ایک انتہائی خوبصورت‘صاف ستھرے‘عالمی معیار کے حامل اور ایک یورپی ملک کی امداد سے بنے ہوئے لاہور کے ایک اسپتال کے استقبالیہ کی کھڑکی کے پاس پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس‘ایک ماں بخار میں دھنکتے ہوئے بچے کو لے کر آئی۔بچہ ایک پرانے سے کمبل میں لپٹا ہوانڈھال ہو رہا تھا۔کھڑکی پر پہنچ کربے تا ب ماں نے تیزی سے کہا’’اس کی پرچی بنا دیں‘‘کلرک نے بڑی رعونت سے اس مجبور ماں سے کہا’’تیس روپے۔‘‘پریشان اور بے تاب ماں نے اپنی جیبیں ٹٹولیں‘پلو سے بندھے سکے اور کچھ نوٹ کاؤنٹر کے سنگِ مر مر کے تختے پر ڈھیر کر دیئے۔میں اس کی بے تابی اور پریشانی دیکھ رہا تھا۔ اس مجبور و مقہور ماں کا یہ کل اثاثہ اکیس روپے نکلا۔اس سارے عرصے میںکھڑکی پر کھڑا کلرک ایک مشینی انداز سے دیکھ رہا تھا ‘اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ رقم پوری نہیں ہے۔اس نے زور سے کہا’’بی بی!تیس روپے کی پرچی بنتی ہے۔مجبورومقہورماں نے اپنے کانپتے ہاتھوں سے اپنی کل کائنات کو منت سماجت کے انداز میں کلرک کی طرف بڑھا دیا۔کلرک نے دور سے دیکھ کر کہا ،پورے تیس روپے لے آؤ تو پرچی بن جائے گی۔ماں کے منہ سے صرف ایک فقرہ نکلا’’یہ سرکاری اسپتال نہیں ؟‘‘کلرک نے گھور کر کہا کہ ساتھ گلی میں بچوں کے ڈاکٹر کا کلینک ہے ،وہاں جاؤتمہیں فیس کا پتہ چل جائے گا!ماں کی غیرت نے مزید کچھ سننا گوارہ نہیں کیا،جو اپنے بچے کی صحت اور زندگی کیلئے تیس روپے نہیں لا سکی،اس نے وہ اکیس روپے بھی وہیں چھوڑے اور پیچھے کھڑے لائن میں لگے ہوئے لوگوں کیلئے راستہ چھوڑ دیا۔
اس ماں نے ایک دفعہ پھر اپنے بچے کو ناکافی کمبل میں سمیٹا،اسپتال کے بڑے بڑے شیشوںکے پیچھے بیٹھے ہوئے ڈاکٹروں کے کمروں اور نرسوں کے کاؤنٹر کی طرف دیکھا اور پھر ایک لمحے کیلئے باہر جانے والے بڑے بڑے شیشوں کے گیٹ پر کھڑی ہو گئی۔اس کے سامنے دنیا بہت مصروف تھی۔ماں باپ اپنے لختِ جگر کوگودوں میں اٹھائے یا پھر انگلیاں تھا مے ان کی صحت و تندرستی کی دعاؤں کے ساتھا اسپتال میں موجود تھے۔ڈاکٹروں کے نسخے لکھے جا رہے تھے۔لیبارٹریوںکے ٹیسٹ اور ان کی رپورٹیں حاصل ہو رہی تھیں۔ اس ماں نے چند لمحوں کیلئے یہ سب کچھ دیکھا اور پھر بے اختیاری سے اپنے بچے کے گرم گرم ماتھے اور رخساروں پر بوسے دیئے۔پتہ نہیں ان بوسوں میں کیا تھاکہ پندرہ منٹ انتہائی ضبط کے عالم میں رہنے والی ماں کی آنکھیں چھلک پڑیں،اس نے ایک ہاتھ سے اپنی آنکھوںسے جاری بے اختیار آنسوؤں کو صاف کرنے کی کوشش کی اور تیزی سے اس عالی شان اسپتال کا گیٹ عبور کر گئی۔اس سے پہلے کہ کوئی صاحبِ حیثیت ہاتھ اس ماں کی مدد کو بڑھتا،اس کی غیرت کو چکنا چور کرتا،وہ اس کامیاب اسپتال کے گیٹ سے باہر چلی گئی۔جونہی میں گیٹ کی طرف تیزی سے بڑھا کہ اپنے ضمیر کا قرض اتار سکوںاچانک پیچھے سے ڈاکٹر فیاض نے مجھے اپنی بانہوں میں لے لیا ۔ڈاکٹر فیاض کا بریف کیس اور فائلیں تھامے شخص سے میں نے گیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس مظلوم عورت کو روکنے کو کہا۔وہ ڈاکٹر فیاض کے دفتر میں بریف کیس اور فائلیں رکھ کر واپس گیٹ کی طرف لپکا۔اتنے میں ڈاکٹر فیاض مجھے اپنے ساتھ دفتر میں لے گیا لیکن میرا دل بڑی بیتابی کے ساتھ اس ماں کا انتطار کر رہا تھا۔
تقریباً پندرہ سے بیس منٹ کے بعد ایک شور سا اٹھا تو پتہ چلا کہ کوئی ماں اپنا ایک بچہ اسپتال کے داخلی دروازے کے ساتھ چھوڑ کر چلی گئی ہے۔دوڑ کر باہر کاؤنٹر پر پہنچا تو اس ناکافی کمبل دیکھ کر ہی میں نے اس بچے کو پہچان لیا۔مجھے یو ں محسوس ہو رہا تھا کہ مجھے فوری اسپتال کی اس عظیم الشان عمارت سے باہر نکل جانا چاہئے کیونکہ یہ عمارت تو کسی وقت بھی اللہ کے عذاب سے ایک بھوسے کی مانند بن جائے گی۔میں نے ڈاکٹر فیاض سے کہا یہ وہی بچہ ہے جس کا میں نے تم سے ذکر کیا تھا۔مجھے اپنے دل کی حرکت بند ہوتی محسوس ہوئی تو میں نے اس کاؤنٹر پر کھڑے اس کلرک سے کہا کہ اگر اگلے چند گھنٹوں میں اس بچے کی ماں کی خودکشی میں کچلی ہوئی نعش اس اسپتال میں لائی گئی تو خدا کے ہاں اس قتل کے ذمہ دار تم اور تمہارا اسپتال ہوگا۔میرے لئے وہاں مزید ٹھہرنا مشکل ہو گیا تھا۔
میں نے یہاں ایک ایسے اسپتال کا ذکر کیا ہے جسے گزشتہ دس سالوں سے کارکردگی میں ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔میں نے پورے پاکستان میں جا بجادوکانوں کی طر ح کھلے ہوئے پرائیویٹ اسپتالوں کا تذکرہ نہیں کیاجن کے دروازوں پر اگر کوئی حساس آدمی صرف چند لمحوں کیلئے کھڑا ہو جائے تو زندگی بھر نیند میں گھبرا کراٹھنے لگ جاتا ہے۔ جہاں ادھار مانگ کر آئے ہوئے مزدور اپنے والدین کی محبتوں کا قرض چکا رہے ہوتے ہیں،جہاں گھروں کی اشیاء بیچ کر اور زیور گروی رکھ کر آئی ہوئی مائیں اپنے بچوں کی صحت ،سلامتی اور زندگی کی بھیک مانگ رہی ہوتی ہیں۔
میں یہ سب کچھ دیکھتا ہوں تو مجھے اپنے بچپن کا سول اسپتال یاد آجاتا ہے جہاں صبح سورج کی پو پھٹتے ہی ڈاکٹر کی میز کے ارد گرد مریضوں کا ہجوم اکٹھا ہو جایا کرتا تھا۔ایک دیوتا کی طرح ڈاکٹر آتااور پھر دیر تک بلکہ بعض دفعہ سہ پہر تک مریض دیکھتا رہتا۔دوائی خانے کے بورڈ کے پیچھے دو یا تین ڈسپنسرگولیوں کو پڑیوں کو بند کررہے ہوتے یا پھرمریض جو بوتلیں اپنے ہمراہ لاتے تھے ان میں ڈاکٹر کی ہدائت پر طرح طرح کے مکسچر بھر بھر کر دیتے رہتے۔نہ مریض کی آنکھوں میں آنسو آتے اور نہ ڈاکٹر کے ماتھے پر بل۔کبھی کسی نے سوچا کہ ایسا کیوں تھا؟اور یہ سب کچھ صرف تین چار دہائیوں میں کیوں اور کیسے بدل گیا؟حرص اور لالچ کی وبا کیسے عام ہوئی؟
مدتوں سرکاری اسپتال ہی امیر اور غریب دونوں کیلئے یکساں علاج مہیا کرتے تھے۔۱۹۷۰ء کی دہائی تک شائد ہی کوئی پرائیویٹ اسپتال موجود ہو۔گورنر بھی بیمار ہو کر میو اسپتال کے کسی وارڈمیں داخل ہوتااور وزیر بھی بیمار ہو کر سول اسپتال کے کمروں میں زیرِ علاج ہوتا۔ہم نے سرکاری اسپتالوں کی نج کاری تو نہ کی لیکن سرمائے کے بل بوتے پر منظم ہونے والی بڑی بڑی دوا ساز کمپنیوں اور ان کے ایجنٹو ں کو اس ملک کے سسکتے ہوئے مریضوں کی زندگیوں سے کھیلنے کا موقع فراہم کر دیا۔اس دور میں ڈاکٹروںکو کوئی دوا ساز کمپنی بیرونِ ملک دورے کا لالچ دیکر اپنی چار سو فیصد مہنگی دوائیں نہیں بکوایا کرتی تھیں۔انہیں گاڑیاں اور دیگر اشیاء کی رشوت نہیں دیا کرتی تھیں۔مدتوں یہ لوگ سادہ دواؤں سے اپنی محبت بھری باتوں سے لوگوں کا علاج کرتے رہے اور لوگ صحت مند ہو تے رہے۔
پھر سرکار کے لالچ نے ایک اور راستہ دیکھ لیا ‘ہر صوبے کے بجٹ بنانے والوں کو آئی ایم ایف نے ایک منحوس لفظ سکھایا(Sustainable) یعنی ہر اسپتال کواپنے پیروں پر خود کھڑا ہونا چاہئے۔پرچی کے نرخ بڑھے‘کمروں پر اور وارڈ کے بستروں پر ٹیکس اور کرائے لگے،صرف چند دوائیاں اسپتال کے میڈیکل اسٹور سے ملنے لگیں اور باقی اسپتال کے باہر دن رات جگمگ کرتے میڈیکل اسٹوروں سے لانے کو کہا جانے لگا۔جس کی جیب میں پیسہ ہوتا وہ اپنے پیاروں کا علاج کروالیتا ورنہ چپ چاپ اسپتال سے لوٹ جاتا۔ جب سرکار لوگوں کی صحت کو کاروبار بنا لے تو پھر ارد گرد پھیلے ’’بنیا‘‘نما انسانوں کو اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے کون روک سکتا تھا۔گھرکوٹھیاں اور بنگلے پہلے دوکانیں بنیںپھر کئی کئی منزلہ اسپتال اور پھر صحت کی تندرستی کی اور علاج کی بولیاں لگنے لگیں۔جس کے پاس جیسا مال ہوتاویسی ہی ان کی دوکان چمکتی۔ان سب میں حیرت کی بات یہ تھی کہ دونوں جگہوں پردوکانداریعنی ڈاکٹر ایک ہی تھے، صبح سرکار کے اسپتال میں اور شام اپنے منافع بخش کاروبار پر!
کبھی کسی نے سوچا ہے کہ ہم ہر سال آٹھ ہزار ڈاکٹر پیدا کرتے ہیںاور اس وقت ہمارے پاس تقریباًہر ۱۷۰۰ لوگوں پر ایک ڈاکٹریعنی ایک لاکھ ڈاکٹر ہیں۔ان سب کی تعلیم پر میرے غریب عوام کے ٹیکسوں کی آمدنی خرچ ہوتی ہے۔ہم نے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر میڈیکل کالج بنائے اور انہیں تعلیم دی۔ان میں سے اگر ایک ڈاکٹر بھی اپنے ذاتی خرچے پر کسی بڑے ملک میں جا کر پڑھتا تو شائد ساری زندگی اپنی پڑھائی کا قرض اتارتا رہتا لیکن کمال ہے ہمارے پالیسی ساز اور ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے زیرِ اثر صاحبِ اثر لوگوں کا،وہ صحت کو بھی آٹا، گھی،تیل،چینی کی فیکٹری سمجھتے ہیں، جسے نجی شعبے میں دینے سے ملک ترقی کرے گا۔شائد وہ اس حقیقت سے آشنا نہیں کہ صدر یا وزیراعظم اوراس قبیل کے تمام افرادکوتوکبھی بھی آٹا، گھی،تیل،چینی اورزندگی کی دیگرضروریات کی کبھی بھی فکرلاحق نہیں ہوئی جبکہ غریب عوام تو ان بنیادی ضروریات کے حصول میں ہی اپنی زندگی ہاردیتاہے لیکن اگر خدانخواستہ صدر یا وزیر اعظم اور ایک مزدور کے بیٹے کو کینسر،یرقان یا ٹی بی ہو جائے تو انھیں ایک ہی جیسا اسپیشلسٹ،ایک طرح کا ڈاکٹر اور ایک ہی طرح کا اسپتال چاہئے۔
یہ آج بھی ممکن ہے اوراس کی واضح مثال آپ کویورپی ممالک بالخصوص برطانیہ میں نظرآتی ہے۔برطانیہ نے نیشنل ہیلتھ سروس کاانتظام دوسری جنگ عظیم کے فوری بعدشروع کیاجبکہ اس کی مالی حالت انتہائی دگرگوں تھی اورآج اس نظام کی بدولت اس نے نہ صرف ملکی کسادبازاری اوربیروزگاری پرقابوپالیاہے بلکہ دنیاکی سب سے بڑی فلاحی ریاست ہے ۔اس وقت ہمارے پاس ایسے بہترین مخلص افرادکی ایسی جماعت موجودہے جس سے بیرون ملک تو کماحقہ فائدہ اٹھارہے ہیںلیکن ہمارے ملک کے خوشامدی اورنالائق افرادجوخودتوایسی صلاحیت سے محروم ہیںمگر ایسے ذہین افرادکی راہ میںرکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔موجودہ نئی حکومت کومیرامخلصانہ مشورہ ہے کہ اس اہم ملکی مسئلے پرقابوپانے کیلئے فوری توجہ دے جس کیلئے لندن میں مقیم ہمارے ایک ہمدرد،مہربان اورمخلص دوست کے پاس ایسا جامع پروگرام موجودہے جوپاکستان کے اس اہم مسئلے کوحل کرنے میںبلامعاوضہ فوری مددکیلئے تیارہیں۔
یادرکھئے اگرایسا نہ کیاگیا تو اسپتالوں کے دروازوں سے مائیںایسے ہی بخار میں دھنکتے بچوں کے چہرے پرآنسوؤں کا نذرانہ پیش کرکے اسپتالوں کے کسی کونوں کھدروں میں اپنے جگر کوشوں کو چھوڑ کر لوٹتی رہیں گی۔جب تک حکومت کوئی خاطر خواہ قدم نہیں اٹھاتی آپ ہی آگے بڑھیں اور اپنے اردگرد ایسی ماؤں کی پرچیوں کی ادائیگی کا اہتمام کریں۔
جہاں بھونچال بنیاد فصیل ودرمیں رہتے ہیں
ہماراحوصلہ دیکھو کہ ہم ایسے گھرمیں رہتے ہیں