اندھیرے بڑھ رہے ہیں
سمیع اللہ ملک ۔ لندن
malik@lisauk.com
دن مےں کئی مر تبہ ٹےلےفون کرکے حالات دریافت کرتے ہیں حالانکہ مجھ سے کہیں زیادہ بہتران کا حالات کی نبض پر ہاتھ رہتا ہے۔ مجھ سے اب شکائت ہے کہ میرے قلم کو کسی کی نذر لگ گئی ہے ۔پندونصائح کے ساتھ تربیت کرنے کا فن جانتے ہیں لیکن کیا کروں جب کبھی تجزیہ کرنے بیٹھتا ہوں تو مجبور ومظلوم کشمیر یوں کی آہوں اورالمناک واقعات سے لبریز ان کے خطوط‘آئے دن کے المناک واقعات‘غربت اورمہنگائی کے ہاتھوںپریشان افراد کی خودکشیاں ‘خودکش بم دھماکے ‘میرے اردگرد میرا محاصرہ کئے ہوئے ہیں۔ان حالات میں الفاظ بھی روٹھ جاتے ہیں۔جونہی شام ڈھلتی ہے میں محاسبے کےلئے تیار ہوجاتا ہوں ا پنی بے چےنی کا بڑی بے بسی سے ا ظہار بھی کر تا ہوں۔کچھ کر نے کےلئے بے تاب! مجھے ان کی کڑی تنقےد بھی اچھی لگتی ہے۔
ہما ری حالت تو اےسے جاں بلب مرےض جےسی ہو گئی ہے جو بڑی مشکل سے رےنگتا ہوا اپنے معالج کے پاس تو پہنچ جاتا ہے لےکن اس مےں اتنی ہمت با قی نہےں کہ وہ ےہ بھی بتا سکے کہ اس کو کےا تکلےف ےا کےا بےما ری ہے۔معا لج کے پو چھنے پر اس کی آنکھوں سے آنسو رواں دواں ہوںاور زخموں سے چور جسم کے ہر اعضاءکی طرف اشارہ کرے ۔ سا لوں پر ا نی بےما رےوں کا کرب اور سا رے جہاں کا درد سمٹ کر اس کے چہرے سے عےاں ہو لےکن بتانے کےلئے اس کی اپنی زبان اس کا ساتھ چھو ڑ دے۔ما سوا ئے سسکےوں‘آہوں اور کرا ہوں کے درمےان صرف اشارے سے کبھی سر کی طرف ‘کبھی دل پر ہاتھ ر کھ کر اور کبھی دونوں ہا تھوں کو اپنی آنکھوں پر رکھ کر زور سے رونا شروع کر دے۔جب معالج تھوڑا حو صلہ دلائے توپھر اس کی جانب اےک عجےب سی امےد اور آس کے ساتھ آنکھوں ہی آنکھوں مےں ا مےد اور رحم کی درخواست کرے۔
ےہی حال آجکل ان لو گوں کا ہے جن کے سےنے مےں اس مملکت خداداد پاکستان کا دردآبلہ بن کر اےک نا سور کی شکل ا ختےار کر چکا ہے اور درد کی شدت سے ان کو اےک پل چےن مےسر نہیں اور دکھ کی بنا پر ان کی آنکھوں سے نےند اڑ چکی ہے۔نےم شب جب وہ اپنے اللہ کے حضور سجدہ رےز ہوتے ہےں تو ان کی ہچکی بندھ جا تی ہے۔ اللہ سے رحم اور امےد کے ساتھ پاکستان کےلئے شفاءاور سلا متی کی عاجزانہ دعا وں کے سا تھ اپنے ان شہداءکا واسطہ دےتے ہےں جو اس ملک کی خاطر قربان ہو گئے۔مےرا وجدان تو اس وقت مجھ کو شدےد بے چےن کر دےتا ہے اور سانس لےنا دشوار ہو جاتا ہے جب کبھی ےہ سوچتا ہوں کہ ان سوا لاکھ بے گناہ بےٹےوں اور بہنوں کو روز قےامت کےا جواب دوں گا جن کو اس مملکت پاکستان کی خاطر مشرقی پنجاب مےں ہم چھوڑ آئے تھے ‘ جو آج بھی آسمان کی طرف منہ کرکے اپنا قصور پو چھتی ہوں گی ! صرف مشرقی پنجاب کے ان پانچ ہزار سے زائد کنوو ں کا حال کس قلم سے کےسے لکھوں جن مےں مسلمان بچےاں اپنی آبرو بچانے کےلئے کود گئیں۔ان ہزاروں بچوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کلےجہ منہ کو آتا ہے جن کو ان کے ماں باپ کی آنکھوں کے سامنے تلواروں اور بھا لوں کے ساتھ ٹکڑے ٹکڑے کر دےا گےا۔آج بھی لا کھوں افراد اپنے پےاروں کو ےا دکرکے چپکے چپکے اپنے اللہ کے حضور اشک بار ہو کر اس پاکستان کےلئے ان کی قر با نی کی قبو لےت کی دعایئں کرتے ہیں!
لکھتے رہے ہم پھر بھی حکاےات خونچکاں
ہر چند کہ اس مےں ہاتھ ہما رے قلم ہوئے
یہ حالت صرف ان لوگوں ہی کی نہےں جنہےں مےرے رب نے حالات و واقعات کا ادراک دےا ہے۔وہ کسی بڑی آندھی ےا طوفان کے آنے سے پہلے ہی خوفزدہ ہو جا تے ہےںاور فوری طور پر اپنے تیئںان خطرات سے آگاہ کرنا شروع کر دےتے ہےں‘منادی کرنا شروع کر دےتے ہےں۔دن رات اپنے تمام وسائل بروئے کار لا تے ہوئے دامے درمے اور سخنے اسی کام مےں لگ جا تے ہےںکہ کسی طرح ان خطرات کا ترےاق کیا جائے۔
آجکل ذرا سی سوجھ بوجھ ر کھنے والا شخص بھی حےرت مےں گم چہرہ لئے ا ےک دوسرے سے ےہی سوال کر تا پھر ر ہا ہے ‘کےا ہو نے و الا ہے اور اب کےا بنے گا؟ہما را مستقبل کےا ہے‘ہم کہاں کھڑے ہےں؟اےک دو سرے سے کو ئی اچھی خبر کی تمنا دل مےں لئے ہوئے‘اےک ا مےد کی شمع آنکھوں مےں سجائے جےسے بستر مرگ پر پڑے مر ےض کے لواحقےن کسی معجزے کی آرزو مےں کسی حکےم‘حاذق سے مر ض کے ترےاق ملنے کی نو ےد کےلئے بے تاب ہو تے ہےںےا کسی صاحب نظر کی دعا کے محتاج جس سے مرےض کی جاں بچنے کی آس ہو جائے لےکن شائد اب مرےض کو کسی حکےم کے ترےاق ‘کسی ڈاکٹر کی دواےا پھر کسی صاحب نظر کی دعا سے زےادہ کسی ماہر سرجن کی ضرورت ہے اور شا ئد آپرےشن مےں جتنی دےر ہو گی مر ےض کی جان بچنے کے ا مکانات اتنے ہی مخدوش ہو جائےں گے‘مرےض کی حالت اتنی ہی بگڑتی چلی جائے گی‘مرض اتنا ہی پھےلتا جائے گا‘آپرےشن اتنا ہی لمبا اور تکلےف دہ ہو جائے گا۔مجھ سے ما ےو سی کا گلہ با لکل نہ کرےںاور نہ ہی مےرا مقصد بلا وجہ آپ کو ڈرانا ہے لےکن آ پ ہی مجھے ےہ بتا ئیںکہ آپ کا کوئی عزےز جو آپ کو بہت ہی پےارا ہووہ کسی خطرناک مرض مےں مبتلا ہو جائے‘آپ اس کے بہتر علاج کےلئے دنےا کے بہترےن ڈاکٹر‘بہت ہی سمجھدار طبےب ےا بڑا نامور حاذق تلاش کر نے مےں دن رات ایک کر دیں گے اور اس کی زند گی بچانے کےلئے ا پنی تو فےق سے بڑھ کر خرچ کر نے مےں کو ئی دقےقہ فرو گذاشت نہیں کریں گے۔ےہ تمام و سا ئل مہیا ہو نے کے بعد آپ سجدے مےں رو رو کر اپنے عزےز کی شفا ےابی کےلئے اپنے معبود کو اس کی تمام جملہ صفات کا واسطہ بھی دیں گے تب جا کر آ پ کے دل کو ا طمےنان آئے گا کہ وہی شفا کا منبع ہے اس سے بہتر کون ہے جو ہما ری د عاو ں کو شرف قبولیت دے گا۔
۸۱ فر وری کے بعد پاکستانی عوام نے کچھ سکھ کا سانس لےا تھا کہ اب قسمت ا ور حا لات بد لنے کا وقت آ گےا ہے لےکن شائد ابھی قسمت کا اند ھےرا اور بڑھ رہا ہے۔کڑ ی آز مائش کے دن ا بھی اور با قی ہےں۔ مہنگا ئی کا جن تو پہلے ہی ہما ر ے دن رات غارت کر چکا ہے بلکہ اب وہ جو خلق خدا کے سا منے ر بو بےت کا دعویٰ روٹی کپڑا اور مکان دےنے کا ا علان کر رہے تھے بڑی ہی بے بسی کے ساتھ منہ چھپا ر ہے ہےں۔عوام کے ہا تھوں مےں گنتی کے چند نو ٹ تھما دئے گئے ہےں لےکن وہ ےہ سوچ رہے ہےں کہ اس سے کون کون سی چےز خر ےدیں۔پےسے ہےں مگر کھا نے کےلئے آٹا کہاں سے ملے گا؟پےسے ہےں مگر بجلی اور گےس مو جود نہےں۔ شا ئد اسی لمحے کےلئے قرآن پکار پکار کر کہتا ہے کہ ا گر تم مےرے ذکر سے منہ مو ڑو گے مےں تمہا رے گزران مشکل کر دوں گا۔جب قومےں عدل سے بے بہرہ ہو جا ئیں‘ظا لموں کے ظلم پر احتجاج کر نا چھوڑ دیں‘صرف اپنی سلامتی کی دعا مانگیں‘اےک دوسرے کے مصائب سے نا آشنا ہو جا ئیںتو پھر ا صلاح کےلئے ا ٹھنے وا لے ہا تھ بھی غےر مو ¾ثر ہو جا تے ہےں۔معاملہ تو اس سے بھی آگے بڑھ چکا ہے۔ اب امن بھی تہہ و بالا ہو رہا ہے۔ا فغانستان مےں ا مرےکہ اور نےٹو کی ا فواج دن رات مظالم کے جو پہاڑ توڑ رہے ہےں ان کی طرف سے توجّہ ہٹانے کےلئے اب پاکستان کی سلامتی کو بھی شدید خطرات سے دوچارکر دیا گیا ہے۔ پچھلے کئی دنوں سے وادی کشمیرمیں کرفیو نافذہے۔پائین شہر کربلا کا منظر پیش کررہا ہے۔تمام شاہراہوں پلوں کو خارداروں تاروں کا لباس پہنا دیا گیا ہے ‘فولادی دیواریں پہلے کیا کم تھیں کہ اب کپوارہ‘اسلام آباداورپلوامہ کے باسی ایک اجتماعی جیل میںڈال دیئے گئے ہیں۔ زندگی کا پہیہ جام ہو کر رہ گیا ہے‘بڈگام‘بانڈی پورہ‘چاہ ڈورہ اوروادی کے تمام قصبوں میں زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے ۔سیکورٹی فورسز نے منصوبہ بندی کے تحت معاشی پابندیوںکے پروگرام پر عمل درآمد شروع کردیا ہے۔کوئی انہیں یہ بتائے کہ ایسے مکروہ منصوبے تو غزہ میں بھی کامیاب نہ ہوسکے۔آزادی کی تحریک نسل درنسل منتقل ہوتی جارہی ہے۔قوموں کی زندگی میں پچاس یا سوسال کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔۷۵۸۱ءکے حالات نے پاکستان کی بنیاد رکھی تھی اوربالآخر اس خطے میں پاکستان معرضِ وجود میں آگیا۔
کشمیر کی اس بگڑتی صورت حال پر عالمی توجہ کی ضرورت تھی لیکن یہاں ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت یا بدلے کی آگ میں حضرت علی ہجویری کے سبز گنبدوں کو ان کے شیدائیوں کے خون سے نہلا دیا گیا۔غزنی کے محلے ہجویر سے اپنے مرشد کے حکم پر لاہور کو اپنا ٹھکانہ بنایا‘محبت والفت کے ایسے چشمے پھوٹے کہ سسکتی انسانیت اپنے زخموں کے مرہم کےلئے آج بھی ان کو اپنا مسیحا سمجھتی ہے۔ایک ایسے مہمان خانے کی بنیاد رکھی کہ اب تک لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگ ایسے سخی کی میزبانی کا لظف اٹھا چکے ہیںاچانک وہاں کئی بے گنا ہوں کو خون مےں نہلا دےا گےا۔کےا ا تنی جلد جواب دےنا ممکن تھا ےا پھر کوئی سو چی سمجھی سا ز ش ہے کہ فو ری طور پر لو گوں کے اذ ہان کو اصل مجرموں تک ر سا ئی نہ ہو۔دیکھنا یہ ہے کہ ان تمام کاروائیوں کا سب سے زیادہ فائدہ کس کو پہنچ رہا ہے۔
عراق میں مساجد‘امام بارگاہوںاورمزاروں پر بھی ایسے ہی خوفناک حملے کرائے گئے تاکہ وہاں فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکا کر اپنا کام نکالا جا سکے لیکن ہواکیا؟عراق کے لوگ اس سازش کو سمجھ گئے اوردشمن کا یہ وار الٹا ان کے گلے میں پڑگیااوروہ جو صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا پسند نہیں کرتے تھے وہ سب متحد ہو کرسرخ آندھی کی طرح اپنے دشمن پر ٹوٹ پڑے۔اب ایسا ہی منظر ان کو پاکستان میں دیکھنے کو مل رہا ہے ‘ہر کوئی(شیعہ سنی دیوبندی اوراہلحدیث) حضرت علی ہجویری کو اپنا مرشد مان کر ایک دوسرے کے ساتھ گلے مل کر اس دشمن کو پہچان چکاہے۔اہالیان پاکستان حضرت علی ہجویری کے اس مبارک قول کو جا ن چکے ہیں کہ”کسی کو دکھ دینے سے پہلے سوچو کہ اس کی جگہ تم ہوتے تو تمہارا کیا حال ہوتا“۔
آج ہی قصر سفےد مےں بےٹھے ہوئے فر عون کے نما ئندے نے تمام سفارتی آداب کو اےک طرف رکھتے ہوئے ےہ دہمکی داغ دی ہے کہ پاکستان فوری طور پر ا پنے قبا ئلی علا قو ں کی خبر لے و گرنہ ہما رے بہادر کما نڈو ان کی سر کو بی کر نے کےلئے تےار بےٹھے ہےں۔بھلا کو ئی ان سے پو چھے کہ عراق اور افغانستان مےں تو آپ کو ہر قسم کے مظالم ڈھانے کی مکمل آزادی ہے و ہا ں کے حا لات آپ کے قا بو مےں کےوں نہےں آ رہے کہ اب اےک نئے محاذ کو کھولنے کی دہمکی د ےتے ہو ئے ذرا بھر بھی شرم نہےں آتی۔کسی نے اےک شکاری کو مسلح دےکھ کر اس کے پر و گرام کے با رے مےں پوچھ لےا تو اس نے جو ا ب دےا کہ تےا ری تو شےر کے شکار کی ہے لےکن راستے مےں بےٹھی ےہ بلی بہت گھور رہی ہے۔غارت ہوں ہما رے وہ حکمران جو دعوے تو بہادر کما نڈو کے کرتے تھے لےکن اےک ہی ٹیلیفون کال پر سجد ے میں گر کر سا ری قوم کی ر سوائی کا سبب بن گئے اور آج آ ئے دن ہمےںاس طرح کے طعنے اور احکام کی بجا آوری مےں اپنا نا حق خون بہانا پڑ رہا ہے ۔
رہے نام میرے رب کا جو علیم و خبیر ہے!
بروزمنگل۴۲رجب ۱۳۴۱ھ ۶جولائی ۹۰۰۲ئ
لندن