Home / Socio-political / انجام سوچ لو

انجام سوچ لو

یہ ہے پاک سرزمین شاد باد ،یہ ہے کشورِحسین شاد باد ،یہ ہے قوم ملک سلطنت پائندہ تابندہ باد ․․․․․ ․آگے تو آپ کو بھی آتا ہوگا۔ کیا ہوا جو بلوچستان کے بہت سے علاقوں میں اب قومی پرچم لہرانا اور قومی ترانہ پڑھناخواب ہوگیا،مگر اب دیکھئے گا ۱۴/اگست کو چراغاں بھی کریں گے۔ ہم رہیں نہ رہیں یہ ملک رہے گا انشااللہء ،اسے تباہ وبرباد کرنے والے خود تباہ ہوجائیں گے، اس سے پہلے بھی تو نشان عبرت بنے ہیں۔ یہ چراغ تھوڑی ہے جسے پھونک مارکر بجھا دیا جائے، یہ تووہ نور ہے جولازوال ہے جسے پھونکوں سے نہیں گل کیاجاسکتا۔ کیا نہیں کیا اسے تباہ وبرباد کرنے کے لیے اغیارنے ،اپنوں کے روپ میں مگر سامراج کے نمک خوار ،ہم دیکھتے تو ہیں ناں محلات میں رہنے والے چاہے وہ اپوزیشن میں ہوں یا اقتدارمیں، ان کی عیاشیاں چلتی رہتی ہیں۔ راگ ایک ہے ،مسائل ہمیں ورثے میں ملے ہیں۔

کوئی سوال کرے جناب برسراقتدارتوصرف یہاں پیپلزپارٹی رہی یا پھر مسلم لیگ ،تھوڑا بہت اتحادیوں کو مل گیا۔ زمام کار تو انہی دونوں کے ہاتھوں میں رہی۔ پھروہ جو ہر آمرتشریف فرماہوا، اس کی بھی تو اک تاریخ ہے ناں۔ کیسے آئے وہ کس نے وہ حالات پیدا کیے کہ وہ میدان میں سینہ تان کر کود پڑے ہم تو ہیں ناں ،کہتے ہوئے ،سب جانتے ہیں آپ، مجھ جیسا آپ کو کیا بتائے۔ کچھ نہیں چھوڑا اس مملکت خداداد کا،سب کچھ بیچ کر کھاگئے پھربھی بھکاری کے بھکاری رہے ۔نیت ہی جب خراب ہو تب کیسے پھلے پھولے گایہ ،جب باڑہی کھیت کھا جائے تب کیاکیا جائے ؟ہرطرف آہ وبکاہ ہے اور کوئی پرسان حال نہیں ہے بجلی پرخود بجلی گرگئی ہے۔ ہرجگہ ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں روزانہ سڑکیں بلاک ہوتی ہیں۔ لوگ سینہ کوبی کرتے ہیں اور ہمارے حکمران ان پر شیلنگ کرتے ہیں،لاٹھی چارج کرتے ہیں اور انہیں گھسیٹ کر زندان میں ڈال رہے ہیں ،وجہ دریافت کروتو دانش وری سنی پڑتی ہے۔

۱۶جنوری ۲۰۱۲ء کوقومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم گیلانی نے کہاکہ این آراو بنانے کی غلطی ہم نے نہیں کی بلکہ اس کاخالق توباہرہے اورعدالت ہمیں موردالزام ٹھہرارہی ہے جبکہ امریکا کی سابق وزیر خارجہ کونڈالیزا رائس نے اپنی کتاب ”نوہائی آنر“ (No High Honor)میں یہ بھانڈہ پھوڑ دیا ہے ۔ انہوں نے برملااپنی کتاب میں تحریرکیاہے کہ بے نظیربھٹواورپرویزمشرف کے درمیان مفاہمت کی یہ ڈیل انہوں نے کروائی تھی۔اس کے بارے میں تفصیلا ًایک ایک چیزانہوں نے بیان کردی ہے۔اس کتاب کے چنداقتباسات خودپڑھ کراندازہ لگالیں کہ اس مکروہ ڈیل میں کس کاکتناہاتھ تھا۔کونڈالیزارائس لکھتی ہیں :

”۲۰۰۷ء میں ایک سال کے اندرمیں نے بے نظیربھٹو اور پرویزمشرف کے درمیان ڈیل طے کروائی، اصرارتھاکہ پاکستان میں سویلین حکمرانی کی بحالی کیلئے جنرل مشرف وردی اتاریں گے اورمیں بے نظیر بھٹوصاحبہ کی واپسی میں مددفراہم کروں گی۔ رچرڈباوٴچر (سابق سیکرٹری خارجہ) نے ۲۰۰۷ء کے موسم خزاں میں کئی بار واشنگٹن اور اسلام آبادکے دورے کئے اوراکتوبر ۲۰۰۷ء کے اوائل تک چار معاملات حل طلب رہ چکے تھے ۔

(۱)مشرف وردی انتخابات سے قبل اتاریں گے یابعدمیں؟

(۲)کیابے نظیربھٹو،ان کے شوہراور ان کی پارٹی ساتھیوں کوکرپشن مقدمات سے استثنیٰ مل سکتاہے؟

(۳)تیسری باروزیراعظم بننے کی آئینی پابندی کے باوجودکیابے نظیربھٹووزیراعظم منتخب ہوسکتی ہیں؟

(۴)کیا مشرف انتخابات سے قبل بے نظیربھٹوکی پاکستان واپسی کی حمائت کریں گے؟“اس کے بعدوسیع تفصیلات دیتے ہوئے کونڈالیزارائس بتاتی ہیں کہ:

”۳ /اکتوبرکوشام چاربجکر۴۷منٹ پرمیں نے مشرف کوٹیلیفون کال کی اوران کے سامنے یہ چارسوالات رکھے،شام ۵بجکر۴۷منٹ پرمیں نے بے نظیربھٹوکوفون کیااورمشرف کاردعمل ان تک پہنچایا۔شام چھ بجکر۱۸منٹ پرمیں نے مشرف سے پھربات کی جس کے بعدچھ بجکر ۵۳ منٹ پرمیں نے بے نظیربھٹوکودوبارہ فون کیا، ٹیلیفون کالزکایہ سلسلہ ہرآدھ گھنٹے رات تقریباً گیارہ بجکر۲۸منٹ تک جاری رہاجس کے دوران مزید۹کالزکی گئیں“ ۔ کونڈا لیزارائس مزیدتفصیلات دیتے ہوئے لکھتی ہیں کہ:مشرف مداخلت کے ذریعے اقتدار میں آئے تھے لیکن انہیں پاکستان کی طاقتورفوج پرکنٹرول حاصل تھاجبکہ فوجی حلقوں میں انہیں پسندبھی کیا جاتا تھا۔بے نظیربھٹواوران کے خاندان پرکرپشن کے سنگین الزامات عائد تھے لیکن وہ پاکستان میں اصلاحات کے علمبردارکے طورپرابھری تھیں اوران کاایک لبرل سیاسی تشخص تھا۔مشرف اور بے نظیربھٹودونوں اعتدال پسندتھے اورانتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے خواہاں تھے۔دونوں کے درمیان شراکت اقتدارکا معاہدہ پاکستان میں جمہوری عمل کی جانب صرف ایک پہلاقدم تھالیکن میں سمجھتی تھی کہ پاکستان کے مستقبل کیلئے یہ انتظام انتہائی اہم ہوگا“۔

اپنی کتاب میں مزیدتفصیلات تحریرکرتے ہوئے کونڈا لیزارائس لکھتی ہیں کہ”نصف شب کے وقت میں سو چکی تھی لیکن رات بارہ بجکر۴۱منٹ پر مشرف کی ٹیلیفون کال نے مجھے بیدارکر دیا ۔ مشرف کومیں پہلے کہہ چکی تھی کہ وہ جس وقت چاہیں مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں۔میں نے صبح چار بجکر ۵۸منٹ پربے نظیربھٹوسے رابطہ کیااور مشرف کی پیشکش انہیں پہنچائی۔اگلی صبح میں نے دونوں سے ایک اورمرتبہ بات کی،دونوں کے پاس ایک غیرحتمی ڈیل تھی جس کے تحت بے نظیر بھٹو کو پاکستان جانے کی اجازت دی جائے گی تاکہ وہ جنوری کے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لے سکیں“۔اسی کتاب میں کونڈالیزارائس لکھتی ہیں کہ”بے نظیربھٹونے مجھ پرواضح کیاکہ وہ مشرف پربھروسہ نہیں کرتیں لیکن وہ اس انتظام کوامریکی گارنٹی کے طورپرلیں گے،اس کے بعداس ڈیل کااعلان چاراکتوبرکوکیاگیا“ ۔یہ ہے این آر او کی صحیح حقیقت جس کوکونڈالیزرائس نے اپنی کتاب میں تحریرکیا لیکن نجانے وزیراعظم گیلانی کس طرح قوم کے سامنے اپنی لیڈربے نظیربھٹو کی کوششوں سے طے پانے والی این آراوکی ڈیل سے لاتعلقی کا اعلان کررہے ہیں۔

ادھر رحمٰن ملک میموگیٹ سکینڈل کی تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے جہاں منصوراعجازکی فول پروف سیکورٹی کااعلان کرتے ہیں وہاں ان کا نام ”ای سی ایل“ میں شامل کرنے کی دہمکی سے خوفزدہ کرنے کی کوشش بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔بھلاان موصوف سے یہ کوئی پوچھے کہ بے نظیربھٹوکی حفاظت کی ذمہ داری بھی توانہی کی پاس تھی لیکن موقع واردات سے ان کے فرارکی کہانی میں اب تک کئی رازپوشیدہ ہیں۔ آپ ہی بتائیں جب کسی کوپہلے سے یہ بتادیاجائے کہ اس کانام ”ای سی ایل“میں ڈال دیاجائے گا اور ان پرپاکستان سے غداری کا مقدمہ بھی چلایا جائے گا تووہ ان دہمکیوں کے بعد خودکشی کیلئے کیوں تیار ہو گا؟ادھر منصور اعجاز کے وکیل اکرم شیخ نے الزام عائد کیا ہے کہ وفاقی حکومت نے ایسی منصوبہ بندی کی ہے کہ جونہی ان کے موکل کمیشن کے سامنے پیش ہونے کے بعد باہر نکلیں تو انہیں کسی مقدمے میں پھنسا دیا جائے تاکہ وہ دوبارہ اپنے ملک واپس نہ جا سکیں۔

قوم یہ سمجھنے سے قاصرہے کہ منصوراعجازتواس مقدمے میں محض ایک گواہ ہے لیکن جواس سارے معاملے کوعدالت میں لیکر گئے تھے وہ اب کہاں ہیں؟کیامیاں نوازشریف اورجنرل کیانی کے ساتھ آئی ایس آئی کے سربراہ احمد شجاع پاشاکی اچانک اس مقدمے میں دلچسی قومی مفادکی خاطرختم ہوگئی ہے یاپھروہ مقاصد حاصل ہوگئے ہیں جن کی خاطریہ سارا معاملہ کھڑاکیاگیاتھا۔قوم یہ جانناچاہتی ہے کہ آخر اس ہیجان میں مبتلا کر نے کے درپردہ مقاصد کیاتھے؟

۲۴جنوری کو متنازع میمو کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن کے سربراہ جسٹس فائز عیسیٰ نے سماعت کے دوران اٹارنی جنرل سے کہا ہے کہ آپ یہاں وفاق اور وزراتِ داخلہ کی نمائندگی کر رہے ہیں اور وفاقی وزیر داخلہ نہ صرف پارلیمانی کمیٹی بلکہ اس عدالتی کمیشن کے کام میں بھی رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔ اگر رحمان ملک کے پاس عدالتی اختیارات ہیں تو بتایا جائے یا وہ کمیشن کو کوئی بیان دینا چاہتے ہیں تو وہ کمیشن کے سامنے پیش ہو سکتے ہیں۔رحمٰن ملک نے عدالت میں پھربڑی معصومیت سے یہ بیان دیدیاکہ میڈیانے ان کے بیانات کوصحیح طور پر پیش نہیں کیالیکن کیاساری قوم جوان کی ایک عرصے سے لن ترانیاں سن رہی ہے اس بیان پریقین کرنے کوتیارہے؟ اٹارنی جنرل نے کمیشن کو بتایا تھا کہ منصور اعجاز کو مکمل سکیورٹی فراہم کی جائے گی اور اگر ان کے خلاف کوئی مقدمہ درج ہو گا تو سپریم کورٹ کو اس بارے میں آگاہ کیا جائے گا۔بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ انہیں یہ اختیار ہے کہ منصور اعجاز کا بیان کسی اور طریقے سے ریکارڈ کریں۔

کیا جمہوریت اور کیا آمریت آزادی خودمختاری عزت وقار برابری سب خواب ہوگیا ہے ؟ اچھا ہوا سب کچھ سامنے آگیا، یہ ہے آزادی تو پھر غلامی کیا ہے؟۔ آج صبح ایک مزدور دوست نے مجھے فون کیا اور کہنے لگا جناب پاکستان کو ٹھیکے پر دے دیاہے حکمرانوں نے، خداکیلئے اس کا باضابطہ اعلان کروادیں۔ صحیح کہہ رہا تھا وہ ، اب ہم غلام ہی توہیں۔ ایسے غلام جنہیں غلامی پرفخر ہے، غلامی زندہ باد۔ آزادی ․․․․․․․․․․یہ کیا ہوتی ہے ؟ امریکا بہادر زندہ باد․․․․․ پاکستان ․․․ ․ رہنے دیجیے۔ جو چاہے کرلو اس سرزمین کو جو حرم کی طرح مقدس ہے بیچ کھایا تم نے ۔کسی خیال میں مت رہنا اس عطیہ خداوندی پاکستان کو جس نے نقصان پہنچایا ہے وہ نشان عبرت بناہے۔ یہ نورہے، اسے بجھانے والے خود فنا ہو جائیں گے اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ وہ وقت ضرور آئے گا جب راج کرے گی خلق خدا،جی ہاں ضرور آئے گا․․․․․․․․․ اپنا انجام سوچ لو ، سرگوشیوں میں بات کرو تب بھی تو وہ دیکھتاہی ہے سنتاہے سمیع وبصیرہے۔ سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا․․․․․․ کچھ بھی تو نہیں رہے گا․․․․․․․․․․ کچھ بھی نہیں خاک بسر نہ زردار․․․․․․․․بس نام رہے گا میرے رب کا۔

مرے قبیلے میں یہ تماشا تو اک زمانے سے ہورہاہے

بصارتیں چھین لی گئی ہیں مگر نظارے دئیے گئے ہیں

کہو کہ سودو زیاں کے زمرے میں کیا لکھیں اورکیا نہ لکھیں؟

وہ جن کو تشنہ آرزوٴں کے گوشوارے دئیے گئے ہیں

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *