گدھا ایک ایسا جانور ہے جو محنت اور سخت جانی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں جو آدمی انتہائی درجے کا محنتی ہوتا ہے لوگ اُسے گدھے سے تشبیہ دیتے ہیں۔ یہ حقیقتاً ایک ایسی مخلوق ہے جسے ہم پیار یا غصہ دونوں حالتوں میں گدھا ہی کہتے ہیں۔ گدھا بظاہر انسان دوست جانور ہے مگر اس کی دولتّی بڑی سنگین ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں پتہ نہیں گدھے کو قابلِ نفرت کیوں سمجھا جاتا ہے حالانکہ ایسے ممالک بھی ہیں جہاں گدھوں کو بادشاہ سمجھا جاتا ہے اور اُن کے اعزاز میں ہر سال باقاعدگی سے خصوصی دن منایا جاتا ہے۔ گدھے دو طرح کے ہوتے ہیں اور اتفاق سے دونوں کے ہی سینگ نہیں ہوتے البتہ چار پاؤں اور دو پاؤں کا فرق انہیں ایک دوسرے سے جُدا کرتا ہے۔ سُنا ہے پرانے زمانے میں کسی جنگل میں ایک سینگ والا گدھا بھی پایا جاتا تھا مگر آئینہ ایجاد نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے سینگوں سے بے خبر رہا اور نہ ہی اپنی اگلی ٹانگیں سر پر پھیر سکتا تھا تاکہ معلوم ہو سکے کہ سچی مچی اُسکے سینگ نکل آئے ہیں۔ ایک دن جیسے ہی وہ ندی پر پانی پینے گیا تو ندی کے پانی میں اپنا عکس دیکھ کر حیران رہ گیا کہ واقعی میں وہ سینگ رکھتا ہے۔ بس صرف سینگ نظر آنے کی دیر تھی کہ گدھا جنگل کے گستاح جانوروں کو ادب اور تمیز سکھانے نکل پڑا اور پھر تھوڑے ہی عرصے میں وہ تن تنہا ”جنگل کا بادشاہ“ تھا۔
فلمسٹار رنگیلا (مرحوم) نے اپنے عروج کے زمانے میں ”انسان اور گدھا“ کے نام سے ایک فلم بنائی تھی۔ ستر کی دہائی میں بننے والی یہ فلم اُس دور میں بہت مشہور ہوئی کیونکہ اِس فلم میں انسان اور گدھے کی کچھ ملتی جلتی عادات کی بنیاد پر مزاح پیدا کیا گیا تھا۔اگر ہم اپنے ارد گرد کے ماحول کا موازنہ کریں تو ہمیں بھی انسان اور گدھے کی بہت سی عادتیں مشترک نظر آتی ہیں بلکہ دونوں میں فرق صرف اتنا رہ گیا ہے کہ اگر انسان غلطی کرے تو گدھا کہلاتا ہے جبکہ یہی غلطی گدھا کرے تو لاٹھی (لات) کھا لیتا ہے لیکن انسان کہلانا پسند نہیں کرتا۔ انسان نے اس سے بہت ساری خصوصیات حاصل کی ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ آج کل انسان اور گدھے میں کچھ ہی دوری رہ گئی ہے ورنہ خر مغز اور خر دماغ جیسی اصطلاحات ہرگز ایجاد نہ ہوتیں بلکہ بات اس حد تک آگے نکل چکی ہے کہ لوگ گدھے کو باپ تک بنانے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے۔ ایک گدھا اپنی خاتونِ اول کے ساتھ کہیں جا رہا تھا کہ راستے میں جھگڑتے دو آدمی ایک دوسرے کو کھوتے دا پُتر (گدھے کا بچہ) کہہ کر پکار رہے تھے۔ گدھے نے بیگم سے کہا ”ذرا رُک! ان میں فیصلہ ہونے دے، جو ہمارا بچہ ہوگا اُس کو ساتھ لے کر جائینگے۔“ اکثر والدین کو جب غصہ آتا ہے تو وہ گدھے کی عظمت کو سلام کرتے ہوئے اپنے فرزند کو ”کھوتے دا پُتر“ کہہ کر پکارتے ہیں، ایسے لوگ چونکہ خود کام چور اور سست ہوتے ہیں لہٰذا خود کو گدھے کے ساتھ ملا کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔
گدھا صرف بوجھ ہی نہیں اُٹھاتا بلکہ سیاست میں بھی اس کا کافی عمل دخل ہے۔ سُنا ہے امریکا میں گدھے کو دانشور سمجھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ایک سیاسی پارٹی ہر بار الیکشن میں انتخابی نشان ”گدھا“ لینا اپنے لیئے اعزاز سمجھتی ہے۔اس میں شک نہیں کہ گدھے بھی ”سیاسی“ ہوتے ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ انسان کو رموزِ سیاست سکھانے میں گدھے کا بہت بڑا کردار رہا ہے۔ آپ نے یہ کہانی تو سُنی ہوگی کہ پرانے زمانے میں ایک آدمی کے پاس گدھا ہوا کرتا تھا اور وہ روزانہ اس پر بے انتہا نمک لاد کر دریا پار کیا کرتا مگر ایک دن گدھے کو سیاست سوجھی اور اُس نے بوجھ ہلکا کرنے کے لیئے دریا میں اُترتے ہی پانی میں ڈبکی لگا دی جس سے سارا نمک پانی میں بہہ گیا۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ گدھا سیاست کی باریکیوں سے خوب واقف تھا لیکن اُسے شاید یہ پتہ نہیں تھا کہ جس کے ساتھ وہ سیاست کھیل چکا ہے وہ بھی ایک منجھا ہوا ”سیاستدان“ ہے اور پھر اگلے دن اُس آدمی نے گدھے پر نمک کی جگہ روئی لاد دی تھی۔ آج کل تو مختلف لطائف میں گدھوں کو سیاست دانوں کے ساتھ نتھی کیا جاتا ہے۔ ایک آدمی کو ایک منسٹر کو گدھا کہنے کے جرم میں عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت نے اُسے ایک ہزار روپے جرمانہ کیا اور تنبیہ کے ساتھ چھوڑا کہ آئندہ وہ کسی منسٹر کو گدھا نہیں کہے گا۔ آدمی نے جج سے پوچھا ”جناب کیا میں کسی گدھے کو منسٹر کہہ سکتا ہوں؟“ جج بولا ”کیوں نہیں، اس پر بھلا کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔“ وہ آدمی عدالت سے باہر نکلتے ہی منسٹر سے بولا ”اچھا منسٹر اب میں چلتا ہوں۔“
بات انسان اور گدھے کی ہو رہی تھی۔ ہر گدھا اس قدر خوش قسمت نہیں ہوتا کہ وہ مرنے کے بعد بھی یاد کیا جائے لیکن ایک گدھا ایسا گزرا ہے جسے نہ صرف انسانوں کی طرح دفنایا گیا بلکہ اُس کے نام سے ایک گاؤں بھی موجود ہے۔ آپ راولپنڈی سے مانسہرہ جائیں تو راستے میں حویلیاں کے قریب ایک جگہ ”کھوتا قبر“ کے نام سے مشہور ہے اور حقیقت میں وہ ایک کھوتے (گدھے) کی ہی قبر ہے۔ چند سال پہلے یہاں کے مکینوں نے اس گاؤں کا نام تبدیل کرکے مسلم آباد رکھ دیا ہے لیکن علاقہ کے مکین اب بھی اس جگہ کو پُرانے نام سے ہی جانتے ہیں۔ یہ کھوتا قبر اس قدر شہرت حاصل کر چکی ہے کہ آج کل کی فلموں میں بھی اسکے ڈائیلاگ بولے جاتے ہیں مثلاً ”میں تمہیں کراچی سے لے کر کھوتا قبر تک پیار کرتا ہوں۔ اس سے آگے اس لیئے نہیں کرتا کیونکہ وہاں سے چڑھائی شروع ہو جاتی ہے۔“اس کھوتا قبر کے بارے میں بہت سی روایتیں زبان زدِ عام ہیں۔ ایک روایت یہ بھی مشہور ہے کہ ایک بار اس گدھے نے ایک بم پر دولتی جھاڑ دی تھی اور اسی وقت دنیا کو خیرباد کہہ دیا۔
جہاں کھوتا قبر کی بات چل نکلی وہاں جعلی پیروں کے قصے بھی یاد آ جاتے ہیں۔ جعلی پیروں کے قصے ویسے تو بے شمار ہیں لیکن ایک گدھے سے فیض حاصل کرنے والی بات شاید آپ کے لیئے انہونی ہو۔ ایک مرید جب کئی سال تک اپنے پیر کی خدمت کرکے جانے کی اجازت چاہنے لگا تو پیر صاحب نے اُسے اِس خدمت کے صلے میں ایک گدھا عنایت فرمایا۔ مرید نے جب گدھے کی حالت دیکھی تو پیر صاحب کو مُنہ سے دعائیں جبکہ دل میں بددعائیں دیتا رہا۔ خیر مرتا کیا نہ کرتا پیر صاحب کا تحفہ جو تھا اس لیئے انکار بھی ممکن نہ تھا۔ گدھے کو پکڑا اور لے چلا، ابھی وہ صرف قریب کے گاؤں ہی پہنچا تھا کہ گدھا چل بسا۔ اُس نے گدھا وہیں دفنایا اور تھک ہار کر اس کی قبر کے پاس بیٹھ گیا۔ اتنے میں اس گاؤں کے ایک شخص کا وہاں سے گزر ہوا۔ اُس نے جب دیکھا کہ ایک قبر پر ایک شخص بیٹھا ہے تو اُس نے وہیں دعا مانگنا شروع کر دی اور جاتے ہوئے اس شخص کو کچھ نذرانہ بھی دے گیا جبکہ گاؤں میں یہ بات مشہور کر دی کہ اب ہمیں اپنی منتیں، مرادیں مانگنے کے لیئے دوسرے گاؤں نہیں جانا پڑے گا بلکہ اللہ نے اسی گاؤں میں ایک ولی کو بھیج دیا ہے۔ یہ سننا تھا کہ لوگ اس قبر کی جانب دوڑ پڑے اور لگے اس قبر سے دعائیں اور حاجتیں مانگنے اور جاتے جاتے اس شخص کو نذرانہ وغیرہ بھی دے جاتے۔ اس طرح قبر پر بیٹھے اس شخص کے وارے نیارے ہو گئے۔
جیسے جیسے دن گزرتے گئے گدھے کی قبر پر بھی رش بڑھتا گیا اور پھر کچھ ہی عرصہ میں وہ ایک باقاعدہ مزار کی شکل اختیار کر گیا۔ اس مرید کے پیر صاحب کا کاروبار کافی ٹھپ ہو گیا اور اُس کی آمدنی پر بھی بہت فرق پڑا۔ اپنے مریدوں سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ ساتھ والے گاؤں میں کوئی بڑے ہی پہنچے ہوئے پیر آئے ہیں اور لوگ اب حاجتیں اور مرادیں پانے اُسکے پاس جاتے ہیں۔ پیر صاحب نے سوچا چلو چل کر دیکھتے ہیں کہ کونسا ایسا پیر آ گیا ہے کہ جس کی وجہ سے اُس کا اپنا کاروبار ٹھپ ہوتا جا رہا ہے۔ وہ کچھ ساتھیوں کو لے کر جب اُس مزار پر پہنچا تو دیکھا کہ وہاں اُس کا اپنا مرید ہی کاروبار چمکائے بیٹھا ہے۔ مرید اپنے پیر کو دیکھ کر بات سمجھ گیا ، اُن کو اندر کمرے میں لے گیا اور پہلے معافی مانگی پھر پوری کہانی سُنا دی۔ اپنے مرید کی بات سُن کر پیر صاحب ہنس پڑا اور کہا ”اوہ! یہ تو نسل ہی بڑی قسمت والی ہے، اِدھر تم نے گدھے کو دبا کر فیض حاصل کرنا شروع کیا ہے جبکہ اُدھر میں نے اس کی ماں کو دفنایا ہوا ہے اور فیوض و تبرکات حاصل کر رہا ہوں۔“