے کی مالیت کی بلٹ پروف گاڑیاںدرآمد کی جائیںاگران گاڑیوں پرڈیوٹی عائدکی گئی تومزیدایک ارب روپے کابوجھ ملکی خزانے کوبرداشت کرنا پڑے گا۔وزیراعظم کی نگرانی میں سی ڈی اے کی پارلیمنٹ لاجزکی تیاریاں آخری مراحل میں ہیںاوراس کےلئے جن پانچ تعمیراتی کمپنیوں کو شارٹ لسٹ کیا گیا ہے ان میں ایک کمپنی وزیراعظم کے انتہائی قریبی عزیزدوست کی ہے اوران پانچ کمپنیوں میں سے دوکمپنیاں تو ایسی ہیں جن کے پاس اتنے بڑے تعمیراتی کام کا کوئی تجربہ بھی نہیں۔اس کام کےلئے صاف اورشفاف طریقے سے ٹینڈر بھرنے کابھی کوئی انتظام نہیں کیا گیا اوردوکمپنیوں نے اس میں کسی بھی دلچسپی کا اظہار لئے بغیراپنے نام واپس لے لئے۔اس وقت سیلاب زدگان کی بحالی اورسیلاب سے تباہ ملکی انفراسٹرکچرکواپنے پاو


¿ں پرکھڑاکرنے کےلئے سرمایہ کی اشد ضرورت ہے‘جہازی سائز کی کابینہ کومختصر کرنے کی اشد ضرورت ہے‘ایوان صدر اوروزیراعظم کے اخراجات میں کٹوتی کی اشد ضرورت ہے‘وزراءاوردیگر حکومتی افرادکے زیراستعمال گاڑیوں میں کمی کی ضرورت ہے لیکن حکومتی شاہ خرچیوںمیں کٹوتی کی کوئی شکل نظر نہیں آرہی۔

شائد یہی وجہ ہے کہ صرف اندرون ِپاکستان ہی نہیں بلکہ تمام مغربی ممالک کی حکومتوں اوربیرونی میڈیامیں بھی صدرآصف زرداری کے سیاسی مستقبل اوران کی حکومت پرسخت تنقید کی جارہی ہے۔ حالیہ دنوں میں ایسی کئی رپورٹس سامنے آچکی ہیں۔امریکا کے دوبڑے اخبار نیویارک ٹائمز اورواشنگٹن پوسٹ بھی برملا اپنی رپورٹس میں مسلسل کہہ رہے ہیں کہ صدرآصف زرداری کی کارکردگی پرکئی مشکوک سوالات اٹھائے جارہے ہیں جس کی بناءپراندرون ِملک اوربیرون ملک اپنی رہی سہی ساکھ سے بھی تیزی کے ساتھ محروم ہوتے جارہے ہیں اوراپنی مختلف رپورٹس میںپاکستانی حکومت میں بہت جلد ایک واضح تبدیلی کا اشارہ دے رہے ہیں۔

برطانیہ کا مشہورِ زمانہ ہفتہ واراخبار”دی اکنامسٹ“ لکھتا ہے کہ ”صدرزرداری کی انتظامیہ نااہلی اورسازشی ماحول کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر ہے‘عالمی ڈونرزتشویش سے جبکہ پاک فوج مایوسی سے پوری صورتحال پرنظررکھے ہوئے ہےعالمی ڈونرزسیلاب کے بعد صورتحال سے نمٹنے کےلئے حکومت کی غیرتسلی بخش کارکردگی سے مطمئن نہیں ہےںزرداری صاحب کے حمائتی پرامید تھے کہ حکومتی امیج کوبہتر بنانے کےلئے سیلاب سے متاثرہ افراد کی بھرپورمددکی جائے گی لیکن اس کے برعکس صدرزرداری مقابلے کے موڈمیں ہیںاورسمجھتے ہیں کہ حکومت کے خاتمے یابچنے ‘دونوں صورتوں میں فائدہ انہیں کی ذات کو پہنچے گا زرداری صاحب نے ملک کے انتظامی امور کو اس حدتک خراب کردیا ہے کہ پاک فوج سمیت کوئی بھی حکومتی باگ ڈورسنبھالنانہیں چاہے گا۔“

امریکا کا ایک اورمشہوراخبارواشنگٹن پوسٹ کاایڈیٹرڈیوڈ۸/اکتوبرکولکھتا ہے کہ”وائٹ ہاو


¿س کی ۷۲صفحات پر مبنی رپورٹ میںاگرصدر آصف علی زرداری کی گرتی مقبولیت کے ساتھ ساتھ ان کی حکومت پرتیزی سے کم ہوتے ہوئے عوامی اعتمادکاذکرکیا گیاہے تو دوسری جانب اس تاثرکابھی ذکر کیا گیا ہے جس میں جنرل اشفاق پرویزکیانی کوقومی سلامتی کے امورپرفیصلہ سازقوت بیان کیا گیا ہے‘پاکستان کے حوالے سے اندراجات سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ تبدیلی دستک دے رہی ہے اورپاک فوج سیاست سے کنارہ کشی کے باوجودریاست کی فلاح کابیڑہ اٹھائے ہوئے ہے“۔

 مشہور اخبار وال اسٹریٹ اپنی ۶/اکتوبر کی اشاعت میں لکھتا ہے کہ ”افغانستان اورپاکستان کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستانی تاریخ کے بدترین سیلاب پرست حکومتی رویے نے زرداری صاحب کی تیزی سے گھٹتی مقبولیت کومزید کھوکھلا کیا ہے ۔سیلابی صورتحال اورابترمعاشی حالات‘سیاسی کشیدگی اورفوج سے تناو


¿ کے باوجودصدرزرداری نے یورپ کا دورہ کیا‘جس سے ملکی وعالمی میڈیا میں ان کے امیج پربے انتہاءمنفی اثرات رونما ہوئےپاکستان میں سویلین حکومت پر اعتماد۱۳٪تک گرچکا ہے اورفوج پراعتماد۲۸٪کی سطح پرپہنچ چکاہے“۔

امریکا کامشہورَ زمانہ ٹائم میگزین اپنے تازہ شمارے میں لکھتا ہے کہ”زرداری صاحب کو اپنے اردگردموجودبدعنوان اورنااہل افراد سے پیچھاچھڑانے کی ضرورت ہےپاکستان میں یہ خبریں گرم ہیں کہ آرمی چیف جنرل کیانی نے وزیراعظم یوسف رضاگیلانی اورصدرآصف علی زرداری سے ایک اہم ملاقات میں مبینہ طورپرکرپشن میں ملوث کابینہ کے کئی وزاراءکی برطرفی کامعاملہ اٹھایا تھااورکئی افرادکاخیال ہے زرداری حکومت میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے“۔

ممتازامریکی صحافی باب ووڈ ورڈکی طرف سے ان کی نئی کتاب ”اوبامہ کی جنگ“(Obama’s War) میںچند نئے انکشافات سامنے آئے ہیں ۔انہوں نے اپنی اس کتاب میںصدرآصف علی زرداری کوایسی بگڑی ہوئی سیاسی شخصیت قراردیا ہے جس کو گورننس کے بارے میں کچھ بھی نہیں پتاکتاب کے صفحہ۶۳۱ پرسبکدوش ہونے والی امریکی سفیراین پیٹرسن اورامریکا کی قومی سلامتی کے سابق مشیر جیمزجونزکی ملاقات کا احوال بتاتے ہوئے باب ووڈورڈکہتے ہیں ”کہ اس چھوٹی سے بیباک خاتون نے پوری صورتحال کا بے تکلفانہ تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ زرداری حکومتی نظام چلانے کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اوروہ مسزبے نظیر بھٹوکے خول سے کبھی باہرنہیں آپائیں گے“۔

یہ وہ چند تبصرے ہیں جوپچھلے دوچاردنوں میں دنیا کے ممتازاخبارات وجرائد میں شائع ہوئے ہیں ۔اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اندرونِ ملک اوربیرونی دنیا میں صدرزرداری کی حکومت کی رخصتی کے بارے میں کیاتاثرات پھیلے ہوئے ہیںاورسب اس بات پربھی یقین کررہے ہیں کہ صدرزرداری کی حکومت کوکسی اورسے نہیں بلکہ خود اپنی کرپشن اورنااہلی کی بناءپرمعزول ہونا پڑے گا اوراس تبدیلی کے پیچھے فوج کومجبوراًطوہاًوکراہاً اپناکرداراداکرنے پڑے گا اوریہ عین ممکن ہے کہ اس تبدیلی کےلئے سپریم کورٹ کے آنے والے احکامات کی تعمیل کےلئے فوج کواپناآئینی فرض اداکرنے کےلئے طلب کیا جائے ۔ان جرائد اورمغربی اخبارات کے تجزیوں سے یوں محسو س ہوتا ہے کہ اب مغرب کی رائے عامہ پاکستان میں آنے والی تبدیلی سے واقف ہوگئی ہے اورموجودہ حکومت کا یہ دعویٰ کہ پاکستان میں ان کی حکومت کے ختم ہوجانے پرمغرب اورامریکا کی طرف سے کوئی احتجاج ہوگا‘اس خوش فہمی کے غبارے سے بھی ہوانکل گئی ہے۔امریکا کے ہمیشہ اپنے مفادات ہوتے ہیں جن کی بناءپروہ اپنی پالیسی تبدیل کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے چاہے اس کےلئے بارہ اکتوبر ۹۹۹۱ءکی پاکستانی دوتہائی اکژیت کی مسلم لیگ حکومت کوہٹاکرمشرف جیسا ڈکٹیٹر ہی اقتدارپرقبضہ کیوں نہ کرلے البتہ مغربی ممالک کی خواہش ہوگی کہ جمہوری اندازمیں کوئی تبدیلی آئے توبہتر ہے مگراب پاکستان میں موجودہ حکومت کے سیاسی خودکشی کی پالیسی سے مغربی حکومتیں اورسول سوسائٹی کے دانشور بھی واقف ہوگئے ہیں۔

 

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *