Home / Literary Activities / اوور سیزز پاکستانی اور ووٹ کا حق

اوور سیزز پاکستانی اور ووٹ کا حق

                   

اوور سیزز پاکستانی اور ووٹ کا حق
                      عباس ملک

انہی صفحات پر اس سے پہلے بھی اوورسیزز پاکستانیوں کے ووٹ کے بارے میں اپنی رائے پیش کی تھی۔ ڈیول نیشنل کو میں نے ووٹ کا حق دینے کی مخالفت کی تھی ۔پی ٹی آئی لیبر ونگ کے مرکزی صدر اصغر علی سردار اور پی ٹی آئی جاپان کے سابق صدر خالد فریدی جو کہ خود بھی کالم نگار صحافی بھی ہیں سے اس موضوع پر گفتگو میں دلائل پیش کیے۔اصغر سردار اور خالد فریدی اوور سیزز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے حق میں دلائل دیتے ہیں لیکن وہ ڈیول نیشنل کو اس میں سے علیحدہ کرنے سے قاصررہے۔ بیشک 75لاکھ اوورسیزز پاکستانی اگر اس حق سے محروم ہیں تو یہ بہت بڑا آئینی سقم ہے۔ اس پر فوری توجہ دی جانی چاہیے۔ ان کے مطابق اوورسیزز پاکستانی کو یہ حق صرف پاکستان کی وڈیرا شاہی جاگیردارنہ سرمایہ دارانہ سوچ کے حاملین نہیں دینا چاہتے۔ کیونکہ اووسیزز پاکستانی ان کے لاٹھی سے دور ہونے کی وجہ سے ان کے دائرہ اختیاراور ان کی براہ راست رعایا نہ ہونے کے سبب ان کے معاشرتی دبائو سے آزاد ہوتا ہے۔وہ صاحب استطاعت ہونے کے سبب بھی بہتر اور آزاد سوچ کے ساتھ موجودہ سیاسی رویوں سے بغاوت اور ممکنہ طور پر سیاسی حریف بھی ہو سکتاہے۔

 سیاسی طور پر اگر دیکھا جائے تو سیاستدانوں کا رویہ منافقت پر یوں مبنی ہے کہ انہیں ووٹ دینے کا حق تو نہیں دیتے لیکن سیاسی جماعتوں کے اووسیزز ونگز کا افتتاح کرنے کیلئے قائدین محترم پورے طمراق کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ ان سے ڈالز اور پائونڈز کے فنڈز وصول کرنے میں ذرا بھی تامل نہیں کیا جاتا بلکہ یہ کہنا ہرگز غلط نہ ہوگا کہ موجود سیاسی سیٹ اپ کو ڈالر اور پائونڈ کے اوورسیزز پاکستانی سیاسی وونگز نے ہی سہارا دے رکھا ہے۔ ورنہ کنگال سیاسی قائدین سیاسی سرگرمیوں کیلئے شاید سرمایہ بھی میسر کرنے سے قاصر ہوں۔ آج اگر اوورسیزز پاکستانی سیاسی وونگز ان کو فنڈز کی ترسیل بند کر دیں تو ان کے جلسے جلوسوں کیلئے سرمایہ مہیا کرنا کسی بھی سیاسی جماعت کیلئے پاکستانی ممبر اور کارکنوں کیلئے بہت بڑا امتحان ثابت ہو سکتا ہے۔  دونوں صاحبان جس نکتے پر زیادہ زور دیتے ہیں وہ نکتہ بہت باریک ہے۔ مائیکرو فنانس سے متعلقہ ہے۔ چونکہ معاشیات سے ہر عام کواگاہی نہیں ہوتی اس لیے اس نکتے پردھیان بھی نہیں جاتا۔ میرا استدلال اس پر نکتہ پر یہ ہے کہ اووسیزز پاکستانی اور ڈیول نیشنل پاکستانی میں فرق بھی کیا جانا چاہیے۔ یہ قانونی اور آئینی مسائل ہیں اور ان کے حل پارلیمنٹ نے کرنا ہے۔کیا ہمارے پارلیمنٹرین اپنے مفادات سے اگے جا کر بھی دیکھنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہیں؟کیا وہ ایسا طریقہ اورقانون وضح کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں جس سے ایسے شخص جو کہ پاکستان اور اسلام مخالف قوتوں کا ایجنٹ بن کر آ رہا ہو کی راہ روکی جا سکے اور کسی محب الوطن کو راہ دی جاسکے ۔معین قریشی اور شوکت عزیز جیسے لوگ اس کی مثال ہیں۔

ہر دو اکابرین نے معاشیات کے تعلق کو بنیاد بنا کر اوورسیزز پاکستانی کیلئے ووٹ کے حق کی وکالت کی ۔اوورسیزز پاکستانی اور ڈیول نیشنل کی تعریف علیحدہ علیحدہ ہے ۔ اس میں فرق واضح ہے اور فرق وضح کیا جانا چاہیے۔ اوور سیزز پاکستانی اول و آخر پاکستانی ہے جو کہ صرف اورصرف دیار غیر مزدوری کیلئے گیاہے ۔جیسے ہی اس کا ویزا ختم ہوتا ہے وہ واپس پاکستان آ جاتا ہے۔ جبکہ ڈیول نیشنل پاکستان سے رشتہ کو بوجھ جان کر دوسرے ملک کو اس سے بہتر جان کر اس سے رشتہ جوڑ لیتا ہے۔ ایک شادی شدہ خاتون جب اپنے خاوند کے علاوہ کسی اورمرد سے تعلقات بڑھاتی ہے تو ایسے تعلقات کو ناجائز تعلق کہا جاتا ہے۔ پھر پاکستانی جب کسی دوسرے ملک کے ساتھ اپنا ناتہ جوڑ لیتا ہے تو اس تعلق کو کیسے جائز قرار دیا جا سکتاہے۔ کوئی امریکی برطانوی گورا پاکستان کی شہریت کا خوہاں ہے ۔ نہیں کیونکہ ان کے مفادات خواہشات اورضروریات کیلئے پاکستان مناسب اورموزوں نہیں۔

 بلا شبہ اس وقت اوورسیزز پاکستانیوں کی ارسال کردہ رقوم کی مثال آب حیات سے ہی دی جا سکتی ہے۔پاکستان میں اس وقت ترسیل کردہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی رقوم  ہی خزانے کا واحد سہارا ہیں۔ ان کی وجہ سے ہی سرکار اور عوام دونوں چل رہے ہیں۔ ڈیول نیشنل کو اس میں شامل نہیں کیا جانا چاہیے۔ نہ وہ شاید اس میں شامل ہیں کیونکہ ان کی معیشت اور معاش کے ساتھ اعیال واحباب کی اکثریت بھی دیار غیر سے ہی متعلق ہوتی ہے۔ ڈیول نیشنل کو یہ حق دینا اورخاص طور پر پارلیمینٹرین کا استحقاق دینا ہرگز دانشمندی نہیں۔ البتہ اوورسیزز پاکستانی جو مزدوری کے لیے پاکستان سے باہر مقیم ہیں اور اپنی کمائی کا بیشتر حصہ پاکستان ہی میں ارسال کرکے پاکستان کی معیشت کو سہارے دیئے ہوئے ہیں کو اس سے بالکل علیحدہ جز سمجھا جانا چاہیے۔

اصغر علی سردار اور خالد فریدی کا نکتہ نظر بھی اس بات کا احاطہ کرنے سے قاصر تھا کہ اوورسیزز پاکستانی اور ڈیول نیشنل میں فرق ہے۔ اوورسیزز پاکستانی ڈیول نیشنل نہیں ہوتا بلکہ وہ مزدوری کرنے کیلئے دیار غیر ہوتا ہے۔ اس کاپاسپورٹ سبز اور اس پر پاکستان کے سوا کسی بھی اور ملک کی قومیت نہیں ہوتی۔ وہ وطن واپسی کیلئے بے چین اور بیقرار ہوتا ہے۔ وہ خود تو دیار غیر ہوتا ہے کہ لیکن اس کا سرمایہ زندگی اس کے اعیال واحباب پاکستان ہوتے ہیں۔اکابرین مفکرین اور مدبرین مقننہ اور پارلیمنٹ کو اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیول نیشنل اور اوورسیزز پاکستانی کی تعریف کو علیحدہ علیحدہ کرنا چاہیے۔ ڈیول نیشنل پاکستان کی شہریت کو ضمنی جان کر دوسرے ملک کو اس کے برابر یا زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ اپنی مرضی دبائو مجبوری کوئی بھی وجہ متحرک ہو اس کو شامل رکھنا ضروری ہے۔

الطاف بھائی نے کیوں برطانوی شہریت اختیار کی جبکہ وہ پاکستان میں سیاسی تحریک کے خود کو قائد لکھوا تے اور دعویدار ہیں۔ مجبوری دبائو یا مفاد یا اپنی مرضی یہ دیکھنا ہے۔پاکستان کے بیشمار ایسے افراد ہیں جن کے مفادات ان کو ڈیول نیشنلٹی رکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ڈیول نیشنل افراد کے مفاد منقسم ہو نے کے سبب ان کی وفاداری کا جھکائو قدرتی طور پر اس جانب ہو گا جہاں ان کامفاد زیادہ ہوگا۔ عام سادہ سی حقیقت

ہے کہ کسی شخص کو پاکستان کے مقابلے میں یورپ امریکہ یا ترقی یافتہ معاشرہ ہی زیادہ بہتر نتائج دے سکتاہے۔ ایسے میں اس میں بہت کم توقع ہے کہ کوئی شخص اپناذاتی مفاد چھوڑ کر ایثار وقربانی کی مثال قائم کرے۔ وہ کبھی بھی پاکستان کے مفادات کو اہمیت نہیں دے گا جب اس کے دیگر مفادات کے مجروح ہونے کے امکانات یا اس کو مجبور کیا جائے یا اس پر ان کا دبائو ہو ۔پاکستان سے بھاگ جانے والے اور پاکستان کو اپنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دینے والے کو کیسے او ر کس سوچ اور منطق کے تحت پاکستان کاوفادار قرار دیاجا سکتاہے۔ مسلمان اگر دھوکا دینا اور جھوٹ بولنا چھوڑ دیں تو پھر کوئی مسلہ ہی نہیں رہتا ۔

ڈیول نیشنل کو علیحدہ گیٹگری میں رکھ کر اس کو اوورسیزز پاکستانی سے علیحدہ شناخت کے طور پر دیکھا جائے۔ اوورسیزز پاکستانی کو ووٹ کا حق دینا جمہوری رویوں میں بہتری کا سبب اور جمہوریت کی تقویت نظام میں بہتری اور تبدیلی کا آغاز ہو سکتا ہے۔ اس نکتے میں جمہوری بھلائی کا عنصر شامل دیکھ کر اس کی حمایت کی جانی ضروری ہے ۔

About admin

Check Also

اردو غزل کے چند نکات

پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین  اردو غزل  کے چند  نکات دنیا کی تمام زبانوں میں …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *