ابرار احمد اجراوی
مختلف عہد میں انبیائے کرام کی بعثت کا اساسی مقصد یہ تھا کہ گم کر دہ راہ انسانی قافلے کو نہ صرف یہ کہ صحیح مذہبی خطوط پر گام ز ن کیا جائے، بلکہ اس قافلے کے ارکان کے ذہنوں میں انسانیت و آدمیت کا فراموش کر دہ سبق بھی از سر نو یاد دلایا جائے۔ تاکہ روئے زمین پر بسنے والا یہ افضل ترین خدائی کنبہ فلاح وبہبود، امن و سلامتی ، انسان دوستی اور بقائے باہم کے اصولوں پر کاربند رہ سکے اور مذہبی و نسلی تفریق سے اوپر اٹھ کر ایک دوسرے کے لیے خیر کا سر چشمہ بن سکے۔ کیوں کہ تمام بشری سلسلوں کا نقطئہ آغاز ایک ہی مرکز ہے۔ تمام خلق خدا اللہ کا کنبہ ہے۔ ارشاد خداوندی ہے۔ خلقکم من نفس واحدة۔
چشم دل وا کیجیے اورذرا تصور کیجیے اس چھٹی صدی عیسوی کا، جب انسانی کنبے کا ہر فرد روحانی اعتبار سے تہ در تہ ظلمتوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ ظاہری جسمانی ڈھانچہ موجود تھا، لیکن اس میں روحانیت اور باطنیت کی روشنی ندارد۔ ایمان و ایقان کی دولت سے محروم۔ ان کی زندگی انتشار و افتراق سے عبارت تھی۔ ان کا محبوب مشغلہ تھا ظلم وستم، ضرب و حرب، جھوٹی انا کی تسکین کے لیے صدیوں اور پشتوں تک چلنے والی لڑائیاں۔ ہر طرف انسانیت کو شرم سار کر نے والی حرکتوں کا بول بالا تھا۔لیکن آپ ﷺ کی بعثت سے انسانیت کے تن مر دہ پر ایک کاری ضرب لگی۔ تو ا س کی منجمد رگوں میں بھی خون تازہ کی ایک طاقت ور رو دوڑ گئی۔ آپﷺ کی بعثت نے اس انسانی گروہ کو گھٹا ٹوپ اندھیرے سے نکال کر عالم گیر روشنی میں لا کھڑا کیا۔ ظلمت زدہ اذہان کوعلو م معارف کی روشنی سے منور کیا۔ ناداروں اور مفلسوں پر ظلم و ستم اور جبر و تشدد کی جو وحشیانہ مشق چل رہی تھی، اس کے ازالے کے لیے آپﷺ نے انھیں انسانی رشتوں کا پاس دلایا۔ آپﷺ نے علم و عمل کے اعتبار سے انھیں اتنا مکمل بنادیا کہ وہ رہتی دنیا تک ہر ایک کے لیے قابل تقلید نمونہ بن گئے۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں ہر دور میں مقبو لیت و محبوبیت کا تمغہ ملا اور بڑے بڑے سلاطین و فرماں رواوٴں نے انھیں جھک کر سلام کیا۔ اس لیے نہیں کہ وہ مذہب اسلام کے سچے حامی اور اس کے مخلص و جاں باز سپاہی تھے، کیوں کہ ان کافر و مشرک سلاطین وقت کو ان کی مذہبیت سے کیا سرو کار ہو سکتا ہے۔ اگر پوری دنیا ان کی گرویدہ تھی اور ان کے چھوڑے ہوئے نقوش کو مقدس جانتی اور اس کو اپنی منزل کا نشان تصور کر تی تھی، تو صرف اس لیے کہ وہ انسانیت و آدمیت کے اصولوں پر سختی سے کار بند رہتے تھے، وہ دوسروں کے دکھ درد کو دل کی پہنائیوں میں محسوس کر تے تھے اور بلا تفریق مذہب و ملت ان کی طرف دست تعاون دراز کرتے تھے، کیوں کہ بقول سعدی:
بنی آدم اعضائے یک دیگر اند
کہ از آفرینش زیک جو ہر اند
آپ ﷺ نے آدم گری اور مردم سازی کی جو دعوت عالمی پیمانے پر دی تھی، اس کو چودہ صدیاں بیت گئیں۔ انسانی قافلوں کی آمد و رفت کا عمل تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ ہر نوواردقافلہ اپنے بعدآنے والے انسانی قافلے کے لیے تباہی و بربادی کا سامان پیدا کر رہا ہے۔ سائنس وٹکنا لوجی کے بے جا استعمال اور قسم قسم کے تجربات، انسانوں کو تباہی و بر بادی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ مغرب کی ترقی کا سارا زور اس بات پر ہے کہ روئے زمین کے گوشے گوشے کو ضرر رساں تجر بات سے گزارا جائے۔ تاکہ ترقی کی رفتار تیز سے تیز تر ہو سکے۔ نیو کلیر ہتھیاروں کی تخلیق کے پیچھے ساری دنیا دیوانگی کی کیفیت کا شکار ہے۔ اپنے ہتھیاروں کو جدید ترین بنانے اور اپنے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے چھوٹے چھوٹے غریب ممالک بھی بنیادی ضرورتوں سے منھ موڑ کر نئے نئے تجر بات کررہے ہیں ۔ ان تجربات کی وجہ سے زمینی خطہ گلو بل وارمنگ کے عمل سے گزر رہا ہے اور نئی نئی لاعلاج بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔
اگر فضول خرچی پر نظر ڈالیے، تو فیشن پرستی کے نام پردولت منداور امیر طبقہ اربوں روپے پانی کی طرح بہائے جا رہا ہے۔ دوسری طرف انسانی فیملی کا ہی ایک ممبر فاقہ کشی پر مجبور ہے۔ امیر ہے تو اس کی مال وزر کی ہوس اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ وہ دوسروں کا سب کچھ دبا لینا چاہتا ہے۔ تاجر طبقہ اتنا مادہ پرست اور طمع خو ہے کہ ذخیرہ اندوزی کر کے گرانی کے زمانے کا انتظار کر تا ہے۔ جس سے غریب طبقہ بری طرح متأثر ہوتا ہے۔ لوگوں پر سر مایہ داری کا بھوت اتنا شدت سے سوار ہے کہ وہ مفلوک الحالوں کی امداد کے بجائے انتہائی بخالت کا مظاہرہ کر تا ہے۔ اگر مزدور طبقہ ہے تو بد دیانتی اور بے ایمانی سے کام لیتاہے۔ اگر سیاست داں ہے تو اتنا بد عنوان اور خود غرض ہو تا ہے کہ صرف اپنی جیب بھر لینا چاہتا ہے۔ غریب مزید غریب اور امیر امیر ہوتا جارہا ہے۔ اور خدائی کنبے کے ہی دو طبقے کے درمیان نابرابری اور عدم مساوات کی ناقابل عبور خلیج حائل ہوتی جارہی ہے۔اور دو دنیا وجود میں آتی جارہی ہے، ایک غریب اور پسماندہ جن کے پاس بنیادی سہولتوں کا بھی فقدان ہے اور دوسری امیر اور ترقی یافتہ جن کے پاس سہولتوں کی اتنی بھرمار اور دولت کی اتنی ریل پیل ہے کہ فضول خرچی اور بے جا اسراف پر آمادہ ہیں۔
ان سارے مسائل اور خرابیوں کی بنیاد یہ ہے کہ آج کا انسانی معاشرہ انسانیت کے جو ہر سے آشنا نہیں رہا۔ نوع انسانی کے ارکان کو دوسروں کے تئیں عائد ہو نے والی ذمے داریوں ، فرائض اور ان کے حقوق کا پاس نہیں رہا۔ وہ انسانیت کا عظیم اور آفاقی پیغام فراموش کر چکا ہے۔ یہاں سبھی اپنی حکمت کے پیچ و خم میں الجھے ہو ئے ہیں۔ اور اپنے افکار کی دنیا میں محو پرواز ہیں۔ وہ خود اپنے ہم جنسوں کے لیے مصائب و آلام کے دروازے واکر رہا ہے۔ ہر آدمی دوسرے سے خوف کھا رہا ہے ۔ غریب ہے تو وہ ہر وقت خوف و دہشت اور مایوسی کی تصویر بنا نظرآتا ہے۔ منور رانا نے آج کے حالات کے چوکھٹے میں بر محل شعر کہا ہے:
جسے بھی دیکھیے وہ خوف کی سولی پہ لٹکا ہے
ہمارے شہر کا ہر آدمی منصور لگتا ہے
یہ ساری خرابیاں اور بگاڑ اسلامی تعلیم سے دوری کا نتیجہ ہیں۔ نئی نسل کو تعلیم و تربیت کی دوئی کا علم ہی نہیں۔ نئی مغرب زدہ تعلیم نے ہمارے معاشرے کی پسند و ناپسند اور ان کی ترجیحات کو ہی بدل کر کھ دیا ہے۔ اب وہ بلوغت کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی ایسی حیا سوز حرکت کرنے لگتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ اگر انھیں ٹوکیے تو والدین دقیانوس ، راعت پسند،بنیاد پرست اور ماضی کے پجاری قرار دیے جاتے ہیں۔ اکبر الہ آبادی نے اسی نئی تعلیم کا مرثیہ یوں کہہ کر پڑھا تھا کہ
نئی تعلیم سے کیا واسطہ ہے آدمیت کو
جناب ڈارون کو حضرت آدم سے کیا مطلب
