Home / Socio-political / امید نو بہار

امید نو بہار

                       

امید نو بہار
              عباس ملک

کافی تبدیلیوں کے بعد بہار نو کی امید رکھنا ہر پاکستانی کا حق ہے۔ ملک میں جمہوریت تسلسل کے ساتھ اپنی منزل کی رواں دواں ہے۔  آرمی چیف کی تبدیلی چیف جسٹس آف پاکستان کے ریٹائر منٹ اور نئے چیف کی آمد نے اداروں میں جمود کے تاثر میں بھی ہلچل مچائی ہے۔ملک میں جمہوری عمل کے تسلسل کی ضرورت کو از حد محسوس کیا جارہا تھا۔جمہوریت کے تسلسل کیلئے ضروری ہے کہ جمہوریت کے پاسدار جمہوری اقدار کا مظاہرہ کریں۔ جمہوریت کی حفاظت نہ تو آرمی نے کرنی ہے اور نہ ہی اس کی پاسبانی عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔ جمہوریت کی پاسبانی سیاستدانوں کی ذمہ داری ہے اور اس کا تسلسل بھی انہی کی کاوش وسعی کا مرہون منت ہے۔ آرمی یا عدلیہ اس کا جزو ہوتے ہوئے اس کی مدد کرتے ہیں۔ ضروری ہے کہ سیاستدانوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اپنا بوجھ خود اٹھانے کیلئے قدم بڑھا لینے چاہیں۔

سیاسی بھیک کے سہارے معاشرے کبھی اپنے پائوں پر کھڑے نہیں ہوتے۔ جہاں آپ سو ارب روپے قرضوں میں دیں گے اور اس سے ایک لاکھ آدمی بھی فائدہ نہیں پائیں گے وہیں آپ یہ رقم ملک میںصنعت و انڈسٹری لگانے پر صرف کرنے کی منصوبہ بندی کیوں نہیں کرتے۔ ہر وقت دوسروں کے ہاتھ پر نظر رکھنے کی قوم کو تعلیم دینے کی بجائے انہیں خود داری کی تعلیم دینے میں کیا عار ہے۔قوم کو بھکاری پن کی تربیت دینے اور انہیں محتاجی سے ہاتھ پھیلانے کی طرف مائل کرنے کے اقدامات ایشن ٹائیگر کی منزل کی طرف لے جانے کی کوشش نہیں۔ ووٹ کے حصول اور ایشن ٹائیگر کا مشن دو الگ الگ سوچیں اور منازل ہیں ۔ انہیں ایک کرنے سے اصل مشن پس پشت چلے جانے کے خدشات اور ممکنات کا تناسب بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔

معاشرے میں بہتر روایات کی ترویج کیلئے ضروری ہے کہ ملک میں امن کی صورتحال کو بہتر بنایا جائے۔ اس سے معاشرے میں روزگار کا تناسب بہتر ہوگا اور معاشرے میں ترقی کی شرع بھی بہتر ہوگی۔ اگر بہتری کی طرف جانے کی تمنا ہے تو وہ اقدامات کیے جائیں جن سے بہتری کی راہیں نکلتی ہوں۔ قوم کو ایک بند گلی میں مقید کرنے سے بہتری کی راہ کیسے نکلتی ہے۔

ملک میں اس وقت توانائی کا بحران ہے۔ جس معاشرے میں توانائی کا بحران ہو وہاں پر اس سائنسی دور میں صنعت وتجارت میںترقی کا حصول کیسے ممکن ہوگا۔جنہیں قرضے دئیے جائیں گے وہ اپنے لیے توانائی کیلئے پروجیکٹ لگائیں گے یا اس محدود قرضے سے اپنے لیے کوئی کاروبار شروع کر پائیں گے۔ ضرورت مند کو قرضہ دینا اور اسے اپنے پائوں پر کھڑے کرنے کیلئے امداد دینا حکومت کی اچھی سوچ ہے ۔ جس طریقے سے ملکی خزانے کو یوںقرضوں کی نظر کرنے کی پلاننگ کی جاتی ہے وہ ہرگز بھی ترقی کی راہ نہیں۔ کسی بھی ٹیکنکل تعلیم وہنرسے بے بہرہ جوان کو کس لیے قرض دیا جائے۔ وہ تجربہ کرتے ہوئے اس رقم سے ہاتھ دھو بیٹھے اور پھر بینک یا حکومت کا مقروض ہو کر قانون سے بھاگتا پھرے یا پھر فراڈ دھوکا سے اس سے قرضہ کو معاف کرا نے کیلئے تگ ودو اور منصوبہ بندی کرے۔ اس سے پہلے بھی ایسی سکیموں کے نتائج حوصلہ افزاء نہیں رہے۔ سیاسی اکابرین کی اقرباپروری سے ان سے نتائج وہ نہیں حاصل ہو پائے جن کیلئے یہ شروع کی گئی تھیں۔

ٹھوس منصوبہ بندی کے بغیر معاشرے میں ترقی کیلئے جزوی اقدامات سے کبھی بھی منزل کا حصول ممکن نہیں۔ جب تک معاشرے میں توانائی کا بحران موجود ہے اور اس کا سدباب نہیں کیا جاتا حکومت کی سنجیدگی قابل اعتراض رہے گی۔ قومی خزانے کو ریوڑی کی طرح تقسیم کرنے سے ترقی کی منازل کیلئے کبھی بھی زینہ نہیں بن پاتا ۔قوم کے ساتھ مذاق بند کر کے کچھ سنجیدہ طریقہ اپنایا جائے۔

حکومت کسی بھی معاشرے کو مستحکم بنیادوں پر کھڑا کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ حکومت ادھر خزانہ خالی ہونے کا عندیہ دیتی ہے اور ادھر قرضوں کیلئے خزانے کا منہ کھولنے کا اعلان کرتی ہے۔ یہ کیا کھلا تضاد نہیں ۔ بہتر ہوتا کہ حکومت جو امداد غیر ممالک سے حاصل کرتی ہے اسے توانائی کے شعبہ میں استحکام کیلئے استعمال میں لاتی۔تھرکول پروجیکٹ نندی پور کالاباغ ڈیم کیلئے منصوبہ بندی کی جاتی۔ سوئی گیس اور تیل کے ذخائر کو ریفائنری میں لا یا جاتا ۔ملک میں کئی ایسے منصوبے فنڈز کے منتظر ہیں جن کیلئے رقوم فراہم نہیں ہیں ۔ ان کی مکمل ہونے سے ملک میں توانائی اور روزگار کے مواقع پیدا کیے جا سکتے ہیں ان پر توجہ نہ دینا قومی بدیانتی ہی کہی جا سکتی ۔

تعلیم و صحت کیلئے سرمایہ نہیں لیکن قرضوں کیلئے خزانہ ہے۔ ملک قرضوں کی دلدل میں بری طرح گرفتار ہے تو اس کے خزانے کا استعمال انتہائی احتیاط سے کیا جانا چاہیے۔سڑکیں بنا دیں ان پر رواں ہونے کیلئے گاڑیاں بھی بنک کے زریعے عام کر دیںلیکن ان میں استعمال ہونے والا فیول کہاں ہے۔ ہر طرف قطاریں ہی قطاریں ہیں۔ قرضہ لینے والوں کی قطارسی این جی سٹیشن کے باہر قطاریں۔ اس قوم کو جس قطار میں کھڑا ہونا تھا وہ تو اس کا مقدر کی نہیں گئی۔ نہ یہ یکجہتی کی لائن میں کھڑے کیے گئے نہ یہ مساوات کی لائن میں کھڑے کیے گئے ۔ نہ ان کا مقدر ترقی کی لائن بنی اور نہ ہی عزت کی راہ ان کا مقدر کی گئی ۔پتہ نہیں اس قوم کا قصور کیا ہے۔یہ جن کی عزت کرتی ہے وہ ہی اسے بے عزت کرتے ہیں۔ یہ جن کی پرواہ کرتی ہے وہ ہی ان سے لاپرواہ ہوتے ہیں۔ یہ جن کی حفاظت کیلئے خود کو بیچ دیتی ہے وہ اسے تپتی دھوپ میں بٹھا دیتے ہیں۔ مقروض قوم کو قرضوں سے نجات کیلئے ترکیب لڑانے کی بجائے قرضوں کی دلدل میں مزید دھکیلنے کیلئے اقدامات اچھی حکمت عملی کی عکاس نہیں اور نہ ہی تاریخی اقدامات ہیں۔ تاریخ ایسے اقدامات کو رنگیلا شاہی کے انڈکس میں لکھے گی۔ رنگیلا شاہی کا انجام غلامی ہوتی ہے نہ کہ قوم کی معراج اس کی منزل ہے۔

ضروری ہوتا ہے کہ حکومت اپنے اقدامات پر نظرثانی کر کے ایسے اقدامات سے گریز کرے جس سے مجموعی قومی مفاد کو نقصان پہنچنے کا اس احتمال ہو۔قومی خزانے کا استعمال قومی مفادات کو مدنظر رکھ کر کیا جائے۔ یہ جنگ سے حاصل کردہ مال غنیمت نہیں عوام کے خون پسینے سے اکٹھا کیا گیا ٹیکس ہے۔ یہ عوام کی عزت انا اور ان کو گروی رکھ کر حاصل کیا گیا قرضہ ہے ۔ اسے واپس کرنا ہے بمعہ سود تو کیا اسے اس طریقے سے استعمال کر کے ضائع کرنا مناسب ہوگا۔کوشش کی جائے اور اس سرمایہ کو ضائع ہونے سے بچایا جائے ۔ اسے یوں بانٹ دینا ہرگز قومی خدمت نہ ہوگی اور نہ ہی اس سے معاشرتی زندگی پر کوئی اثرات مرتب ہونگے۔ اسے کسی ٹھوس منصوبہ پر لگا کر قوم کا سرمایہ ترقی کیلئے استعمال کیا جائے۔ اسے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کرنے کی بجائے اس کے ایسی جگہ استعمال کیا جائے جس سے سیاسی اور سماجی معاشرتی ترقیاتی مقاصد کا حصول ممکن ہو۔ زندگی موقع دے بھی تو اس کو استعمال کر کے اپنا نام امر بنانا ہر کسی کا مقدر نہیں ہوتا۔ شیرشاہ سوری نے پانچ سال میں پچاس سال کے کام کرادئیے لیکن اکبر پچاس سال میں ان کا مقابلہ نہ کر پایا ۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *