سمیع اللہ ملک
کراچی میںہتھیاروں کے لائسنس کا اس بڑے پیمانے پراجراء یقینا ایک تشویش کی بات ہے مگر کیا ان حلقوں کو بھی تشویش ہے جن کو تشویش ہونا چاہئے؟اگر وہ باخبر ہیںتو وہ کس بات کے منتظر ہیں؟صوبہ میں خانہ جنگی کے یا بلوچستان کی طرح حالات قابو سے باہر ہونے کے؟کچھ بقراط کہتے ہیںکہ بین الاقوامی حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ ملک میں بڑا آپریشن کرکے ان ہتھیاروں کی بازیابی کرائی جائے ، جب امریکا افغانستان سے چلا جائے تب ان کی گردن دبوچ لی جائے گی مگر امریکا کی آمدافغانستان کے ساتھ ہی تو ان ہتھیاروں کے لائسنس کے اجراء کی تعداد میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا،حکومت نے اس پر غورکیوں نہیں کیا؟تھوک کے بھاؤ لائسنس جاری کئے اور یہ بھی نہ سوچا کہ بے پناہ ہتھیاروں کے لائسنس کا اجراء خودان کی حکومت کی امن وامان کی صورتحال پر سوالیہ نشان ہے؟
تشویش ناک بات یہ ہے کہ جوں جوں امریکا کا افغانستان سے بوریا بسترسمیٹنے کامرحلہ قریب آرہا ہے ان کی تعداد خطرناک حد تک بڑھتی جا رہی ہے۔ہل من مزید کی صدا ہے ، حکومت چپ سادھے نہیں ہے بلکہ وہ تو تکمیل کے عمل میں مصروف ہے۔یاد رہے کہ اسلحہ کا لائسنس غیر قانونی ہتھیارکی پردہ پو شی ہو تی ہے ۔یہ کام سیاسی رشوت کے طور پر ہو رہاہے یا نوازش کے طور پر،حکومت ہتھیاروں کو عام کرنے میں قباحت محسوس نہیں کر رہی۔یہ حالت ہو چلی ہے کہ اب سیاسی کارکن ہتھیار دکھا کر چندہ تک لے رہے ہیں۔ڈاکوؤں اور چوروں کی بات ہی کیا کریں ان کی کمائی کا سامان ہتھیار رہے ہیں،کلہاڑی سے لیکر راکٹ لا نچرتک ان کے پا س ہیںمگر سیاستدانوں کا کیا ہو گاکہ وہ عوامی بھی کہلاتے ہیں ،ہتھیار دکھاتے ہیں، ہتھیار کودلیل بناتے ہیںاورخود ہتھیاروں کے پہرے میں سفر بھی کرتے ہیں،بلٹ پروف گاڑیوں میں بیٹھ کرمقبولیت کے اور عوام کے دلوں میں ہونے کے دعویدار بھی ہیں۔
عجیب صورتحال ہو گئی ہے ،محافظوں کو محافظوں کی ضرورت ہے۔ پولیس کا پہرہ رینجرزدیتی ہے،رینجرزکا فوج اورفوج کا کمانڈو گروپ۔ملک میں عدم تحفظ کا احساس کہاں تک گہرا ہو گیا ہے،حکمران سے لیکر عوام تک ہر اک غیر محفوظ نظر آتا ہے اوراز خود ہتھیار کے قیدی بننے میں عافیت محسوس کرنے لگا ہے۔ یہ اس چشم پو شی،ڈھیل کا نتیجہ ہے ۔متحدہ کی طرف سے اس مرحلہ میں جب ہتھیار خریدنے کی کھلم کھلا ترغیب دی جا رہی تھی تو یہ چین کی بانسی بجا رہے تھے۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں،جب متحدہ کے سربراہ الطاف حسین کے اپنے پیروکاروں کیلئے ٹی وی اور زیورات بیچ کر ہتھیار خریدنے کے بیانات ایک دور میں اخبارات کی زینت بنتے رہے اوربڑے پیمانے پرہتھیار خریدے بھی گئے۔عجیب بات یہ ہے کہ یہ ہتھیار خریدنے کی دعوتِ عام کیوں دی جا رہی تھی؟
جغرافیائی اور سیاسی تقسیم کا آغازہمیشہ ذہنی تقسیم سے ہوتا ہے،سندھ کی شہری اور دیہی آبادی کو قومی دھارے سے کاٹاجا رہاہے ۔بلدیاتی آرڈی نینس نے اس فکر کو مزیدگہرا کر ڈالا ہے اور صوبہ میں عملاً ذہنی تقسیم نمایاں ہو کر رہ گئی ہے۔اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ صوبہ سندھ کے کئی علاقوں میں یومِ آزادی کے ۱۴/اگست کے جلوس نکالنا ممکن نہیں رہا اوراب تک کئی مقامات پر ان جلوسوںکو بزور روکا گیا ۔ خونریزی اور کچھ ہلاکتیں بھی ہو ئیں۔دراصل کراچی اور اندرونِ سندھ میں ذہنی خلیج کے ساتھ ہی ہتھیار وںکی خریداری بھی اسی رفتار سے بڑھ رہی ہے ۔خاکم بدہن کوئی بین الاقوامی سازش کا ناگ اس خطہ ارض کے امن و امان کو ڈسنے کیلئے پھن نکالے پٹاری سے باہر نکل کھڑا ہوا ہے۔
قوم پرستوں کی ایک ایسی ہی سازش پہلے بھی ۹۳۔۱۹۹۲ء میںہوئی تھی جس میں ڈاکوؤں کے روپ میںمہاجروں اورپنجابی آبادکاروں کوخصوصی نشانہ بناتے ہوئے ان کااپنی زمینوں پر داخلہ بند کرکے ان کو اغواء کرنا شروع کردیا گیا تھاجس کی وجہ سے مجبوراًوہ اونے پونے داموں میں اپنی زمینیں جائیداد اورکاروبار بیچ کرپنجاب چلے گئے اورمہاجرین نے کراچی کا رخ کر لیا،گویا اس طرح انہوںنے صوبہ سندھ پنجابی آبادکاروں سے آزاد کروالیا،مٹیاری سے لیکر شکار پور تک بیشتر علاقے سے اب پنجابی زمینداری ختم ہو کر رہ گئی ہے ۔ اب دوسرے مرحلے میں ایسی ہی مکروہ کاروائی قوم پرست کراچی اور سندھ ایک دوسرے کے مخالفین سے خالی کروانے کیلئے پوری طرح تیار بیٹھے ہیں۔اس لسانی آگ کو بھڑکانے اور ہتھیاروں سے نتیجہ خیز بنانے میںمصروفِ عمل محسوس ہوتے ہیں۔(۳۰ ستمبر اوردواکتوبرجیسا) ریلوے ٹریک پر بم دہماکہ یا کراچی میں ٹارگٹ کلنگ سب اسی منصوبے کا حصہ ہے کہ اپنا حصہ الگ کر لیا جائے۔
کراچی کی ملک سے علیحدگی پرمنتج ہونے والے اس منصوبے کا مقصد یہ ہے کہ کراچی جو ملک کا۶۵فیصدریونیو ادا کرتاہے اس سے محروم کرکے ملک کی معیشت ،دفاع اور انتظامی ڈھانچہ کو سبو تاژکرکے مفلوک الحال بنا دیا جائے۔یہ بات تو آفاق احمدخان جو کبھی الطاف حسین کے ہم پیالہ ہم رکاب ہوا کرتے تھے ،نے انکشاف کے طورپر کہی تھی جو ریکارڈ کا حصہ ہے اور اس کے ساتھ کچھ عرصہ قبل انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ بھارت پانچ ارب سالانہ قوم پرستوں کو دیتا ہے اوراس بیان کی کسی نے آج تک تردیدنہیں کی،شائدانہوں نے سمجھاتردید کرنے کا مطلب ہے’’داڑھی میں تنکا‘‘،آفاق احمد نے کسی کو نامزدتونہیں کیا۔کراچی میں ہونے والے ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں صدر آصف زرداری کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بتایاکہ گیارہ لاکھ سے زائد لائسنس ہولڈرہتھیارایسے ہیں جن کاریکارڈ ہی دستیاب نہیں۔سابق وزیر داخلہ ذوالفقار مرزانے ٹی وی پرتین لاکھ لائسنس دیئے جانے کاخود اعتراف کیا تھا،وہ بھی ان گیارہ لاکھ میں شامل ہیںیا الگ تو پھر چودہ لاکھ ہو جائیں گے۔
سپریم کورٹ کا فرمان ہے کہ ۱۸ سال سے سندھ میں موجودرینجرزامن و امان کے قیام میں کامیاب نہ ہو سکی اور۳۵۰۰ دہشتگردوںنے پورے شہر کو یرغمال بنایا رکھاہے ،ان سے نمٹا جائے۔کچھ قوم پرست کہہ رہے ہیں کہ ذوالفقار آبادمنصوبہ کراچی کو سندھ سے علیحدہ کرنے کا منصوبہ ہے اور یہ سندھ کا نیا دارلخلافہ ہو گا،اس منصوبہ کو امریکا کی مکمل آشیرآباد حاصل ہے۔اس مکروہ منصوبے کی کامیابی کیلئے محرم الحرام میں بالخصوص سندھ اورملک کے دوسرے حصوں میں بالعموم لسانی،مذہبی فسادات کرائے جائیں گے جس کی وجہ سے آبادی کی نقل مکانی ہو گی۔۲۱نومبرکووطن دشمن عناصر نے کراچی،کوئٹہ ،راولپنڈی اوربنوں دہماکوں سے اپنی مذموم کاروائیوں آغازکردیاہے۔
ایک ہی دن میں یہ تمام خوفناک وارداتیں جہاں موجودہ حکومت کی نااہلی اوررحمان ملک کی لن ترانیوںکا کھلا ثبوت ہیںوہاںایک سازش کے تحت کراچی کو اسلحے سے پاک کرنے کے نام پرپاکستانی فوج کو آپریشن میں ملوث کرنے کی بھرپور سازش کی جارہی ہے تاکہ فوج جو پہلے ہی کئی محاذوں پر بری طرح الجھی ہوئی ہے اس کو کراچی میں الجھا کراس کی پیشہ وارانہ صلاحیت کو بری طرح تقسیم کرکے بیروت جیسی خانہ جنگی شروع کروادی جائے اوراس کے ساتھ ہی وہ اپنے مقامی ایجنٹوںکے توسط سے پاکستانی میڈیاکے پروپیگنڈہ کی بدگمان توپوں کا رخ پاک فوج کی طرف موڑ کر پاکستانی عوام کے اعتماد کا رشتہ ختم کرنے کی بھرپور کوشش کرے گا۔ اس کا بہترین حل یہی ہے کہ اب یہ معاملہ اگلی منتخب حکومت پر چھوڑ دیا جائے اور اگلی منتخب پارلیمنٹ فوری طورپرقانون سازی کرکے ایسا بل سامنے لائے جس میں آپریشن کرنے والی رینجرز اورپولیس کو خصوصی اختیارات کیلئے فری ہینڈاورقانونی تحفظ مہیا کیا جائے جس طرح سری لنکا،بھارت اوردیگر ممالک نے اپنے شورش زدہ علاقوں میںان قوانین کی چھتری تلے کاروائیاں کی ہیں۔