آج ہمارے ذہنوں میں حدیث نبوی کا یہ سبق محفوظ نہیں رہا کہ تم زمین والوں پر حم کرو آسمان والا تم پر حم کرے گا۔ مولانا ابولکلام آزاد نے شاید اسی قسم کے حالات سے متأثر ہوکر کہا تھا: ” شیر خون خوار ہے مگر غیروں کے لیے۔ سانپ زہریلا ہے مگر دوسروں کے لیے ۔ چیتا درندہ ہے مگر اپنے سے کم تر جانوروں کے لیے ، لیکن انسان دنیا کی اعلی ترین مخلوق خود اپنے ہم جنسوں کا خون بہاناچاہتی ہے اور اپنے ہی ابنائے نوع کے لیے درندہ خون خوار ہے ۔ “اگر آج کا انسان اس تصور کو اپنے ذہنوں میں بٹھا لے کہ خدا نے سارے انسانی کنبے کو” نفس واحدہ“ سے وجود بخشا ہے، دنیا کا ہر انسان اسی کی طرح ناک، کان، ہاتھ اور پاوٴں رکھتا ہے اس کی جان اور دوسروں کی جان میں کوئی فرق نہیں، تو وہ دوسروں کے در پے آزا ر کیوں ہو گا؟ وہ کیوں دوسروں کے حقوق دبا ئے گا؟ وہ کیوں دوسروں کے مال پر ڈاکہ ڈالے گا؟ وہ کیوں دوسروں کے دکھ درد کا سبب بنے گا۔ اگر انسانیت کا یہ درس ہمارے ذہنوں میں جاگزیں رہے ، تو دنیا امن و آشتی کا گہوارہ بن جائے گی۔
پہلے سے کہیں زیادہ آج یہ ضروری ہو گیا ہے کہ انسانیت کے اس آفاقی اور ابدی پیغام کوبڑے پیمانے پر تشہیر و توسیع کے عمل سے گزارا جائے کہ پوری انسانیت خدا کا کنبہ ہے۔ ” انسانیت ایک عظیم کل ہے اور سارے افراد انسانی اس کے اجزاء“۔ اس کا ایک جز دوسرے جز کے لیے مسائل و مشکلات کو جنم نہ دے۔ انسانیت کے تن نازک پر لگنے والے زخموں کی ٹیس ، انسانیت کے ہر رکن کو متأثر کیے بغیر نہ رہ سکے۔ انسان بننا اتنا ضروری ہے کہ حکیم الامت حضرت مولا اشرف علی تھانوی انسانیت کو بزرگیت پر ترجیح دیتے تھے ، ایک جگہ کہتے ہیں:”انسان بننا فرض ہے، بزرگ بننا فرض نہیں، اس لیے کہ انسان نہ بننے سے دوسروں کو تکلیف ہوگی اور بزرگ نہ بننے سے اپنے کو تکلیف ہوگی۔“
مفکر اسلام مو لانا علی میاں ندوی نے اس عظیم مقصد کی حصولیابی کے لیے بیسویں صدی کی نویں دہائی میں پیام انسانیت کی تحریک کاپودا لگایا تھا۔ یہ پو دا نہ صرف برگ وبار لا رہا ہے، بلکہ اس کی شاخیں ملک کے طول وعرض میں بھی پھیل چکی ہیں۔اس تحریک کا پیغام تھا پوری انسانیت کو مساوات اور برابری کا درس دینا ۔ اس تحریک کامحوری مقصد تھا کہ مذہب، ذات پات اور رنگ و نسل کی بنا پر اونچ نیچ کا خاتمہ کرکے ساری انسانیت کو ایک پلیٹ فارم پر لاکھڑا کیا جائے ۔ اس تحریک نے اس مقصد میں کافی کامیابی حاصل کی تھی۔ادھر کچھ دنوں سے اس پر جمود کی سی کیفیت طاری ہے۔صرف جگہ جگہ شاخیں قائم کرنے سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا، بلکہ اس میں حرکت و عمل کا خون دوڑانے کی ضرورت ہے۔ پیام انسانیت کایہ پیغام پورے خطئہ ارضی میں پھیلنا چاہیے، کیوں کہ موجودہ عالمی اور مقامی منظرنامے میں اتحاد و اشتراک عمل کی دعوت پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہوگئی ہے۔اسلام انسانوں کو بانٹنا نہیں چاہتا، بلکہ انھیں انسانیت کی لڑی میں پرونا چاہتا ہے۔ اسلام میں شیخ و برہمن کی کوئی تفریق نہیں۔ علامہ اقبال نے صحیح کہا ہے:
تفریق ملل حکمت افرنگ کا مقصود
اسلام کا مقصود فقط ملت آدم
نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں مولانا علی میاں ندوی کی مختلف تحریروں سے مدد لی گئی ہے۔
ًّABRAR AHMAD
ROOM NO.21, LOHIT HOSTEL
JNU, NEW DELHI. 110067
MOB:9910509702