Home / Socio-political / انسانی جان کی قیمت ایک تھیلی آٹا

انسانی جان کی قیمت ایک تھیلی آٹا

ماریہ علی ۔ڈنمارک

 پاکستان کے ہر روزنامے ، ہر ٹی وی چینلز پر ایک چونکا دینے والی خبر یں روزانہ ہی  دل و جان کو ایسے جنجھوڑ دیتی ہے جیسے ابھی سانسوں کو چلتے رہنے کا اور جرم  نہیں کرنا چاھیئے ۔

یہ خبر ہم سب نےہرچینل اور ہر نیٹ نیوز اور اخبار میں بھی پڑھی کہ “چودہ ستمبر دوہزار نوکے دن  پاکستان کے شہر کراچی میں مفت راشن کی تقسیم کے دوران بھگدڑ، 16خواتین جاں بحق ہو گئی ہیں۔

یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ کراچی میں آٹا حاصل کرنے کی غرض سے سولہ خواتین اور تین معصوم بچیاں بھگڈر میں ماری گئیں۔اس پر انتظامیہ یہ کہتی ہے کے نا مناسب انتظامات کی بنا پر یہ واقعہ وجود میں آیا اور اسی بناء پر اس مفت راشن تقسیم کرنے والے چوہدری افتخار کو بھی گرفتار کر کے قتل خطا کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے ۔ ظلم کی انتہا دیکھئے کہ  اب وہ انسان جو کے غریبوں کی بھلائی کرتا تھا اب اس کو  انتظامیہ دونوں ہاتھوں سے لوٹے گی کے توغریبوں کو اتنا دیتا تھا تو ہم کو بھی اسکا حصہ دے ورنہ اور کیسز لگا دیں گے۔اگر پاکستان میں غریبی بڑھ گئی ہے تو اسکے ذمہ دارں کو سزا نہیں دی جاتی بلکہ سزا بھی انکو دی جا رہی ہے جو غریبوں کے لئیے کچھ کرنا چاہتے ہیں ۔

کوئی جائے اور پوچھے ان مظلوموں سے کہ کیا تم لوگ اس انسان کے خلاف قتل کا مقدمہ چاہتے ہو جو تم لوگوں کی امداد کے لئیے بیٹھا تھا تو میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کے ہر ایک یہی کہے گا کے اس کا کیا قصور یہ تو ہر سال کی طرح اس سال بھی راشن تقسیم کرنے بیٹھا تھا مگر اس سال غربت اسقدر ہوگئی کے غریب عوام پچھلے سالوں کی نسبت اس ایک سال میں سو گناہ ہو گئی ہے مگر انتظامیہ کی نظر میں مجرم یہ شخص ہے ۔۔  سبحان اللہ ۔۔

ایسی انتظامیہ ایسی حکومت ایسے سیاست دان اور ایسی عدلیہ سب کے سب بے ضمیری اور عیاشیوں  میں اس قدر غرق ہیں کے انکو کچھ دکھائی نہیں دیتا کہ ملک میں جنگل کا قانون رائج ہے ۔ جہاں غربت کے ساتھ غریب اور غریب کی  مدد کرنے والے سب بے موت مارے جاتے ہیں ۔

اس کڑے وقت  میں کوئی پرسان حال نہیں ۔ کبھی تو ان غریبوں کو گمنام گولیوں اور انجان دھماکوں  کا شکار ہونا پڑتا ہے یا پھرآٹے اور چینی کے حصول میں اپنی جان گنوانی پڑتی ہے ۔ مرتا صرف  غریب ہی ہے کبھی کسی  حکمران ،کسی سیاست دان کو اس طرح مرتے نہیں دیکھاہو گا  ، کیونکہ انکے پروٹوکول پر لاکھوں روپیہ جو خرچ کیا جاتا ہے ۔

اور اس پر ہمارے حکمرانوں کی بے حسی دیکھیئے کہ ان کے لواحقین کے لئیے ایک لاکھ فی کس کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ انکوائری کا حکم صادر کر کے یہ سمجھتے ہیں کے ان کا فرض پورا ہو گیا ؟

کیا یہ قیمت ہے ایک انسانی جان کی؟

پکیا یہ ہے جمہوری نظام ؟

کیا یہی ہے شفاف عدلیہ ؟

کیا یہی ہے جناح کا پاکستان ؟

جہاں  انسانی جان کی قیمت  ایک تھیلی آٹا ہے ۔۔

اس سے ذیادہ اور کیا بربادی کا منظر ہوگا ؟اس سے زیادہ اور کیا قحط کا عالم ہوگا ؟دنیا کے سامنے اپنے ملک کی غریبی کا تماشہ بنا کر بھیک مانگنے والے یہ بے غیرت حکمران عوام کا یہ حال دکھا کر ان غریبوں کے نام پر اکھٹی کی جانے والی بھیک سے خود تو عیاشیاں کر رہے ہیں مگر غریب کو ایک وقت کی روٹی تک میسر نہیں۔

لعنت ہے ایسے سیاستدانوں پر لعنت ہے ایسے حکمرانوں پر اور صد لعنت ہے ایسی آزاد اور شفاف عدلیہ پر جو کے ایک غریب کو آٹے جیسے روزمرہ کے استعمال کی چیز بھی بھیک کی طرح فراہم کرتے ہیں اور اسکے بدلے وہ غریب اپنی جان تک گنوا دیتا ہے مگر کسی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

کہاں گئے وہ چیف جسٹس کے بڑے بڑے دعوے ؟ آج کیوں وہ چیف جسٹس آنکھوں پر پٹی باندھے گہری نیند سو رہے  ہیں  ؟

ان غریبوں کو کون انصاف دے گا ؟ان کے قتل کا مقدمہ کس کے سر ہوگا ؟

کہاں ہیں وہ مفاد پرست وکیلوں کے غیرت کی آڑ میں اپنی ہی غیرت کا سودا کرنےوالے  سردار علی احمد کرد اور اعتزاز احسن جو کے آزاد عدلیہ اور انصاف  کے نام پر ڈھول پیٹتے نظر آتے تھے ؟ اب کیوں نہیں آگے آتے وہ ؟اب کیوں نہیں ان مظلوم عوام کی طرف سے سپریم کورٹ میں کیس داخل کرتے ؟ صرف اس لئیے کے جیف جسٹس کو بحال کروانے کے لئیے پوری ایک مشینری تھی جس کے وہ آلائےگار تھے اور اب انکو انکی خاموشی کی بھرپور قیمت مل رہی ہے ؟

خدا بھی ایسے ایسے لیڈروں پر لعنت بھیجتا ہے جو عوام کی جان کو اپنے ڈسٹ بن کے کچرے سے بھی کم سمجھتے ہیں ۔

میں پاکستان کے صدر ۔چیف جسٹس ۔وزیر اعظم سمیت تمام وزرا اور سیاست دانوں سے گزارش کرتی ہوں کے وہ اپنے گھر کے بزرگ اور بچوں کو اسطرح ایک دن کے لئیے سڑک پر آٹے کے حصول کے لئیے تو نکالیں وہ بھی بنا کسی پروٹوکول کے تو انہیں احساس ہوگا کے غریب کس طرح اپنے ضمیر کو مار کر سڑکوں پر بھیک کی طرح آٹا اور چینی حاصل کرنےکے لئیے دکھے کھاتا ہے ۔

صرف ایک دن  صدر زرداری صاحب بلاول بھٹو ذرداری کو سڑک پربھیجیں  کہ وہ ایک آٹے کی تھیلی کے پہلے تولائن لگائے اور پھر ہتھیلی پر جان رکھ کر آٹے کی ایک تھیلی حاصل کرے اور پھر اسی جان کو بچا کرتھیلی سمیت  گھر واپس بھی آ جائے ۔۔  بڑے بڑے دعوے کرتا ہے نا بلاول  ” بےنظیر کی نشانی ہے غریب عوام کا ساتھی ہے” ۔

چیف جسٹس صاحب آپ بھی اپنے صاحبزادے کو سڑکوں پر بھیجیں اس صاحبزادے کو جس کی نوکری کی  خاطر آپ معزوول ہوئے اور پھر یہ  آزاد عدلیہ کا ڈرامہ رچاکر آپ پھر سپریم کورٹ میں پہنچ گئے۔ وہ بیٹا جب اس طرح  آٹے کی ایک تھیلی کی خاطر بے موت مارا جائے گا تو میں آپ سے پوچھونگی کے اب بھی آپ کی آنکھوں پر ڈیل کی پٹی بندھی رہے گی یا آپ اب انصاف کریں گے ؟کیا آپ کے بیٹے کی موت پر انکوئری اور نقد رقم سے صبر آ جائے گا آپ کو؟

یہ بے ضمیر ، بے غیرت جمہوریت کے دعوے دار سیاست دان کوئی لندن میں بیٹھ کر غریبوں کے سروں پر عیاشیاں کر رہا ہے تو کوئی راےونڈ میں بیٹھ کر سکون کی نیند لے رہا ہے ۔

ان کو کیا معلوم کس کس طرح غریب اپنا اور اپنے بچوں کا بیٹ پال رہا ہے ۔ ان کو تو غریب عوام بس جب یاد آتی ہے جب انکے مفادات پورے نہیں ہوتے۔ یہ بے ضمیر اس وقت جاگتے ہیںاور اس مظلوم عوام کو ٹیشوپیپر کی طرح استعمال کر کے سڑک کے کنارے ہی بھینک دیتے ہیں اور یہ مظلوم عوام سجھتی ہے یہی ہمارا مسیحا ہے ۔

ایک محترمہ کے قتل کی تحقیقات کروانے کے لئیے ہماری حکومت کڑوڑوں ڈالرز خرچ کر سکتی ہے۔ایک مشرف کے‌خلاف مقدمے کے لئیے اسمبلی میںاحتجاج ہو سکتا ہے مگر غریب کی روٹی کی جہاں بات آتی ہے وہاں سر پر جوں تک نہیں رینگتی انکے ۔ بےنظیر انکم سپورٹ جیسے ڈھکوسلے کر کے اپنے چمچوں کو تو نوازا جاتا ہے مگر غریب کو ایک روپیہ کی امداد کہیں سے نہیں ملتی۔اور جو مخیرحضرات امداد کرنا چاہتے ہیں وہاں غریبوں کا اتنا رش لگ جاتا ہے کے وہ بے موت مارے جاتے ہیں۔

کہتے ہیں خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ۔ مگر اور کتنی دیر ہے ؟  وہ تو منصف اعل یے  جو کہ عرش پر بیٹھا سب دیکھ رہا ہے وہی پاکستانی عوام کے ساتھ انصاف کرے ؟ اور یہ سب کے سب راہنما  بھیڑیے اپنے کیفر کردار تک جا پہنچیں ۔۔ آمین

اے کاش کے کسی غریب کی بد دعا قبول ہو جائے ۔ ۔۔ اے کاش۔۔  ۔آمین

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

2 comments

  1. آپ نے کہا کہ خدا بھی ایسے ایسے لیڈروں پر لعنت بھیجتا ہے جو عوام کی جان کو اپنے ڈسٹ بن کے کچرے سے بھی کم سمجھتے ہیں ۔
    لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ معاملہ اس کا بر عکس ہے۔
    خدا کی رحمت ان ہی لوگوں پر ہیں جو ملک کی بربادی کے ذمہ دار امن کے دشمن اور صرف اور صرف مفاد پرست ہیں۔
    بہتر یہ ہوگا کہ ہم سب اپنی آواز کو اتنا بلند کریں کہ ان کو مجبور ہونا پڑے ہماری آواز سنیں،
    ہمیں اپنی رفتار اتنی تیز کرنی ہوگی کہ انہیں ٹکر کی چوٹ کا خدشہ ہو اور ڈر کے مارے ہمارے مطالبوں پر غور کریں۔
    آج کی تاریخ میں دعا اور بد دعا بے معنی ہیں۔

  2. پاکستان کی صورت حال پر آپ نے جو کچھ لکھا درست لکھا ہے۔
    یہاں کی صورت حال بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے کوئی سننے والا نہیں۔
    اس سے بڑی کرائسس کی بات اور کیا ہوگی کہ کوئی انسان کی موت روزی روٹی کی جد و جہد میں ہو جب کہ کہا جاتا ہے کہ اللہ نے سب کے رذق کا انتظام کیا ہے۔
    ان حالات کا کوئی ٹھوس حل نہیں نکلتا۔

    حاکموں کے کان بہرے ہو گئے ہیں،
    غریبوں کی دعاؤں سے اثر ختم ہو گیا ہے۔
    خدا ہی جانے کیا ہونے والا ہے اس ملک کا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *