Home / Socio-political / آئینہ زندگی

آئینہ زندگی

                         

آئینہ زندگی
           عباس ملک

آج کل ایسی تحریر جس میں خاص طور پر کوئی نصیحت آموز بات ہونے کی بھنک بھی قاری کو آجائے وہ اس کی نظروں میں چبھنے لگتی ہے۔ نظر   شرمانے اور آنکھ خود کو بچانے کی ہر سعی کرتی ہے۔ البتہ عریانی فحاشی یا شیطانیت کی بو محسوس ہو تو دل ودماغ یکجا ہو کر آنکھ کے پیچھے سے اسے پڑھنے کی ہر تگ ودوسے اس کو پڑھنے دیکھنے اور سوچنے کیلئے مختلف دلائل پیش کرتے ہیں۔شہونی اور گھنائونی تحریریں ہمارے من کو بھاتی ہیں لیکن قرآن وتفیسر سے ہمارے من بھاری ہونے لگتے ہیں۔ پٹھانوں سکھوں اور پاکستانیوں پر طنز و تشنع پر مشتمل لطائف تو محظوظ کرتے ہیں لیکن سعدی و اقبال سے طبیعت بھاری اور نیند طاری ہو نے لگتی ہے۔

زندگی آئینہ ہے۔ پیار کے بدلے پیار نفرت کے بدلے نفرت ۔ دھوکے اور منافقت کے بدلے میں دھوکا اور منافقت ہی ملے گی۔ سوچیں کہ اگر آپ کو پیار کے بدلے میں پیار نہیں مل رہا تو اس کا مطلب صاف ہے کہ آپ کے پیار میں شاید کوئی غرض پوشیدہ لاشعوری یا شعوری طور تو نہیں۔ انسان سوچتا ہے کہ میں تو ایسا نہیں تو میرے ساتھ ایسا کیوں ؟ ادلے کا بدلہ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ اچھے ہوں اور آپ کے ساتھ برا ہو۔ ضرور آپ کے عمل سوچ فکر یا اخلاص شعور لا شعور میں کہیں کوئی ایسا نکتہ ہے جو آپ کے عمل کے ردعمل کو منعکس کرنے میں مزاحم ہے۔

انسان اپنے گریباں میں جھانکنے سے گریزاں ہوتا ہے لیکن دوسروں کا دامن تار تار کرنے اور داغدار کرنے اور دیکھنے میں عجلت اس کا خاصہ   ہے۔دوسروں کو شرمندہ دیکھنے اور اپنے آپ کو سرخرو دیکھنے کی تمنا میں پیار اور محبت کا عکس دیکھنے والے کو سوچنا چاہیے کہ اگر وہ ایسا ہے تو دوسرے اس کے بارے میں کیونکر کامیابی کیلئے دعاگو ہونگے۔ ناکامی پر دکھی ہونے سے پہلے یہ دیکھ لینا چاہیے کہ دوسروں کی ناکامی پر خوشی سے جب بغلیں بجارہے تھے تو کیا اس کا دل دکھی نہیں ہوا ہوگا۔اگر آپ کو دوسروں کی ناکامی کی تمنا ہے تو دوسرے آپ کی ناکامی کیلئے ضرور دعا گو ہونگے۔ اگر آپ کو کسی کے کامیاب ہونے کی تمنا ہے تو دوسروں کی آپ کی ناکامی کی حسرت نہ ہوگی۔

پھول خوبصورت لگتے ہیں اور خوشبو بھی دیتے ہیں ۔ اس سے آنگن بھی خوبصورت لگتاہے پھر اس کا توڑا کیوں جاتا ہے۔ پھول کی عمر کم کیوں ہوتی ہے۔ سچ بھی ایک پھول ہے جو بہت کم یاب ہے۔ اس کی عمر طویل ہوتی ہے لیکن اس کی پرورش آسان نہیں۔ یہ جس آنگن میں ہو تو وہ مقدس وتقدس سے خوبصورت لگتا ہے۔ سچ کی نگہداشت کرنا ہر عام کے بس کی بات نہیں۔ یہ خواص کا خاصہ ہے اور سچ عام نہیں خاص ہے۔

دنیا دار اکثر دنیاداروں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ حق وسچ کے عکاس کیوں نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ بہت سادی سی دنیا فانی ہے اور سچ فانی نہیں۔ اس لیے ایک فانی لافانی کا جز خاص نہیں ہو سکتا ۔دنیا میں حق وصداقت کی خوشبو جہاں پھیلتی ہے تو شیطان اوراس کے چیلوں کا سانس گھٹتا ہے ۔ اس کی وجہ بھی بیان کرتاہوں کہ سچ حقانیت کی فضا میں جنم لیتا ہے اور شیطانیت کیلئے جھوٹ کی فضا درکار ہوتی ہے۔ جہاں جس طرح کی فضا میسر آئے گی ویسے ہی ترویج وترقی ہو گی۔ کنول کیچڑ میں اور سچ شیطانیت کی فضا میں مرتا نہیں تقویت پاتا ہے لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ انسان میں سچ کی تمنا اور طلب ہو ۔انسان کو سچ کی پرورش اور تمنا کیلئے بہت مشقت کرنی پڑتی ہے۔ ہیرا جوہری ہی پہچان پاتا ہے اور اس کی تراش خراش بھی اس کا خاصہ ہے۔ روحانی تربیت کا بھی یہی طرہ ہے کہ اسے تراشنے کیلئے ماہر استاد کی نگرانی چاہیے ہوتی ہے۔ روحانیت کی منازل طے کرنے میں شیطان رکاوٹیں پیدا کرتا ہے جس سے طالب علم کے بھٹک جانے کا اندیشہ بدرجہ اتم موجود

 ہوتاہے۔ایسے میں ممکن ہے کہ وہ جسے روحانیت کی منازل سمجھ رہا ہو وہ نہ ہوں ۔ وہ رستہ بھٹک بھی سکتا ہے اور اپنی منزل کی بجائے کہیں اور ہی نکل جائے۔ زندگی میں ایسا ہوتا ہے کہ انسان خود کو عقل کل قرار دے کر جب بازی اپنے ہاتھ لینے کی کوشش کرتا ہے تو وہ کئی فیصلے غلط بھی کر جاتا ہے اور بعد میں اسے پتہ چلتا ہے تو وہ اس پر اپنے آپ سے شرمندہ ہوتا ہے ۔

انسانی رشتے بھی ایسے ہی جہاں سچ اور جھوٹ کی بازی مدخل ہوتی ہے۔ اگران میں خلوص ہو تو زندگی کا ساتھ آسان تر اور زندگی مطمئن گذرتی ہے ۔ زندگی میں ایک دوسرے پر اعتماد کرنے سے ہی زندگی میں شک اور اس سے پیداکردہ مشکلات سے بچا جا سکتاہے۔ اپنے ساتھی پر اعتماد کرنا اوراپنے ساتھی کے اعتماد پرپورا اترنا کتنا مشکل نظر آتا ہے۔ یہ مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن تو نہیں۔ ہم اخلاقیات اور انسانیت کے اسباق کو بھول کر نفس اور میں سے باہر آنے کیلئے تیار نہیں ہو پائے۔سوشل میڈیا پر اکثر دوستوں کا اصل رویہ سامنے آتا ہے۔

مشاہدے میں بات آتی ہے کہ اگر عشقیہ شاعری پوسٹ کی جائے تو اس پر فوری کمنٹس اور لائیکس آنے شروع ہو جاتے ہیں۔ جبکہ اسلام وطن یا کوئی ایسی پوسٹ جس میں ہدایت وراستی کی بات ہو پر اول تو کوئی کمنٹ کرتا ہی نہیں ۔ اس کیلئے پسند کا بٹن دبانے کی زحمت شاد کو ہی نصیب ہوتی ہے۔ ہمدردی کے دو بول اگر کسی موت فوت حادثے کی پوسٹ پر دیکھنے کو مل جائیں تو اس سے دل کو مسرت کی لہر مل جاتی ہے۔

ایسی کسی پوسٹ کو شیئر کرنے والوں کی تعدا د گننے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی جس میں وطن سے محبت دین اور اخلاقیات کا درس موجود ہو کیونکہ اسے لائیک کرنے والوں کی تعداد ایک یا دو ہوگی۔ اس کو شیئر کوئی دل والا ہی کرے گا۔ اس پر لائیک کوئی ہی شائد کرے گا۔ اخبار میں پڑھنے والوں کی سپورٹس کا صفحہ اور ریپ کی خبروں میں دلچسپی دیکھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اخبار میں باقی خبریں نہیں ہونی چاہیں۔ اگر کہا جائے کہ خبر کی تعریف کی رو سے ہر نئی اور قاری کی دلچسپی کی اطلاع خبر کہلاتی ہے تو اس تعریف کی رو سے وطن دین اور مسائل سے متعلق اطلاعات میں قاری کی عدم دلچسپی دیکھ کر یہ خبر کہلانے کی مستحق ہی نہیں۔

یہ بات بھی اب ہمارے معاشرے کیلئے ندامت کا باعث ہے کہ ہم رشتوں کو مطلب تک محدود کر چکے ہیں۔ دولت اور اختیار جس کے پاس ہے یا جس سے مطلب برآوری کی کوئی امید ہے وہ تورشتہ دار ہے لیکن جو محروم ہے وہ اس قابل اور اس کیٹگری سے باہر ہے۔محض مطلب سے رشتوں کے تعلق نے معاشرے میں نفسا نفسی اور خود غرضی کا جال بن کر اس میں محبت خلوص اور انسانیت کو مقید کر رکھا ہے۔

ہرگز یہ مطلب نہ لیا جائے کہ معاشرے سے اسلام پاکستان یا انسانیت کا صفایا ہو چکاہے۔ ایک غالب اکثریت اس کا شکار ہونے کی وجہ سے محدود ہو نا جانا جائے۔ محدود ہونے کے سبب اس کے اثرات محدود ہو نے کے سبب معاشرے میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے والے کم اور خود غرض لالچی اور مفاد پرستی کا ڈیرہ لگا نظر آتا ہے۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے خوف زدہ ہے۔ ہر کوئی ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں کرتا ۔  ایک دوسرے سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک دوسرے کو بیگانہ جانتا ہے۔ نفس اور صرف نفس کی پیروی ۔ اس ماحول میں انسانیت کا دم گھٹنے لگا ہے۔ اس میں وطن پرستی تیاگ دینے کے قریب ہے ۔اس آنگن سے مذہب کی رخصتی کا وقت آنے کو ہے۔ ہمیں اپنے آپ کو بچانے کیلئے انہیں بچانا ہے ورنہ اگر یہ نہ رہے تو پھر ہمارا دم بھی کوئی لینے کو آ جائے گا۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *