ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت نے پاکستان کی سیاست کے بہت سے چہروں کو بے نقاب کیا جن میں منور حسن اور مولانا فضل الرحمن سر فہرست ہیں۔ ان حضرات کے لیے امریکہ کی مخالفت تو محض ایک بہانہ ہے اگر امریکہ نہ بھی ہوتا تو کسی نہ کسی بہانے یہ ان شدت پسندوں اور دہشت گردوں کو جلا بخشنے کی کوشش کرتے رہتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا اسلام ہمیشہ خطرے میں رہتا ہے اور اس کے تحفظ کے لیے نام نہاد مجاہدین کی ایک فوج درکار ہوتی ہے۔ در اصل یہ فوج ان کی اپنی بقا کے لیے ضروری ہے۔ امریکہ سے پہلے روس کے نام پر طالبان کی فوج کھڑی کرنے والے یہی لوگ تھے اس بھی پہلے بھارت کو دشمن قرار دیتے ہوئے ایک فوج انہوں نے ہی کھڑی کی۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اکثر اوقات حکومت بھی ان کی شطرنج کا مہرہ بنی نظر آتی ہے۔ یہ طالبانی فرمانروائے پاکستان حیرت انگیز طور پر اپنا رنگ بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جب عوام میں غم و غصہ ہو تو بہت ہی معصومیت سے کہتے نظر آئنگے کہ مسلمانوں کا خون بہانا کہاں کا جہاد ہے اور جب خون بہانے والے حکومتی یا امریکی کارروائی میں ہلاک ہونگے تو اسی معصومیت سے انہیں شہید کا درجہ دینگے۔
ویسے یہ معاملہ اتنا سیدھا سادا بھی نہیں ہے کہ ہم محض مذہبی جماعتوں پر بات کر کے اس کا اختتام کریں بلکہ اگر تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہر بڑی شخصیت طالبان کی حامی نظر آئے گی۔ عوامی نیشنل پارٹی کا نام پاکستان میں طالبان مخالف فکر کے لیے جانا جا تا ہے لیکن ان ہی کے ایک ایم این اے اور اس دور کے وزیر ریلوے غلام احمد بلور نے لوگوں کو اس وقت حیران کر دیا تھا جب انہوں نے یو ٹیوب پر حضور کی شان میں گستاخی سے بھری فلم کے پروڈیوسر کو ختم کرنے کے لیے طالبان کی مدد مانگی تھی۔ اسی طرح دیگر جماعتوں کے لوگ بھی گاہے گاہے طالبان سے اپنی ہمدردی کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ اس تناظر میں اگر مولانا فضل الرحمان اور منور حسین کے بیانات کو دیکھا جائے تو ہمیں حیرت نہیں ہوتی۔ آخر حافظ سعید بھی تو ان ہی میں سے ایک ہے جس کے ساتھ یہ اسٹیج سے امریکہ اور بھارت کو گالیاں دیتے آ رہے ہیں ۔ لیکن حافظ سعید اور حکیم اللہ محسود میں شاید یہ فرق ہے کہ پاکستان کی مذہبی جماعتیں اور فوج کے کچھ لوگ حکیم اللہ محسود سے اب کبھی کبھار ہی کام لیتے ہونگے جب کہ حافظ سعید آج بھی ان کے لیے دودھ دینے والی وہ گائے ہے جس کو ذبح کرنا ان کے مفاد کے منافی ہے۔