سمیع اللہ ملک
زندگی کی متاع عزیز کیا ہے؟روپیہ پیسہ‘زرو جواہر‘زمینیں و جائداد‘ منصب و جاہ و جلال‘ناموری‘ واہ واہ‘داد و تحسین‘صلہ و ستائش‘بیوی بچے‘عزیز و اقارب‘یار دوست․․․․․․․کیا یہی ہے زندگی کی متاع عزیز؟تو پھر نظریہ کیا ہے‘اصول کیا ہے‘ حق و صداقت کیا ہے ‘ دارو رسن کیا ہے‘عشق کیا ہے‘شہادت کیا ہے‘محبت کیا ہے‘بے غرضی کیا ہے‘جاں نثاری کیا ہے‘مر مٹنا کیا ہے؟؟؟؟بتایئے پھر یہ سب کیا ہیں؟کسے کہتے ہیں ”متاع عزیز؟“کیا ”انکار“متاع عزیز نہیں ہے؟جبر کے سامنے انکار‘فرعونیت کا انکار‘صلہ کا انکار ‘ سودے بازی سے انکار‘ دولت بے بہا کا انکار‘باطل کا انکار‘سر جھکانے سے انکار‘ظلم و جبر کا انکار‘رب کی حاکمیت کے سوا سب کا انکار ․․․․․․․انکار متاع عزیز نہیں ہے تو پھر کیا ہے انکار؟انکار اور یکسر انکار‘ پورے شعور کے ساتھ انکار‘کوئی مصالحت نہیں‘بالکل بھی نہیں․․․․․مجسم انکار․․․․․باطل کے سامنے‘طاغوت کے سامنے‘رب کے باغیوں کے سامنے‘نفس پرستوں کے سامنے‘دنیائے حرص و تحریص کے سامنے‘دھوکے کے سامنے‘بے وفائی کے سامنے‘خدائی لہجے میں بات کرنے والوں کے سامنے․․․․․․انکار اور یکسر انکار‘پورے شعور اور پورے وجود کے ساتھ انکار‘بس انکار۔دلیل چاہے کتنی بھی مضبوط ہو ‘ میرے رب کے سامنے کیا حیثیت رکھتی ہے!بس انکار․․․․لیکن انکار اپنے نفس کو خوش کرنے کیلئے نہیں‘نفس کوخوش کرنے کیلئے انکار تو ابلیسی انکار ہے‘صرف اپنے رب کیلئے انکار․․․یہی ہے اصل اور کچھ نہیں۔
نہیں مانیں گے کسی کی بھی‘کسی طاقت کی‘کسی بھی نظام باطل کی․․․․․․ نہیں مانیں گے چاہے لاکھ دلیلیں دو‘بس مانیں گے تو صرف رب اعلیٰ کی‘بس اسی کی اور کسی کی بھی نہیں۔یہی توحید ہے اور ہے کیا توحید۔میرا دین تو شروع ہی انکار سے ہوتا ہے یعنی ”لا“سے۔پہلے انکار کی منزل ہے پھر تسلیم کی۔میں انکار کئے بغیر تسلیم کیسے کر سکتا ہوں! اگر میں انکار نہ کروں اور تسلیم بھی کروں تو یہ منافقت ہے جو قابل قبول نہیں۔ملاوٹ نہیں ‘خالص درکار ہے‘بالکل خالص․․․․․․․․․چاہے ذرہ ہی ہو‘ملاوٹ شدہ پہاڑ درکار نہیں ہے۔یہی ہے اخلاص اور کیا ہے!انکار روح اسلام ہے‘انکار روح حسینیت ہے‘انکار․․․․․․جاوٴ نہیں مانیں گے۔تمہارے دھوکے تمہیں مبارک‘ہمارا سچ ہمیں!انکار لکھنے میں بہت آسان ہے‘پانچ حرفی لفظ‘بہت آسان ہے لکھنا‘لیکن کرنا از حد مشکل‘جان لیوا ہے‘بہت نقصان دہ ‘بہت قربانی چاہتا ہے‘خود سے بار بار لڑنا پڑتا ہے ‘بیوی بچوں سے‘یار دوستوں سے‘ایک چومکھی جنگ لڑنی پڑتی ہے‘اپنا انکاربھی‘نہیں اپنی بھی نہیں مانوں گا‘بہت مشکل ہے یہ‘بہت کٹھن منزل ہے۔معرکہ خیر و شر کیا ہے؟معرکہ حق و باطل کیا ہے؟ حق کا ساتھ دینا خیر ‘باطل کا ساتھ دینا شر!رب کے سامنے سر تسلیم خم کرنا خیر اور ابلیس کا پیروکار بننا شر۔معرکہ خیر و شر یہی ہے‘بس یہی تو ہے!پورے عالم میں یہی کچھ ہوتا ہے‘ ہوتا رہے گا‘ نہیں رکے گا یہ معرکہ اور سلسلہ‘کوئی نہیں روک سکے گا!
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے یہ بندہ دوعالم سے خفا میرے لئے ہے
آخر کربلا کا درس کیا ہے؟جنگ بدر کیا ہے‘جنگ احد کیا ہے‘جہاد کیا ہے؟؟یہی ہے بس!سب کا درس ایک ہے:بس انکار ۔ انکار کرو تو اس میں جان سے گزرنا پڑتا ہے‘خاندان نثار کرنا پڑتا ہے‘سب کچھ نثار کرنا پڑتا ہے‘آگ و خون میں نہانا پڑتا ہے‘ خاک آلود ہونا پڑتا ہے‘اپنی خواہشات کو خود اپنے ہاتھوں ذبح کرنا پڑتا ہے‘تیز دھارپر سے گزرنا پڑتاہے‘ لاشے اٹھانے پڑتے ہیں۔جب شعور کے ساتھ انکار ہو تو ہرلاشہ اٹھاتے ہوئے یقین بڑھتا ہے‘پختگی آتی ہے‘رب اعلیٰ کیلئے سب کچھ قربان کرنے کا حوصلہ بڑھتا ہے‘سرشاری اسے ہی کہتے ہیں۔ہنستے کھیلتے لاشے اٹھانااور پھر آواز بلند سے اپنے رب کی کبریائی بیان کرنا۔یہی ہے دین‘اور ہے ہی کیا!اسے کہتے ہیں اپنی نذر پوری کرنا‘اپنے دعو ے کی صداقت کو مجسم کر دینا‘ لیکن یہ ہے بہت مشکل۔
یہ قدم قدم بلائیں یہ قدم کوئے جاناں وہ یہیں سے لوٹ جائے جسے زندگی ہو پیاری
توفیق پر ہے یہ‘جانوں کا نذرانہ پیش کرنااور رب سے التجا کرناکہ قبول کر لیجئے ہماری قربانی․․․․․اور پھر یقین کی منزل پر پہنچ کر بے ساختہ پکارنا․․․․․”بے شک میری نماز‘میری قربانی‘میرا جینا مرناتو بس میرے رب کیلئے ہے“رب کیلئے خالص!باطل ہمیشہ سے گھمنڈی ہوتا ہے‘دھوکے کا شکار۔میں دیکھ رہا ہوں‘نیا معرکہ کربلاغزہ اورکشمیرمیں برپا ہے۔معصوم لاشے اٹھتے ہیں تو تکبیر بلند ہوتی ہے۔انکار مجسم ہوتا ہے‘ساری دنیا دنگ ہے کہ یہ کیا ہیں‘کیسے لوگ ہیں ‘پتھر سے ٹینک کا مقابلہ کر نے والے‘ کوئی تخصیص نہیں ہے‘نوجوان لڑکے اور لڑکیاں‘معصوم بچے اور عورت و مرد‘جوان و بوڑھے سب کے سب مجسم انکار‘نہیں مانتے۔انکار جتنی شدت اختیار کر تا چلا جائے انقلاب اسی شدت سے نمودار ہوتا ہے اور پھر ہمارا مسئلہ نتائج نہیں‘کار زار خیر و شر میں اپناحصہ ایمانداری سے ادا کرنا ہے‘ایسے‘ویسے‘چونکہ چنانچہ اور لیکن ویکن کچھ نہیں․․․․․․․یکسر انکار۔رب پر کامل یقین کے ساتھ باطل کا انکار ․․․ ․․ طاغوت کا انکار!
ایوان صدر میں داخل ہوتے آصف زرداری نے ایک نئے لارنس آف عریبیہ رچرڈ باوٴچر کو میرے قائد محمد علی جناحکی تصویر کے بالکل سامنے میرے ملک کا سب سے بڑا سول اعزاز ہلال قائد اعظم بڑے اعزاز کے ساتھ خود اپنے ہاتھوں پہنا کر جس طرح اس میڈل اور پوری قوم کو بے توقیراور ان طاغوتی طاقتوں سے اپنی وفاداری کا پٹہ اپنی گردن میں ڈال کر قوم کی جو تضحیک کی تھی آج اسی کانتیجہ توہم بھگت رہے ہیں۔نیٹوکی بلاوجہ بمباری کوئی پہلی مرتبہ تھوڑی ہوئی ہے؟کیااس سے پہلے ملک کی خودمختاری کوتاراج نہیں کیاگیا؟یہی وہی چرڈ باوٴچر ہیں جنہوں نے بھارت اور امریکہ کے نیوکلیر معاہدہ میں ایک کلیدی کردار ادا کیا تھا اور پاکستان نے جب ایسے ہی معاہدے کی درخواست کی تھی تو پاکستان کو ایک غیر ذمہ دار ریاست قرار دیکر ایسے کسی بھی معاہدے سے انکار کر دیا گیا تھا۔
اگر آصف زرداری نے این آر او معاہدے کے عوض رچرڈ باوٴچر کی خدمت میں کوئی تمغہ ‘میڈل یا کوئی دوسرا اعزاز عطا کرنا تھا تو اپنے کسی خزانے سے عطا کرتے ‘سوئٹرز لینڈ کے بینک لاکر سے متنازعہ نیکلس ہی ان کے گلے میں پہنا دیتے۔بھارت نے تونیوکلیر معاہدے کی تکمیل پر رچرڈ باوٴچر کیلئے کسی سرکاری اعزاز کا علان نہیں کیا‘ ممبئی دہماکوں میں بھارت کے حق میں جو پرزور سفارتکاری رچرڈ باوٴچرنے کی وہ بھی قوم کی نظروں سے پوشیدہ نہیں۔اس وقت اپنے اقتدارکے دوام کی سندحاصل کرنے کے لئے میرے ملک کا سب سے بڑا سول اعزاز ہلال قائد اعظم خود اپنے ہاتھوں پہنا کر میڈل اور پوری قوم کو جو بے توقیر اور شرمندہ کیاتھاتوآج کس بنیاد کی بناء پرامریکا سے گلہ کیاجارہاہے ؟قصر سفید کے فرعون کے اس نمائندے کو میڈل دینے کے عمل سے ساری قوم کا انکار اور احتجاج ببانگ دہل ہر لمحہ آصف زرداری کے تعاقب میں ہے اور آنے والے وقت میں اس کا حساب آصف زرداری کی طرف واجب الادا رہے گا۔
جن قوموں میں متحد رہ کر عزت سے زندہ رہنے کی آرزو اور امنگ ہو ‘وہ وقت کے کسی جبر کے ہاتھوں فنا نہیں ہوتیں۔البتہ قومیں جو اس آرزو سے تہی ہوں‘تبدیلی کے اس عمل کیلئے ایک نہائت آسان شکار بن جاتی ہیں۔جب تک ہم میں زندہ رہنے ،قومی سطح پر متحد رہنے کی آرزواور اپنے قومی و ملی مفادات کیلئے طاغوتی طاقتوں کوانکار کی جرأت باقی ہے، کوئی قوم بشمول امریکہ و بھارت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔کوئی بیرونی اور اندرونی قوت ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتی لیکن اب باعث تشویش مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے مطلق العنان حکمرانوں کی منافقت‘بزدلانہ نا اہلی اور ملکی مسائل کی شدت پوری قوم میں مایوسی پھیلا رہی ہے۔
آج ہماری قومی وجود کو اگر واقعی کوئی خطرہ ہے تو وہ اندرونی طور پر اور وطن سے باہر ‘بیرونی قوتوں کی سازشوں اور خیرات پر پلنے والے قائدین کے طرز عمل سے ہے جو نت نئے مسائل پیدا کرنے میں اپنی مہارت کے جوہر دکھاکر قومی غیرت کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ہم جو کچھ بھی ہیں اسی ملک کی نسبت سے ہیں۔حکومتیں اور حکمران تو تبدیل ہوتے رہیں گے،اقتدار کو کبھی دوام نہیں ہوتا۔قوم کا اصل اثاثہ اس کی ملی غیرت‘آپس میں محبت و یگانگت اور باہمی احترام کا جذبہ ہوتا ہے جو بڑے سے بڑے دشمن کے ناپاک ارادوں کو ناکام بنا دیتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ملک کے خلاف ہونے والی سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے غافل ہو جائیں۔
ان صہیونی طاقتوں نے پاکستانی عوام کو خوفزدہ کرنے کیلئے اپنے مختلف اداروں کی رپورٹوں‘میڈیا کی معاندانہ پشین گوئیوں‘اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ڈالروں پر پلنے والے جانبدار تھنک ٹینکس کے تشویشناک اندازوں کے ذریعے ہماری آرزوٴں کو گل کرنے ‘اور اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کیلئے اس قدر رسائی حاصل کرلی کہ واشنگٹن میں بیٹھے ہوئے امریکی کا ر پردازنہائت سہولت سے اس پروپیگنڈے سے نرم اور ہموار کی ہوئی زمین میں اعصاب شکنی اور بے یقینی کے بیج بوتے ہوئے ہر چند برس بعد ہمارے وطن کا نقشہ بدلنے‘کبھی دیوالیہ ہونے کے اندیشوں اور کبھی ناکام ریاست کی ذلت کا مصداق قراردینے کے حوالے سے اپنے خبث باطن کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔اور ہمارا عملی مشاہدہ اس صورتحال کی تصدیق کرتا ہے کہ این آر او کے تحت لائی ہوئی اس قیادت کو خدانخواستہ پاکستان کو توڑنے کا مشن دیا گیا ہے۔قصرسفیدکے فرعون کی طرف سے حالیہ نیٹو بمباری دراصل بون کانفرنس میں شرکت سے پہلے اپنے غلاموں کیلئے ایک سخت پیغام ہے کہ استنبول والی غلطی نہ دہرائی جائے اوران کی مرضی کے بغیرطالبان سے کسی بھی قسم کے امن مذاکرات کی اجازت نہیں۔
*****